مزدوروں کے حقوق

گزشتہ 20 برسوں میں ہونے والی نج کاری، ڈاؤن سائزنگ ،گولڈن ہینڈ شیک، رائٹ سائزنگ کی وجہ سےبھی بیروزگاری کاسیلاب آیا ہے۔

KARACHI:
129سال پہلے یکم مئی 1886 کو شکاگو میں اپنے حقوق کے لیے کی جانے والی مزدورمزاحمت اور عظیم قربانی نے انسانی تاریخ میں ایک ایسا باب رقم کیا جس کی نظیر بہت کم ملتی ہے۔ اس دن سرمائے کی بالادستی کے خلاف محنت کی عظمت کو ایک نیا موڑ دیا گیا ۔ پچھلے 129برسوں کی تاریخ دنیا بھرکے محنت کشوں کی لازوال قربانیوں سے بھری ہوئی ہے ۔

یکم مئی 2015 کو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 129واں یوم شہدائے شکاگو ان حالات میں منایا گیا جب ملک بھر کے 5کروڑ سے زیادہ محنت کش مسائل کا شکار ہیں ۔ محنت کشوں کی زندگیاں ،کام کے حالات اور اوقات کار آج بھی ویسے ہی ہیں بلکہ اس سے بھی بدترہیں ،جن کے خلاف یکم مئی کے شہدائے نے اپنے خون سے مزدوروں کا پرچم سرخ کیا تھا۔ دو سال پہلے بھی انٹرپرائیز بلدیہ ٹاؤن کراچی میں ہونے والا سانحہ اس حقیقت کا واضح اظہار ہے جس میں 259سے زیادہ محنت کش جل کر شہید ہوگئے تھے مگر سرمایہ داروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

محنت کش طبقہ آج بھی مختلف مسائل کا شکار ہے انھیں بہتر رہائش، صحت، بچوں کی تعلیم اور پینے کا صاف پانی جیسی بنیادی سہولتیں تک حاصل نہیں ہیں اورکام کی جگہ پر بھی وہ سہولتیں حاصل نہیں جو ان کا بنیادی حق ہے اس وقت ملک میں جملہ محنت کشوں کی تعداد 6کروڑ کے لگ بھگ ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی تنظیمی طاقت بھی کمزور ہوتی جارہی ہے۔ 6 کروڑ مزدوروں میں سے صرف 2فیصد سے بھی کم کسی ٹریڈ یونین سے وابستہ ہیں۔

باقی مزدور کسی بھی یونین یا تنظیم سے وابستہ ہی نہیں ہیں جس کا مطلب ہے کہ ملک کے مزدوروں کی ایک بہت بڑی اکثریت اجتماعی سودے کاری کے حق سے محروم ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ملک کے اندر ٹریڈ یونین بڑی تعداد میں ہیں اور ایک بڑی تعداد ان کی فیڈریشن کی ہے۔

اس کے علاوہ ایک ہی ادارے میں کئی کئی یونینز ہیں مگر اس کے باوجود بھی مزدوروں کے مسائل حل نہیں ہوئے ۔ہماری ٹریڈ یونین تقسیم در تقسیم کا شکار ہے، جس کی وجہ سے ملک بھر کے محنت کش مختلف سماجی و معاشی مسائل کا شکار ہیں۔ جن میں سرفہرست مستقل ملازمت کا نہ ہونا، کنٹریکٹ، ڈیلی ویجز اورتھرڈ پارٹی (Out source)کی وجہ سے مستقل ملازمت کا تصور ہی ختم ہوتا جارہا ہے، ورکرز کی رجسٹریشن نہیں ہے، ملازمت کا تحفظ حاصل نہیں ہے۔


ورکر کی تشریح غیر واضح ہے اوقات کار پر عمل نہیں کیا جاتا۔ حکومت کی طرف سے اعلان کردہ کم ازکم اجرت پر بھی عمل نہیں ہوا اور لیبر اسپیکشن کے نظام پر بھی عمل نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں ۔ نہ ہی ہیلتھ اینڈ سیفٹی کے قوانین پر عمل کیا جاتا ہے۔ لیبر جوڈیشری کا بھی برا حال ہے۔ مالکان بالخصوص پرائیوٹ سیکٹر لیبر قوانین پر عملدرآمد کے لیے تیار نہیں ، تھرڈ پارٹی ملازمین کومیڈیکل کور نہ ہونے کی وجہ سے حادثاتی وفات یا مستقل معذوری کی شکل میں بھی معاوضہ (Compensation)نہیں دیا جاتا، نہ ہی زخمی ہونے کی صورت میں علاج کروایا جاتا ہے بلکہ مکمل لاتعلقی کا اعلان کردیا جاتا ہے ۔

ہوم بیسڈ ورکر گھروں میں کام کرنے والی خواتین ،Mines میں کام کرنے والے مزدور،ایگریکلچرل مزدور اور ماہی گیری سے وابستہ مزدوروں کا کوئی پرسان حال ہی نہیں ہے نہ ہی ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی قانون سازی ہوئی ہے نہ ہی ان کے مسائل کے حل کے لیے کسی کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

گزشتہ 20 برسوں میں ہونے والی نج کاری، ڈاؤن سائزنگ ،گولڈن ہینڈ شیک، رائٹ سائزنگ کی وجہ سے بھی بیروزگاری کا سیلاب آیا ہے۔ نجکاری کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان روزگار کے شعبے کو ہوا ہے ۔ ملک میں نجکاری کے مقاصد بھی حاصل نہیں ہوسکے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے دباؤ پر بغیر سوچے سمجھے قیمتی قومی ادارے (منافع بخش)ملکی وغیر ملکی ملٹی نیشنلز (MNCS)کو اونے پونے داموں فروخت کردیے گئے ہیں۔

قومی اداروں کی لوٹ سیل لگا دی گئی ہے ۔مثال کے طور پر کے الیکٹرک۔ اس طرح پبلک سیکٹر کے ملازمین کا وہ طبقہ جو پہلے ہی معاشرے کا پسا ہوا اور مفلوک الحال طبقہ ہے۔ بیروزگاری اور مایوسی کے گہرے غار میں دھکیل دیا گیا ہے۔ معاشی طور پر زندہ درگورکردیا گیا ہے، حالیہ دور میں کساد بازاری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ صنعتی پیداوار رک گئی ہے عام لوگوں کی قوت خرید میں کمی ہوئی ہے امیر اور غریب کا فرق بڑھ گیا ہے غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہورہا ہے ۔

حکومت کی طرف سے مزدوروں کے لیے سماجی تحفظ فراہم کرنے والے ادارے EOBI، WWB، WWF، SESSI وغیرہ میں ورکرزکی رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے مزدور ان بنیادی سہولتوں تعلیم، ہیلتھ،پینشن، compensationوغیرہ سے بھی محروم رہتے ہیں جو صرف ورکرز کو رجسٹرڈ ہونے کی وجہ سے حاصل ہوسکتی ہیں۔ ایک منظم ٹریڈ یونین تحریک ہی مزدروں کے حقوق کا بہتر تحفظ کرسکتی ہے ، لیکن غیر منظم ہونے کی وجہ سے مٹھی بھراشرافیہ ان پر مسلط اور ان کے حقوق غضب کررہا ہے ۔کروڑوں محنت کش عام اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں جس کی ذمے داری اس ظالم طبقے پر عائد ہوتی ہے۔
Load Next Story