اے مزدورِ قلم کبھی لکھے گا تیرا قلم داستان تیری بھی

اگر ہمیں اپنے مستقبل کو محفوظ بنانا ہے تو آزادیِ اظہار اور آزادیِ صحافت کو یقینی بنانا ہو گا۔

لوگوں کے مسائل اُجاگر کرنے والے صحافی عالمی یومِ آزادی کے موقع پر یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ ادارے نے انہیں پچھلے دو ماہ سے تنخواہ نہیں دی۔ فوٹو: فائل

ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کے دور میں چند اخبار یہاں سے مرتب ہوا کرتے تھے انہیں صرف حاکمین ہی پڑھا کرتے تھے یا یہ اخبار دربار میں پڑھ کر سنائے جاتے تھے اور کسی اہم خبر کا شہر شہر اعلان کردیا جاتا تھا۔

شعبہ صحافت صرف درباروں تک ہی محدود تھا۔ مغل سلطنت زوال پذیر ہوئی تو بعض امراء نے کچھ لوگوں کو معاوضے پر رکھ لیا۔ یہ دربار، کچہریوں اور اس طرح کے دوسرے اہم مقامات کی خبریں ان تک پہنچاتے تھے۔ یہی افراد بعض خبریں اکٹھی کرکے اپنے ہاتھ سے ایک گزٹ (یا صفحہ جسے اخبار کا نام بھی دیا جاسکتا ہے) مرتب کرتے اور ان کی نقول امراء تک پہنچا دیتے۔ اسی دور میں چھاپہ خانوں کا بھی آغاز ہوا تھا لہٰذا یہ اخبار چھاپے جانے لگے اور عوام تک بھی ان کی رسائی ہونے لگی۔

پھر ایک وہ وقت تھا جب فرد واحد کسی خاص مقصد کے تحت اخبار نکالتا اور اس کا زیادہ تر کام وہ خود کرتا۔ خبروں کی فراہمی سے لے کر مضامین اور اداریہ تک سب چیزیں وہ خود تحریر کرتا یا ایک، دو اور اشخاص اس کے شریک کار ہوتے۔ صحافت کی یہ قسم جو شخصی صحافت کہلاتی تھی ہندوستان میں بالخصوص بہت مقبول رہی۔ مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر اور ابو الکلام آزاد اس کی بڑی مثالیں ہیں۔

موجودہ دور میں صحافت کی اصطلاح بہت حد تک تبدیل ہوچکی ہے اور عمومی طور پر اس کا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ
''لوگوں کو تازہ ترین خبروں سے آگاہ کیا جائے، عصرِ حاضر کے واقعات کی تشریح کی جائے اور ان کا پس منظر واضح کیا جائے تاکہ رائے عامہ کی تشکیل کا راستہ صاف ہو۔''

اس تعریف کی روشنی میں دیکھا جائے تو صحافت کسی پیشے سے بڑھ کر ایک مشن کی حیثیت رکھتا ہے۔ شاید اسی لئے صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون بھی قرار دیا جاتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی قدر و اہمیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی توسیع و ترقی کے سبب موجودہ دور کو 'ابلاغیات کا دور' تصور کیا جاتا ہے۔ آج دنیا اس نقطے پر متفق ہو چکی ہے کہ اگر ہمیں اپنے مستقبل کو محفوظ بنانا ہے تو آزادیِ اظہار اور آزادیِ صحافت کو یقینی بنانا ہوگا۔



اسی مقصد کے تحت ہر سال اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے زیر اہتمام 3 مئی کو 'ورلڈ پریس فریڈم ڈے' یعنی یومِ آزادیِ صحافت منایا جاتا ہے۔ جس کے عمومی مقصد ہیں کہ:

٭آزادیِ صحافت کے بنیادی اصولوں کا تحفظ
٭ آزادیِ صحافت کی پوری دنیا میں عام رسائی
٭ صحافت کی آزادی پر لگائی جانے والی قدغنوں کا تدارک
٭ ان مزدورانِ قلم و کیمرہ کو خراج تحسین پیش کرنا جو اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران جہانِ عدم سدھار گئے۔

رواں سال یہ دن 3 بنیادی مقاصد کے تحت منایا جارہا ہے:

٭ ''معیاری صحافت کا فروغ''
٭ خواتین کیلئے بھی برابر مواقع پیدا کرنا بالخصوص انہیں پالیسی بنانے میں حصہ دار بنانا
٭ ڈیجیٹل ضمانت فراہم کرنا کیونکہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے فروح کے ساتھ صحافیوں کیلئے مشکلات پیدا ہورہی ہیں کہ وہ اپنے خفیہ ''سورسز'' کو محفوظ رکھ سکیں۔



اس وقت پاکستان میں کم و بیش تین لاکھ لوگ اس شعبے سے بالواسطہ یا بلا واسطہ منسلک ہیں۔اگر الیکٹرانک میڈیا کی بات کی جائے تو اسی سے زائد ٹی وی چینلز بشمول پچیس سے زیادہ نیوز چینلز اور 160 سے زائد ریڈیو اسٹیشنز پاکستان میں ابلاغِ عامہ کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں جبکہ پرنٹ میڈیا کے اخبارات، رسائل و جرائد کا قصہ ہی الگ ہے۔ اس کے باوجود ہر کوئی میڈیا کوہی قصوروار و ذمہ دار سمجھتا ہے۔

اس وقت دنیا میں صحافتی و ابلاغیاتی کئی نظام موجود ہیں۔ کہیں صحافت ریاست کے زیر نگیں ہے تو کہیں پر اسے متعلقہ آئینی و قانونی آزادی حاصل ہے۔ لیکن پھر بھی اس پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آزادی صحافت شخصی آزادی پر اثر انداز ہورہی ہے یا ملکی و قومی مفادات کو متاثر کر رہی ہے۔ جن بھی معاشروں میں صحافت آزاد ہے وہاں پر بھی صحافت کا کوئی نہ کوئی ضابطہ اخلاق ضرور موجود ہے۔ عموماً صحافت یا ابلاغ عامہ سے وابستہ ادارے یا پھر اس سے منسلک افراد رضا کارانہ طور پر ایک ضابطہ اخلاق وضع کرتے ہیں اور پھر اس پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔



صحافت کی مثال بھی ریاست کی سی ہے۔ جس طرح سیاست میں بے حد غلط کام 'وسیع تر ملکی مفاد' میں ہوتے ہیں بالکل اسی طرح صحافت میں بھی ''آزادی صحافت'' کی چھتری تلے بے شمار غلط کام سر انجام دئیے جاسکتے ہیں۔ آج تک آزادی صحافت کی کوئی متفقہ وضاحت نہیں کی جا سکی۔ آزادی صحافت کا مطلب کیا ہے؟ اس کی حدود کیا ہیں؟ یہ آج تک متعین نہیں کی جاسکیں۔

آخر اس آزادی سے کیا مراد ہے؟ ابلاغ عامہ کے اداروں کے مالکان کی آزادی، منتظمین کی آزادی، کارکنان کی آزادی، یا عوام کے حصول معلومات کے حق کی آزادی؟ اور کیا یہ آزادی درست اور صحیح مقاصد کے لئے استعمال ہوتی ہے؟ 'کوئی بھی ذی شعور اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ 'آزادی صحافت کا غیر محدود ہونا کسی بھی معاشرے کے لئے اتنا ہی نقصان دہ ہے جتنا کہ آزادی کا فقدان اور اس کا محدود ہونا۔''

جب جب صحافت نے معاشرے میں اپنا قدم جمانا شروع کیا حکومتوں کو اس سے خطرہ محسوس ہونا شروع ہوگیا، یہی وجہ ہے کہ روزِ اول سے حکومتوں کا یہ طریق رہا ہے کہ کسی بھی طرح میڈیا اور پریس کو دبا کر رکھا جائے خواہ ڈنڈے کے زور پر خواہ نوٹوں کی کرکراہٹ سے، کچھ بھی ہو لیکن پریس میں کچھ بھی حکومت کے خلاف نہ چھپے۔

پریس کے آمرانہ نظریات (Authoritarian theory of press) میں یہ سب کچھ بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح کبھی لائسنس اور کبھی ''رائل پیٹنٹ'' یا خصوصی اجازت نامے کی آڑ میں پریس کو دبا یاجاتا تھا۔ مقصد صرف ایک تھا کہ پریس کو حکومت کا ذیلی ادارہ بنا کر رکھا جائے۔ بادشاہت کے زمانے میں بادشاہ کی اجازت کے بغیر پریس میں کوئی چیز نہیں چھپتی تھی اگر کبھی کوئی غلطی سے سچ بولنے کے ''جرم'' کا ارتکاب کرلیتا تو اسے باقی جہاں کے لئے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا۔

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب کہ ابھی صحافت کو خدمت کا درجہ حاصل تھا اور صحافت کا مقصد معاشرے کی اصلاح بزورِ قلم کرنا تھا۔ یہ قلمی جہاد کی عملی شکل تھی۔ آہستہ آہستہ صحافت نے ایک پیشے کا روپ دھاڑ لیا۔ لیکن پھر بھی ابھی یہ سب حکومتوں کے کنٹرول میں تھا کیونکہ اخبارات اتنی زیادہ تعداد میں نہیں تھے اور ویسے بھی اخبارات پڑھنا محض پڑھے لکھے طبقے کا کام تھا۔ آہستہ آہستہ حکومت نے پریس پر سے ظاہری پابندیاں ہٹالیں اور ان میں سے کچھ لوگوں کو ''چن '' لیا۔ جو حکومت کی مدح سرائی میں مشغول ہوگئے۔ ان چنیدہ لوگوں میں صحافیوں کے ساتھ ساتھ ادیب، شاعر اور دیگر قلمکار بھی تھے مگر جب وقت کا پردہ سرکنے لگا تو ان ''محجوبوں'' کے نام سامنے آنے لگے جس کی وجہ سے حکومت نے بھی بظاہر اس سے توبہ کر لی اور اپنی توپوں کا رخ مخالفین کی طرف کر دیا۔



صحافت کو ازل سے ہی ایک مقدس فرض سمجھا جاتا ہے بلکہ کچھ لوگ تو اسے پیشہ کا درجہ دینے پر بھی اتفاق نہیں کرتے۔ وہ اسے خدمت سے تعبیر کرتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود آج کے دور میں میڈیا عوام کے لئے تنقید کا ایک آسان ہدف بن چکا ہے۔ معاشرے میں ہونے والی ہر خرابی اور برائی کا ذمہ دار یا تو میڈیا اور صحافت کو گردانا جاتا ہے یا پھر صحافت کو اس میں برابر کا حصہ دار سمجھا جاتا ہے۔ ہر کوئی صحافیوں سے نالاں نظر آتا ہے۔ لوگ صحافیوں پر ''بکنے'' کا الزام لگاتے ہیں اور اس الزام کے بعد لازم سمجھا جاتا ہے کہ ہر کوئی اپنا دامن عوام کو جھاڑ کر دکھائے اور ان کے سامنے اپنی پاک دامنی ثابت کرے۔


ایک دفعہ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغِ عامہ کے سابق چیئرمین ''پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود'' نے اپنے ایک کالم ''صحافت اور پیسہ'' میں لکھا تھا کہ ''بعض لوگوں کو صحافیوں کا بکنا حیرت انگیز معلوم ہوتا ہے۔ حالانکہ جب سیاستدان بک سکتے ہیں، صنعت کار بک سکتے ہیں، علماء و مشائخ بک سکتے ہیں تو صحافی کیوں نہیں بک سکتے؟ ان میں کونسے سرخاب کے پر لگے ہوتے ہیں کہ وہ نہیں بکیں۔''(۱)

کسی گھر میں یتیم بچے کے ساتھ بھی وہ سلوک نہیں روا رکھا جاتا جو ہمارے معاشرے میں صحافت اور صحافیوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ تیرِ الزام اور سنگِ دشنام کے دم ساز بھی ہمیشہ سے صحافت اور صحافی ہی رہے ہیں۔ معاشرے کو آئینہ دکھانے کی سزا یہ ملتی ہے کہ حقیقت تسلیم کرنے کے بجائے آئینہ دکھانے والے کے چہرے کو ہی بدنما بنا دیا جاتا ہے یا کہ کوئی کسی دوسرے کو بدصورتی کا طعنہ نہ دے سکے۔

کون اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں شعور و تعلیم عام کرنے میں میڈیا کا کوئی کردار نہیں؟ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سب سے زیادہ کردار ہی میڈیا کا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ لیکن پھر بھی ہمیشہ سب سے پہلے اسی میڈیا کو گالی دی جائے گی۔ ہمیشہ ہر دور میں میڈیا کو الزامات کی سولی پر لٹکا کر اپنے مفادات کا تحفظ کیا گیا۔ اگر میڈیا کسی اہم شخصیت کو کوریج دے تو معتوب ٹھہرتا ہے، اگر کوئی ایک اینکر اپنی حد سے متجاوز ہوجائے تو بھی سارے کا سارا نزلہ میڈیا پر ہی گرتا ہے۔

میڈیا نے تو ہر دورمیں اپنی ذمہ داری بھرپور طریقے سے نبھائی ہے۔ خواہ وہ شورش کشمیری جیسے دائیں بازو کے صحافی ہوں یا پھر فیض احمد فیض کی طرح بائیں بازو کے شاعر۔ ان لوگوں نے سنتِ یوسفی ؑ پر عمل کرتے ہوئے جیل جانا تو گوارا کیا مگر اپنے قلم کی حرمت کو فروخت کرنا گوارا نہیں کیا یہ ہی وجہ ہے کہ آج بھی زمانہ ان پر ناز کرتا ہے مگر اس کے باوجود کئی حکومتی شخصیات بار ہا صحافیوں پر یہ الزام عائد کر چکی ہیں کہ وہ ایجنسیوں کے ''پے رول'' پر کام کرتے ہیں۔ البتہ ہر بار ان کے نام بتانے سے گریز کیا گیا۔

گو کہ اس ملک میں ایسے با کردار صحافیوں کی کمی نہیں ہے جن کی کمائی میں سوائے عزت کے اور کچھ نہیں ہے جنہیں اپنی تمام عمر ایک مکان بنانے کی حسرت رہی۔ جن کے کردار پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ جنہوں نے تمام عمر جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کا جہادکیا ہے۔ جنہوں نے روپے پیسے کے بجائے عزت و تکریم کو اپنا اولین مقصد قرار دیا اور حق گوئی و بے باکی کا دامن کبھی نہیں چھوٹنے دیا۔ لیکن پھر بھی اس مادہ پرستی کے دور میں اس چیز سے قطع نظر نہیں کیا جا سکتا۔ سینئر صحافی ''محمد ضیاء الدین'' (ایگزیکٹو ایڈیٹر ایکسپریس ٹربیون) نے ایک بار اس موضوع پر لب کشائی کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ''(ایک صحافی کی تنخواہ کا عالم یہ ہے کہ) میں نے صحافت میں پچاس سال سے زائد کا عرصہ گزارا ہے اور میں نے ''ڈان''سے کام کا آغاز کیا جو کہ اس زمانے میں پرنٹ میڈیا میں سب سے زیادہ تنخواہ دینے والا ادارہ تھا اور میں وہ واحد صحافی تھا جسے ادارے نے ایڈیٹر نہ ہونے کے باوجود بھی گاڑی دے رکھی تھی ان سب کے باوجود بھی میں آج پچاس سال بعد بھی اپنا گھر تک نہیں بنا سکا۔'' (اپنا اپنا گریبان (مطیع اللہ جان) وقت نیوز15جولائی 2012)

اور دوسری طرف آج کل ایسے بھی صحافی دیکھے جا سکتے ہیں جو بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں جن کی کوٹھیوں کا کوئی شمار نہیں ہے اور جن کے بچے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ مظہر عباس کا اس حوالے سے ماننا ہے کہ ''95فیصد صحافیوں کی حالت یہ کہ انہیں تنخواہ بھی ٹھیک سے ٹائم پر نہیں دی جاتی اور 5 فیصد صحافی وہ ہیں جو ہر طرح سے چھائے ہوئے ہیں۔ ہمارا یہ دعویٰ کرنا کہ میڈیا آزاد ہے دراصل خود کو اور عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔''

پروگرام اینکر اور کالم نویس''طلعت حسین'' کا کہنا ہے کہ ''ہمیشہ سے صحا فیوں اور صحافت و خریدنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے جو بسا اوقات کامیاب ہوتی ہے اور بعض اوقات نہیں۔''جبکہ سینئر کالم نویس ''جاوید چودھری '' کا اس حوالے سے ماننا ہے کہ ''دنیا میں ہر اس شخص کو خریدا جا سکتا ہے جو بکنے کے لئے تیار ہو اور جو بکنے کے لئے تیار نہ ہو وہ خواہ کتنا ہی غریب کیوں نہ ہو اسے کوئی نہیں خرید سکتا۔''



اس میں تو کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ باقی شعبوں کی طرح صحافیوں میں بھی گندی مچھلیاں موجود ہیں مگر ان گندی مچھلیوں کو پالنے میں حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کا ہاتھ ہے۔ اخبارات بھی خود کو اس سے بری نہیں قرار دے سکتے۔ کیونکہ پہلے بھی بیان کیا جاچکا ہے کہ بعض ادارے صحافیوں کو تنخوائیں ادا نہیں کرتے یا وقت پر نہیں دیتے جس کی وجہ سے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے وہ اس کارِ حرام پر مائل ہوتے ہیں۔ جبکہ ایسی بھی کچھ اطلاعات ہیں کہ صحافیوں کو تنخواہ ادا کرنے کے بجائے بعض ادارے ان سے ''پریس کارڈ'' کا بھی ''معاوضہ'' وصول کرتے ہیں۔ اب اس پریس کارڈ کا معاوضہ کیسے ادا کیا جائے گا اوراس کارڈ کو کس مقصد کے لئے استعمال کیا جائے گا یہ سمجھنا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔

قلم و کیمرہ کی حرمت پر ہر دور میں سوالات اٹھتے رہے ہیں اور صحافیوں سے زیادہ شاید ہی کوئی اور صحافیوں کے احتساب کا طالب ہو۔ ہر بار صحافیوں نے حکومت وقت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ صحافیوں کا احتساب کرے۔ مگر حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ صحافیوں کی جانب سے از خود کئے جانے والے اس مطالبے کی کئی وجوہات تھیں۔

٭ سب سے پہلی وجہ تو یہ تھی کہ آئندہ کوئی مٹھی بھر بدنام صحافیوں کی وجہ سے باقیوں پر انگلی نہ اٹھا سکے۔
٭دوسری وجہ یہ تھی کہ ان ''پردہ نشینوں'' کے نام سامنے آئیں جو صحافیوں کے اندر رہتے ہوئے انہی کی جڑیں کھوکھلی کررہے ہیں۔
٭عوام کا کھویا ہوا اعتماد اس مقدس شعبے پر بحال کیا جا سکے۔

مگر شاید حکومتوں کا ایک سیاسی حربہ یہ بھی رہا ہے کہ کسی طرح صحافیوں پرالزامات لگا کر انہیں تقسیم کردیا جائے اور پھر مزے سے حکومت کی جائے لیکن ہر دور میں باضمیر صحافیوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ صحافت کو بدنام کرنے والے اُن مٹھی بھر صحافیوں کے نام سامنے لائے لیکن کسی بھی حکومت نے کبھی ایسا کرنے کی جسارت نہیں یا شاید ان حکومتوں میں ایسا کرنے کی جرأت ہیں تھی۔



آج آزادی صحافت کا دن جہاں صحافیوں کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا دن ہے وہیں یہ اس فرض کی یاد دہانی بھی کرواتا ہے کہ صحافی برادری خود آگے بڑھے اور معاشرے سے پہلے اپنے آنگن میں پڑے اس گند کا صفایا کرے جو اس کے پاکیزہ در و دیوار کو ناپاک بنانے کا سبب بن رہا ہے۔

فیلڈ میں کام کرنے والے لوگوں کو ہم شاید صحافی کا رتبہ دینے کے لئے تیار نہیں۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کو صحافت کے لئے دنیا میں سب سے خطرناک ملک قرار دے رہی ہے۔ ''رپورٹرز وِد آوٹ بارڈرز'' کے ''ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس'' پر 167 ملکوں کی فہرست میں پاکستان صحافیوں کیلئے خطرناک ممالک میں 9 ویں نمبر پر ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں گزشتہ چند سالوں کے دوران فرائض کی انجام دہی کے دوران سب سے زیادہ صحافی پاکستان میں ہلاک ہوئے۔

کوئی نہیں جانتا کہ ہر سال کتنے گمنام مزدورِ قلم مہیب و تاریک ر اہوں میں راست گوئی کا 'شکار' ہوجاتے ہیں۔ کتنے صحافیوں کو محض سچ بولنے اور راست لکھنے کی پاداش میں ''نشانِ عبرت'' بنادیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال ایمنسٹی انٹرنیشنل نے''آپ کے لئے گولی تیار کرلی گئی ہے: پاکستان میں صحافیوں پر حملے'' کے عنوان سے پاکستانی صحافت کو درپیش خطرات کے حوالے سے بھی ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی جس میں ایسے ''پریشر گروپس'' کو موضوع بنایا گیا تھا جو حق و راست گوئی کے صلے میں صحافیوں کو ''گولی کا تحفہ'' بطورفہمائش و تنبیہ و بجھواتے ہیں۔

ہمارے ملک میں بے شمار صحافی ایسے بھی ہیں جنہیں بلاناغہ دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی مذہبی جماعت کو کوریج کم دی جائے تو لعن طعن ہونے لگتی ہے، کسی سیاسی جماعت کے رہنما کی تقریر لائیو نہ دکھائی جائے تو جان کو خطرے لاحق ہوجاتے ہیں، بڑے ہاتھیوں، مگرمچھوں کو چھیڑ دیا جائے تووہ جینا محال کر دیتے ہیں مگر سب کا سچ بتانے والا آج اپنا سچ بتانے سے گریزاں ہے۔



یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن پر جو جو صحافی یہ رپورٹ دیتا ہے کہ فلاں فلاں ادارے میں ورکرز کو حکومتی مقررکردہ تنخواہ سے کم تنخواہ ادا کی جارہی ہے وہ ٹھیک دوسرے دن تین مئی کو عالمی یومِ آزادیِ صحافت کے موقع پر کسی کو یہ نہیں بتا سکتا کہ ادارے نے اسے پچھلے دو ماہ سے تنخواہ نہیں دی۔ ابھی پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک بہت بڑے میڈیا گروپ کے حوالے سے یہ خبر آئی تھی جس نے پچھلے کئی ماہ سے ورکرز کو تنخوائیں نہیں دیں مگر سب باامر مجبوری اس ایشو کو آنکھوں سے اوجھل ہی رکھیں گے،جائے حیرت تو یہ ہے کہ جو صحافی قلم تھامنے کی قیمت سر قلم کروانے سے ادا کر رہے ہیں ان کی حقیقت بتانے والا کوئی نہیں۔

آج ہم سبین محمود کی موت پر رنجیدہ ہیں، بالکل ایسے ہی کچھ عرصہ قبل ہم حیات اللہ خان، ولی خان بابر اور سید سلیم شہزاد جیسے قلمکاروں کی موت کا ماتم کر رہے تھے مگر تھوڑے ہی دنوں میں ہم ان لوگوں کو بھول جائیں گے۔ اگرچہ یہ چند نام لوگوں کے ذہنوں میں کچھ عرصہ تک نقش رہیں گے مگر ''ایسے کتنے ہی صحافی ہیں جن کے بارے میں آج تک کچھ نہیں پتہ چل سکا۔ جن کی شہادتوں پر کبھی سیمنارز نہیں ہوئے جواخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت نہیں بن سکے۔ صحافت اور آزادیِ صحافت کا اصل اثاثہ تو وہ لوگ ہیں۔ آج جب صحافیوں اور صحافت کو گالی دی جاتی ہے تو انہی لوگوں کے دل سب سے زیادہ دکھتے ہیں جنہوں نے خونِ جگر دے کر اس شجر کو سینچا تھا۔ جن کے لہو نے صحافت کے باب میں سچائی اور ایمان داری کے رنگ بھرے تھے۔جنہوں نے اپنے پیشے سے وفا کی نئی داستانیں رقم کی تھیں۔ ''

[poll id="395"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی
Load Next Story