بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

یوں گماں ہوتا ہے اب زندگی کا مقصد صرف یار لوگوں کی میتوں کو کاندھا دینا ہی رہ گیا ہے۔

Jvqazi@gmail.com

JHANG:
یوں گماں ہوتا ہے اب زندگی کا مقصد صرف یار لوگوں کی میتوں کو کاندھا دینا ہی رہ گیا ہے۔ ابھی سبین محمود کو لحد میں اتار کے آئے تھے کہ وحید الرحمن گولیوں کینذر ہوگیا۔یوں گماں ہوتا ہے کہ اب کی بار کوئی گھمسان کی جنگ ہے اور ہمارے کان بہرے ہوگئے ہیں کہ جس کی گرج ہم سن نہیں سکتے، ہم بینائی کھو چکے ہیں۔ ایک دانشورکو مارنا پوری قوم کو مارنے کے برابر ہے۔

اس سے زیادہ ریاست کے پاس باقی کیا بچتا ہے۔قائم علی شاہ کے ہونے سے نہ ہونا بہتر ہے۔ وہ اپنی ذمے داریوں سے اس لیے فارغ ہیں کہ ریاست اب نیشنل ایکشن پلان کے تحت چل رہی ہے۔ باقی ان کے لیے پرکشش ساری اسامیاں ہیں۔ بلوچستان پر بات کرنا جیسے کفر ہو، ایک ایسا کفر جس کے لیے ٹرائل چلانے کی بھی ضرورت نہیں۔ اور ہاں اتنی ساری پراکسی جنگیں ہیں، جس کی زد میں کوئی بھی آسکتا ہے۔ ایک وکیل ہونے کے ناتے میرے سارے سیاسی نتیجے ماند پڑجاتے ہیں ،میں سبین کے قاتلوں کو ایک بڑے فریم میں ڈال کے تلاش کرنا چاہتا ہوں اور صرف شک کرسکتا ہوں نتیجہ اخذ نہیں کرسکتا۔

سبین نے بھٹائی کے تنبور سے ملتا جلتا ساز ستار اپنے ہاتھوں میں اٹھا رکھا تھا۔ روی شنکر کے ستار سے اسے انسیت تھی۔ برصغیر کی موسیقی کی وہ مداح تھی۔ طبلہ، ہارمونیم، شہنائی، بانسری جو ان سے رسم روا رکھتے تھے وہ سبین کے قہوہ خانے میں آنا جانا رکھتے تھے۔ کوئی مہرر ہو تو اس کی بھی یہاں ترتیب ہوتی تھی۔ غرض یہ کہ فنون لطیفہ سے لے کر تمام جمالیات کی حسیں وہاں حساس ہوتی تھیں۔ ایک سفر تھا، ایک منزل سے دوسری منزل کا۔ اس کے قہوہ خانے کے بہت سے نام تھے۔

کوئی اسے کافی ہاؤس کہتا تھا تو کوئی اسے میخانہ تو کوئی زیرک دھندہ کہتا تھا۔جو سب سے بنیادی بات سبین محمود میں تھی وہ بولنے کے حق کی فقیر تھی۔ ایک حقیر تھی، ایک حقیر تھی۔ عاجزی اس کے پلو میں پڑی تھی۔ ہاں مگر وہ اس حق کے لیے اپنی انگلی بھی کٹا سکتی تھی گرچہ وہ اس سے کتنا بھی اختلاف رکھتی ہو۔ وہ اس بولنے کے حق کی پاداش میں اپنی انگلی کٹوانا تو کیا، جاں سے بھی گزر گئی۔

بلوچستان پر بولنے کا حق لینا اس کا چھوٹا سا پہلو ہے یوں کہیے کہ ایک دریچہ تھا جس کی شاخیں اس بنیادی نقطے میں موجود تھیں کہ ''بول'' ''بول کے لب آزاد ہیں تیرے'' وہ ایک دن لال مسجد کے سامنے جرأت سے کھڑی ہوگئی جب ننھے پیارے بچوں کا آرمی پبلک اسکول میں خون ہوا تھا۔ وہ نعرہ مستانہ تھی، الست تھی۔ اس کے رندوں سے یارانے تھے ایک نئی ترنگ جو مملکت خداداد میں یقین سے جنم لے چکی ہے، وہ اس سوچ کا الم تھی۔ وہ سبین تھی جس کی پیش گوئی فیض نے کی تھی کہ ''اور نکلیں گے عشاق کے قافلے '' سبین کے ایک الم سے اب اتنے سارے الم نکلیں گے۔

سبین تو ''بول کے لب آزاد ہیں تیرے'' کی بنیاد سے بھی بڑی تھی۔ وہ سماج میں ہر رنگ کی وکیل تھی۔ اسے سب رنگ عزیز تھے۔ عجیب ہےT2F۔کون تھا جو وہاں نہیں آتا تھا۔ کوئی سیکولر تھا، کوئی سرخا تھا، کوئی ہندو، عیسائی، بچے، بوڑھے اور لڑکیاں، خواتین ہر ایک اپنے رنگ میں آتے تھے۔ مگر ان سب میں انسان ہونے کا رشتہ پہلے تھا باقی سب ثانوی تھا۔میں سندھ کی رمزیہ داستانوں میں پلا بڑھا ہوں۔ اگر شاہ لطیف ہوتے وہ یقینا سبین کو گاتے۔ ایک رمزیہ داستان ہی تو تھی سبین۔ وہ ماروی تھی کہ اسے عمر کے کوٹ میں بند دریچوں میں رہنے سے گھٹن سی ہوتی تھی۔

وہ ان بڑے اونچے کوٹھوں سے اڑ کر جانا چاہتی تھی فضاؤں میں اڑنا چاہتی تھی۔ اسے اپنی سہیلیوں کے ساتھ صحرا میں، کھلے کھیتوں اورکھلیانوں میں کھیلنا اچھا لگتا تھا۔ وہ سوہنی تھی کہ اس نے سوہنی کی طرح کچے گھڑے معرفت دریا کو پارکرنا چاہا کہ اس میدان کی دوسری منزل کو جانا تھا، اور یوں وہ سندھو کی موجوں کے سفینوں کی نذر ہوگئی۔


اس نے ڈر کوکتنا چھوٹا کردیا۔ وہ سسی تھی کہ اسے کیچ مکراں، کھیرتھر کے پہاڑی راستوں سے پنوں کے پاس جانا تھا، اس کے لب پہ صرف غزل تھی اور دل میں قندیل غم تھی اور دیکھیں تو صحیح وہ اس گواہی پر قائم رہی اور یوں تاریک راہوں پر ماری گئی۔

ایسا تو T2Fکیا تھا قہوہ خانہ تھا، میخانہ تھا یا کوئی وہاں زیرک دھندہ تھا۔ شہر کے سارے لگن والے لوگ وہاں پہنچ جاتے تھے کہ پورے شہر میں بے انت راتوں کے سائے تھے ، گھٹا ٹوپ اندھیرے تھے اور اس میں T2Fایک اجالا تھا، کوئی شمع تھی دلیل سحر،کیا کیا وہاں نہ تھا بس عزم رکھو اور دبے پاؤں آجاؤ، جمالیات کے طالب سے لے کر انقلاب کے طالب تک تبدیلی کے پیروکار تک ہر شے وہاں تھی جو اس شہر کراچی میں اور پورے پاکستان میں کہیں نہیں تھی۔

کون سی بات، کون سی بحث جو کوئی کرنا چاہے ، کھل کے کرو، جی بھر کے کرو، کہ انسان ہونے کے ناتے، شہری ہونے کے ناتے یہ ایک فرد کا ریاست کے ساتھ سماجی معاہدہ ہے۔سبین وہ حق جو اس ملک کے شہری سے چھینا گیا وہ واپس دلانا چاہتی تھی۔ اتنی بے قراری، اتنی بے چینی اس کے اندر تھی یوں لگتا ہے وہ شاید راتوں کو سو بھی سکتی ہوگی کہ نہیں۔ میں جانتا تھا سبین نے یہ راستہ خود اپنے لیے منتخب کیا تھا، اسے ان پہاڑی راستوں پر پہ بجولاں چلنے کا انجام پتہ تھا کہ اس نے دیکھا تھا کہ سسی کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ اس پر شہر جاناں فدا تھا، اس کا مداح تھا اس پر اور ذمے داریاں بڑھ گئی تھیں۔ وہ اپنے لیے تاریخ میں اپنا کردار خود منتخب کرچکی تھی۔

وہ اپنے اماں اور ابا کی اکلوتی بیٹی تھی۔ وہ ایک استانی کی بیٹی تھی، متوسط گھر میں اس کا جنم ہوا تھا میرٹ پر کراچی کے سب سے بڑے اسکول میں اس کا داخلہ ہوا تھا تو ابا اسے اپنے اسکوٹر پر بٹھاکر اسکول چھوڑتے اور چھٹی ہونے پر وہ اس کو واپس لے کر آتے اور رات کو اماں اسے پریوں کی کہانیاں سناتی تھیں کئی رمزیہ داستانیں۔ وہ لڑکی تھی ایسے سماج کی جہاں لڑکیاں ہونا خود جیسے اقلیت کا احساس ہو۔ اس نے وہ زنجیریں توڑنا چاہیں، وہ لڑکوں جیسے لباس پہنتی تھی اور بھٹوؤں جیسا سینے میں دل رکھتی تھی کہ جیسے کہتی ہو :

تم کتنی سبینیں مارو گے
گھر گھر سے سبینیں نکلیں گی

بدنصیب کراچی کو سبین کے روپ میں وارث ملا تھا۔ کراچی یوں تو بہت پرسان حال ہے مگر کراچی کا ذہن و خیال سب سے زیادہ زرخیز ہے۔ اہل قلم ہے، اہل جنوں ہے، یہ شہر اپنے لیے ایک منزل کا تعین کرچکا ہے، یہ شہر پاکستان کے آنے والے ذہنوں کی قیادت کرے گا اور وہ جناح کا پاکستان واپس ضرور آئے گا۔ جنھوں نے سبین کو گولیوں سے چھلنی کیا، سبین کے چاہنے والے اس کے پیرو کل تین تلوار پر ڈھولکی بجا کر ان کو للکار رہے تھے۔

وہ کہہ رہے تھے کہ وہ یہاں آکر ستار بجائیں گے۔ وہ طبلہ بجائیں گے وہ کتھک ڈانس کریں گے، اسٹریٹ تھیٹر کریں گے، سب رنگ جو T2Fکے تھے وہ اب چوراہوں پر لے کر آئیں گے۔ وہ گولیاں برسائیں گے اور یہ گولیاں کھائیں گے مگر طبلہ بجانا نہیں چھوڑیں گے، ستار اور بانسری بجانا نہیں چھوڑیں گے، ناچنا، گانا، بجانا نہیں چھوڑیں گے۔ بلوچستان پر بات کرنا نہیں چھوڑیں گے۔
Load Next Story