لوز شاٹ

عمران خان اکثر سیاسی گفتگو میں کرکٹ کی اصطلاحات کو عام فہم انداز میں استعمال کرتے ہیں۔


Anis Baqar May 01, 2015
[email protected]

عمران خان اکثر سیاسی گفتگو میں کرکٹ کی اصطلاحات کو عام فہم انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا این اے 246 میں عمران خان نے جس جارحانہ بیٹنگ کا آغاز کیا وہ کسی طرح بھی درست نہ تھا انھیں ان وجوہات کا تذکرہ ضرور کرنا چاہیے تھا جن کی وجہ سے کراچی کے لوگوں کو خود کو مہاجر کہلوانے میں فخر محسوس ہونے لگا وہ محرومیاں جو انھیں دھکیل کر مہاجر کیمپ میں فکری طور پر لائیں۔

آپ غور فرمائیے جب عام انتخابات میں عمران خان کو 23 اپریل سے زیادہ ووٹ ملے اور جب کہ عمران خان نے بڑے جلسے اور جلوسوں کا اہتمام کیا تو کیوں کر کم ووٹ ملے جب کہ عام انتخابات میں نہ کوئی جلسے ہوئے اور نہ ہی کوئی انتخابی مہم چلائی گئی۔ عمران خان کا ووٹ بینک کم ہوا اور ایم کیو ایم کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا۔ ان پہلوؤں کا تجزیہ ضروری ہے۔ گو کہ (90) نائن زیرو پر آپریشن سے قبل اس کی ایک سیاسی قوت تھی اور مُکا چوک پر خان لیاقت علی خان کے مکے کا نشان تھا۔

وہاں پر آپریشن آسان نہ تھا یہ وہ جگہ ہے جہاں بیرونی سفارتکار اور لیڈران بھی آتے جاتے رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کی سیاسی سفارتکاری کا سیکریٹریٹ ہے۔ اس آپریشن کو بعض اینکر پرسن اور سیاسی لیڈروں نے اپنی گڈی کو اونچا اڑانے کے لیے استعمال کیا مگر انداز بیان ایسا تھا کہ جس میں یک طرفہ مخالفت کی بو آتی تھی مگر فوری طور پر دوسری جماعتوں کے عیب اس قدر نہ اچھالے گئے اور نہ آپریشن ہوا۔

اس سے اردو بولنے والے ووٹروں میں تلخی پیدا ہوئی اور انھوں نے یہ محسوس کیا کہ قبضہ مافیا دوسری جماعتوں میں بھی موجود ہیں مگر ان کو نظرانداز کر دیا گیا۔ ذوالفقار مرزا نے تو کھلے عام اعتراف کیا کہ وہ ایم کیو ایم کے خلاف صف آرا ہوئے بلاول ہاؤس کی بیرونی دیواریں ضرور ڈھائی گئیں مگر آپریشن نام کا کوئی عمل دیکھنے میں نہ آیا۔ کردار کشی کی یک طرفہ کارروائی نے اردو بولنے والوں میں تندی اور تیزی پیدا کر دی اور ان کا یہ کہنا بڑی تیزی سے دوبارہ شروع ہوا کہ ان کو پھر محروم کیا جا رہا ہے جیکب لائن، جٹ لائن اور اے بی سینیا لائن کے علاقے میں جو لوگ 1947-48ء میں آباد تھے وہ آج بھی 60-70 گز کے مکانوں میں رہ رہے ہیں۔

ان اردو بولنے والوں کی قسمت نہ بدلی مارٹن کوارٹر کے لوگوں کو آج تک مالکانہ حقوق نہ ملے اور جٹ لائن کا مستقبل بھی یقینی نہیں۔ لیاقت آباد اور فیڈرل بی ایریا کے زیادہ تر رہائشی لوگوں کی قسمت آج تک نہ بدلی یہاں تک کہ سندھ گورنمنٹ اور اس کے شراکت داروں نے بھی کوئی خاص کام نہ کیا مگر پولیس وارڈن اور واٹر بورڈ میں چپراسی لائن میں اسامیاں ملیں اور کوٹہ سسٹم جاری رہا مگر مہاجروں میں خوف پیدا ہونے لگا مگر جو مہاجر بستیاں آسودہ حال ہو گئیں وہ سیاست کا تجزیہ کر رہی ہیں اور وہاں ابھی دیوار سے لگائے جانے کا تصور پیدا نہ ہوا تھا۔ اسی لیے نائن زیرو آپریشن والے روز کراچی خاموش رہا کیونکہ اردو بولنے والے تذبذب کا شکار تھے کہ کیا ان کی نمائندہ تنظیم اتنی ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتی ہے۔

اینکرپرسن جس قسم کی کہانیاں (نوگوایریا وغیرہ) اور جس انداز میں داستان گوئی میں مصروف تھے اس نے ایک بڑے طبقے کو مایوس کر دیا جو گھر بیٹھ گیا اور ہر ایک کو مہاجر کاز کا ہمنوا بنا دیا گو کہ مہاجر کاز پر کوئی عملی کام نہ ہوا۔ کراچی میں بھارتی ویزا آفس نہ کھلا اور نہ تقریر میں عمران خان نے مہاجروں کے زخموں پر پٹیاں رکھیں کہ وہ کوٹہ سسٹم ختم کریں گے بلکہ انھوں نے فیڈرل بی ایریا، فیڈرل کیپٹل ایریا کو کوئی حوصلہ بخشا جس قدر بھی ووٹ عمران خان کو ملے یہ بڑی بات تھی کیونکہ عمران خان کے نمائندے نے کافی ہمت اور ہوشیاری سے کام کیا۔ مگر عمران خان کے لگائے ہوئے زخموں کا وہ مداوا نہ کر سکا۔

عارف علوی صاحب جو کراچی میں پی ٹی آئی کے لیڈر ہیں ان کو بھی خود کو ڈی کلاس کر کے بات کرنے کا سلیقہ نہ آیا اور نہ ہی وہ بی کلاس اور سی کلاس معاشی علاقوں کے مسائل سے آشنا ہیں۔ جماعت اسلامی اگر الیکشن نہ بھی لڑتی تو کوئی بہت بھونچال نہ آ جاتا۔ عمران خان صاحب نے اپنے جملے کی ابتدا کچھ یوں کی کہ وہ کراچی کو آزاد کرانے آئے ہیں جب کہ کراچی وسطی کی بستیاں نوگوایریا نہیں ہیں مکا چوک اور چیل چوک کے علاقے میں کافی فرق ہے ابھی تک چیل چوک کے علاقے کو مکمل طور پر پرسکون نہیں کہہ سکتے کیونکہ مکانوں پر بم مارنے راکٹ لانچر کے استعمال کے واقعات وہاں نہیں ہوتے بقیہ جو معاملات ہیں ملزم کٹہرے میں کھڑے ہیں۔

لیاقت آباد اور فیڈرل بی ایریا، کریم آباد، حسین آباد کے لوگ یہ سننا اور دیکھنا چاہتے تھے کہ عمران خان کی سیاسی پارٹی کا زاویہ نگاہ کیا ہے مگر انھوں نے آتے ہی کہا ''کراچی کے لوگوں کو میں آزاد کرانے آیا ہوں۔'' ان کو اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ مہاجر کے لفظ نے ایک پارٹی کو جنم دے دیا ان کے من میں کیا ہے؟ وہ کوٹہ سسٹم کا خاتمہ چاہتے ہیں وہ بھارت کے لیے ویزا آفس کراچی میں چاہتے ہیں، وہ کراچی کی بندرگاہ سے ممبئی فیری میں بحری راستے کم خرچ اور خطرات سے بچ کر جانا چاہتے ہیں۔

وہ ملازمتوں میں کھلا مقابلہ چاہتے ہیں وہ تمام کالجوں میں داخلے میں میرٹ چاہتے ہیں مگر کسی لیڈر نے یہ نہ کہا بلکہ یہ کہا کہ ہم کراچی کو آزاد کرانے آئے ہیں، مجھے ایک سیٹ ملے یا نہ ملے کوئی فرق نہیں پڑتا جب ان علاقوں کے ووٹروں نے دیکھا کہ دوسری پارٹیوں کے عسکری ونگ نہ توڑے گئے اور نہ کاٹے گئے تو ان میں پھر وہی 1986ء والی کیفیت بیدار ہو گئی اور اپنے لوگوں کو اپنا بیٹا یا بھائی سمجھ کر نظر انداز کرنے لگے پہلے عمران خان کی مقبولیت کا گراف اس لیے بلند ہوا تھا کہ وہ طاہر القادری کے ساتھ دھرنا دے رہے تھے مگر اب عمران خان اسی اسمبلی میں واپس گئے جہاں سے وہ مستعفی ہو کر کنٹینر کی عوامی سیاست کر رہے تھے۔ غریبوں، مزدوروں، کسانوں اور عام آدمیوں کی باتیں کر رہے تھے مگر یہاں ان کا لہجہ ہتک آمیز تھا اور ملک کے مراعات یافتہ طبقے کی نمائندگی کر رہے تھے۔

عمران خان کو اگر کراچی کے عوام کی قیادت کرنی ہے تو یہاں کے لوگوں کے مسائل کو سمجھنا ہو گا کراچی کے عوام جس طرح بسوں میں سفر کر رہے ہیں ان کو محسوس کرنا ہو گا، سرکلر ریلوے کی بحالی، بسوں کا نیا جال، صاف پانی کی ترسیل، زمینوں کو عام شہریوں کے لیے مہیا کرنا، تمام فلیٹ اور مکانات کا حصول بلڈر مافیا کے ہاتھوں سے نکالنا ہو گا تعلیمی محاذ پر ایسی پالیسی وضع کرنا کہ متوسط طبقے اور اعلیٰ متوسط طبقے کے لیے دروازوں کو کھول دینا ذرا سی بلند تعلیمی اسناد کے لیے 50 ہزار روپیہ فی سیمسٹر کو گھٹا کر 50 فیصد کمی کا منصوبہ۔ مگر کوئی پارٹی عوامی نعرے نہیں لگاتی شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے نئے وسائل پیدا کرنا، حیدرآباد، ٹنڈوآدم، ٹنڈو الٰہ یار، ٹنڈو جام میں اسمال انڈسٹری کے جال بچھانے کی تگ و دو، یہ کام تو مہاجروں کے رہنماؤں نے بھی نہ کیا۔

تعلیمی اداروں میں اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی تا کہ طالب علم اپنے مفادات کا تحفظ کر سکیں ملک کو نئی لیڈر شپ میسر آئے۔ پورے ملک پر مفاد پرست لیڈروں کا قبضہ ہے نہ کوئی عوام کو اس سے بچانا چاہتا ہے۔

نائن زیرو پر آپریشن کے خلاف کوئی ردعمل سامنے نہ آیا کیونکہ یہاں کے لوگ دوسری پارٹیوں پر آپریشن کی توقع کر رہے تھے مگر جب یہ عمل ایک پارٹی پر جا کے ختم ہو گیا تو مہاجر کے خلاف آپریشن سمجھا گیا اور علاقے کے لوگوں کو پارٹی سے ہمدردی پیدا ہونے لگی اور ایک بڑا طبقہ انتخاب کی جادوگری سے دور بیٹھا رہا۔ لہٰذا اگر کوئی کراچی کے ووٹ بینک کو مسخر کرنا چاہتا ہے تو علاقے کے لوگوں کے دیرینہ مسائل کو حل کرنا ہو گا۔ مہاجروں نے ابھی تک اپنی امید کا چراغ متحدہ کے سپرد کر رکھا ہے موجودہ انتخاب نے امید کے دیے کو جلا رکھا ہے مگر اب وہ چاہتے ہیں کہ ان کو کچھ ملے۔

بقول میر گل خان نصیر:
کیا اسی خواب کی تعبیر اجاگر کرنے
سربکف ہو کے گھر و بار لٹائے لاکھوں

اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کراچی کے معروضی حالات کا جائزہ لیے بغیر عمران خان نے امید کی شمع جلانے کے بجائے غیر ذمے دارانہ بیانات دیے اور اپنا ووٹ بینک بھی لوز شاٹ سے کمزور کر دیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں