امام کعبہ کے دورہ پاکستان کے مقاصد کیا تھے
مسلمانوں کو فرقہ واریت کا شکارنہیں ہوناچاہئے، انھیں قرآن وسنت کی بنیادپر متحد ہوناچاہئے،امام کعبہ
عمومی تاثر یہ ہے کہ امام کعبہ فضیلۃ الشیخ خالد بن علی الغامدی کادورہ پاکستان صرف یمن کے معاملے سے متعلق ہے، وہ پاکستانی عوام کی حمایت حاصل کرنے آئے ہیں یہ درست نہیں ہے۔
سعودی عرب کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق یہ انہی دعوتی دوروں کے سلسلہ کی کڑی ہے جو مختلف اہل علم وفضل پوری دنیا کے مسلمانوں سے دعوتی مقاصد کی خاطر میل جول کے لئے کرتے ہیں۔ تاہم مکمل خبر یہ ہے کہ ان کا دورہ پاکستانی حکومت کی دعوت پرگزشتہ برس ہوناتھا تاہم تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کی وجہ سے چینی صدر شی چنگ پنگ کی طرح امام کعبہ کا دورہ بھی ملتوی ہوگیا۔ پاکستانی حکومت ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ان کے دورے سے فائدہ اٹھاناچاہتی تھی۔ تاہم اب یمن مسئلہ کے بعد سعودی حکومت نے ان کے ایجنڈے میں پاکستانی قوم کے نام اپنا پیغام بھی شامل کردیا۔
یمن کے معاملے پر سعودی عرب پاکستان سے جیسا تعاون چاہتاتھا، پاکستانی پارلیمان میں منظورہونے والی قرارداداس کے مطابق نہیں تھی۔ پاکستان یمن میں اپنی فوج بھیجنے پر راضی نہیں ہوا تاہم اس نے قرارداد میں یہ بات شامل کی تھی کہ اگر سعودی عرب پر کسی نے حملہ کیا تو پاکستان اس کے تدارک کے لئے سب کچھ کرے گا۔ یہ عمومی تاثر ہے کہ یہ قرارداد ان طبقات کے زیراثرمنظورہوئی جو پاکستان سعودی عرب تعلقات کے لئے زیادہ پرجوش نہیں ہیں۔ نتیجتاً پاکستان کی دینی قوتوں کی اکثریت نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ سعودی عرب جیسا تعاون مانگتا ہے، اسے دیاجائے۔
اس مطالبے کو لے کر وہ کراچی ، اسلام آباد، لاہور، پشاور سمیت پورے ملک میں سڑکوں پر نکل آئیں، لبیک حرمین ریلیاں اور تحفظ حرمین کانفرنسز منعقد ہورہی ہیں۔ جماعۃ الدعوۃ پاکستان کے سربراہ حافظ محمد سعید کا کہناہے کہ پارلیمنٹ لیول پر یہ بحث کہ یمن کے معاملے میں دخل نہیں دیناچاہئے، یہ ایک سازش ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ ہمارا تعلق کمزور ہوجائے اور پاکستان میں ایک نئی بحث چھڑ جائے۔ یہ بہت شاندار موقع تھا کہ پاکستان دفاعی ڈھال بن کر اپنے عرب بھائیوں کے ساتھ ہوتا لیکن ہم یہ موقع ضائع کرچکے ہیں۔
اسی اثنا میں امام کعبہ پاکستان پہنچ گئے، انھوں نے لاہور میں واقع دنیا کی ساتویں بڑی مسجد میں خطبہ جمعہ دیا،جہاں 70ہزار سے زائد نمازیوں نے ان کا خطبہ جمعہ سنا۔ بعدازاں وہ جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ گئے، جمعیت اہل حدیث کے مرکز راوی روڈ گئے، جامعہ اشرفیہ میں تحفظ حرمین کانفرنس سے خطاب کیا۔ مختلف چینلز کو انٹرویوز دئیے۔ ان کی ساری سرگرمیوں میں ایک بات واضح طورپر نظرآئی کہ وہ زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں تک اپنا پیغام پوری وضاحت اور صراحت کے ساتھ قوم کو دوباتیں سمجھائیں:
اول: مسلمانوں کو فرقہ واریت کا شکارنہیں ہوناچاہئے، انھیں قرآن وسنت کی بنیادپر متحد ہوناچاہئے۔دنیا میں بسنے والے مسلمان ایک امت ہیں ،ہمارا خدا ،نبی ،قرآن ،ایمان عقیدہ اور جنت ایک ہے ،جب تک ہم متحد رہیں گے دشمن اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ دشمن ہمارے درمیان نفرتیں پیدا کرکے ہمارے اتحاد اور یکجہتی کو توڑنا چاہتا ہے ،ہمیں دشمن کی افواہوں پر کان نہیں دھرنے چاہئیں۔ دشمن کی ان چالوں سے ہوشیار رہتے ہوئے ہمیں باہمی محبت ،اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دیناچاہیے۔
دوم: اسلام میں تشدد اور دہشت گردی کی ممانعت ہے۔بعض لوگ تشدد کے ذریعے اسلام کا تشخص مسخ کررہے ہیں۔اسلام دشمن اسلام کو متشدد اور متعصب مذہب کے طورپر پیش کرتے ہیں۔
سوم:سعودی عوام پاکستان اور پاکستانی عوام سے محبت رکھتے ہیں ،ہمیں حکومت پاکستان اور پاکستانی بھائیوں پر ناز ہے ،حرمین الشریفین کی حفاظت کی ذمہ داری ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔سعودی عرب نے یمن میں باغیوں کے خلاف کارروائی اپنی مرضی سے نہیں بلکہ یمن کی آئینی حکومت کی اپیل پر کی ہے۔
اس دورے کی اہم ترین پیش رفت امام کعبہ کا دورہ منصورہ تھا۔ جس اندازمیں یہ دورہ ہوا، اسے سعودی عرب اور جماعت اسلامی کے تعلقات کی مکمل بحالی کہا جا سکتا ہے۔ یادرہے کہ 1991ء کی خلیجی جنگ میں جماعت اسلامی نے سعودی عرب کی طرف سے امریکی افواج کو خلیج میں بلانے کے خلاف موقف اختیارکیاتھا۔
امام کعبہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ سب مسلمان ایک دوسرے کے بھائی اور دست و بازو ہیں۔سید مودودی نے احیائے دین کی ایک تحریک کو منظم کرکے امت پر بڑا احسان کیا ہے ،آج نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا کے کونے کونے میں سید مودودی کے لٹریچر سے استفادہ کرنے والے ان کے عقیدت مندموجود ہیں ،میں نے خود سید مودودی کی کتابوں کو پڑھا ہے۔سعودی عرب میں ایک مرکزی شاہراہ کا نام بھی سید مودودی کے نام پرر کھاگیا ہے ،سعودی عوام سید مودودی سے بے پناہ محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال پرحرم کعبہ اور حرم نبوی میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔
جماعت اسلامی سے سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی کا مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب اخوان المسلمون سمیت دنیا بھر کی تحریکوں سے تعلقات بحال کرناچاہتاہے۔ انھیں گلہ تھا کہ سعودی عرب نے مصر کے پہلے منتخب صدر ڈاکٹرمحمد مرسی کے خلاف فوجی بغاوت میں جنرل السیسی کا ساتھ دیاتھا۔ موجودہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور میں اخوان المسلمون کے حوالے سے پالیسی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیاگیا جس کا ایک ثبوت صدرمرسی کی سزا میں تبدیلی کا فیصلہ ہے۔ذرائع کے مطابق انھیں سزائے موت دینے کا فیصلہ کرلیاگیاتھا تاہم سعودی عرب کے اشارے پر فیصلہ عین وقت پر تبدیل کیاگیا۔
سعودی عرب بھی داعش کے خطرے کو دیکھ رہاہے۔ اسے یہ بھی نظرآرہاہے کہ نوجوان تیزی سے داعش کی طرف لپک رہے ہیں۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے سعودی عرب جنگجوئی کے بجائے نئی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔وہ چاہتاہے کہ داعش کی ریکروٹمنٹ بند ہو۔ اس میں کامیابی اسلامی تحریکوں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔
عراق،مصر، شام اور اب یمن کی صورتحال نے سعودی عرب کو باور کرادیا کہ مبنی بر اعتدال اسلامی تحریک کے علاوہ عالم اسلام میں کوئی متبادل نہیں۔ اسلامی تحریکوں کے ساتھ جینا ہوگا ورنہ القاعدہ، داعش وغیرہ ابھرتی رہیں گی اور اقوام ترقی کے بجائے انہی کے ساتھ برسرپیکار رہ کر وقت گزارتی رہیں گی۔ فروری میں سعودی وزیرخارجہ شاہ سعودالفیصل نے ایک واضح پیغام دیا کہ ہمارا اخوان المسلمون کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں ہے۔
امام کعبہ نے پاکستان کے دورہ میں یہ بات بھی زور دے کر بار بار کہی کہ یمن میں کوئی شیعہ سنی لڑائی نہیں ہورہی۔ا گرچہ غیرملکی میڈیا نے پوری کوشش کی کہ دیگر دنیا میں سعودی عرب اور ایران کے حامیوں کے درمیان جنگ شروع کرادیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پاکستان میں بھی ایسا کچھ نہیں ہوا اور انشااللہ ایسا ہوگا بھی نہیں۔
دشمن فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں، باہمی اتحاد و اتفاق پر پہرہ دینا ہوگا
میانہ قد،بھرا پرا جسم،چہرے پر لطیف سی مسکراہٹ ،چال میں عالمانہ وقار اور سنجیدگی، دھیمے لہجے میں جچی تلی گفتگو ، سفید لباس پرسنہری کناریوں والے جبے میں ملبوس ڈاکٹر خالد بن علی الغامدی ہمارے سامنے بیٹھے تھے ۔یہ امام کعبہ کی پاکستان میں پہلی آمد تھی۔ ایکسپریس میڈیا گروپ کی مشترکہ ٹیم جس میں ٹی وی چینل اور اخبار کے صحافی اور تکنیک کار شامل تھے، ان سے بات چیت کی تفصیلات ریکارڈ کرنے کے لیے دو گھنٹے قبل ہوٹل پہنچ کر اس انٹرویو کے آغاز کا انتظار کرتے رہے۔
بات شروع ہوئی تو امام کعبہ نے کھلے دل سے پاکستانیوں کی جانب سے والہانہ استقبال کی تعریف کی ۔انہوں نے کہا کہ یہ میرے لئے کوئی انوکھی بات نہیں ہے کیونکہ پاکستانی مسلمانوں کی حرمین سے محبت اور حرارت ایمانی شک وشبے سے بالا تر ہے ۔وہ ایک عظیم قوم ہیں۔ ہم نے ان سے کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور ان کی جدوجہد کے حوالے سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ فطری سی بات ہے کہ مظلوم کو ہمیشہ اپنے دفاع کا حق حاصل ہوتا ہے۔وہ اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ ہم کشمیر اور فلسطین کے مقہور ومجبور مسلمانوں کے لئے دعا گو ہیں کہ اللہ ان کی مدد فرمائے ۔
مسلمانوں کی یکجہتی کے لئے قرآن وسنت کی جانب رجوع بہت ضروری ہے ۔عالم اسلام میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں امام کعبہ نے کہا کہ میں سب مسلمانوں کو کتاب وسنت کی جانب متوجہ ہونے کی ہدایت کرتا ہوں۔ہمارے درمیان بے شمار مشترکات ہیں جن کی بنیاد پر مشرق ومغرب کے مسلمان اکٹھے ہو سکتے ہیں۔اللہ نے قرآن میں حکم دیا ہے کہ ''اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو''۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ''تم اگر کتاب وسنت سے جڑے رہے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے''۔
فرقہ واریت کا بڑا سبب قرآ ن وسنت کی تعلیمات سے دوری ہے ۔ ہم نے ان سے جب یہ پوچھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان چند ایسے بنیادی نکات پر جمع ہو جائیں جو ان کی وحدت کا پیش خیمہ ثابت ہوں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ بالکل ایسا ممکن ہے، اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔مسلمان ان اصولوں پر جمع ہو سکتے ہیں جن کی اساس کتاب وسنت پر ہے اور بلا شبہ وہ اصول اور قواعد بہت شاندار ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ سلف الصالحین،تابعین اور صحابہؓ کی زندگیاں بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ان اصولو ں پر عمل کرنے میں تنازع کا امکان نہیں ہے ۔
اللہ نے قرآن میں باہم جھگڑوں سے منع فرمایا ہے ۔ ہمارا دین ایک ہے ،خدا ایک ہے،قرآن ایک ہے،نبیﷺ ایک ہیں،کتاب ایک ہے اور قبلہ بھی ایک ہے ۔یہ ہماری وحدت کے اسباب ہیں ۔ہمیں ان پر اتفاق کے بعد آہستہ آہستہ باقی مسائل حل کرنے ہوں گے۔یمن میں جاری جنگ کے فرقہ وارانہ پہلو کی بابت سوال پر امام نے کہا کہ اس تنازعے کا فرقہ واریت سے کوئی واسطہ نہیں۔ یمن کے بحران کا پس منظر ذرا الگ ہے۔ دراصل یمن کی شرعی حکومت نے سعودی عرب سے مدد طلب کی تھی جس کے جواب میں سعودی عرب نے خلیجی ممالک سے مشاورت کے بعد ردعمل کا فیصلہ کیا۔
وہاں بعض باغی گروہ حکومت کو گرا کر مسلمانوں میں تفرقہ کے ذریعے عراق جیسی صورتحال پیدا کرنا چاہتے تھے ۔ باغیوں کو سمجھانے کے لئے ہر ممکن طریقہ اپنایا گیا لیکن جب بات قتل وغارت تک پہنچی تو ان کی سرکوبی کا فیصلہ کرنا پڑا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ باغیوں کے پاس اس قدر جدید اسلحہ،قوت اور تربیت اچانک کہا ں سے آگئی۔
دوسری جانب حوثی باغیوں نے خود کہا ہے کہ ان کی جنگ صرف یمن تک محدود نہیں ہے اور ساتھ انہوں نے اس کا نقشہ بھی جاری کیا ہے۔ اس صورتحال میں خاموش کیسے رہا جا سکتا ہے۔فرقہ واریت ایک الگ مسئلہ ہے حالیہ کارروائی یمن میں استحکام اور امن کی بحالی کے لئے عمل میں لائی گئی۔
یہاں یہ خیال رہے کہ سعودی عرب کے بعض علاقوں میں اہل تشیع بھی رہتے ہیں ۔ان کے حالات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں امام نے کہا کہ سعودی حکومت آج بھی اسلام کے صحیح منھج پر کار بند ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ سعودی عرب کے بعض مضافات میں اہل تشیع بھی موجود ہیں لیکن میں پوری وضاحت سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انھیں وہ تما م حقوق اور سہولیات حاصل ہیں جو ایک عام سعودی کو حاصل ہیں ۔وہ اپنی مرضی سے نماز پڑھتے اور حج وعمرہ ادا کرتے ہیں۔ سعودی حکومت کی جانب سے انہیںکسی قسم کے مسلکی تعصب کا سامنا ہے اور نہ ہی ان سے کسی قسم کی کوئی زیادتی ہو رہی ہے ۔
مسلمانوں میں تشد د پسندی اور دہشت گردی کے عنصر کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں امام کا کہنا تھا کہ بغاوت،تشدد کا طریقہ اسلام میں پسندیدہ نہیں۔اسلام سراسر سلامتی کامذہب ہے۔ وہ ،معافی ،رحم ،محبت اور مودت کا حکم دیتا ہے ۔اسلام مسلمانوں کو اپنے ہاتھ قابو میں رکھنے کا حکم دیتا ہے ۔یہ جو بعض مسلمانوں نے تشددکی راہ اپنائی ہے یہ بہت خطرناک ہے۔یہ اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی صورت ہر گزنہیں ہے ۔اگر مسلمان بھی پر تشدد کارروائیاں کریں گے تو دشمن اسے مسلمانوں کے خلاف بہانے کے طور پر استعمال کریں گے ۔
مختلف شدت پسند گروہ مثلاً داعش اور ادھر پاکستان میں بھی بعض گروہوں کے اپنے مقاصد کے لئے قرآنی آیات سے استدلال سے متعلق امام کعبہ کا کہنا تھا کہ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت علیؓ سے الگ ہونے والے خوارج نے اسی قسم کے استدلال کئے تھے۔جن لوگوں کا قرآن وسنت سے کوئی واسطہ نہیں وہی اس قسم کے غلط استدلال کرتے ہیں ۔یہ تمام استدلال باطل ہیں۔اسلام کسی بھی صورت میں عورتوں ،بچوں اور بزرگوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔خوارج اسلام کا خطرناک فرقہ ہیں ۔دہشت گردی قتل عام اورخون ریزی کی اسلام میں قطعاً اجازت نہیں ہے ۔انہوں نے مسلمانوں کو ہدایت کی کے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے پرامن راستے کا انتخاب کریں ۔
بعض اسلا م دشمنوں کی جانب سے وقفوں وفقوں سے شعائر اسلا م کا خاکوں کی شکل مذاق اڑایا جاتا ہے ۔اس پر مسلمانوں کے ردعمل کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ بعض متشددین کی حرکت ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ وہاں مغرب کے سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں نے بھی اس طرز عمل کی نفی کی ہے ۔ہم بھی اس قسم کے افعال کی پوری شدت سے تردید کرتے ہیں لیکن ہم اس کے ردعمل میں ایسا نہیں کریں گے۔ہمیں ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔
جس سے دنیاکے سامنے حقیقت آشکار ہو اور غلطی واضح ہو سکے۔چند برسوں سے سعودی عرب میں امت کی وحدت کے لئے منعقد ہونے والے علماء کے اجتماعات کے حوالے سے پوچھا گیا تو امام نے کہا کہ فرقہ وارنہ چپقلش ایک نئی چیز ہے ۔پہلے اس کا کوئی وجود نہیں تھا۔حضورﷺ اس کی واضح مثال ہیں اور پھر خلفائے راشدین کا زریں عہد بھی ہمارے سامنے ہے کہ بعض معمولی اختلافات کے باوجود مسلمانوں میں محبت،رحم،اور یکجہتی کے عناصر غالب تھے ۔سب مسلمان علماء تفریق کے مخالف ہیں۔
تعصب کسی بھی طور درست نہیں ۔فرقہ واریت مسلمانوں کو اندرونی جھگڑو ں اور باہمی قتل غارت گری میں ڈال کر کمزور بناتی ہے اور دشمنوں کا وتیرہ ہے کہ وہ مسلمانوں میں فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں ۔ان حالات میں ہمیں اللہ کے ارشاد واعتصموا ۔۔۔ پر عمل پیرا ہوکر اپنے اتحاد واتفاق پر پہرہ دینا ہوگا۔امام نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ پاکستان میں کسی خاص طبقہ فکر کے علماء سے ملنے نہیں آئے بلکہ وہ سب علماء سے ملنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔
یمن کے بحران کے بعد سعودی عرب کے جنوبی علاقوں میں امن وامان کے مسائل سے متعلق خبریں گردش کر رہی ہیں۔جب ہم نے امام سے اس حوالے سے جاننا چاہا تو انہوں نے کہا کہ میںآپ کو یہ خوشخبری دینا چاہتا ہوں کہ سعودی حکومت اور عوام کے مابین مثالی تعلق قائم ہے ۔سعودی عوام حکومت سے محبت کرتے ہیں اور فرمانروا ملک سلیمان اور ان کے نائبین بھی عوام کے لئے احترام اور محبت کے جذبات رکھتے ہیں ۔وہاں حکومت اور عوام کے درمیان تعاون،مدداور محبت کا رشتہ قائم ہے۔
یہی مضبوط رشتہ اور ہم آہنگی سعودی عرب کو دشمنوں کی جانب سے لاحق کئی طرح کے حاسدانہ عزائم سے بچائے ہوئے ہے ۔ تاہم موجودہ حالات میں تمام دنیا کے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بعض حاسدین کی پھیلائی ہوئی من گھڑت باتوں پر کان ہر گزنہ دھریں۔ دشمنوں کے ابلاغی اداروں کا مقصد ان خبروں سے بلاد حرمین پر سے مسلمانوں کا اعتماد ختم کرنا اور ان کے دلوں میں بلادحرمین کے خلاف نفرت پیدا کرنا ہے ۔سعودی حکومت حرمین کے تحفظ کے لئے ہر دم چوکس ہے ۔مسلمان ایسی خبروں پر یقین نہ کر یں، اسی طرح دشمنوں کی چال ناکام بنائی جا سکتی ہے۔
جب امام کعبہ خالد الغامدی سے پوچھا گیا کہ مسجد حرام میں لاکھوں فرزندان توحید کی امامت کرتے ہوئے کیا احساسات ہوتے ہیںتو ان کا جواب تھا کہ میںحرم میں لاکھوں مسلمانوں کی امامت کو محض خدائے بزرگ وبرتر کا انعام سمجھتا ہوں۔حرم میں امامت کرتے ہوئے جو میرے احساسات اور جذبات ہوتے ہیں، انہیں میں کیسے بیان کر سکتا ہو ں۔میرے پاس اس وقت کی کیفیات کی مناسب تعبیر کے لئے الفاظ نہیں ہیں ۔بس اللہ سے اس عظیم ذمہ داری کی احسن انداز میں انجام دہی کی توفیق کا خواستگار ہوں۔
سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کے اندیشوں اور پاکستانی پارلیمنٹ میں چند دن قبل منظور کی جانے والی قرارداد کے حوالے سے جب امام کعبہ سے استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ سعودی حکومت کی پاکستان سے محبت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ پاکستانی بھائیوں کو اس حوالے سے پریشان نہیں ہونا چاہئے تاہم پاکستانی پارلیمنٹ میں جو بھی ہوا یہ ایک اندرونی معاملہ ہے۔
پچھلے چند دنوں سے میری پاکستانی عوام تک براہ راست رسائی ہے ان کی حرمین شریفین سے جذباتی وابستگی ہے ۔سعودی حکمران ہمیشہ اسلام سے رہنمائی لیتے ہیں ۔ملک سلیما ن اور ان کی حکومت پاکستانیو ں سے محبت کرتے ہیں اور اسلام کے لئے اور بلاد حرمین کیلئے پاکستان کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔آپ کو اور سب پاکستانی بھائیوں کو خوش ہونا چاہئے کہ سعودی عرب میں مکمل امن ہے۔
سعودی عرب کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق یہ انہی دعوتی دوروں کے سلسلہ کی کڑی ہے جو مختلف اہل علم وفضل پوری دنیا کے مسلمانوں سے دعوتی مقاصد کی خاطر میل جول کے لئے کرتے ہیں۔ تاہم مکمل خبر یہ ہے کہ ان کا دورہ پاکستانی حکومت کی دعوت پرگزشتہ برس ہوناتھا تاہم تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کی وجہ سے چینی صدر شی چنگ پنگ کی طرح امام کعبہ کا دورہ بھی ملتوی ہوگیا۔ پاکستانی حکومت ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ان کے دورے سے فائدہ اٹھاناچاہتی تھی۔ تاہم اب یمن مسئلہ کے بعد سعودی حکومت نے ان کے ایجنڈے میں پاکستانی قوم کے نام اپنا پیغام بھی شامل کردیا۔
یمن کے معاملے پر سعودی عرب پاکستان سے جیسا تعاون چاہتاتھا، پاکستانی پارلیمان میں منظورہونے والی قرارداداس کے مطابق نہیں تھی۔ پاکستان یمن میں اپنی فوج بھیجنے پر راضی نہیں ہوا تاہم اس نے قرارداد میں یہ بات شامل کی تھی کہ اگر سعودی عرب پر کسی نے حملہ کیا تو پاکستان اس کے تدارک کے لئے سب کچھ کرے گا۔ یہ عمومی تاثر ہے کہ یہ قرارداد ان طبقات کے زیراثرمنظورہوئی جو پاکستان سعودی عرب تعلقات کے لئے زیادہ پرجوش نہیں ہیں۔ نتیجتاً پاکستان کی دینی قوتوں کی اکثریت نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ سعودی عرب جیسا تعاون مانگتا ہے، اسے دیاجائے۔
اس مطالبے کو لے کر وہ کراچی ، اسلام آباد، لاہور، پشاور سمیت پورے ملک میں سڑکوں پر نکل آئیں، لبیک حرمین ریلیاں اور تحفظ حرمین کانفرنسز منعقد ہورہی ہیں۔ جماعۃ الدعوۃ پاکستان کے سربراہ حافظ محمد سعید کا کہناہے کہ پارلیمنٹ لیول پر یہ بحث کہ یمن کے معاملے میں دخل نہیں دیناچاہئے، یہ ایک سازش ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ ہمارا تعلق کمزور ہوجائے اور پاکستان میں ایک نئی بحث چھڑ جائے۔ یہ بہت شاندار موقع تھا کہ پاکستان دفاعی ڈھال بن کر اپنے عرب بھائیوں کے ساتھ ہوتا لیکن ہم یہ موقع ضائع کرچکے ہیں۔
اسی اثنا میں امام کعبہ پاکستان پہنچ گئے، انھوں نے لاہور میں واقع دنیا کی ساتویں بڑی مسجد میں خطبہ جمعہ دیا،جہاں 70ہزار سے زائد نمازیوں نے ان کا خطبہ جمعہ سنا۔ بعدازاں وہ جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ گئے، جمعیت اہل حدیث کے مرکز راوی روڈ گئے، جامعہ اشرفیہ میں تحفظ حرمین کانفرنس سے خطاب کیا۔ مختلف چینلز کو انٹرویوز دئیے۔ ان کی ساری سرگرمیوں میں ایک بات واضح طورپر نظرآئی کہ وہ زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں تک اپنا پیغام پوری وضاحت اور صراحت کے ساتھ قوم کو دوباتیں سمجھائیں:
اول: مسلمانوں کو فرقہ واریت کا شکارنہیں ہوناچاہئے، انھیں قرآن وسنت کی بنیادپر متحد ہوناچاہئے۔دنیا میں بسنے والے مسلمان ایک امت ہیں ،ہمارا خدا ،نبی ،قرآن ،ایمان عقیدہ اور جنت ایک ہے ،جب تک ہم متحد رہیں گے دشمن اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ دشمن ہمارے درمیان نفرتیں پیدا کرکے ہمارے اتحاد اور یکجہتی کو توڑنا چاہتا ہے ،ہمیں دشمن کی افواہوں پر کان نہیں دھرنے چاہئیں۔ دشمن کی ان چالوں سے ہوشیار رہتے ہوئے ہمیں باہمی محبت ،اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دیناچاہیے۔
دوم: اسلام میں تشدد اور دہشت گردی کی ممانعت ہے۔بعض لوگ تشدد کے ذریعے اسلام کا تشخص مسخ کررہے ہیں۔اسلام دشمن اسلام کو متشدد اور متعصب مذہب کے طورپر پیش کرتے ہیں۔
سوم:سعودی عوام پاکستان اور پاکستانی عوام سے محبت رکھتے ہیں ،ہمیں حکومت پاکستان اور پاکستانی بھائیوں پر ناز ہے ،حرمین الشریفین کی حفاظت کی ذمہ داری ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔سعودی عرب نے یمن میں باغیوں کے خلاف کارروائی اپنی مرضی سے نہیں بلکہ یمن کی آئینی حکومت کی اپیل پر کی ہے۔
اس دورے کی اہم ترین پیش رفت امام کعبہ کا دورہ منصورہ تھا۔ جس اندازمیں یہ دورہ ہوا، اسے سعودی عرب اور جماعت اسلامی کے تعلقات کی مکمل بحالی کہا جا سکتا ہے۔ یادرہے کہ 1991ء کی خلیجی جنگ میں جماعت اسلامی نے سعودی عرب کی طرف سے امریکی افواج کو خلیج میں بلانے کے خلاف موقف اختیارکیاتھا۔
امام کعبہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ سب مسلمان ایک دوسرے کے بھائی اور دست و بازو ہیں۔سید مودودی نے احیائے دین کی ایک تحریک کو منظم کرکے امت پر بڑا احسان کیا ہے ،آج نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا کے کونے کونے میں سید مودودی کے لٹریچر سے استفادہ کرنے والے ان کے عقیدت مندموجود ہیں ،میں نے خود سید مودودی کی کتابوں کو پڑھا ہے۔سعودی عرب میں ایک مرکزی شاہراہ کا نام بھی سید مودودی کے نام پرر کھاگیا ہے ،سعودی عوام سید مودودی سے بے پناہ محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال پرحرم کعبہ اور حرم نبوی میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔
جماعت اسلامی سے سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی کا مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب اخوان المسلمون سمیت دنیا بھر کی تحریکوں سے تعلقات بحال کرناچاہتاہے۔ انھیں گلہ تھا کہ سعودی عرب نے مصر کے پہلے منتخب صدر ڈاکٹرمحمد مرسی کے خلاف فوجی بغاوت میں جنرل السیسی کا ساتھ دیاتھا۔ موجودہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور میں اخوان المسلمون کے حوالے سے پالیسی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیاگیا جس کا ایک ثبوت صدرمرسی کی سزا میں تبدیلی کا فیصلہ ہے۔ذرائع کے مطابق انھیں سزائے موت دینے کا فیصلہ کرلیاگیاتھا تاہم سعودی عرب کے اشارے پر فیصلہ عین وقت پر تبدیل کیاگیا۔
سعودی عرب بھی داعش کے خطرے کو دیکھ رہاہے۔ اسے یہ بھی نظرآرہاہے کہ نوجوان تیزی سے داعش کی طرف لپک رہے ہیں۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے سعودی عرب جنگجوئی کے بجائے نئی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔وہ چاہتاہے کہ داعش کی ریکروٹمنٹ بند ہو۔ اس میں کامیابی اسلامی تحریکوں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔
عراق،مصر، شام اور اب یمن کی صورتحال نے سعودی عرب کو باور کرادیا کہ مبنی بر اعتدال اسلامی تحریک کے علاوہ عالم اسلام میں کوئی متبادل نہیں۔ اسلامی تحریکوں کے ساتھ جینا ہوگا ورنہ القاعدہ، داعش وغیرہ ابھرتی رہیں گی اور اقوام ترقی کے بجائے انہی کے ساتھ برسرپیکار رہ کر وقت گزارتی رہیں گی۔ فروری میں سعودی وزیرخارجہ شاہ سعودالفیصل نے ایک واضح پیغام دیا کہ ہمارا اخوان المسلمون کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں ہے۔
امام کعبہ نے پاکستان کے دورہ میں یہ بات بھی زور دے کر بار بار کہی کہ یمن میں کوئی شیعہ سنی لڑائی نہیں ہورہی۔ا گرچہ غیرملکی میڈیا نے پوری کوشش کی کہ دیگر دنیا میں سعودی عرب اور ایران کے حامیوں کے درمیان جنگ شروع کرادیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پاکستان میں بھی ایسا کچھ نہیں ہوا اور انشااللہ ایسا ہوگا بھی نہیں۔
دشمن فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں، باہمی اتحاد و اتفاق پر پہرہ دینا ہوگا
میانہ قد،بھرا پرا جسم،چہرے پر لطیف سی مسکراہٹ ،چال میں عالمانہ وقار اور سنجیدگی، دھیمے لہجے میں جچی تلی گفتگو ، سفید لباس پرسنہری کناریوں والے جبے میں ملبوس ڈاکٹر خالد بن علی الغامدی ہمارے سامنے بیٹھے تھے ۔یہ امام کعبہ کی پاکستان میں پہلی آمد تھی۔ ایکسپریس میڈیا گروپ کی مشترکہ ٹیم جس میں ٹی وی چینل اور اخبار کے صحافی اور تکنیک کار شامل تھے، ان سے بات چیت کی تفصیلات ریکارڈ کرنے کے لیے دو گھنٹے قبل ہوٹل پہنچ کر اس انٹرویو کے آغاز کا انتظار کرتے رہے۔
بات شروع ہوئی تو امام کعبہ نے کھلے دل سے پاکستانیوں کی جانب سے والہانہ استقبال کی تعریف کی ۔انہوں نے کہا کہ یہ میرے لئے کوئی انوکھی بات نہیں ہے کیونکہ پاکستانی مسلمانوں کی حرمین سے محبت اور حرارت ایمانی شک وشبے سے بالا تر ہے ۔وہ ایک عظیم قوم ہیں۔ ہم نے ان سے کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور ان کی جدوجہد کے حوالے سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ فطری سی بات ہے کہ مظلوم کو ہمیشہ اپنے دفاع کا حق حاصل ہوتا ہے۔وہ اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ ہم کشمیر اور فلسطین کے مقہور ومجبور مسلمانوں کے لئے دعا گو ہیں کہ اللہ ان کی مدد فرمائے ۔
مسلمانوں کی یکجہتی کے لئے قرآن وسنت کی جانب رجوع بہت ضروری ہے ۔عالم اسلام میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں امام کعبہ نے کہا کہ میں سب مسلمانوں کو کتاب وسنت کی جانب متوجہ ہونے کی ہدایت کرتا ہوں۔ہمارے درمیان بے شمار مشترکات ہیں جن کی بنیاد پر مشرق ومغرب کے مسلمان اکٹھے ہو سکتے ہیں۔اللہ نے قرآن میں حکم دیا ہے کہ ''اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو''۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ''تم اگر کتاب وسنت سے جڑے رہے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے''۔
فرقہ واریت کا بڑا سبب قرآ ن وسنت کی تعلیمات سے دوری ہے ۔ ہم نے ان سے جب یہ پوچھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان چند ایسے بنیادی نکات پر جمع ہو جائیں جو ان کی وحدت کا پیش خیمہ ثابت ہوں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ بالکل ایسا ممکن ہے، اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔مسلمان ان اصولوں پر جمع ہو سکتے ہیں جن کی اساس کتاب وسنت پر ہے اور بلا شبہ وہ اصول اور قواعد بہت شاندار ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ سلف الصالحین،تابعین اور صحابہؓ کی زندگیاں بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ان اصولو ں پر عمل کرنے میں تنازع کا امکان نہیں ہے ۔
اللہ نے قرآن میں باہم جھگڑوں سے منع فرمایا ہے ۔ ہمارا دین ایک ہے ،خدا ایک ہے،قرآن ایک ہے،نبیﷺ ایک ہیں،کتاب ایک ہے اور قبلہ بھی ایک ہے ۔یہ ہماری وحدت کے اسباب ہیں ۔ہمیں ان پر اتفاق کے بعد آہستہ آہستہ باقی مسائل حل کرنے ہوں گے۔یمن میں جاری جنگ کے فرقہ وارانہ پہلو کی بابت سوال پر امام نے کہا کہ اس تنازعے کا فرقہ واریت سے کوئی واسطہ نہیں۔ یمن کے بحران کا پس منظر ذرا الگ ہے۔ دراصل یمن کی شرعی حکومت نے سعودی عرب سے مدد طلب کی تھی جس کے جواب میں سعودی عرب نے خلیجی ممالک سے مشاورت کے بعد ردعمل کا فیصلہ کیا۔
وہاں بعض باغی گروہ حکومت کو گرا کر مسلمانوں میں تفرقہ کے ذریعے عراق جیسی صورتحال پیدا کرنا چاہتے تھے ۔ باغیوں کو سمجھانے کے لئے ہر ممکن طریقہ اپنایا گیا لیکن جب بات قتل وغارت تک پہنچی تو ان کی سرکوبی کا فیصلہ کرنا پڑا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ باغیوں کے پاس اس قدر جدید اسلحہ،قوت اور تربیت اچانک کہا ں سے آگئی۔
دوسری جانب حوثی باغیوں نے خود کہا ہے کہ ان کی جنگ صرف یمن تک محدود نہیں ہے اور ساتھ انہوں نے اس کا نقشہ بھی جاری کیا ہے۔ اس صورتحال میں خاموش کیسے رہا جا سکتا ہے۔فرقہ واریت ایک الگ مسئلہ ہے حالیہ کارروائی یمن میں استحکام اور امن کی بحالی کے لئے عمل میں لائی گئی۔
یہاں یہ خیال رہے کہ سعودی عرب کے بعض علاقوں میں اہل تشیع بھی رہتے ہیں ۔ان کے حالات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں امام نے کہا کہ سعودی حکومت آج بھی اسلام کے صحیح منھج پر کار بند ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ سعودی عرب کے بعض مضافات میں اہل تشیع بھی موجود ہیں لیکن میں پوری وضاحت سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انھیں وہ تما م حقوق اور سہولیات حاصل ہیں جو ایک عام سعودی کو حاصل ہیں ۔وہ اپنی مرضی سے نماز پڑھتے اور حج وعمرہ ادا کرتے ہیں۔ سعودی حکومت کی جانب سے انہیںکسی قسم کے مسلکی تعصب کا سامنا ہے اور نہ ہی ان سے کسی قسم کی کوئی زیادتی ہو رہی ہے ۔
مسلمانوں میں تشد د پسندی اور دہشت گردی کے عنصر کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں امام کا کہنا تھا کہ بغاوت،تشدد کا طریقہ اسلام میں پسندیدہ نہیں۔اسلام سراسر سلامتی کامذہب ہے۔ وہ ،معافی ،رحم ،محبت اور مودت کا حکم دیتا ہے ۔اسلام مسلمانوں کو اپنے ہاتھ قابو میں رکھنے کا حکم دیتا ہے ۔یہ جو بعض مسلمانوں نے تشددکی راہ اپنائی ہے یہ بہت خطرناک ہے۔یہ اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی صورت ہر گزنہیں ہے ۔اگر مسلمان بھی پر تشدد کارروائیاں کریں گے تو دشمن اسے مسلمانوں کے خلاف بہانے کے طور پر استعمال کریں گے ۔
مختلف شدت پسند گروہ مثلاً داعش اور ادھر پاکستان میں بھی بعض گروہوں کے اپنے مقاصد کے لئے قرآنی آیات سے استدلال سے متعلق امام کعبہ کا کہنا تھا کہ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت علیؓ سے الگ ہونے والے خوارج نے اسی قسم کے استدلال کئے تھے۔جن لوگوں کا قرآن وسنت سے کوئی واسطہ نہیں وہی اس قسم کے غلط استدلال کرتے ہیں ۔یہ تمام استدلال باطل ہیں۔اسلام کسی بھی صورت میں عورتوں ،بچوں اور بزرگوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔خوارج اسلام کا خطرناک فرقہ ہیں ۔دہشت گردی قتل عام اورخون ریزی کی اسلام میں قطعاً اجازت نہیں ہے ۔انہوں نے مسلمانوں کو ہدایت کی کے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے پرامن راستے کا انتخاب کریں ۔
بعض اسلا م دشمنوں کی جانب سے وقفوں وفقوں سے شعائر اسلا م کا خاکوں کی شکل مذاق اڑایا جاتا ہے ۔اس پر مسلمانوں کے ردعمل کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ بعض متشددین کی حرکت ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ وہاں مغرب کے سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں نے بھی اس طرز عمل کی نفی کی ہے ۔ہم بھی اس قسم کے افعال کی پوری شدت سے تردید کرتے ہیں لیکن ہم اس کے ردعمل میں ایسا نہیں کریں گے۔ہمیں ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔
جس سے دنیاکے سامنے حقیقت آشکار ہو اور غلطی واضح ہو سکے۔چند برسوں سے سعودی عرب میں امت کی وحدت کے لئے منعقد ہونے والے علماء کے اجتماعات کے حوالے سے پوچھا گیا تو امام نے کہا کہ فرقہ وارنہ چپقلش ایک نئی چیز ہے ۔پہلے اس کا کوئی وجود نہیں تھا۔حضورﷺ اس کی واضح مثال ہیں اور پھر خلفائے راشدین کا زریں عہد بھی ہمارے سامنے ہے کہ بعض معمولی اختلافات کے باوجود مسلمانوں میں محبت،رحم،اور یکجہتی کے عناصر غالب تھے ۔سب مسلمان علماء تفریق کے مخالف ہیں۔
تعصب کسی بھی طور درست نہیں ۔فرقہ واریت مسلمانوں کو اندرونی جھگڑو ں اور باہمی قتل غارت گری میں ڈال کر کمزور بناتی ہے اور دشمنوں کا وتیرہ ہے کہ وہ مسلمانوں میں فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں ۔ان حالات میں ہمیں اللہ کے ارشاد واعتصموا ۔۔۔ پر عمل پیرا ہوکر اپنے اتحاد واتفاق پر پہرہ دینا ہوگا۔امام نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ پاکستان میں کسی خاص طبقہ فکر کے علماء سے ملنے نہیں آئے بلکہ وہ سب علماء سے ملنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔
یمن کے بحران کے بعد سعودی عرب کے جنوبی علاقوں میں امن وامان کے مسائل سے متعلق خبریں گردش کر رہی ہیں۔جب ہم نے امام سے اس حوالے سے جاننا چاہا تو انہوں نے کہا کہ میںآپ کو یہ خوشخبری دینا چاہتا ہوں کہ سعودی حکومت اور عوام کے مابین مثالی تعلق قائم ہے ۔سعودی عوام حکومت سے محبت کرتے ہیں اور فرمانروا ملک سلیمان اور ان کے نائبین بھی عوام کے لئے احترام اور محبت کے جذبات رکھتے ہیں ۔وہاں حکومت اور عوام کے درمیان تعاون،مدداور محبت کا رشتہ قائم ہے۔
یہی مضبوط رشتہ اور ہم آہنگی سعودی عرب کو دشمنوں کی جانب سے لاحق کئی طرح کے حاسدانہ عزائم سے بچائے ہوئے ہے ۔ تاہم موجودہ حالات میں تمام دنیا کے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بعض حاسدین کی پھیلائی ہوئی من گھڑت باتوں پر کان ہر گزنہ دھریں۔ دشمنوں کے ابلاغی اداروں کا مقصد ان خبروں سے بلاد حرمین پر سے مسلمانوں کا اعتماد ختم کرنا اور ان کے دلوں میں بلادحرمین کے خلاف نفرت پیدا کرنا ہے ۔سعودی حکومت حرمین کے تحفظ کے لئے ہر دم چوکس ہے ۔مسلمان ایسی خبروں پر یقین نہ کر یں، اسی طرح دشمنوں کی چال ناکام بنائی جا سکتی ہے۔
جب امام کعبہ خالد الغامدی سے پوچھا گیا کہ مسجد حرام میں لاکھوں فرزندان توحید کی امامت کرتے ہوئے کیا احساسات ہوتے ہیںتو ان کا جواب تھا کہ میںحرم میں لاکھوں مسلمانوں کی امامت کو محض خدائے بزرگ وبرتر کا انعام سمجھتا ہوں۔حرم میں امامت کرتے ہوئے جو میرے احساسات اور جذبات ہوتے ہیں، انہیں میں کیسے بیان کر سکتا ہو ں۔میرے پاس اس وقت کی کیفیات کی مناسب تعبیر کے لئے الفاظ نہیں ہیں ۔بس اللہ سے اس عظیم ذمہ داری کی احسن انداز میں انجام دہی کی توفیق کا خواستگار ہوں۔
سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کے اندیشوں اور پاکستانی پارلیمنٹ میں چند دن قبل منظور کی جانے والی قرارداد کے حوالے سے جب امام کعبہ سے استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ سعودی حکومت کی پاکستان سے محبت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ پاکستانی بھائیوں کو اس حوالے سے پریشان نہیں ہونا چاہئے تاہم پاکستانی پارلیمنٹ میں جو بھی ہوا یہ ایک اندرونی معاملہ ہے۔
پچھلے چند دنوں سے میری پاکستانی عوام تک براہ راست رسائی ہے ان کی حرمین شریفین سے جذباتی وابستگی ہے ۔سعودی حکمران ہمیشہ اسلام سے رہنمائی لیتے ہیں ۔ملک سلیما ن اور ان کی حکومت پاکستانیو ں سے محبت کرتے ہیں اور اسلام کے لئے اور بلاد حرمین کیلئے پاکستان کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔آپ کو اور سب پاکستانی بھائیوں کو خوش ہونا چاہئے کہ سعودی عرب میں مکمل امن ہے۔