اک نسخۂ کیمیا

ایک سے ہزاروں گھر روشن کیے جا سکتے ہیں اور دوسرے سے شہر کے شہر چشم زون میں راکھ کا ڈھیر بنائے جا سکتے ہیں۔

Amjadislam@gmail.com

اس مجموعہ مضامین کے مؤلف علیم احمد نے (جو میرے پسندیدہ سائنسی ماہنامے گلوبل سائنس کے مدیر بھی ہیں) اس مختصر سی کتاب میں بہت سے مضامین کو ''قرآن پاک اور سائنسی طرز فکر'' کے ذیلی عنوان کے تحت ایک جگہ جمع کر دیا ہے جب کہ اس کی پیشانی پر یہ عبارت بھی درج ہے کہ ''قرآن حکیم کی روشنی میں سائنس کا بیان'' یعنی اس کتاب کا موضوع مذہب اور سائنس کے وہ باہمی تعلقات، تضادات، مباحث، اختلافات اور مطابقات ہیں جن پر صدیوں سے اہل فکر و نظر بحث کر رہے ہیں لیکن یہ وہ بحث نہیں جس کے بارے میں اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا کہ

مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل، مجھ میں تھی ہی نہیں

کم از کم اس کتاب کی حد تک اس بحث کا مقام اور انداز انتہائی عالمانہ ہے کہ علیم احمد نے خود کوئی فیصلہ صادر کرنے کے بجائے گیند قارئین کے کورٹ میں ڈال دی ہے۔ ''نظرثانی'' کے حوالے سے ٹائٹل پر پروفیسر مولانا ولی رازی کا نام دیا گیا ہے سو آئیے سب سے پہلے ان کے ''مقدمے'' سے کچھ مختصر اقتباسات دیکھتے ہیں۔

''ان مضامین کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ (یعنی علیم احمد) صرف سائنس ہی کے آدمی نہیں ہیں بلکہ صحیح الفکر اور صحیح العقائد اسلام کے ایک اچھے طالب علم بھی ہیں۔

...یہ کتاب ان لوگوں کے لیے نہایت ہی مفید ہے جو سائنس سے دلچسپی رکھتے ہوں یا سائنس اور اسلام کے بارے میں غلط افکار کا شکار ہوں۔...علیم احمد صاحب نے اس کتاب میں دو خصوصی عنوانات قائم کیے ہیں ایک ''سائنس کیا ہے'' اور دوسرا ''سائنس کیا نہیں ہے''۔ اب آئیے ایک نظر بقیہ مضامین کے عنوانات پر ڈالتے ہیں۔...قرآن حکیم اور سائنس۔ اعتراضات، وضاحتیں اور اعترافات... کیا اسلام میں حصول علم اور مطالعہ سائنس کی ممانعت ہے؟...اور تم غور و فکر کیوں نہیں کرتے...گمراہی بھی، ہدایت بھی... وجود باری تعالیٰ اور سائنس ...خالق کی ایک اور دلیل...اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہے اور ''ہمیشہ'' رہے گا۔... علم الحدیث اور سائنسی تحقیق کے تقاضے... قرآن پاک میں آیات کی تعداد۔

قرآن پاک اور سائنس کے حوالے سے ہمارے سامنے تین بنیادی گروہ آتے ہیں ایک وہ جو قرآن کو نہیں مانتے۔ دوسرے وہ جو سائنس کو نہیں مانتے اور تیسرے وہ جو ان دونوں میں تطبیق کے لیے مختلف یا مشترک حوالوں سے اس معاملے کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ علیم احمد کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ان تینوں گروہوں یا مکتبہ ہائے فکر کو ایک لڑی میں پرونے کی کامیاب کوشش کی ہے اور کسی مخصوص طرز فکر پر زور دینے کے بجائے قاری کی فکر کو وسعت آشنا کیا ہے۔

مزید تفصیل میں جائے بغیر میں کچھ اقتباسات درج کرتا ہوں جو آپ اپنے ترجمان ہیں ''اب یہاں آ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن پاک کی آیات قیامت تک ناقابل تحریف ہیں یعنی ان میں ردوبدل کی کوئی گنجائش ہرگز موجود نہیں۔ اس کے برعکس سائنس ایک مسلسل تبدیل ہوتا رہنے والا ہر دم تغیر پذیر اور ہر لحظہ ترقی کرتے رہنے والا علم ہے۔


اس کا مطلب ہوا کہ اگر آیات قرآنی کی کوئی سائنسی توجیح آج سے دو سو سال پہلے کی گئی تھی تو بہت ممکن ہے کہ آج وہ صحیح نہ رہی ہو۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ آج کے جن مروجہ سائنسی نظریات کی روشنی میں آیات قرآنی کی کوئی عقلی (سائنسی) وضاحت کی جا رہی ہے وہ نظریات بھی آج سے سو سال بعد تبدیل ہو جائیں۔ پھر ہم کیا کریں گے؟

''ایک نسخۂ کیمیا'' میں جن تدریجی تبدیلیوں کا تذکرہ ہم کر رہے ہیں ان میں لگ بھگ پچھلے دس سال کے دوران ہونے والی ایک اہم تبدیلی یہ بھی ہے کہ اب ہم نے شعوری طور پر اس سلسلے میں قرآن پاک کو ''سائنسی معجزہ'' ثابت کرنے کی کوششیں ترک کر دی ہیں۔ اس کے برعکس اب ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ سائنسی پیرایہ بیان رکھنے والی آیات مبارکہ میں سائنس کے جن پہلوؤں پر بات کی گئی ہے۔

انھیں بیان کیا جائے... قرآن حکیم کے تناظر میں سائنسی معلومات کو درست سیاق و سباق اور مستند مآخذات کے ساتھ ان کے سامنے رکھیں تا کہ وہ قارئین کے فطری تجسس کو صحیح سمت میں پروان چڑھانے کا سبب بن جائیں اور اس طرح اسلام اور سائنس کے درمیان حائل وہ فکری خلیج پاٹنے کی کوشش کی جائے جس کے باعث آج ''دین'' کو ''دنیا'' سے جدا کر کے اول الذکر کو رہبانیت کا، اور آخر الذکر کو الحاد کا نمائندہ بنا دیا گیا ہے۔''

''یہ پوری طرح واضح نہیں کہ کلیسا نے سائنس پر لادین ہونے کی مہر ثبت کی یا مذہبی کٹرپن کے ستائے ہوئے سائنس دانوں نے مذہب کی مدمقابل طاقت کے طور پر منوانے کے لیے سائنس کو ''سیکولر'' کہا مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سائنس کے سیکولر ہونے کی توجیح نے بیک وقت اہلیان مذہب اور اہلیان سائنس کے خیالات پر بری طرح اثر ڈالا۔ پہلے کلیسا نے سنجیدہ سائنسی تحقیق کا راستہ روکا سائنسدانوں کو لامذہب قرار دیا اور پھر سائنسدانوں نے خود ہی مذہب سے قطع تعلق کرنا شروع کر دیا۔''

اور اب آخر میں ''سائنس اور اخلاقیات'' کے ایک ذیلی عنوان سے ایک اقتباس جو ہمیں سائنس اور مذہب کے باہمی تعلق کو سمجھنے کے لیے ایک ایسا راستہ بتاتا ہے جو کم از کم میرے دل کو بہت بھایا کہ اس بحث کو سمیٹنے کے لیے یہ ایک ایسا نیوٹرل حوالہ ہے جس سے شاید کسی کو بھی اختلاف نہ ہو گا۔

''سائنسی تحقیق کے ذریعے ہم نے یہ تو دریافت کر لیا کہ ایک بھاری عنصر کا ایٹمی مرکزہ ٹوٹنے پر (تابکار اشعاع او نیوٹرونوں کی شکل میں) زبردست توانائی خارج ہوتی ہے لیکن کیا سائنس ہمیں یہ بتا سکتی ہے کہ اس دریافت پر تصرف حاصل کر کے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ بظاہر بے ضرر سی دکھائی دینے والی اس دریافت کی بنیاد پر ایٹمی بجلی گھر بھی بنایا جا سکتا ہے اور ایٹم بم بھی۔ ایک سے ہزاروں گھر روشن کیے جا سکتے ہیں اور دوسرے سے شہر کے شہر چشم زون میں راکھ کا ڈھیر بنائے جا سکتے ہیں۔

سائنس بجائے خود ہمیں یہ نہیں بتا سکتی کہ ہمیں کسی دریافت کا اطلاق کس صورت میں کرنا چاہییٖ! لہٰذا اگر ہم واقعی انسانیت کی بھلائی چاہتے ہیں تو اس اختیار کا عملی مظاہرہ بھی بنی نوع انسان کے لیے اچھے نتائج کا حامل ہونا چاہیے جس کے لیے ضروری ہے کہ اس اختیار کی اپنی اخلاقی حدود و قیود کا تعین کیا جائے اور عین یہی وہ مرحلہ ہے جہاں سائنس کو مذہب کی ضرورت پڑتی ہے''

یہ کتاب ''ایک نسخۂ کیمیا'' اپنے موضوع کی نزاکت، سنجیدگی اور متعلقہ فکری اور تاریخی تضادات کے باوجود بہت آسان قابل فہم اور رواں دواں انداز میں لکھی گئی ہے۔ سو اس کا مطالعہ بیک وقت پر لطف بھی اور چشم کشا بھی۔
Load Next Story