میری آنکھیں جلا دو
اب کہہ دیجیے اہل جہل سے کہ سب کتابوں والوں نے اپنی الماریوں کے لیے بڑے بڑے تالے خرید لیے ہیں
آؤ ہم اپنے لبوں کو سی لیں ۔ نہ ہم کچھ کہہ سکیں نہ کسی کو ہم سے کوئی شکایت ہو۔ ہم اپنی زبان کوکاٹ کر محکمہ آثار قدیمہ کو دے دیں ۔ تاکہ وہ آنیوالی ہماری گونگی نسل کو بتا سکے کہ کبھی یہاں کہ لوگ بھی زبان رکھتے تھے ۔
یہاں جو بولتا ہے اُس کو یہ سوچ لینا چاہیے کہ یہ اُس کے آخری الفاظ ہوسکتے ہیں ۔ یہ جو چند دیوانے اب سبین کا ماتم کر رہے ہیں اُن کو بھی اپنی زبان کاٹ کر تحفہ میں دے دینی چاہیے ۔لوہے کے تاروں سے ان کے ہونٹوں کو اس طرح سینا چاہیے کہ کوئی گولی اُن کی منہ میں داخل نہ ہوسکے ۔ یہ جو جگہ جگہ موم بتیاں جلا کر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ انھیں بہت دکھ ہوا اُن سب کی زبانوں کو سب سے پہلے کاٹ دینا چاہیے کیونکہ انھوں نے سبین کی زبان روکنے میں کبھی مدد نہیں کی ۔
یہاں یہ جو لمبی لمبی تقریر کرکے گھروں میں جا کر واہ واہ وصول کر رہے ہیں یہ سب لوگ سُن لیں کہ یہاں کوئی بھی آپ کی زبان کہیں بھی کٹوا سکتا ہے ۔ کیا آپ نہیں دیکھ رہے وہ جن جن لوگوں کے زبانوں پر لگے تالے ہٹا کر آزادی کی بات کرتی تھی اُن میں سے کتنے لوگ اُس کے جنازے کو کاندھا دینے کے لیے آئے ۔
جتنے بھی لوگ کتاب کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں وہ سب لوگ سُن لیں کہ یہ دو انچ موٹی کتاب آپ کو ایک انچ کی نفرت کی گولی سے نہیں بچا سکتی ۔ دیکھا نہیں کیا تم نے ہم نے کتابوں کو سینے سے لگا کر دوسروں کی رگوں میں علم بھر دینے والے وحید الرحمان کے ساتھ کیا کیا ۔
اُس کو بھی تو بہت ناز تھا کہ وہ کتابوں سے سوچ بدلے گا۔ وہ گھر گھر اٹھنے والے جنازوں کو روکے گا ۔ وہ علم کے موتیوں سے اظہارکی پابندی ختم کر ے گا ۔ تم نے دیکھا نہیں کہ اُس کے جنازے کو کاندھا دینے والوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر یہ کہہ رہے تھے کہ ہم اب کیسے علم کا بوجھ اُٹھائیں گے ۔ اُس کا بہتا ہوا خون تو شاید جسم کو خالی کرچکا لیکن آنسوؤں کی لڑی نہ رک سکی ۔
اب کہہ دیجیے اہل جہل سے کہ سب کتابوں والوں نے اپنی الماریوں کے لیے بڑے بڑے تالے خرید لیے ہیں ۔ وہ اپنے دماغوں کے اب تالے ڈھونڈھ رہے ہیں کہ وہ کچھ بھی سوچ نہ سکے ۔ یہ جو رسم چلی ہے کہ اب یہاں کوئی سوچنے والا کوئی بولنے والا، کوئی بات کرنیوالا نہ رہے تو پھر بس ایک حکم ہی کیوں جاری نہیں کر دیتے ۔
تما م اسکولوں اورکالجوں کو مسمارکردے ۔ یونی ورسٹی کو قید خانوں میں بدل دے ۔یہ جتنے دیوانے گھومتے ہیں جو یہاں علم کی شمعیں جلانا چاہتے ہیں انھیں ایک ساتھ لائن میں کھڑا کیجیے اور اپنی بندوق کو حکم دے دیجیے کہ اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا ۔
آپ کہہ دیجیے کہ دنیا بھر سے جو ہماری محبت میں یہاں چل کر آئے گا، اُسے ہم خون کا غسل دیں گے ۔ وہ امریکا سے ہماری محبت میں یہاں آئی تھی اُس نے محبت کی خاطر ہی اس پاک سر زمین میں اپنا گھر بنایا تھا ۔ وہ سر سے پاؤں تک علم سے محبت کرنیوالی ہے ۔ اُس کا قصور کیا تھا کہ وہ گوری ہوکر بھی ہمارے درمیان ہی رہنا چاہتی تھی وہ ہمیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہی تھی ۔ وہ ہمیں بتا رہی تھی کہ دنیا میں جینے کے ہنرکیا ہیں ۔ وہ ہماری نئی نسل کو آنیوالے دنوں کے لیے تیارکر رہی تھی۔
اُس کا قصور بس یہ تھا کہ وہ دنیا بھر کے منع کرنے کے باوجود بھی ہمارے درمیان میں رہنا چاہتی تھی ۔وہ آج بھی پرعزم ہے کہ ہمارے بیچ میں ہی رہنا چاہتی ہے۔ ڈاکٹر ڈیبرا پر حملہ کرکے ہم اپنی کیا پہچان بتانا چاہتے ہیں ؟ ہمارا دامن صاف ہوجائے گا کہ ہم یہ کہہ دیں کہ اس میں کالعدم جماعت ملوث ہے ؟
آو ۔ہم سب اپنے کانوں میں سیسہ ڈال دیں کہ ہم کچھ بھی اچھا نہ سُن سکیں ۔ ہم اپنے ہونٹوں کو سی لیں کہ ہم کچھ بھی اچھا نہ کہہ سکیں ۔آؤ ہم اپنی آنکھوں میں گرم لوہے کی سلاخیں ڈال دیں کہ جو کبھی بھی حق نہ دیکھ سکیں ، آؤ ہم اپنے اپنے دماغوں میں بھوسہ بھر لیں کہ وہ کبھی بھی کچھ بھی نہ سوچ سکے ۔
آؤ ہم اپنے ہاتھوں کو کاٹ دیں کہ مجھ میں اب اتنی ہمت نہیں کہ میں کسی علم کے شہنشاہ کی قبر پر مٹی ڈالوں۔ آؤ میرے ساتھ کہ میں اپنے بازو کہیں دور پھینک دوں کہ اب مجھ میں اتنی سکت نہیں کہ کسی سچ بولنے والے کے جنازے کوکاندھا دوں۔ آؤ کہ میں اپنے پیروں پر پڑے چھالوں کا دکھ کم کردوں اور انھیں کاٹ دوں تاکہ پھر میرے پاؤں کسی ایسی جگہ نہ جاسکیں جہاں وہ آزادی محسوس کرتے ہوں ۔ یہاں میرا اور تمھارا کام نہیں ۔ یہاں بس اُن لوگوں کا کام ہے جو ایک چابک پر سمجھ جائے کہ بادشاہ کی خدمت میں اُسے صرف سرجھکانا ہے ۔
لیکن یہ رونا یہ دکھ کس بات کا ۔جن کی مٹی ابھی تک خشک نہیں ہوئی انھیں بھی تو یہ دکھ تھا ۔ انھیں بھی تو یہ ہی درد ستائے جارہا تھا کہ یہاں کوئی بولنے والا نہیں ہے ۔ آخرکسی کو تو اپنے بند لبوں کوکھولنا ہے۔کسی کو تو دماغ کے دریچے کھولنے ہیں ۔کسی کو تو صدا حق بلند کرنی ہے ۔ ان کی زندگی کا بھی تو یہ مشن تھا کہ علم کا چراغ ہر گھر میں جلانا ہے ۔
ان کی جدوجہد بھی تو یہ ہی تھی کہ کتابوں کے خزانے کو اور بڑھانا ہے ۔ ان کی منزل بھی تو یہ ہی تھی کہ ہر گھر سے ایک وحید الرحمان نکلے ۔ جو علم کے قافلے کا رہنما ہو ۔ تو وہ کیا سمجھتے ہیں کہ اب یہ قافلہ رک جائے گا؟ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اب کوئی دلوں پر دستک نہیں ہوگی ۔ وہ کیا سوچتے ہیں کہ ایک دیا بجھ جانے سے صبح نہیں ہوگی؟ وہ یہ جانتے نہیں کہ لہوکی ہر بوند ہتھیلی پر چراغ لے کر نکلتی ہے ۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ جب پانی کا راستہ روکا جاتا ہے تو پھر سیلاب آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پانی کو تو بہنا ہے اور وہ ہر صورت میں بہے گا ۔
ایسے میں کتنی چھوٹی بات لگتی ہے جب کوئی یہ کہے کہ انھیں اُن کے مخصوص نام کی وجہ سے مارا گیا ۔ کتنی گھٹیا لگتی ہے یہ بات کہ اب کون اٹھائے گا علَم ؟کتنی فرسودہ سی یہ لائن ہے کہ ہم مذمت کرتے ہیں اورکتنی بے جان ہے یہ بات ہمیں بہت افسوس ہوا۔ کتنا حقیر ہے یہ دعوی کہ ہم قاتلوں کو گرفتارکریں گے ۔ جو قتل کو روک نہیں سکتے وہ کبھی قاتل تک نہیں پہنچ سکتے ۔ جو بھوک محسوس نہیں کرسکتے وہ روٹی دے نہیں سکتے ۔ جن کے ہاتھوں میں بندوق ہو وہ بندوق سے بچا نہیں سکتے ۔
جن کے ہاتھ خون سے بھرے ہو وہ کسی کا بہتا ہوا خون روک نہیں سکتے ۔ بنا دیجیے ایک اورانکوئری رپورٹ ، بٹھا لیجیے ایک اورکمیشن ۔ کون ہے جو نہیں جانتا کہ یہ کس کا لگایا ہوا بیج ہے جو اب گھنا درخت بن چکا ہے ۔ یہ تسلیاں اب کسی اورکو خوش کرسکتی ہیں کہ ہم قاتل کو ڈھونڈ نکالیں گے ۔ جن کی آستینوں میں سانپ چھپے ہوں وہ کبھی زہر کا پتہ نہیں چلائیں گے ۔ ہم انصاف فراہم کریں گے یہ عہد اورکتنی لاشیں تحفے میں دے گا۔ یہ مذاق کب تک ہوتا رہے گا کہ یہ بیرونی ہاتھ ہے ۔
یہ ہمارے لوگ نہیں ہے ۔ میرے گھر میں آکرکوئی مجھے قتل کرتا ہے تو مجھے دیکھنا ہو گا کہ میرا چوکیدار ہی تو سازش میں شامل نہیں ہے ۔ اب بس کر دیجیے یہ گھسی پٹی مذمت ، افسوس اور ہمدردی کے بیان ۔اب ان بیانات سے یہ لگتا ہے کہ اگلی گولی بندوق میں ڈال دی گئی ہے اور کسی کا نشانہ لیا جاچکا ہے ۔ جتنی دیر میں یہ بیان ختم نہیں ہوتا ۔اُس سے کم وقت میں اگلی گولی چل چکی ہوتی ہے ۔ تو یہ کھیل ختم کردیجیے ۔ہر طرف بس خلا ہے ۔ سب کچھ خالی خالی ہے کوئی نہیں دور دور تک جو کم سے کم مرہم رکھے ۔ حفیظ جالندھری نے کہا تھا ؎
رات ہی رات میں تمام طے ہوئے عمر کے مقام
ہو گئی زندگی کی شام ، اب میں سحرکا کیا کروں
یہاں جو بولتا ہے اُس کو یہ سوچ لینا چاہیے کہ یہ اُس کے آخری الفاظ ہوسکتے ہیں ۔ یہ جو چند دیوانے اب سبین کا ماتم کر رہے ہیں اُن کو بھی اپنی زبان کاٹ کر تحفہ میں دے دینی چاہیے ۔لوہے کے تاروں سے ان کے ہونٹوں کو اس طرح سینا چاہیے کہ کوئی گولی اُن کی منہ میں داخل نہ ہوسکے ۔ یہ جو جگہ جگہ موم بتیاں جلا کر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ انھیں بہت دکھ ہوا اُن سب کی زبانوں کو سب سے پہلے کاٹ دینا چاہیے کیونکہ انھوں نے سبین کی زبان روکنے میں کبھی مدد نہیں کی ۔
یہاں یہ جو لمبی لمبی تقریر کرکے گھروں میں جا کر واہ واہ وصول کر رہے ہیں یہ سب لوگ سُن لیں کہ یہاں کوئی بھی آپ کی زبان کہیں بھی کٹوا سکتا ہے ۔ کیا آپ نہیں دیکھ رہے وہ جن جن لوگوں کے زبانوں پر لگے تالے ہٹا کر آزادی کی بات کرتی تھی اُن میں سے کتنے لوگ اُس کے جنازے کو کاندھا دینے کے لیے آئے ۔
جتنے بھی لوگ کتاب کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں وہ سب لوگ سُن لیں کہ یہ دو انچ موٹی کتاب آپ کو ایک انچ کی نفرت کی گولی سے نہیں بچا سکتی ۔ دیکھا نہیں کیا تم نے ہم نے کتابوں کو سینے سے لگا کر دوسروں کی رگوں میں علم بھر دینے والے وحید الرحمان کے ساتھ کیا کیا ۔
اُس کو بھی تو بہت ناز تھا کہ وہ کتابوں سے سوچ بدلے گا۔ وہ گھر گھر اٹھنے والے جنازوں کو روکے گا ۔ وہ علم کے موتیوں سے اظہارکی پابندی ختم کر ے گا ۔ تم نے دیکھا نہیں کہ اُس کے جنازے کو کاندھا دینے والوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر یہ کہہ رہے تھے کہ ہم اب کیسے علم کا بوجھ اُٹھائیں گے ۔ اُس کا بہتا ہوا خون تو شاید جسم کو خالی کرچکا لیکن آنسوؤں کی لڑی نہ رک سکی ۔
اب کہہ دیجیے اہل جہل سے کہ سب کتابوں والوں نے اپنی الماریوں کے لیے بڑے بڑے تالے خرید لیے ہیں ۔ وہ اپنے دماغوں کے اب تالے ڈھونڈھ رہے ہیں کہ وہ کچھ بھی سوچ نہ سکے ۔ یہ جو رسم چلی ہے کہ اب یہاں کوئی سوچنے والا کوئی بولنے والا، کوئی بات کرنیوالا نہ رہے تو پھر بس ایک حکم ہی کیوں جاری نہیں کر دیتے ۔
تما م اسکولوں اورکالجوں کو مسمارکردے ۔ یونی ورسٹی کو قید خانوں میں بدل دے ۔یہ جتنے دیوانے گھومتے ہیں جو یہاں علم کی شمعیں جلانا چاہتے ہیں انھیں ایک ساتھ لائن میں کھڑا کیجیے اور اپنی بندوق کو حکم دے دیجیے کہ اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا ۔
آپ کہہ دیجیے کہ دنیا بھر سے جو ہماری محبت میں یہاں چل کر آئے گا، اُسے ہم خون کا غسل دیں گے ۔ وہ امریکا سے ہماری محبت میں یہاں آئی تھی اُس نے محبت کی خاطر ہی اس پاک سر زمین میں اپنا گھر بنایا تھا ۔ وہ سر سے پاؤں تک علم سے محبت کرنیوالی ہے ۔ اُس کا قصور کیا تھا کہ وہ گوری ہوکر بھی ہمارے درمیان ہی رہنا چاہتی تھی وہ ہمیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہی تھی ۔ وہ ہمیں بتا رہی تھی کہ دنیا میں جینے کے ہنرکیا ہیں ۔ وہ ہماری نئی نسل کو آنیوالے دنوں کے لیے تیارکر رہی تھی۔
اُس کا قصور بس یہ تھا کہ وہ دنیا بھر کے منع کرنے کے باوجود بھی ہمارے درمیان میں رہنا چاہتی تھی ۔وہ آج بھی پرعزم ہے کہ ہمارے بیچ میں ہی رہنا چاہتی ہے۔ ڈاکٹر ڈیبرا پر حملہ کرکے ہم اپنی کیا پہچان بتانا چاہتے ہیں ؟ ہمارا دامن صاف ہوجائے گا کہ ہم یہ کہہ دیں کہ اس میں کالعدم جماعت ملوث ہے ؟
آو ۔ہم سب اپنے کانوں میں سیسہ ڈال دیں کہ ہم کچھ بھی اچھا نہ سُن سکیں ۔ ہم اپنے ہونٹوں کو سی لیں کہ ہم کچھ بھی اچھا نہ کہہ سکیں ۔آؤ ہم اپنی آنکھوں میں گرم لوہے کی سلاخیں ڈال دیں کہ جو کبھی بھی حق نہ دیکھ سکیں ، آؤ ہم اپنے اپنے دماغوں میں بھوسہ بھر لیں کہ وہ کبھی بھی کچھ بھی نہ سوچ سکے ۔
آؤ ہم اپنے ہاتھوں کو کاٹ دیں کہ مجھ میں اب اتنی ہمت نہیں کہ میں کسی علم کے شہنشاہ کی قبر پر مٹی ڈالوں۔ آؤ میرے ساتھ کہ میں اپنے بازو کہیں دور پھینک دوں کہ اب مجھ میں اتنی سکت نہیں کہ کسی سچ بولنے والے کے جنازے کوکاندھا دوں۔ آؤ کہ میں اپنے پیروں پر پڑے چھالوں کا دکھ کم کردوں اور انھیں کاٹ دوں تاکہ پھر میرے پاؤں کسی ایسی جگہ نہ جاسکیں جہاں وہ آزادی محسوس کرتے ہوں ۔ یہاں میرا اور تمھارا کام نہیں ۔ یہاں بس اُن لوگوں کا کام ہے جو ایک چابک پر سمجھ جائے کہ بادشاہ کی خدمت میں اُسے صرف سرجھکانا ہے ۔
لیکن یہ رونا یہ دکھ کس بات کا ۔جن کی مٹی ابھی تک خشک نہیں ہوئی انھیں بھی تو یہ دکھ تھا ۔ انھیں بھی تو یہ ہی درد ستائے جارہا تھا کہ یہاں کوئی بولنے والا نہیں ہے ۔ آخرکسی کو تو اپنے بند لبوں کوکھولنا ہے۔کسی کو تو دماغ کے دریچے کھولنے ہیں ۔کسی کو تو صدا حق بلند کرنی ہے ۔ ان کی زندگی کا بھی تو یہ مشن تھا کہ علم کا چراغ ہر گھر میں جلانا ہے ۔
ان کی جدوجہد بھی تو یہ ہی تھی کہ کتابوں کے خزانے کو اور بڑھانا ہے ۔ ان کی منزل بھی تو یہ ہی تھی کہ ہر گھر سے ایک وحید الرحمان نکلے ۔ جو علم کے قافلے کا رہنما ہو ۔ تو وہ کیا سمجھتے ہیں کہ اب یہ قافلہ رک جائے گا؟ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اب کوئی دلوں پر دستک نہیں ہوگی ۔ وہ کیا سوچتے ہیں کہ ایک دیا بجھ جانے سے صبح نہیں ہوگی؟ وہ یہ جانتے نہیں کہ لہوکی ہر بوند ہتھیلی پر چراغ لے کر نکلتی ہے ۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ جب پانی کا راستہ روکا جاتا ہے تو پھر سیلاب آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پانی کو تو بہنا ہے اور وہ ہر صورت میں بہے گا ۔
ایسے میں کتنی چھوٹی بات لگتی ہے جب کوئی یہ کہے کہ انھیں اُن کے مخصوص نام کی وجہ سے مارا گیا ۔ کتنی گھٹیا لگتی ہے یہ بات کہ اب کون اٹھائے گا علَم ؟کتنی فرسودہ سی یہ لائن ہے کہ ہم مذمت کرتے ہیں اورکتنی بے جان ہے یہ بات ہمیں بہت افسوس ہوا۔ کتنا حقیر ہے یہ دعوی کہ ہم قاتلوں کو گرفتارکریں گے ۔ جو قتل کو روک نہیں سکتے وہ کبھی قاتل تک نہیں پہنچ سکتے ۔ جو بھوک محسوس نہیں کرسکتے وہ روٹی دے نہیں سکتے ۔ جن کے ہاتھوں میں بندوق ہو وہ بندوق سے بچا نہیں سکتے ۔
جن کے ہاتھ خون سے بھرے ہو وہ کسی کا بہتا ہوا خون روک نہیں سکتے ۔ بنا دیجیے ایک اورانکوئری رپورٹ ، بٹھا لیجیے ایک اورکمیشن ۔ کون ہے جو نہیں جانتا کہ یہ کس کا لگایا ہوا بیج ہے جو اب گھنا درخت بن چکا ہے ۔ یہ تسلیاں اب کسی اورکو خوش کرسکتی ہیں کہ ہم قاتل کو ڈھونڈ نکالیں گے ۔ جن کی آستینوں میں سانپ چھپے ہوں وہ کبھی زہر کا پتہ نہیں چلائیں گے ۔ ہم انصاف فراہم کریں گے یہ عہد اورکتنی لاشیں تحفے میں دے گا۔ یہ مذاق کب تک ہوتا رہے گا کہ یہ بیرونی ہاتھ ہے ۔
یہ ہمارے لوگ نہیں ہے ۔ میرے گھر میں آکرکوئی مجھے قتل کرتا ہے تو مجھے دیکھنا ہو گا کہ میرا چوکیدار ہی تو سازش میں شامل نہیں ہے ۔ اب بس کر دیجیے یہ گھسی پٹی مذمت ، افسوس اور ہمدردی کے بیان ۔اب ان بیانات سے یہ لگتا ہے کہ اگلی گولی بندوق میں ڈال دی گئی ہے اور کسی کا نشانہ لیا جاچکا ہے ۔ جتنی دیر میں یہ بیان ختم نہیں ہوتا ۔اُس سے کم وقت میں اگلی گولی چل چکی ہوتی ہے ۔ تو یہ کھیل ختم کردیجیے ۔ہر طرف بس خلا ہے ۔ سب کچھ خالی خالی ہے کوئی نہیں دور دور تک جو کم سے کم مرہم رکھے ۔ حفیظ جالندھری نے کہا تھا ؎
رات ہی رات میں تمام طے ہوئے عمر کے مقام
ہو گئی زندگی کی شام ، اب میں سحرکا کیا کروں