46 ارب ڈالر اور مزید 46 ارب پتی خاندان
چین کے ساتھ ہونے والا معاہدہ پاکستان کی تاریخ کا ایک طرح سب سے بڑا معاہدہ ہے۔
چینی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران 51 معاہدوں پر دستخط ہوئے، ان منصوبوں پر مجموعی طور پر 46 ارب ڈالر خرچ ہوں گے اور یہ سرمایہ کاری چین کرے گا۔ بلاشبہ یہ ایک بہت بڑی سرمایہ کاری ہے اگر 46 ارب ڈالر کا عوامی مفاد میں ایماندارانہ استعمال ہو تو عوام کی غربت دور کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ جب بھی کوئی بڑا منصوبہ شروع ہونے لگتا ہے، عموماً ہر بڑے منصوبے کی اربوں روپوں کی رقم نیچے تک پہنچ ہی نہیں پاتی اوپر ہی اوپر اسے اس طرح ذبح کر دیا جاتا ہے کہ عوام حیرت سے ''تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو'' کہتے رہ جاتے ہیں۔
چین کے ساتھ ہونے والا معاہدہ پاکستان کی تاریخ کا ایک طرح سب سے بڑا معاہدہ ہے۔ 46 ارب ڈالر کی رقم بہت بڑی رقم ہوتی ہے اور اس بھاری رقم کی لوٹ مار کی منظم اور محتاط تیاریاں ہو رہی ہوں تو یہ نہ محض شک و شبے کی بات ہے نہ کوئی مفروضہ ہے۔ ہمارے آصف علی زرداری نے بھی اس حوالے سے احتیاطی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ زرداری سمیت کئی رہنما مطالبہ کر رہے ہیں کہ چین سے ہونے والے اس تاریخی معاہدے کی تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش کی جائیں تا کہ عوام کو پتہ چل سکے کہ اس معاہدے کے فوائد سے عوام کس طرح مستفید ہو سکتے ہیں۔
اس معاہدے کے ذریعے جو سرمایہ کاری کی جا رہی ہے اس پر بعض سیاسی رہنما سخت تنقید کر رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس معاہدے کا بڑا حصہ پنجاب میں خرچ کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ دوسرے صوبوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
ہمارے وزیر اعظم کی ذمے داری ہے کہ وہ اس سرمایہ کاری کو چاروں صوبوں میں منصفانہ طور پر تقسیم کریں۔ خاص طور پر پسماندہ صوبوں کی ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ منصوبے بنائے جائیں۔ کراچی پاکستان کا معاشی ہب کہلاتا ہے لیکن اس معاشی ہب کا حال یہ ہے کہ یہاں عوام بسوں، ویگنوں سے لٹک کر اور چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرتے ہیں اور یہ صورتحال نئی نہیں بلکہ عشروں پرانی ہے، جس سے مرکزی حکومت بھی واقف ہے۔ صوبائی حکومت بھی واقف ہے، یہی حال دوسرے شعبوں کا ہے۔ پانی بجلی گیس سیوریج سمیت بے شمار مسائل ایسے ہیں جن سے عوام براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب میں نسبتاً زیادہ ترقیاتی کام ہوتے ہیں اور ہو رہے ہیں اگرچہ ان ترقیاتی کاموں میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی دلچسپی اور کاوشوں کا بڑا دخل ہے لیکن یہ ترقیاتی کام اس وقت ہی ہو سکتے ہیں، جب اس کے لیے بڑی فنڈنگ موجود ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چاروں صوبوں میں خرچ کی جانے والی ترقیاتی فنڈنگ منصفانہ ہے اگر منصفانہ ہے تو پھر اس قسم کے ترقیاتی کام دوسرے صوبوں میں کیوں نظر نہیں آ رہے ہیں۔
کیا یہ صوبائی حکومتوں کی نااہلی ہے یا مجبوری ہے؟ کراچی میں ماس ٹرانزٹ اسکیم کا ذکر برسوں سے ہو رہا ہے لیکن کراچی کے عوام کی اس بنیادی تکلیف کو دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں نظر آتی۔ کراچی میں سرکلر ریلوے کے نظام کو بحال کرنے کی باتیں بھی عرصے سے کی جا رہی ہیں لیکن مسئلہ ہنوز دلی دور است بنا ہوا ہے۔
سندھ کے سیاسی رہنماؤں کو یہ سخت شکایت ہے کہ جب بھی کسی ملک کا سربراہ پاکستان کے دورے پر اسلام آباد پہنچتا ہے تو ایک حکمران خاندان ہی میزبانی کا فائدہ اٹھاتا ہے بلکہ پروٹوکول سے ہٹ کر خاندان کے ایسے افراد کو مہمانوں کے ساتھ بٹھا دیا جاتا ہے جن کا کوئی استحقاق نہیں ہوتا۔ چین کے وزیر اعظم کی اسلام آباد آمد کے موقعے پر بھی اسی طرح کا پروٹوکول دیکھا گیا خاص طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب کی اس قسم کے ہر موقعے پر موجودگی پر ہمارے سیاسی رہنماؤں کو سخت اعتراض رہا ہے۔
صدر چین کے دورے کے موقعے پر اگر وزیر اعلیٰ پنجاب کو مختلف تقاریب میں شریک کیا جاتا رہا تو یہ ایک اخلاقی اور فطری تقاضا تھا کہ دوسرے تینوں صوبوں کے وزرا اعلیٰ کو بھی ان تقاریب میں مدعو کیا جاتا۔ اس تخصیص کی وجہ یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو یہ مراعات صرف اس لیے دی جا رہی ہیں کہ وہ وزیر اعظم کے بھائی ہیں' اسی قسم کی ایک شکایت یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم جب غیر ملکی دورے پر جاتے ہیں تو وزیر اعلیٰ پنجاب عموماً ان کے ساتھ ہوتے ہیں دوسرے تینوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ یہ شکایتیں اگرچہ چھوٹی چھوٹی ہیں لیکن اس کے تاثرات اور مضمرات پھیل کر اس قدر بڑے ہو جاتے ہیں کہ یہ اختلافات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جس کا ہمارے وزیر اعظم کو نوٹس بھی لینا چاہیے اور ان شکایات کا ازالہ بھی کرنا چاہیے۔
چین کے پاکستان کے ساتھ تعلقات بلاشبہ دوستانہ بھی ہیں اور تاریخی بھی لیکن اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آج کی دنیا میں ہر ملک کی خارجہ پالیسی اس کے قومی مفادات کے تابع ہوتی ہے۔ چین اگر پاکستان میں 46 ارب ڈالر کی بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے تو یہ محض پاک چین دوستی کا معاملہ نہیں بلکہ اس میں چین کے مفادات کا بھی بڑا دخل ہے۔
چین افریقہ اور مشرق وسطیٰ وغیرہ کی منڈیوں میں اپنی مصنوعات پہنچانا چاہتا ہے اور ان منڈیوں تک چینی مصنوعات کی رسائی کے لیے اسے گوادر کی بندرگاہ بھی چاہیے اور اقتصادی راہداری کا پورا ایک نظام بھی چاہیے۔ چینی مصنوعات سے بیرونی ملکوں اور عوام کی دلچسپی کی ایک بڑی وجہ ان مصنوعات کی کم قیمتیں ہیں۔
چین صنعتی ترقی کی ایک ایسی شاہراہ پر چل پڑا ہے جہاں انتہائی کم قیمت کی مصنوعات تیار کی جا سکتی ہیں اس خوبی کی وجہ سے آج دنیا کے بیشتر ملکوں حتیٰ کہ امریکا سمیت تمام مغربی ملکوں کی منڈیاں چینی مصنوعات سے بھری پڑی ہیں۔ مغرب کے ترقی یافتہ ملک اس حوالے سے چین کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ افریقہ کے ممالک چین کے لیے ایک انتہائی منافع بخش منڈیوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان منڈیوں تک رسائی کے لیے اسے پاکستانی علاقے پاکستانی بندرگاہ کی ضرورت ہے اگر یہ ضرورت بھارت یا کوئی اور ملک پوری کر سکتا تو چین اس کی اسی طرح قدر کرتا جس طرح وہ پاکستان کی کر رہا ہے۔
چین اگر 46 ارب ڈالر کی بھاری سرمایہ کاری کی سیکیورٹی کا طلبگار ہے تو یہ ایک فطری بات ہے۔ چین کے صدر کی ہمارے فوجی سربراہوں سے ملاقات کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے اگر چینی برآمدات کے تحفظ کے لیے پاکستان کے فوجی سربراہ ایک اسپیشل ڈویژن تشکیل دے رہے ہیں تو یہ نہ کوئی حیرت کی بات ہے نہ اعتراض کی بات ہے۔ چین اپنے 35 ہزار کارکن بھی لا رہا ہے یہ سب حفاظتی انتظامات کا حصہ ہیں۔
اس حوالے سے اب اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان منصوبوں کی کامیابی کے لیے امن و امان کی لازمی ضرورت ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے لگتا ہے سخت ترین اقدامات کی تیاری کی جا رہی ہے، ہماری سب سے بڑی قومی ترجیح 46 ارب ڈالر کا عوامی مفاد میں درست استعمال اور اسے لوٹ مار سے بچانا ہے۔ اس کے لیے ایک سخت مانیٹرنگ نظام کی ضرورت ہے اگر مانیٹرنگ نظام نہ بنایا گیا تو 46 ارب ڈالر مزید 46 امیر خاندان پیدا کر دیں گے۔ عوام کو 46 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
چین کے ساتھ ہونے والا معاہدہ پاکستان کی تاریخ کا ایک طرح سب سے بڑا معاہدہ ہے۔ 46 ارب ڈالر کی رقم بہت بڑی رقم ہوتی ہے اور اس بھاری رقم کی لوٹ مار کی منظم اور محتاط تیاریاں ہو رہی ہوں تو یہ نہ محض شک و شبے کی بات ہے نہ کوئی مفروضہ ہے۔ ہمارے آصف علی زرداری نے بھی اس حوالے سے احتیاطی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ زرداری سمیت کئی رہنما مطالبہ کر رہے ہیں کہ چین سے ہونے والے اس تاریخی معاہدے کی تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش کی جائیں تا کہ عوام کو پتہ چل سکے کہ اس معاہدے کے فوائد سے عوام کس طرح مستفید ہو سکتے ہیں۔
اس معاہدے کے ذریعے جو سرمایہ کاری کی جا رہی ہے اس پر بعض سیاسی رہنما سخت تنقید کر رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس معاہدے کا بڑا حصہ پنجاب میں خرچ کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ دوسرے صوبوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
ہمارے وزیر اعظم کی ذمے داری ہے کہ وہ اس سرمایہ کاری کو چاروں صوبوں میں منصفانہ طور پر تقسیم کریں۔ خاص طور پر پسماندہ صوبوں کی ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ منصوبے بنائے جائیں۔ کراچی پاکستان کا معاشی ہب کہلاتا ہے لیکن اس معاشی ہب کا حال یہ ہے کہ یہاں عوام بسوں، ویگنوں سے لٹک کر اور چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرتے ہیں اور یہ صورتحال نئی نہیں بلکہ عشروں پرانی ہے، جس سے مرکزی حکومت بھی واقف ہے۔ صوبائی حکومت بھی واقف ہے، یہی حال دوسرے شعبوں کا ہے۔ پانی بجلی گیس سیوریج سمیت بے شمار مسائل ایسے ہیں جن سے عوام براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب میں نسبتاً زیادہ ترقیاتی کام ہوتے ہیں اور ہو رہے ہیں اگرچہ ان ترقیاتی کاموں میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی دلچسپی اور کاوشوں کا بڑا دخل ہے لیکن یہ ترقیاتی کام اس وقت ہی ہو سکتے ہیں، جب اس کے لیے بڑی فنڈنگ موجود ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چاروں صوبوں میں خرچ کی جانے والی ترقیاتی فنڈنگ منصفانہ ہے اگر منصفانہ ہے تو پھر اس قسم کے ترقیاتی کام دوسرے صوبوں میں کیوں نظر نہیں آ رہے ہیں۔
کیا یہ صوبائی حکومتوں کی نااہلی ہے یا مجبوری ہے؟ کراچی میں ماس ٹرانزٹ اسکیم کا ذکر برسوں سے ہو رہا ہے لیکن کراچی کے عوام کی اس بنیادی تکلیف کو دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں نظر آتی۔ کراچی میں سرکلر ریلوے کے نظام کو بحال کرنے کی باتیں بھی عرصے سے کی جا رہی ہیں لیکن مسئلہ ہنوز دلی دور است بنا ہوا ہے۔
سندھ کے سیاسی رہنماؤں کو یہ سخت شکایت ہے کہ جب بھی کسی ملک کا سربراہ پاکستان کے دورے پر اسلام آباد پہنچتا ہے تو ایک حکمران خاندان ہی میزبانی کا فائدہ اٹھاتا ہے بلکہ پروٹوکول سے ہٹ کر خاندان کے ایسے افراد کو مہمانوں کے ساتھ بٹھا دیا جاتا ہے جن کا کوئی استحقاق نہیں ہوتا۔ چین کے وزیر اعظم کی اسلام آباد آمد کے موقعے پر بھی اسی طرح کا پروٹوکول دیکھا گیا خاص طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب کی اس قسم کے ہر موقعے پر موجودگی پر ہمارے سیاسی رہنماؤں کو سخت اعتراض رہا ہے۔
صدر چین کے دورے کے موقعے پر اگر وزیر اعلیٰ پنجاب کو مختلف تقاریب میں شریک کیا جاتا رہا تو یہ ایک اخلاقی اور فطری تقاضا تھا کہ دوسرے تینوں صوبوں کے وزرا اعلیٰ کو بھی ان تقاریب میں مدعو کیا جاتا۔ اس تخصیص کی وجہ یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو یہ مراعات صرف اس لیے دی جا رہی ہیں کہ وہ وزیر اعظم کے بھائی ہیں' اسی قسم کی ایک شکایت یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم جب غیر ملکی دورے پر جاتے ہیں تو وزیر اعلیٰ پنجاب عموماً ان کے ساتھ ہوتے ہیں دوسرے تینوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ یہ شکایتیں اگرچہ چھوٹی چھوٹی ہیں لیکن اس کے تاثرات اور مضمرات پھیل کر اس قدر بڑے ہو جاتے ہیں کہ یہ اختلافات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جس کا ہمارے وزیر اعظم کو نوٹس بھی لینا چاہیے اور ان شکایات کا ازالہ بھی کرنا چاہیے۔
چین کے پاکستان کے ساتھ تعلقات بلاشبہ دوستانہ بھی ہیں اور تاریخی بھی لیکن اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آج کی دنیا میں ہر ملک کی خارجہ پالیسی اس کے قومی مفادات کے تابع ہوتی ہے۔ چین اگر پاکستان میں 46 ارب ڈالر کی بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے تو یہ محض پاک چین دوستی کا معاملہ نہیں بلکہ اس میں چین کے مفادات کا بھی بڑا دخل ہے۔
چین افریقہ اور مشرق وسطیٰ وغیرہ کی منڈیوں میں اپنی مصنوعات پہنچانا چاہتا ہے اور ان منڈیوں تک چینی مصنوعات کی رسائی کے لیے اسے گوادر کی بندرگاہ بھی چاہیے اور اقتصادی راہداری کا پورا ایک نظام بھی چاہیے۔ چینی مصنوعات سے بیرونی ملکوں اور عوام کی دلچسپی کی ایک بڑی وجہ ان مصنوعات کی کم قیمتیں ہیں۔
چین صنعتی ترقی کی ایک ایسی شاہراہ پر چل پڑا ہے جہاں انتہائی کم قیمت کی مصنوعات تیار کی جا سکتی ہیں اس خوبی کی وجہ سے آج دنیا کے بیشتر ملکوں حتیٰ کہ امریکا سمیت تمام مغربی ملکوں کی منڈیاں چینی مصنوعات سے بھری پڑی ہیں۔ مغرب کے ترقی یافتہ ملک اس حوالے سے چین کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ افریقہ کے ممالک چین کے لیے ایک انتہائی منافع بخش منڈیوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان منڈیوں تک رسائی کے لیے اسے پاکستانی علاقے پاکستانی بندرگاہ کی ضرورت ہے اگر یہ ضرورت بھارت یا کوئی اور ملک پوری کر سکتا تو چین اس کی اسی طرح قدر کرتا جس طرح وہ پاکستان کی کر رہا ہے۔
چین اگر 46 ارب ڈالر کی بھاری سرمایہ کاری کی سیکیورٹی کا طلبگار ہے تو یہ ایک فطری بات ہے۔ چین کے صدر کی ہمارے فوجی سربراہوں سے ملاقات کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے اگر چینی برآمدات کے تحفظ کے لیے پاکستان کے فوجی سربراہ ایک اسپیشل ڈویژن تشکیل دے رہے ہیں تو یہ نہ کوئی حیرت کی بات ہے نہ اعتراض کی بات ہے۔ چین اپنے 35 ہزار کارکن بھی لا رہا ہے یہ سب حفاظتی انتظامات کا حصہ ہیں۔
اس حوالے سے اب اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان منصوبوں کی کامیابی کے لیے امن و امان کی لازمی ضرورت ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے لگتا ہے سخت ترین اقدامات کی تیاری کی جا رہی ہے، ہماری سب سے بڑی قومی ترجیح 46 ارب ڈالر کا عوامی مفاد میں درست استعمال اور اسے لوٹ مار سے بچانا ہے۔ اس کے لیے ایک سخت مانیٹرنگ نظام کی ضرورت ہے اگر مانیٹرنگ نظام نہ بنایا گیا تو 46 ارب ڈالر مزید 46 امیر خاندان پیدا کر دیں گے۔ عوام کو 46 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔