بھارت میں کسانوں کی خودکشیاں
رضا کار تنظیموں کے اکاؤنٹس کی وزارت خزانہ مستقل بنیادوں پر جانچ پڑتال کرتی ہے۔
یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ بی جے پی این جی اوز کو ڈرا دھمکا رہی ہے۔ پارٹی لیڈروں کو احساس ہی نہیں کہ اس کے بیشتر اراکین کبھی خود این جی اوز میں شامل تھے۔ جب جن سنگھ مسز اندرا گاندھی کی مطلق العنان حکمرانی کے خلاف جنتا پارٹی کی شکل میں ابھری تو وہ لوگ اس جدوجہد کا حصہ تھے جو انسانی حقوق کی بحالی کے لیے چلائی گئی تھی اورجسے حکمران کانگریس پارٹی بیدردی سے کچلنے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہی لوگ اب این جی اوز کے مخالف کیونکر ہو گئے ہیں!
رضا کار تنظیموں کے اکاؤنٹس کی وزارت خزانہ مستقل بنیادوں پر جانچ پڑتال کرتی ہے۔ تمام غیر ملکی فنڈز حکومتی چینلز کے ذریعے موصول ہوتے ہیں جن میں کسی بھی ہیرا پھیری کا کوئی امکان نہیں۔ اب حکومت کی طرف سے طریقہ کار کی جس تبدیلی کا اعلان کیا گیا ہے اس کا مقصد ڈرانے دھمکانے کے سوا اور کچھ نہیں۔
حکومت کا یہ کہنا کہ فنڈز کے حصول کے لیے پہلے سے اجازت لی جائے جو ممکن ہی نہیں۔ سرگرم کارکنوں کو فوری طور پر جس فنڈ کی ضرورت ہوتی ہے اگر پیشگی اجازت کا طریق کار اپنایا جائے تو پھر انھیں فنڈز کے لیے غیر معینہ مدت تک انتظار کرنا ہو گا۔ مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ بی جے پی نے گاندھی امن فاؤنڈیشن کے خلاف تحقیقات کو، جو کوئلے کے ذخائر کی غیر قانونی تقسیم کے بارے میں تھی، کس طرح فراموش کر دیا۔ یہ اسکینڈل مسز گاندھی کے 1980ء میں برسراقتدار آنے کے بعد منظرعام پر آیا تھا۔
اس وقت جن سنگھ کے کارکنوں کی غیر ضروری طور پر سرزنش کی گئی تھی۔ بی جے پی اسی جَن سَنگھ کا نیا جنم ہے جنھوں نے عوام کے حق آزادی اور اظہار رائے کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اس تحریک میں تیستا سیٹل واڈ اور جاوید آنند پیش پیش تھے۔ میں ان دونوں کو جانتا تھا۔ ان دونوں کی شہرت بہت اچھی تھی۔
انھوں نے فرقہ واریت کی قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا جو ہماری سیکولر ازم کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ اب بی جے پی کا ہندوتوا کی طرف جھکاؤ افسوسناک ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو لوگ ہمارے آئین کی سیکولر روح کو اجاگر کرنے کی خاطر تعصب اور تنگ نظری کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں ان پر ناجائز طور پر الزام تراشی کی جائے۔
حصول آزادی کے بعد آئین ساز اسمبلی نے حکمرانی کی بہت ساری اقسام پر بحث کی تھی لیکن بالآخر وہ اتفاق رائے اس نتیجے پر پہنچے کہ سکیولر سیاست سب سے بہتر ہے۔ اگر اب ہم اس کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کرتے ہیں تو یہ عوام کی قربانیوں کا مذاق اڑانے والی بات ہو گی۔ نریندر مودی اب معاشرے کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کے خلاف ہو چکے ہیں۔
یہ ایک صحتمند تبدیلی ہے۔ مودی کہ ان کی حکومت سب کی حکومت ہے اور یہ کہ سب کو ترقی کرنے کا حق حاصل ہے اس کے لیے جو نعرہ اختیار کیا گیا ہے وہ ہے ''سب کی سرکار' سب کا ویکاس''۔بی جے پی کے بعض اراکین جو آر ایس ایس کے زیر اثر ہیں وہ بغیر سوچے سمجھے اقلیتوں کے ارکان کو اغواکرتے ہیں، گرجا گھروں کو نذر آتش کرتے ہیں اور ''گھر واپسی'' کے نام پر اقلیتوں کو زبردستی ہندو بنا رہے ہیں۔ مودی کو چاہیے کہ وہ انھیں روکیں کیونکہ بھارت بدنام ہو رہا ہے۔
مجھے یاد ہے جب میں لندن میں بھارت کا ہائی کمشنر تھا تو یہودیوں کا ایک وفد مجھے ملنے آیا۔ وہ بھارت میں یہودیوں کے ساتھ حسن سلوک پر بھارت سے اظہار تشکر کرنا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت دنیا بھر میں واحدملک تھا جہاں یہودیوں کے ساتھ کبھی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ نئی دہلی حکومت نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا۔
لیکن حوصلہ شکن بات یہ ہے کہ سیکولرازم کی جڑیںبتدریج بہت مضبوط ہو جانی چاہئیں تھیں مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ بھارت نے آزادی کے بعد سے 68 سال میں معاشی اعتبار سے خاصی ترقی کی ہے لیکن دیہی علاقوں کی پسماندگی سے ہماری ناکامی عیاں ہے۔ کسان سب سے زیادہ مصائب میں مبتلا ہیں۔کسان جس بڑی تعداد میں خودکشیاں کر رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی پیداوار کے فوائد ان تک نہیں پہنچ پاتے۔
مہاراشٹر ایک ترقی یافتہ ریاست ہے لیکن وہاں پر بھی ایک اور کسان نے خود کشی کر لی ہے۔ یہ مارچ کے مہینے سے نویں خود کشی ہے۔ دیگر ریاستوں سے ملنے والی خبریں اور بھی زیادہ پریشان کن ہیں۔ پیداواری اخراجات میں جس قدر اضافہ ہو گیا ہے وہ کسانوں کی برداشت سے باہر ہے۔ نئی دہلی میں ایک جلسہ عام میں راجستھان کے ایک کسان نے ہزاروں افراد کی موجودگی میں خود کشی کر لی۔ میرا خیال تھا کہ اس کی موت سے قوم سنجیدگی سے کسانوں کی حالت زار بہتر بنانے پر غور کرے گی مگر مجھے اعتراف ہے کہ میرا خیال غلط تھا۔ پارلیمنٹ میں تھوڑا سا شور اٹھا تھا۔ وزیراعظم مودی نے بھی دکھ کا اظہار کیا۔
لیکن جلد ہی معمول کی کارروائی شروع ہو گئی ۔ مجھے یہ بھی اعتراف ہے کہ میں کسانوں کی حالت بہتر بنانے کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کر سکا۔ دراصل پارلیمنٹ میں کسانوں کی اراضی حاصل کرنے کے لیے جو مسودہ قانون پیش کیا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر اپنی من مانی کرنا چاہتا ہے۔
اس مسودہ قانون کے لیے کسانوں کی تشویش دور کرنے کے بنیادی نکتے کو ختم کر دیا گیا ہے ۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کی زیرقیادت اپوزیشن نے جو احتجاجی مارچ کیا تھا وہ بھی اب ماضی بن چکا ہے۔ مجھے یہ یاد دہانی کرانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ ملک کی 67 فیصد آبادی کا انحصار کھیتوں پر ہے مگر اب وہ کھیت روٹی فراہم کرنے کی بجائے موت بانٹنے لگے ہیں۔
جہاں تک کارپوریٹ شعبے کی اہمیت کا تعلق ہے تو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہی شعبہ وسیع پیمانے پر روز گار مہیا کرتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسانوں کے مفادات کو اس شعبے پر قربان کر دیا جائے۔ مہاتما گاندھی کی پوری توجہ دیہی علاقوں کے عوام پر مرکوز تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک بہت پررونق شہر سے ایک چھوٹے سے علاقے وردھا میں منتقل ہو گئے ۔
این جی اوز مہاتما گاندھی کے کام کو ہی بڑھاوا دے رہی ہیں لیکن حکومت نے تقریباً 9 سو این جی اوز کے اجازت نامے واپس لے لیے ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے حسابات درست طریقے سے نہیں رکھے تھے۔ ان کے حسابات کی جانچ پڑتال کا اصل مقصد یہ دیکھنا ہے کہ کہیں وہ اپنے فنڈز میں ہیرا پھیری تو نہیں کر رہے۔
ان سے اپنے حسابات کو مرتب رکھنے کی توقع غلط نہیں لیکن ان سے پائی پائی کا حساب طلب کرنا زیادتی ہے جو کام تیستا اور آنند نے شروع کیا وہ ممکن ہے حکمران جماعت کی پسند کا نہ ہو کیونکہ ان دونوں کے نظریات میں بہت زیادہ دوری ہے۔ ان دونوں سے ایک جیسے طرز عمل کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ملک کی آزادی ایک سیکولر جمہوری معاشرے کی خاطر حاصل کی گئی تھی لہذا ہمیں اس مقصد کو ہرصورت میں مقدم رکھنا چاہیے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
رضا کار تنظیموں کے اکاؤنٹس کی وزارت خزانہ مستقل بنیادوں پر جانچ پڑتال کرتی ہے۔ تمام غیر ملکی فنڈز حکومتی چینلز کے ذریعے موصول ہوتے ہیں جن میں کسی بھی ہیرا پھیری کا کوئی امکان نہیں۔ اب حکومت کی طرف سے طریقہ کار کی جس تبدیلی کا اعلان کیا گیا ہے اس کا مقصد ڈرانے دھمکانے کے سوا اور کچھ نہیں۔
حکومت کا یہ کہنا کہ فنڈز کے حصول کے لیے پہلے سے اجازت لی جائے جو ممکن ہی نہیں۔ سرگرم کارکنوں کو فوری طور پر جس فنڈ کی ضرورت ہوتی ہے اگر پیشگی اجازت کا طریق کار اپنایا جائے تو پھر انھیں فنڈز کے لیے غیر معینہ مدت تک انتظار کرنا ہو گا۔ مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ بی جے پی نے گاندھی امن فاؤنڈیشن کے خلاف تحقیقات کو، جو کوئلے کے ذخائر کی غیر قانونی تقسیم کے بارے میں تھی، کس طرح فراموش کر دیا۔ یہ اسکینڈل مسز گاندھی کے 1980ء میں برسراقتدار آنے کے بعد منظرعام پر آیا تھا۔
اس وقت جن سنگھ کے کارکنوں کی غیر ضروری طور پر سرزنش کی گئی تھی۔ بی جے پی اسی جَن سَنگھ کا نیا جنم ہے جنھوں نے عوام کے حق آزادی اور اظہار رائے کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اس تحریک میں تیستا سیٹل واڈ اور جاوید آنند پیش پیش تھے۔ میں ان دونوں کو جانتا تھا۔ ان دونوں کی شہرت بہت اچھی تھی۔
انھوں نے فرقہ واریت کی قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا جو ہماری سیکولر ازم کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ اب بی جے پی کا ہندوتوا کی طرف جھکاؤ افسوسناک ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو لوگ ہمارے آئین کی سیکولر روح کو اجاگر کرنے کی خاطر تعصب اور تنگ نظری کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں ان پر ناجائز طور پر الزام تراشی کی جائے۔
حصول آزادی کے بعد آئین ساز اسمبلی نے حکمرانی کی بہت ساری اقسام پر بحث کی تھی لیکن بالآخر وہ اتفاق رائے اس نتیجے پر پہنچے کہ سکیولر سیاست سب سے بہتر ہے۔ اگر اب ہم اس کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کرتے ہیں تو یہ عوام کی قربانیوں کا مذاق اڑانے والی بات ہو گی۔ نریندر مودی اب معاشرے کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کے خلاف ہو چکے ہیں۔
یہ ایک صحتمند تبدیلی ہے۔ مودی کہ ان کی حکومت سب کی حکومت ہے اور یہ کہ سب کو ترقی کرنے کا حق حاصل ہے اس کے لیے جو نعرہ اختیار کیا گیا ہے وہ ہے ''سب کی سرکار' سب کا ویکاس''۔بی جے پی کے بعض اراکین جو آر ایس ایس کے زیر اثر ہیں وہ بغیر سوچے سمجھے اقلیتوں کے ارکان کو اغواکرتے ہیں، گرجا گھروں کو نذر آتش کرتے ہیں اور ''گھر واپسی'' کے نام پر اقلیتوں کو زبردستی ہندو بنا رہے ہیں۔ مودی کو چاہیے کہ وہ انھیں روکیں کیونکہ بھارت بدنام ہو رہا ہے۔
مجھے یاد ہے جب میں لندن میں بھارت کا ہائی کمشنر تھا تو یہودیوں کا ایک وفد مجھے ملنے آیا۔ وہ بھارت میں یہودیوں کے ساتھ حسن سلوک پر بھارت سے اظہار تشکر کرنا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت دنیا بھر میں واحدملک تھا جہاں یہودیوں کے ساتھ کبھی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ نئی دہلی حکومت نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا۔
لیکن حوصلہ شکن بات یہ ہے کہ سیکولرازم کی جڑیںبتدریج بہت مضبوط ہو جانی چاہئیں تھیں مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ بھارت نے آزادی کے بعد سے 68 سال میں معاشی اعتبار سے خاصی ترقی کی ہے لیکن دیہی علاقوں کی پسماندگی سے ہماری ناکامی عیاں ہے۔ کسان سب سے زیادہ مصائب میں مبتلا ہیں۔کسان جس بڑی تعداد میں خودکشیاں کر رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی پیداوار کے فوائد ان تک نہیں پہنچ پاتے۔
مہاراشٹر ایک ترقی یافتہ ریاست ہے لیکن وہاں پر بھی ایک اور کسان نے خود کشی کر لی ہے۔ یہ مارچ کے مہینے سے نویں خود کشی ہے۔ دیگر ریاستوں سے ملنے والی خبریں اور بھی زیادہ پریشان کن ہیں۔ پیداواری اخراجات میں جس قدر اضافہ ہو گیا ہے وہ کسانوں کی برداشت سے باہر ہے۔ نئی دہلی میں ایک جلسہ عام میں راجستھان کے ایک کسان نے ہزاروں افراد کی موجودگی میں خود کشی کر لی۔ میرا خیال تھا کہ اس کی موت سے قوم سنجیدگی سے کسانوں کی حالت زار بہتر بنانے پر غور کرے گی مگر مجھے اعتراف ہے کہ میرا خیال غلط تھا۔ پارلیمنٹ میں تھوڑا سا شور اٹھا تھا۔ وزیراعظم مودی نے بھی دکھ کا اظہار کیا۔
لیکن جلد ہی معمول کی کارروائی شروع ہو گئی ۔ مجھے یہ بھی اعتراف ہے کہ میں کسانوں کی حالت بہتر بنانے کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کر سکا۔ دراصل پارلیمنٹ میں کسانوں کی اراضی حاصل کرنے کے لیے جو مسودہ قانون پیش کیا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر اپنی من مانی کرنا چاہتا ہے۔
اس مسودہ قانون کے لیے کسانوں کی تشویش دور کرنے کے بنیادی نکتے کو ختم کر دیا گیا ہے ۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کی زیرقیادت اپوزیشن نے جو احتجاجی مارچ کیا تھا وہ بھی اب ماضی بن چکا ہے۔ مجھے یہ یاد دہانی کرانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ ملک کی 67 فیصد آبادی کا انحصار کھیتوں پر ہے مگر اب وہ کھیت روٹی فراہم کرنے کی بجائے موت بانٹنے لگے ہیں۔
جہاں تک کارپوریٹ شعبے کی اہمیت کا تعلق ہے تو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہی شعبہ وسیع پیمانے پر روز گار مہیا کرتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسانوں کے مفادات کو اس شعبے پر قربان کر دیا جائے۔ مہاتما گاندھی کی پوری توجہ دیہی علاقوں کے عوام پر مرکوز تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک بہت پررونق شہر سے ایک چھوٹے سے علاقے وردھا میں منتقل ہو گئے ۔
این جی اوز مہاتما گاندھی کے کام کو ہی بڑھاوا دے رہی ہیں لیکن حکومت نے تقریباً 9 سو این جی اوز کے اجازت نامے واپس لے لیے ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے حسابات درست طریقے سے نہیں رکھے تھے۔ ان کے حسابات کی جانچ پڑتال کا اصل مقصد یہ دیکھنا ہے کہ کہیں وہ اپنے فنڈز میں ہیرا پھیری تو نہیں کر رہے۔
ان سے اپنے حسابات کو مرتب رکھنے کی توقع غلط نہیں لیکن ان سے پائی پائی کا حساب طلب کرنا زیادتی ہے جو کام تیستا اور آنند نے شروع کیا وہ ممکن ہے حکمران جماعت کی پسند کا نہ ہو کیونکہ ان دونوں کے نظریات میں بہت زیادہ دوری ہے۔ ان دونوں سے ایک جیسے طرز عمل کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ملک کی آزادی ایک سیکولر جمہوری معاشرے کی خاطر حاصل کی گئی تھی لہذا ہمیں اس مقصد کو ہرصورت میں مقدم رکھنا چاہیے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)