دیامیر خواتین کے ووٹ ڈالنے پر پابندی

پاکستان کے وہ علاقے جہاں قبائلی معاشرت ہے یا جہاں طاقتور زمینداروں اور گدی نشینوں کا اثر و رسوخ ہے

حکومت کو پنچایتوں اور جرگوں کو مانیٹر کرنا چاہیے۔ کوئی جرگہ پاکستان کے آئین و قانون سے متصادم کوئی فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ فوٹو : فائل

میڈیا کی ایک خبر کے مطابق گلگت بلتستان میں عام انتخابات میں مقامی جرگے نے چلاس کے حلقے دیامر 17میں خواتین کے ووٹ ڈالنے پر پابندی لگا دی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے بھی اس جرگے کے فیصلے کی حمایت کر دی ہے۔

اس مقامی پنچایت یا جرگے میں الیکشن لڑنے والے امیدواروں نے شرکت کی۔ اس خبر میں اگر صداقت ہے تو وفاقی حکومت اور گلگت بلتستان کی حکومت کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ پاکستان کے وہ علاقے جہاں قبائلی معاشرت ہے یا جہاں طاقتور زمینداروں اور گدی نشینوں کا اثر و رسوخ ہے، وہاں جرگے یا پنچایت کے ذریعے ایسے فیصلے کیے جاتے ہیں جو پاکستان کے آئین وقانون سے متصادم ہوتے ہیں، خیبر پختونخوا، فاٹا اور بلوچستان کے کئی علاقوں میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے منع کر دیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ مقامی ثقافت و روایات کے نام پر کیا جاتا ہے۔ کئی ملک گیر سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی اس قسم کی پابندی کو جائز سمجھتے ہیں۔


ملک کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو اس قسم کے کلچر اور فیصلوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ ایسا رکن اسمبلی جو خواتین کے ووٹ کے بغیر منتخب ہوتا ہے کیا وہ اپنے حلقے کا حقیقی نمائندہ کہلانے کا مستحق ہے۔ اس قسم کے پنچایتی فیصلوں سے عالمی سطح پر پاکستان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔

حکومت کو پنچایتوں اور جرگوں کو مانیٹر کرنا چاہیے۔ کوئی جرگہ پاکستان کے آئین و قانون سے متصادم کوئی فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ بلاشبہ پنچایتی یا جرگہ سسٹم گراس روٹ لیول پر امن قائم کرنے کا بڑا اہم ذریعہ ہے لیکن ان پنچایتوں یا جرگوں کو حدود میں رہ کر فیصلے کرنے چاہئیں۔قومی نوعیت کے معاملات پر انھیں فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
Load Next Story