جب یوم مزدور طلوع ہوا
ہمارے مدینہ شہر کے ایک مزدور کی جتنی دیہاڑی ہوتی ہے بس اتنی ہی میری تنخواہ بھی مقرر کر دی جائے۔
گزشتہ جمعہ کے روز یوم مزدور منایا گیا، دنیا بھر میں یکم مئی کا دن مزدوروں کے نام ہوتا ہے۔ اس دن مزدور اپنے حقوق کے لیے نعرے لگاتے ہیں اور اپنے حقوق یعنی اپنی مزدوری میں اضافے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
مثلاً پاکستان میں مزدوروں کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ ان کی تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر کر دی جائے۔ آنجہانی سوویت یونین یوم مزدور کا کریڈٹ لیتی ہے اور جس ملک میں بھی کبھی کمیونزم رائج رہا اس میں بظاہر مزدوروں کا راج رہا جو سرمایہ دار چلاتے رہے۔ مجھے آج ایک پرانا یوم مزدور یاد آ رہا ہے جب صدیوں پہلے مزدوروں کے حقوق کا حتمی فیصلہ کر دیا گیا اور یہ فیصلہ ملک کے سربراہ نے کیا اور اپنی ذات سے شروع کیا اور سب سے پہلے اسے خود پر نافذ کیا کیونکہ وہ خود ایک دیانت دار اور سچا مزدور تھا یعنی ایک ایسا سربراہ جو ملک چلانے کی مزدوری کے طور پر سرکاری خزانے سے تنخواہ لیتا تھا اور خود کو ایک مزدور سمجھتا تھا۔
اپنے زمانے کے دوسرے مزدوروں کی طرح۔ مسلمانوں کی تاریخ کے اس پہلے حکمران نے اپنی کپڑے کے کاروبار کی دکان بند کر دی کیونکہ دکانداری کے ساتھ ساتھ وہ کاروبار مملکت چلانے کے لیے وقت نہیں پا سکتے تھے۔ یہ تو ہو گیا لیکن اب سوال پیدا ہوا کہ خلیفہ وقت نے اپنے روزگار کو تو بند کر دیا ہے۔
اس لیے ان کی تنخواہ مقرر کر دی جائے اور اس بارے میں خود ان سے پوچھا گیا کہ چونکہ آپ نے اپنا کاروبار بند کر دیا ہے اس لیے آپ کی گزر اوقات کے لیے کیا تنخواہ مقرر کی جائے۔ جس وفد نے ان سے ملاقات کی اس نے ان سے پوچھا کہ امیرالمومنین آپ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے آپ کی کتنی تنخواہ مقرر کی جائے۔ انھوں نے جواب دیا کہ یہ تو آسان بات ہے۔
ہمارے مدینہ شہر کے ایک مزدور کی جتنی دیہاڑی ہوتی ہے بس اتنی ہی میری تنخواہ بھی مقرر کر دی جائے۔ عرض کیا گیا کہ مزدور کی مزدوری تو بہت کم ہوتی ہے اس میں آپ کی گزر نہ ہو سکے گی۔ جواب دیا یہ بھی آسان بات ہے مدینہ کے مزدور کی دہاڑی بڑھا دی جائے اس سے میری تنخواہ بھی بڑھ جائے گی۔ چنانچہ اس تجویز پر فیصلہ ہو گیا اور امیر المومنین کی تنخواہ مدینہ کے ایک مزدور کی اضافہ شدہ مزدوری کے برابر کر دی گئی۔ یہ واقعہ آج اس قدر ناقابل یقین واقعہ دکھائی دیتا ہے کہ اگرچہ حقیقت ہے مگر اسے تسلیم کیسے کیا جائے۔
ایک بادشاہ اور مزدور کو کس طرح ایک سطح پر رکھا جائے لیکن اس بادشاہ نے ایسا ہی کیا۔ بے لوثی، بے غرضی اور فقیرانہ زندگی کی ایسی مثالیں قائم کر دیں کہ ان کے جانشین حکمران آزمائش میں پڑ گئے۔ خدمت خلق اور رعایا کی دیکھ بھال کا یہ حال تھا کہ مدینے میں ایک بڑھیا رہتی تھی جس کا کوئی خدمت گار اور رشتہ دار نہیں تھا۔ حضرت عمرؓ ایک دن جلدی جلدی کچھ کھانا لے کر اس بڑھیا کے گھر گئے تو پتہ چلا کہ ان سے پہلے کوئی اس کو کھانا کھلا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ کوئی اور نہیں امیر المومنین تھے۔
حضرت عمرؓ یہ سن کر وہیں بیٹھ گئے اور رونے لگے کہ ابو بکرؓ آپ دوسروں کو کس آزمائش میں ڈال کر جا رہے ہیں۔ بہر کیف بات یہ ہو رہی تھی کہ مسلمانوں نے اپنے ہاں مزدور کی تنخواہ شروع دن سے مقرر کر دی تھی جو ملک کے سربراہ کے برابر تھی۔ یوں کہیں کہ یوم مزدور کا فیصلہ کر دیا گیا تھا اور مزدور حکمران کے برابر آ گیا۔
اب اگر کوئی ہے تو اس مثال کو سامنے رکھ کر مزدور کی تنخواہ مقرر کر دے۔ آج ہمارے تو ایسے حکمران ہیں کے اگر ان کی تنخواہ اور ان کی رعایا کے کسی مزدور کی تنخواہ برابر کر دی جائے تو وہ پاگل ہو جائیں اور ان کے مزدور بھی ہوش و حواس گنوا بیٹھیں۔ بس جیسے چل رہا ہے اسے ایسا ہی چلنے دیجیے اور مزدور اور حکمران کو پاگل پن سے بچا لیجیے۔
ہمارا ملک پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے یہاں جو جمہوریت ہے اسے اسلامی ہونا چاہیے کہ ہم نے خود ہی اسے یہی نام دیا ہے اور اسلامی جمہوریت کی جو اصل روح ہے وہ اسلام کے پہلے حکمران نے اپنے عمل سے بیان کر دی ہے جس میں کسی قسم کی ترمیم کی گنجائش نہیں ہے۔
یہ کوئی وعظ نہیں عمل کا ایک نمونہ تھا۔ کوئی نمائش اور دکھاوا نہیں تھا۔ ہماری روزمرہ کی زندگی کی ایک حقیقت تھی جو مستند اور بلاتردید حقیقت بن کر تاریخ میں محفوظ اور زندہ ہے۔ ہمارے آج کے حکمرانوں کی جو پریشانیاں موجود ہیں ان سب کی بنیاد یہ ہے کہ ہمارے حکمران کہلانے کو مسلمان حکمران ہیں لیکن مسلمانوں نے حکمرانی کے جو آداب اور قاعدے مزدور حکمرانوں نے عملاً مقرر کر دیے ہیں وہ ان کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ بادشاہ بنے ہوئے ہیں۔
ان سے بہتر تو وہ غیر مسلم مغربی دنیا کے حکمران ہیں جو دیانت و امانت کے پاسبان اور عوامی مسائل کو اپنے مسائل سمجھتے ہیں اور ممکن حد تک مساوات قائم رکھتے ہیں اور انصاف کرتے ہیں۔ عالمی جنگ میں جب برطانیہ پر مشکل وقت آیا تو عمائدین مملکت پریشان ہو کر وزیراعظم ونسٹن چرچل کے پاس پہنچے۔ چرچل نے ان سے پوچھا کہ آپ یہ بتائیں کہ ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں یا نہیں۔ جواب ملا کر رہی ہیں تو اس سیاستدان نے وفد کو جواب دیا کہ پھر ہم شکست نہیں کھا سکتے، ہمیں کوئی فتح نہیں کر سکتا۔ یہی مساوات مسلمانوں کی حکومت کی بنیاد تھی۔ ہر ایک کے لیے برابر انصاف۔
اب دوبارہ غور کریں کہ جس ملک کے حکمران اور مزدوروں کی تنخواہ برابر ہو بھلا اس ملک کو فتح کرنے کا خواب بھی کون دیکھ سکتا ہے۔ مسلمانوں نے جب اسلامی حکومت کی اصل روح یعنی انصاف کو ترک کر دیا تو دنیا نے ان کی طاقت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا دور کیوں جائیں اگر ہم پاکستان میں انصاف اور مساوات کرتے تو سقوط ڈھاکہ کیسے ممکن ہوتا۔ یہی اسلامی انصاف کسی بھی یوم مزدور کا طلوع ہے جس میں خلیفہ المسلمین خود مزدور تھا۔
مثلاً پاکستان میں مزدوروں کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ ان کی تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر کر دی جائے۔ آنجہانی سوویت یونین یوم مزدور کا کریڈٹ لیتی ہے اور جس ملک میں بھی کبھی کمیونزم رائج رہا اس میں بظاہر مزدوروں کا راج رہا جو سرمایہ دار چلاتے رہے۔ مجھے آج ایک پرانا یوم مزدور یاد آ رہا ہے جب صدیوں پہلے مزدوروں کے حقوق کا حتمی فیصلہ کر دیا گیا اور یہ فیصلہ ملک کے سربراہ نے کیا اور اپنی ذات سے شروع کیا اور سب سے پہلے اسے خود پر نافذ کیا کیونکہ وہ خود ایک دیانت دار اور سچا مزدور تھا یعنی ایک ایسا سربراہ جو ملک چلانے کی مزدوری کے طور پر سرکاری خزانے سے تنخواہ لیتا تھا اور خود کو ایک مزدور سمجھتا تھا۔
اپنے زمانے کے دوسرے مزدوروں کی طرح۔ مسلمانوں کی تاریخ کے اس پہلے حکمران نے اپنی کپڑے کے کاروبار کی دکان بند کر دی کیونکہ دکانداری کے ساتھ ساتھ وہ کاروبار مملکت چلانے کے لیے وقت نہیں پا سکتے تھے۔ یہ تو ہو گیا لیکن اب سوال پیدا ہوا کہ خلیفہ وقت نے اپنے روزگار کو تو بند کر دیا ہے۔
اس لیے ان کی تنخواہ مقرر کر دی جائے اور اس بارے میں خود ان سے پوچھا گیا کہ چونکہ آپ نے اپنا کاروبار بند کر دیا ہے اس لیے آپ کی گزر اوقات کے لیے کیا تنخواہ مقرر کی جائے۔ جس وفد نے ان سے ملاقات کی اس نے ان سے پوچھا کہ امیرالمومنین آپ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے آپ کی کتنی تنخواہ مقرر کی جائے۔ انھوں نے جواب دیا کہ یہ تو آسان بات ہے۔
ہمارے مدینہ شہر کے ایک مزدور کی جتنی دیہاڑی ہوتی ہے بس اتنی ہی میری تنخواہ بھی مقرر کر دی جائے۔ عرض کیا گیا کہ مزدور کی مزدوری تو بہت کم ہوتی ہے اس میں آپ کی گزر نہ ہو سکے گی۔ جواب دیا یہ بھی آسان بات ہے مدینہ کے مزدور کی دہاڑی بڑھا دی جائے اس سے میری تنخواہ بھی بڑھ جائے گی۔ چنانچہ اس تجویز پر فیصلہ ہو گیا اور امیر المومنین کی تنخواہ مدینہ کے ایک مزدور کی اضافہ شدہ مزدوری کے برابر کر دی گئی۔ یہ واقعہ آج اس قدر ناقابل یقین واقعہ دکھائی دیتا ہے کہ اگرچہ حقیقت ہے مگر اسے تسلیم کیسے کیا جائے۔
ایک بادشاہ اور مزدور کو کس طرح ایک سطح پر رکھا جائے لیکن اس بادشاہ نے ایسا ہی کیا۔ بے لوثی، بے غرضی اور فقیرانہ زندگی کی ایسی مثالیں قائم کر دیں کہ ان کے جانشین حکمران آزمائش میں پڑ گئے۔ خدمت خلق اور رعایا کی دیکھ بھال کا یہ حال تھا کہ مدینے میں ایک بڑھیا رہتی تھی جس کا کوئی خدمت گار اور رشتہ دار نہیں تھا۔ حضرت عمرؓ ایک دن جلدی جلدی کچھ کھانا لے کر اس بڑھیا کے گھر گئے تو پتہ چلا کہ ان سے پہلے کوئی اس کو کھانا کھلا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ کوئی اور نہیں امیر المومنین تھے۔
حضرت عمرؓ یہ سن کر وہیں بیٹھ گئے اور رونے لگے کہ ابو بکرؓ آپ دوسروں کو کس آزمائش میں ڈال کر جا رہے ہیں۔ بہر کیف بات یہ ہو رہی تھی کہ مسلمانوں نے اپنے ہاں مزدور کی تنخواہ شروع دن سے مقرر کر دی تھی جو ملک کے سربراہ کے برابر تھی۔ یوں کہیں کہ یوم مزدور کا فیصلہ کر دیا گیا تھا اور مزدور حکمران کے برابر آ گیا۔
اب اگر کوئی ہے تو اس مثال کو سامنے رکھ کر مزدور کی تنخواہ مقرر کر دے۔ آج ہمارے تو ایسے حکمران ہیں کے اگر ان کی تنخواہ اور ان کی رعایا کے کسی مزدور کی تنخواہ برابر کر دی جائے تو وہ پاگل ہو جائیں اور ان کے مزدور بھی ہوش و حواس گنوا بیٹھیں۔ بس جیسے چل رہا ہے اسے ایسا ہی چلنے دیجیے اور مزدور اور حکمران کو پاگل پن سے بچا لیجیے۔
ہمارا ملک پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے یہاں جو جمہوریت ہے اسے اسلامی ہونا چاہیے کہ ہم نے خود ہی اسے یہی نام دیا ہے اور اسلامی جمہوریت کی جو اصل روح ہے وہ اسلام کے پہلے حکمران نے اپنے عمل سے بیان کر دی ہے جس میں کسی قسم کی ترمیم کی گنجائش نہیں ہے۔
یہ کوئی وعظ نہیں عمل کا ایک نمونہ تھا۔ کوئی نمائش اور دکھاوا نہیں تھا۔ ہماری روزمرہ کی زندگی کی ایک حقیقت تھی جو مستند اور بلاتردید حقیقت بن کر تاریخ میں محفوظ اور زندہ ہے۔ ہمارے آج کے حکمرانوں کی جو پریشانیاں موجود ہیں ان سب کی بنیاد یہ ہے کہ ہمارے حکمران کہلانے کو مسلمان حکمران ہیں لیکن مسلمانوں نے حکمرانی کے جو آداب اور قاعدے مزدور حکمرانوں نے عملاً مقرر کر دیے ہیں وہ ان کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ بادشاہ بنے ہوئے ہیں۔
ان سے بہتر تو وہ غیر مسلم مغربی دنیا کے حکمران ہیں جو دیانت و امانت کے پاسبان اور عوامی مسائل کو اپنے مسائل سمجھتے ہیں اور ممکن حد تک مساوات قائم رکھتے ہیں اور انصاف کرتے ہیں۔ عالمی جنگ میں جب برطانیہ پر مشکل وقت آیا تو عمائدین مملکت پریشان ہو کر وزیراعظم ونسٹن چرچل کے پاس پہنچے۔ چرچل نے ان سے پوچھا کہ آپ یہ بتائیں کہ ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں یا نہیں۔ جواب ملا کر رہی ہیں تو اس سیاستدان نے وفد کو جواب دیا کہ پھر ہم شکست نہیں کھا سکتے، ہمیں کوئی فتح نہیں کر سکتا۔ یہی مساوات مسلمانوں کی حکومت کی بنیاد تھی۔ ہر ایک کے لیے برابر انصاف۔
اب دوبارہ غور کریں کہ جس ملک کے حکمران اور مزدوروں کی تنخواہ برابر ہو بھلا اس ملک کو فتح کرنے کا خواب بھی کون دیکھ سکتا ہے۔ مسلمانوں نے جب اسلامی حکومت کی اصل روح یعنی انصاف کو ترک کر دیا تو دنیا نے ان کی طاقت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا دور کیوں جائیں اگر ہم پاکستان میں انصاف اور مساوات کرتے تو سقوط ڈھاکہ کیسے ممکن ہوتا۔ یہی اسلامی انصاف کسی بھی یوم مزدور کا طلوع ہے جس میں خلیفہ المسلمین خود مزدور تھا۔