مہنگائی کی چکی میں پِستے سرکاری ملازمین

کم تنخواہ دار سرکاری ملازمین اس منہگائی کے دور میں کسمپرسی کی حالت میں گزربسر کر رہے ہیں


دیہاتی اور شہری ملازمین میں حالت کار اور حالات رہن سہن میں حکومت نے تفاوت پیدا کیا ہے، فوٹو : فائل

یکم مئی 1886ء اور آج کے دور میں صرف 129 برس کی مدت حائل ہے، لیکن اس عرصے دنیا کا نقشہ ہی یکسر بدل گیا ہے۔ آج مزدور طبقے کی سیاسی شعور اور تنظیمی قوت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے گذشتہ پانچ برسوں کے دوران صرف ترقی یافتہ سرمایہ دار ملکوں میں 22 کروڑ مزدوروں نے ہڑتالوں میں حصہ لیا ہے۔

یوم مئی کے موقع پر آئیے پاکستان میں سرکاری ملازمین اور مزدوروں کے مسائل پر نظر ڈالتے ہیں۔

کم تنخواہ دار سرکاری ملازمین اس منہگائی کے دور میں کسمپرسی کی حالت میں گزربسر کر رہے ہیں۔ ایک کلرک یا چپڑاسی جس کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ پانچ سات ہزار ماہوار ہو وہ ان روپوں سے مکان کرائے پرلے، بچوں کے کپڑے بنوائے یا آٹا دال پوری کرے، جب کبھی تنخواہیں بڑھائی جاتی ہیں تو زیادہ تنخواہ پانے والوں کو مزید مراعات دے دی جاتی ہیں، جب کہ نچلے طبقے کی اگر تنخواہ بڑھتی ہے تو دکان دار اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں دگنا اضافہ کردیتے ہیں۔

1980ء سے اب تک ہر چیز کی قیمت پہلے سے کم از کم سو گنا زیادہ ہوگئی ہے۔ نتیجتاً ملازمت پیشہ طبقے کی کارکردگی میں فرق آیا اور بدعنوانی اور رشوت ستانی نے فروغ پایا۔ تنخواہ میں ہر نیا اضافہ قیمتوں میں مزید اضافہ کا طوفان اپنے ساتھ لاتا ہے۔ چناںچہ ملازمین کی حالت بہتر بنانے کے لیے کچھ دوسری تدبیریں بھی اختیار کرنی ہوں گی۔

سرکاری یوٹیلیٹی اسٹوزر وغیرہ سے بازار سے50 فی صد رعایتی اشیاء خورنی اور ضروریات کا سرکاری طور پر مہیا کرنا چاہیے، اگر ضرورت پڑے تو اونچی آمدنی والے طبقے پر ٹیکس لگایا جائے۔

سفر اور رہائش کا مسئلہ حل کیا جائے۔ اضافی سہولتیں مہیا کیا جائیں۔ تنخواہ ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دی جائے۔ سرکاری ملازمین کو رہائشی پلاٹ حکومت کی طرف ملنے چاہییں۔ سرکاری ملازمین کے لیے سرکاری ہاؤسنگ اسکیم کا اجراء کیا جائے۔ مکانات صرف تین بیڈ روم کے ہوں اور مرحلہ وار رہائشی کالونیاں تعمیر کی جائیں۔

ماہانہ دس ہزار روپے تنخواہ پانے والے ملازم سرکار جس کے کنبے کے افراد کل پانچ ہیں اس کا ماہانہ بجٹ اگر کوئی ماہر اقتصادیات بناسکتا ہو تو بنا کر دکھائے۔ دیانت داری اپنانے والے ملازم مفلوک الحال ہیں۔

سرکاری ملازمین اختیارات کے بل بوتے پر اخراجات پورے کرتے ہیں۔ یہ وہ محرکات ہیں جو رشوت اور بدعنوانی کو جنم دیتے ہیں اس کا واحد حل یہ ہے کہ ملازمین کو خودکفیل بنایا جائے۔ دیہاتی اور شہری ملازمین میں حالت کار اور حالات رہن سہن میں حکومت نے تفاوت پیدا کیا ہے۔ گریڈ1 تا22 تک شہری اور دیہاتی ملازمین کی بنیادی تنخواہ کو چھوڑ کر صرف الاؤنسز ہی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ نتیجتاً گاؤں میں نوکری کرنا کون بیوقوف پسند کرے گا؟

تنخواہوں میں مناسب اضافہ ناگزیر ہے کم از کم تنخواہ 20000/- ہزار ہونی چاہیے۔ عیدین پر ایک ماہ کی تنخواہ بطور عید الاؤنس دی جائے۔ ملازمین اور ان کے زیر کفالت افراد میں کسی وفات کی صورت میں تجہیزوتکفین کے لیے30000/- ہزار حکومت کی طرف سے ادا کیے جائیں۔ دوران ملازمت طبعی یا حادثاتی موت کی صورت میں پسماندگان کو کم از کم پانچ لاکھ روپیہ کی رقم بطور امداد دی جائے اور گروپ انشورنس اسکیم لازمی قرار دی جائے۔

سرکاری ملازمین کے پے اسکیلز پر نظرثانی کی جائے اور پے کمیشن کے قیام کا اعلان کیا جائے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کو افراط زر کی شرح کے مطابق کیا جائے۔ تمام ایڈہاک ریلیف کو ختم کر کے تنخواہ کا حصہ بنایا جائے۔ میڈیکل الاؤنس، ٹرانسپورٹ الاؤنس اور ہاؤس رینٹ سیلنگ سمیت اور دیگر تمام الاؤنسز میں100 فیصد اضافہ کیا جائے۔ شہر سے گاؤں تبدیلی ہونے والے سرکاری ملازمین کے لاگو الاؤنس میں کوئی خاطر خواہ کمی واقع ہونی چاہیے۔

دیہات میں عموماً گریڈ نمبر1 تا17 کے سرکاری ملازمین تعینات ہوتے ہیں۔ گورنمنٹ کے نئے نئے محکمے دیہات میں کھل رہی ہے۔ ان کی رہائش اور دفتر کی تعمیر کے لیے خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے لیکن روز اول سے دیہات میں چلنے والے محکمے ابھی تک توجہ سے محروم ہیں۔ دیہات میں متعین ملازمین کو تنخواہ کے حصول میں بہت دشواریاں ہوتی ہیں۔

مرکزی دفتر شہروں میں ہوتے ہیں۔ وہاں بل ارسال کیے جاتے ہیں۔ اعتراض لگتے ہیں پھر بل ارسال ہوتے ہیں پھر ڈسٹرکٹ اکاؤنٹ آفس والے پاس نہیں کرتے۔ مجھے ایک سنیئر ہیڈ ماسٹر نے بتایا کہ ہم تنخواہ کے لیے فی استاد پانچ روپے چندہ اکٹھا کرتے ہیں اور پھر20 تاریخ کے بعد ایک آدمی مامور کرتے ہیں جو تنخواہ لاتا ہے۔ اسی طرح گزیٹڈ ملازمین جن کا تعلق بلاواسطہ ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسر سے ہوتا ہے وہ بھی نالاں ہیں۔

ہفتہ عشرہ تنخواہ کے حصول کے چکر میں خرچ ہو جاتاہے، جسے کارکردگی متاثر ہوتی ہے ہر گورنمنٹ ملازم کے پاس پے بک ہونی چاہیے، تاکہ وہ یکم کو اپنے نزدیکی بینک سے تنخواہ لے سکے۔

جی پی فنڈ: سرکاری ملازم کی تنخواہ کا کچھ حصہ حکومت جی پی فنڈ کی صورت میں کاٹ لیتی ہے، کتنے دکھ کا مقام ہے کہ اس فنڈ میں پیسہ بھی سرکاری ملازم کا ہوتا ہے اور اپنے ہی پیسے کو قرضے کی صورت میں نکلوانے کے سلسلے میں اسے بلاوجہ جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

جب تک آپ بیمار نہ ہوں یا کوئی بہت ضروری کام نہ پڑ جائے آپ کو چھٹی نہیں مل سکتی۔ کچھ ملازمین کے کریڈٹ میں چھٹیاں موجود ہوتی ہیں۔ آفیسر کی مرضی ایڈمنسٹریشن کو بنیاد بنا کر انہیں چھٹیاں نہیں دی جاتیں۔ ایسے میں مجبوراً میڈیکل سرٹیفکیٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے اسی طرح صرف وہ سرکاری ملازم جھوٹ لکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

ٹی اے ڈی اے کے حوالے سے سرکاری ملازمین کو جھوٹ سے بچانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہوٹل کی رسید کو سرے سے نکال دیا جائے اور سرکاری ملازم کو مختلف گریڈ کے حساب سے یومیہ مقررہ (فکسڈ) رقم دی جائے۔

اسی طرح سرکاری ملازم موٹر سائیکل ایڈوانس یا کار ایڈوانس لیتے ہیں تو ان سے مطلوبہ چیزیں خریدنے کے بجائے (کیوںکہ جتناایڈوانس حکومت دیتی ہے اس میں نہ تو موٹر سائیکل آتی ہے نہ کار) اپنی دوسری ضروریات زندگی پوری کرتے ہیں اور اکثر تو بچوں کی شادی بیاہ کے سلسلے میں ایڈوانس کو کام میں لائے ہیں۔ پھر مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے کہ اس سلسلے میں جعلی کاغذات حکومت کو پیش کیے جائیں۔ اس سلسلے میں حکومت کو مناسب اقدامات کرنے چاہییں، سب سے پہلے تو ایڈوانس کی رقم بڑھانی چاہیے ۔ مارکیٹ میں موجود موٹرسائیکل کی قیمت خرید دیکھ کر اسے مقرر کردیا جائے اور ملازم کی9 ماہ کی تنخواہ کو بنیاد نہ بنایا جائے۔ ایڈوانس کی رقم پر سود کی وصولی ختم کی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں