مزدورکا دنحوصلۂ جمہور کا دن

ملک میں ہزاروں ٹریڈ یونین اور سیکڑوں لیبر فیڈریشنز کی موجودگی کے باوجود محنت کش انتہائی نامساعد حالات سے دوچار ہیں

پاکستان میں مزدوروں اور عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے بھرپور صنعتی ترقی کے سوا کوئی اور متبادل نہیں،فوٹو : فائل

دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں مزدوروں اور ملازمت پیشہ افراد کی جانب سے شکاگو (امریکا) کے مزدوروں کی عظیم جدوجہد اور قربانیوں کی یاد میں یکم مئی کو ''بین الا قوامی یوم محنت '' منایا جاتا ہے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ 1886میں امریکا کے محنت کش عوام نے مزدوروں کے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے جو جدوجہد کی اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، اُن قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے۔

پاکستان میں بھی محنت کش اور ان کے قائدین نے مزدوروں کے حقوق کے تحفظ، ملک سے آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی اور اُس کے استحکام کے لیے تاریخی جدوجہد اور قربانیاں پیش کی ہیں۔ بین الاقوامی مزدور تحریک کے پس منظر میں اگر ہم پاکستان میں محنت کشوں کی اور ٹریڈ یونین تحریک کی آج کی عمومی صورت حال کا سرسری جائزہ لیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ گذشتہ 2دہائیوں سے ہمارے ہاں یہ تحریک تقریباً غیرمتحرک ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس دوران بھی بعض شہروں اور صنعتوں میں ٹریڈ یونینز اور اُن کے مقامی طور پر قائم کیے گئے۔ اتحادوں نے حوصلہ مندی کے ساتھ انفرادی لڑائیاں لڑی ہیں۔ آج بھی پاور سیکٹر کے ملازمین پرائیویٹائزیشن کے حوالے سے اس کے خلاف میدان عمل میں موجود ہیں۔

مگر بحیثیت مجموعی (ماسوائے مرحوم مزدور راہ نما ایس پی لودھی کی قیادت میں آئی آراو2002کے خاتمہ کے لیے چلنے والی تحریک) گذشتہ 20سالوں میں کوئی بڑی ملک گیر سطح کی منظم ٹریڈ یونین تحریک ابھر کر سامنے نہیں آسکی۔ پرائیویٹائزیشن کے خلاف 1991میں ایک بڑا ٹریڈ یونین اتحاد قائم ہوا تھا، جس میں ملک بھر سے مختلف صنعتوں کی 160اجتماعی سودے کار ٹریڈ یونینز شامل تھیں اور اس اتحاد نے قومی سطح پر ایک روزہ ہڑتال کا جرأت مندانہ اقدام کیا، لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ جہاں تک پرائیویٹائزیشن کے عمل کو روکے جانے کا تعلق تھا وہ مقصد یہ اتحاد بہرکیف حاصل نہیں کرسکا۔ آج نجکاری ایک مرتبہ پھر ایک بڑے مسئلے کی شکل میں ٹریڈ یونین تحریک کے سامنے ہے لیکن پرائیویٹائزڈ ہونے والی صنعتوں کی مزدور تنظیموں کے مابین اشتراک عمل یا اتحاد کی کوئی صورت حال ابھی تک سامنے نہیں آئی۔

ٹریڈ یونین تحریک اور محنت کشوں کے موجودہ عمومی حالات، یہ ایک تشویش ناک مسئلہ ہے ۔ ملک میں ہزاروں ٹریڈ یونین اور سیکڑوں لیبر فیڈریشنز کی موجودگی کے باوجود محنت کش انتہائی نامساعد حالات سے دوچار ہیں۔ ایک محتاط انداز ہے کے مطابق پاکستان میں محنت کش طبقہ کم ازکم 6کروڑ کی تعداد میں موجود ہے، جب کہ ان میں سے بہ مشکل 1.5 فی صد ہی ٹریڈ یونین تنظیموں میں شامل ہیں۔ ٹھیکے داری نظام، آؤٹ سورسنگ اور تھرڈ پارٹی ایمپلائمنٹ سسٹم نے ٹریڈ یونین تحریک کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اپنے دائرۂ اختیار میں کم ازکم اُجرت مقرر کرنے کا اعلان تو کرتی ہیں، مگر یہ شکایت عام ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کے 70فی صد اداروں میں ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا اور حکومت کے پاس کوئی ایسی مشینری موجود نہیں جو اس اعلان پر مکمل اور موثر طور عمل درآمد کروائے۔ مزدوروں کی فلاح و بہبود اور انہیں طبّی سہولیات، پینشن، رہائش اور دیگر سہولتوں کی فراہمی کے لیے متعدد ریاستی ویلفیئر ادارے قائم ہیں، لیکن ان کی کارکردگی کے بارے میں شکایات زبان زد عام ہیں۔

ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ مختلف صنعتی اور پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والے مزدوروں کی اکثریت کو ملازمتوں کے تقررنامے ہی جاری نہیں کیے جاتے، جس کی وجہ سے وہ ریاستی ویلفیئر اداروں سے اپنے لیے کسی قسم کی سہولت حاصل ہی نہیں کرسکتے۔ گذشتہ 20سالوں کے دوران پرائیویٹائزیشن اور ڈاؤن سائزنگ کے نتیجے میں اور آؤٹ سورسنگ کا نظام متعارف کرائے جانے کی وجہ سے ٹریڈ یونین کی ممبر شپ میں زبردست کمی آئی ہے ۔

بڑے بڑے تجارتی اور صنعتی ادارے جن میں ٹریڈیونین کی ممبر شپ ہزاروں کی تعداد میں ہوتی تھی، اب سُکڑ کر سیکڑوں میں رہ گئی ہے ۔ پاکستان میں اب سے پندرہ، بیس سال قبل کمرشیل بینکس میں بھی انتہائی موثر ٹریڈ یونینز موجود تھیں اور ان کی ممبر شپ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک وقت مجموعی طور پر 80 ہزار تک جا پہنچی تھی۔ آج یہ تعداد 10ہزار سے بھی کم ہے۔ تقریباً بائیس تئیس سالوں سے پرائیویٹائزڈ کمرشیل بینکس میں کلریکل کیڈر میں بھرتیوں کا سلسلہ ہی بند اور یوں ٹریڈ یونین تحریک کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ ٹیکسٹائیل، گارمنٹس، سیمنٹ، گھی، فوڈز، اسٹیل ملز، پائپ ملز، پاور سیکٹر، ٹرانسپورٹ، ریلویز، ایئر لائنز، فوڈ فیکٹریز، پرنٹنگ پریس اور ہوٹلز اور دیگر صنعتوں میں بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے۔

گذشتہ سالوں میں ملک میں فیکٹریز میں آگ لگنے کے بھی کئی واقعات پیش آئے، جن میں سے ایک انتہائی خوفناک اور المناک واقعہ بلدیہ ٹاؤن کراچی کی ایک گارمنٹس فیکٹری میں پیش آیا، جس میں سیکڑوں غریب محنت کشوں کی جانیں گئیں۔ اس سانحے نے مزدوروں کے حوالے سے قائم ریاستی فلاحی اداروں اور محکمۂ محنت کی کارکردگی کا بھانڈا بھی پھوڑ دیا۔


اس سانحے میں جاںبحق اور زخمی مزدوروں کو اُن کے معاوضے کی ادائیگی کے لیے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر) اور مزدور تنظیموں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی بڑی کاوشیں کی اور اُن کے حقوق دلوائے بھی، حکومت نے بھی اس ضمن میں امداد فراہم کی، لیکن یہ سارے وہ فرائض تھے کہ جنہیں ادا کرنے کی ذمہ داری انتظامیہ اور حکومت کے بعد سب سے زیادہ اس ادارہ کی ٹریڈ یونین پر عائد ہوتی تھی، مگر افسوس کہ اُس ادارے میں ٹریڈ یونین کا وجود ہی نہیں تھا، جو ٹریڈ یونین تحریک کے زوال کی ایک افسوس ناک مثال ہے۔

پاکستان کی مسلسل انحطاط پذیر ٹریڈ یونین تحریک گذشتہ کم از کم 20/25سالوں سے موضوع بحث ہے اور اُسے منظم کرنے کی عملی کاوشیں بھی ہوتی رہی ہیں۔

اس ضمن میں گذشتہ سال ستمبر میں پائلر کے تحت کراچی میں منعقدہ ایک سہ روزہ قومی لیبر کانفرنس، جس میں مزدور راہ نماؤں کی بڑی تعداد موجود تھی اور ملک کے چاروں صوبوں سے مندوبین نے شرکت کی، کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں اتفاق رائے سے ''سندھ مزدور یکجہتی کمیٹی (Sindh Labour Solidarity Committee)'' کا قیام عمل میں آیا اور اعلان کیا گیا کہ ملک کے دیگر صوبوں اور قومی سطح پر بھی اس طرز پر کمیٹیز قائم کی جائیں گی، تاکہ ملک بھر میں پھیلی ہوئی ٹریڈ یونین تنظیموں کو کسی ایک فورم پر منظم ہونے کا موقع مل سکے ۔اس ضمن میں پیش رفت جاری ہے۔ امید ہے کہ اس کے مثبت اثرات مستقبل کی ٹریڈ یونین تحریک پر مرتب ہوں گے ۔

آج ہم 129واں یوم مئی منارہے ہیں ۔اس موقع پر ہم نے کوشش کی ہے کہ پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک اور محنت کش طبقہ جن حالات سے دوچار ہیں اس کا اختصار کے ساتھ جائزہ لیا جائے۔ موجودہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ ٹریڈ یونین تحریک سے وابستہ قائدین اُس کی ملک گیر سطح کی یکجائی کی کوششیں جاری رکھیں۔ محنت کش عوام کی پارلیمنٹ میں حقیقی نمائندگی کے لیے آئینی ترامیم کی جائیں۔

وفاق اور صوبوں کی سطح پر ہر سال اپریل یا مئی کے مہینوں میں وفاقی اور صوبائی سہہ فریقی لیبر کانفرنسز منعقد کی جائیں۔ حال اور مستقبل کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے وزارت محنت اور اُس سے ملحق اداروں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات لائی جائیں۔

پاکستان میں مزدوروں اور عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے بھرپور صنعتی ترقی کے سوا کوئی اور متبادل نہیں۔ ملک سے غربت کے خاتمہ کے لیے زیادہ روزگار دینے والی صنعتیں قائم کرنا ہوں گی۔ اس ضمن میں ملی جلی معیشت کے نظام کے تحت پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر کو سرمایہ کاری کا بھر پور موقع فراہم کیا جائے۔

سرکاری تحویل کے ادارے اور کارپوریشنز کی پرائیویٹائزیشن کے بجائے اُن کی ری اسٹرکچرنگ کی جائے اور اُن کا انتظام انتہائی پروفیشنل انتظامیہ کے سپرد کردیا جائے۔ مزدوروں کی ویلفیئر کے لیے قائم اداروں کے انتظامی بورڈ کی سربراہی محنت کشوں، آجروں اور حکومتی نمائندگان کو Rotation کی بنیاد پر دی جانی چاہییے تاکہ سہہ فریقیت کا عملی مظاہرہ ہوسکے۔

جمہوری سیاسی جماعتیں اپنے لیبر ونگز کو موثر بنانے کے لیے اپنے پالیسی ساز اداروں اور سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی یا ورکنگ کمیٹیز میں لیبر ونگز سے وابستہ نمائندگان کو بھی اہم ذمہ داریاں سونپیں۔

129ویں یوم مئی پر شہداء شکاگو کی یاد تازہ کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے محنت کش اس عزم کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ ظلم، ناانصافی اور استحصالی نظام کے خاتمہ کی جدوجہد کو کام یابی کے حصول تک جاری رکھا جائے گا۔
Load Next Story