اب پانی خلاء سے آئے گا۔۔
اب سوال "نہیں،کب یا اگر" کا نہیں ہے بلکہ اب تو معاملات یقین کی حد تک آگئے ہیں، ڈائریکٹر ڈاکٹر جیفری نیومارک
اگر ہم اپنے نظام شمسی کی بات کریں تو پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے۔جیسے ہماری دنیا کو چھوڑ کر باقی سب جگہیں یا دنیائیں بنجر اور ویران ہیں، ہر طرف خشک سطحیں ہیں اور صرف ہماری واحد دنیا ہی ایسی ہے جہاں پانی دکھائی دیتا ہے۔ لیکن جب ہمارے ماہرین اور سائنس دانوں نے دوسری دنیاؤں کی سطحوں کا جائزہ لیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے، بلکہ انہیں مکمل یقین ہوگیا کہ ان میں زیرزمین یقینی طور پر پانی موجود ہوسکتا ہے۔
ان دوسری نو دنیاؤں کے بارے میں اب ناسا کے ماہرین کو شک نہیں، بلکہ کامل یقین ہوتا جارہا ہے کہ ان سبھی کی تحتی سطحوں میں سمندر موجود ہوسکتے ہیں اور ان میں اتنی بڑی مقدار میں پانی مل سکتا ہے جو ہماری پوری دنیا میں بھی نہیں ہوگا۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر ان تمام دنیاؤں میں پانی موجود ہے تو یقینی طور پر وہاں ''زندگی'' بھی کسی نہ کسی شکل میں ضرور موجود ہوگی۔
اس حوالے سے ناسا نے ایک انفوگرافک بھی جاری کیا ہے جس میں بڑی تفصیل کے ساتھ ہمارے نظام شمسی کی مختلف دنیاؤں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان میں زیر زمین کہاں کہاں اور کیسے سمندر ہوں گے۔ناسا کی سربراہ اور چیف سائنٹسٹ ڈاکٹر ایلن اسٹوفان نے تو یہ تک دعویٰ کردیا ہے کہ ہمیں اگلے دس یا بیس برسوں میں ان مقامات پر ''زندگی'' بھی مل سکتی ہے۔
پانی کی قلت اور تلاش کے حوالے سے گذشتہ دس برسوں کے دوران ناسا کے تحت انجام دی جانے والی سائنسی سرگرمیوں نے ہر طرف ہلچل مچادی ہے اور اس ادارے کے اہم انکشافات نے ہمیں پانی کے حوالے سے زیادہ پرامید بھی کردیا ہے، اسی لیے ہمارا جوش و خروش بھی بڑھ رہا ہے اور ہماری سرگرمیوں میں بھی دن رات اضافہ ہورہا ہے۔ ہم اپنی دنیا کے علاوہ اپنے نظام شمسی کی ان نو دنیاؤں کی ابتدا اور آغاز کو کھوج رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس کائنات میں پائی جانے والی دوسری دنیاؤں میں ''زندگی'' ضرور ملے گی۔''
ڈاکٹر ایلن نے مزید کہا:''اب ہم اپنی زندگی میں ہی اس سوال کا جواب تلاش کرلیں گے کہ ہمارے نظام شمسی اور اس سے دور دنیاؤں میں زندگی موجود ہے یا نہیں۔''
ہم سب اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ پانی زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اگر پانی نہیں ہوگا تو کرۂ ارض پر انسان بھی زندہ نہیں رہ سکے گا اور دوسری حیات کے لیے بھی اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ کچھ دوسرے ماہرین اور سائنس داں اس نظریہ کے حامی ہیں کہ ان نئی دنیاؤں میں زندگی کسی دوسری شکل میں موجود ہوسکتی ہے، یعنی وہ ہم انسانوں سے کسی نہ کسی حوالے سے الگ یا بہتر ہوسکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ دوسری دنیاؤں اور سیاروں میں پائی جانے والی زندگی کو پانی کی ضرورت ہی نہ ہو۔
لیکن یہ محض ایک خیال ہے اور ابھی تک ہمیں اس بارے میں کوئی ثبوت تو نہیں مل سکے ہیں، اس لیے فی الوقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان نو دنیاؤں کا کھوج لگائیں اور یہ معلوم کریں کہ آیا اس نظام شمسی میں ہم اکیلے ہیں یا دوسری مخلوقات بھی ہماری طرح ان پر پائی جاتی ہیں۔
مذکورہ ایجینسی کا کہنا ہے:''ناسا کے مشنز نے اب تک ہمارے نظام شمسی کو جس طرح کھوجا اور کھنگالا ہے اور نئی دنیاؤں کی دریافت کی ہے، ان کا بھرپور تجزیہ کیا ہے، اس کے بعد وہ دعوے سے یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں ان سبھی مقامات پر بہت بڑی مقدار میں پانی مل سکتا ہے۔ لیکن پانی ہماری پوری ریسرچ کا ایک معمولی سا حصہ ہے، جب کہ ہمارے لیے زیادہ اہم کرۂ ارض سے دور خلاؤں اور نئی دنیاؤں میں پانی جانے والی مخلوق یا زندگی ہے۔ ہم بنیادی طور پر یہ ریسرچ کررہے ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری ریسرچ میں پانی بھی ایک اہم حوالے کی حیثیت رکھتا ہے۔''
ہم سب جانتے ہیں کہ پانی میں پائے جانے والے کیمیائی عناصر ہائیڈروجن اور آکسیجن وہ عناصر ہیں جو اس کائنات میں بہت بڑی مقدار میں موجود ہیں۔ ستاروں کے درمیان پانی کی علامات دیوہیکل مالیکیولر بادلوں میں دیکھی جاسکتی ہیں یا پھر نئے پلانیٹری سسٹمز کے طبقات میں بھی یہ علامت مل سکتی ہے۔
ہمارے نظام شمسی میں گیس پر مشتمل عظیم الجثہ سیارے جیسے جوپیٹر، سیٹرن، یورینس اور نیپچون کے بارے میں خیال ہے کہ ان کے atmosphere یا ماحول میں ڈھیروں پانی ہوسکتا ہے۔ البتہ سائنس دانوں کے لیے ٹھوس چاند اور بونے سیارے زیادہ دل چسپی کے حامل ہیں۔
مثال کے طور پر سائنس دانوں نے حال ہی میں ناسا کی ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ کی مدد سے یہ ٹھوس شہادت حاصل کی کہ جوپیٹر کے چاند Ganymedeکی تحتی سطح پر نمکین پانی کا سمندر موجود ہے جو برف کی دو تہوں کے درمیان ایک سینڈوچ کی طرح اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔
نظام شمسی کی دوسری دنیاؤں پر پانی موجود ہے جیسے جوپیٹر کے چاند Ganymede پر پایا جاتا ہے، لیکن یہ مدوجزری حدت کے باعث ہوتا ہے۔ جو پیٹر کے اردگرد اس کا مدار ہے جو مکمل طور پر گول نہیں ہے، اس لیے اس سیارے کی کشش ثقل کے باعث یہ کھنچتا اور دھکیلا جاتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی سطح کے نیچے موجود برف پگھلتی ہے اور یہی وہ پانی ہے جس کی ہم بات کررہے ہیں۔
سیٹرن کے چاندوں EuropaاورEnceladusکے بارے میں بھی یہی خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ ان دونوں کی سطحوں کے نیچے پگھلے ہوئے پانی کا سمندر ہے جس کے قریب ہی معدنیات سے مالامال چٹانیں بھی موجود ہیں، اس لیے اس پانی میں تین اجزاء شامل ہوگئے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ اجزاء زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ یہ ہیں سیال پانی اور کیمیائی عناصر جو حیاتیاتی پراسیس کے لیے درکار ہوتے ہیں۔
یہ توانائی کے اہم ذرائع ہیں اور انہیں جان دار چیزیں استعمال کرتی ہیں۔ ناسا کے Cassini missionنے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ Enceladusبرفانی گیزرز کی ایک متحرک دنیا ہے۔ حالیہ ریسرچ یہ بھی بتاتی ہے کہ اس کے سمندری فرش پر ہائیڈروتھرمل سرگرمی بھی مسلسل جاری و ساری ہے، یہ ایک ایسی ماحولیاتی صفت ہے جو جان داروں کی پرورش اور ان کی نمو کے لیے نہایت مناسب ہے۔
پانی کی علامات مرکری یا عطارد پر پائے جانے والے آتش فشاں کے دہانوں کے پاس بھی دیکھی گئی ہیں۔ ایسا بھی لگتا ہے کہ کسی زمانے میں مارس یا مریخ پر پانی موجود تھا اور آج بھی اس کی سطح پر پانی کے دریا پائے جاتے ہیں، چاہے وہ مسلسل بہتے ہوں یا نہیں، مگر وہ موجود ضرور ہیں۔ اسی طرح زمین اور جوپیٹر کے درمیان موجود بونے سیارےCeres کی سطح پر بھی پانی ہوسکتا ہے اور اس میں زیر زمین بھی پانی مل سکتا ہے۔
ناسا کا ایک خلائی جہاز Dawnحال ہی میں اس کے مدار میں پہنچا ہے، امید ہے کہ یہ بتاسکے گا کہ یہ دنیا کس حد تک نم یا گیلی ہے۔کچھ اور سیاروں کے چاندوں جیسے Callisto, Titan, Mimasاور Triton کے بارے میں بھی یہی خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ ان پر بھی زیر زمین سمندر موجود ہیں، جب کہ پلوٹو جو ہمارے نظام شمسی کے انتہائی کنارے پر واقع ہے، یہ بھی نم یا گیلا سیارہ ہے اور اس پر پانی یقینی طور پر مل سکتا ہے۔
اگریہ ثابت ہوجائے کہ ان تمام نو دنیاؤں یا سیاروں پر پانی موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمارے نظام شمسی سے پرے،دور بہت دور پائے جانے والے دیگر سیاروں پر بھی یا تو سطح پر پانی کے سمندر ہوں گے یا زیر زمین یہ نعمت خداوندی مل سکتی ہے۔
اب اس ضمن میں کئی مشن پائپ لائن میں ہیں جن میں قریب ترین Transiting Exoplanet Survey Satellite (Tess)ہے جو 2017میں لانچ ہوگا اور یہ زمین جیسی نئی دنیاؤں اور چمک دار ستاروں کے قریب پہنچے گا جن میں سے بعض پر یقینی طور پر پانی ملے گا۔ ناسا کا اگلا خلائی پراجیکٹ گریٹ اسپیس آبزرویٹری اور جیمس ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ 2019میں خلاء میں روانہ کی جائے گی اور یہ دونوں ہی ان انوکھی اور نئی دنیاؤں کا اور ان کے فضائی ماحول کا مشاہدہ کریں گی۔
خلائی ماہرین اور سائنس داں یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم نے نئی دنیاؤں میں پانی دریافت کرلیا تو پھر ہمیں زمین پر پانی کی قلت پر پریشان ہونا نہیں پڑے گا اورنہ ہی ہم خشک دریاؤں،جھیلوں اورچشموں پر فکرمند ہوں گے، کیوں کہ ہمارے کرۂ ارض پرجو پانی آج پایا جاتا ہے وہ بھی تو کہیں باہر سے ہی آیا تھا۔
ہمارے نظام شمسی کی ہر دنیا نے اسی طرح دوسرے ذرائع سے پانی حاصل کیا ہوگا، چناں چہ ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ اب آپ اس وقت کا استقبال کرنے کی تیاری کریں جب آپ پانی کا ایک گلاس اپنے ہونٹوں تک لے جائیں گے تو پوچھیں گے:''یہ پانی کس کومٹ (دم دار ستارے) سے منگوایا گیا ہے؟ کیا یہ چاند کے سمندر کا پانی ہے یا مریخ کے کسی ایسے سمندر کا ہے جو اب خشک ہوچکا ہے۔''
یہ بھی واضح رہے کہ رات کے وقت ہماری دنیا کا آسمان exoplanetsسے بھرا ہوگا۔ واضح رہے کہ exoplanetsوہ سیارہ ہے جو سورج کے گرد گردش کرنے کے بجائے کسی ستارے کے گرد گردش کرتا ہے۔ چناں چہ وہ وقت جلد آنے والا ہے جب ہماری زمین سے خلاء میں بھیجے گئے مصنوعی سیاروں سے ہماری دنیا کا آسمان سجا ہوا دکھائی دے گا۔
یہاں ہمارے لوگ ایک سوال کرتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہماری اس زمین، ہمارے کرۂ ارض پر تو پانی ہے، مگر دوسرے سیاروں پر بظاہر نہیں ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ ایسا الجھا ہوا سوال ہے کہ جس کا بالکل صحیح جواب ہمارے سائنس دانوں کے پاس نہیں ہے، مگر ایسی بہت سی تھیوریز یا نظریات موجود ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ زمین پر پانی کیوں ہے اور دوسرے سیاروں پر کیوں نہیں ہے۔ پہلے ہم اپنی زمین کا موازنہ اس کے دو پڑوسیوں زہرہ یعنی وینس اور مریخ یعنی مارس سے کرتے ہیں۔
زہرہ کا سائز ہماری زمین جتنا ہی ہے، لیکن یہ بے حد گرم اور خشک ہے۔ یہاں کا درجۂ حرارت سینکڑوں ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ یہ سیارہ CO2 اور سلفر کمپاؤنڈز کے گاڑھے بادلوں میں ڈھکا ہوا ہے۔ ممکن ہے زہرہ پر اربوں سال پہلے کبھی پانی رہا ہو، مگر اس کے ساتھ دو مسائل تھے: پہلا یہ کہ یہ سورج سے بہت قریب ہونے کی وجہ سے نہایت کمزور مقناطیسی فیلڈ کا مالک تھا۔ ان دو عناصر کی وجہ سے نہایت گرم شمسی ہواؤں نے اس کے ماحول سے پانی کو ختم کردیا تھا۔ اس کے مقابلے میں زمین کا اپنا مقناطیسی فیلڈ ہے جو اس کی حفاظتی تہہ کے طور پر کام کرتا ہے۔
یہ شمسی ہواؤں کو دور دھکیل دیتا ہے اور وہ ہمارے پانی کو خشک نہیں کرپاتیں۔ دوسرے یہ کہ زمین سورج سے زیادہ دور بھی ہے اس لیے یہ ٹھنڈی رہتی ہے اور زمین کا پانی یا تو سیال شکل میں رہتا ہے یا منجمد شکل میں، مگر یہ ختم نہیں ہوپاتا۔ اب کچھ بات مریخ کی۔ اس کا مسئلہ دوسرا ہے۔ یہ زمین کے مقابلے میں زیادہ چھوٹا بھی ہے اور زیادہ ٹھنڈا بھی۔ اس کی مقناطیسی فیلڈ بھی بہت کمزور ہے اور اس کا پانی بھی شمسی ہواؤں کی وجہ سے اسی طرح ختم ہوگیا ہوگا جس طرح زہرہ کا پانی ختم ہوا تھا۔
چوں کہ یہ بہت چھوٹا ہے، اس لیے اس کی کشش ثقل بھی کم ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اسے پانی کے مالیکیولز کو شمسی ہوا کی وجہ سے خلاء میں پھٹنے کے لیے کم توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مریخ کے بارے میں اندازہ ہے کہ اس پر پانی موجود ہے۔ حال ہی میں ایسی شہادت ملی ہے کہ اگر مریخ پر واقعی پانی موجود ہے تو وہ منجمد شکل میں ہے اور زمین کی سطح کے نیچے دفن ہے۔ لیکن یہ شک بھی کیا جارہا ہے کہ اگر مریخ پر پانی موجود ہے تو وہ زمین کے مقابلے میں کم ہوگا۔
اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر آپ ایک سیارے پر رہتے ہیں اور آپ کو پانی کی وافر مقدار میں ضرورت ہے تو کئی چیزیں بالکل ٹھیک ٹھاک ہونی چاہییں۔ پہلی بات یہ ہے کہ آپ کو سورج کے زیادہ قریب نہیں ہونا چاہیے ورنہ آپ کے سیارے کا پانی ابل کر ختم ہوجائے گا اور اس سیارے کی فضا میں مل جائے گا۔ دوسرے یہ کہ آپ کو سورج سے زیادہ فاصلے پر بھی نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ اس صورت میں آپ کے سیارے پر موجود پانی جم جائے گا۔
تیسری بات یہ کہ آپ کے سیارے کی میگنیٹک فیلڈ یا مقناطیسی میدان بہت مضبوط ہونا چاہیے، تاکہ آپ کا پانی شمسی ہواؤں سے محفوظ رہے اور آپ کے سیارے کو بہت بڑا ور بھاری بھی ہونا چاہیے، تاکہ آپ کا پانی کھنچ کر خلا میں نہ چلا جائے۔
ہم اکثر اپنے سائنس دانوں اور ماہرین سے یہ سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ زمین پر پانی کیسے آتا ہے؟
یہ پانی ہماری دنیا سے باہر کی دنیا سے آیا، مگر اس کے لیے پانی کا بالکل صحیح اور متوازن اتصال combination درکار تھا جس کے بعد ہی ہمارا سیارہ پانی سے بھر گیا۔
صبح سویرے گرنے والی شبنم اور گرجتے ہوئے آبشاروں نے ہمارے شاعروں کو بھی متاثر کیا۔ مگر ساتھ ہی سمندری اور ہوائی طوفانوں جیسے Hurricanes اور typhoons نے بھی بڑی تباہی مچائی۔ پگھلتے ہوئے گلیشیئرز اور سمندری مدوجزر نے بھی ہمارے سامنے متعدد چیلینج کھڑے کیے، مگر اس کے باوجود بھی ہماری دنیا پیاسی ہی رہی۔ پانی ہماری دنیا اور اس پر بسنے والی زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے، مگر ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ آتا کہاں سے ہے۔
کم عمری میں اسکول میں بچوں کو پڑھایا جاتا ہے کہ ہماری زمین پر پائے جانے والے سمندروں، جھیلوں، دریاؤں وغیرہ کا پانی سورج کی تپش سے بھاپ بن کر اڑتا ہے جس سے بادل بنتے ہیں اور ان بادلوں کی وجہ سے ہی بارش ہوتی ہے جو ایک بار پھر ہمارے سمندروں، جھیلوں اور دریاؤں کو پانی سے بھردیتی ہے۔ یہ تو ایک سائیکل یا چکر ہے جو مسلسل جاری و ساری ہے، مگر اصل سوال یہ ہے کہ ہماری زمین پر بالکل شروع میں پانی آیا کہاں سے تھا؟ ہماری زمین پر پانی کے آنے کی کہانی لگ بھگ 13.8ارب سال پرانی ہے جب یہاں بگ بینگ یا عظیم دھماکا ہوا تھا۔ اس کی وجہ سے بے حد شدید توانائی کی لہریں پیدا ہوئیں اور گرم ذرات کا ایک سیلاب آگیا۔
اس کے بعد یہ ذرات آپس میں ملتے اور جڑتے چلے گئے جس کی وجہ سے atomic nucleiوجود میں آئی۔ پھر ڈھیروں ہائیڈروجن اور کم ہیلیم پیدا ہوئی۔ اس میں لیتھیم بھی ملی جس نے مزید ہائیڈروجن پیدا کی اور اس طرح پانی ملنے کی راہ ہموار ہوئی جس کے لیے دوسری ضروری چیز آکسیجن تھی۔ اس کے ایک ارب سال بعد ستارے اس منظر نامے میں داخل ہوئے۔
یہ ستارے ایک طرح سے نیوکلیئر بھٹیاں ہیں جنہوں نے بگ بینگ کے دھماکے کی راہ ہموار کی۔ پھر مزید پیچیدہ عناصر ظہور میں آئے جن میں کاربن، نائٹروجن اور آکسیجن شامل تھی۔ خلا میں عناصر کا کام جاری رہا اور پھر آکسیجن اور ہائیڈروجن نے مل کر H2Oکو جنم دیا۔ اس طرح پانی تو وجود میں آیا تھا مگر چوں کہ خلا میں ایک فضا پہلے سے موجود تھی جس کی سطح پر پانی بھی تھا، یہ پانی بخارات بن کر واپس خلا میں چلا گیا۔ آج ہمیں اپنی زمین پر جو پانی دکھائی دیتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ بہت بہت طویل عرصے پہلے ہماری زمین کے وجود میں آنے کے بعد اس تک پہنچا ہوگا۔ گویا پانی ایک خلائی تحفہ ہے اور خلاء سے ہی ہماری زمین پر آیا ہے۔
خلاء میں جانے والے ہمارے خلاء نوردوں کا یہ کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ہماری زمین پر پانی جن ذرائع سے پہنچا تھا، وہ comets(دم دار ستارے) اورasteroidsیا سیارچے تھے۔ ان دونوں میں برف ہوسکتی ہے اور یہ اسے ساتھ بھی لے جاسکتے ہیں۔ اور اگر یہ زمین سے ٹکراجائیں تو ان کے ذریعے ہماری زمین کو بڑی مقدار میں پانی مل سکتا ہے۔ ممکن ہے ماضی بعید میں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ بہت طویل عرصہ پہلے ان دم دار ستاروںاور سیارچوں نے اسی طرح ہماری زمین تک پانی پہنچایا ہوگا، مگر اس میں کتنی سچائی ہے، اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا اور یہ فی الحال ایک سربستہ راز ہی ہے۔
آپ جب کبھی اپنے گھر میں پانی کا نل کھولیں تو یہ ضرور سوچیں کہ جس پانی کو ہم بڑی بے دردی اور فراخ دلی کے ساتھ استعمال کررہے ہیں، یہ دوسری دنیاؤں سے کتنا طویل سفر طے کرکے ہم تک پہنچا ہے، اس لیے ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے اور اسے خواہ مخواہ ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
ناسا کا دعویٰ
''ہم اگلے دس سے بیس برسوں میں زندگی تلاش کرلیں گے''
ناسا کے عہدے داران کا یہ دعویٰ ہے کہ ہماری کہکشاؤں میں ہماری زمین جیسے کم از کم 200ارب سیارے موجود ہیں اور ہم جلد ہی ان میں سے کسی ایک پر زندگی کو تلاش کرنے میں کامیابی حاصل کرلیں گے۔ واشنگٹن میں ایک ٹاک شو میں اسپیس ایجینسی نے یہ اعلان کیا کہ جلد ہی ہمارا سابقہ بہت جلد، کم و بیش ایک عشرے کے دوران خلائی مخلوق سے پڑسکتا ہے جو دوسرے نظام شمسی کے دیگر سیاروں پر آباد ہے۔
ناسا کی چیف سائنٹسٹ ڈاکٹر ایلن اسٹافون نے یہ بھی کہا کہ ''میرا خیال بلکہ مجھے کامل یقین ہے کہ ہمیں کرۂ ارض سے بہت دور پرے واقع سیاروں پر زندگی کے ٹھوس شواہد مل رہے ہیں اور اسی لیے اگلے دس سے برس ہماری کامیابی کے ہوں گے جب ہمارا آمنا سامنا خلائی مخلوق سے ہوگا۔ ہمیں پتا ہے کہ ہمیں کہاں اور کیا کھوجنا ہے اور اس کے لیے ہمارے پاس تمام جدید ٹیکنالوجی موجود ہے۔''
ایجینسی میں کام کرنے والے عبوری ڈائریکٹر ڈاکٹر جیفری نیومارک کا یہ بھی کہنا ہے:''اب سوال ''نہیں''، ''کب'' یا ''اگر'' کا نہیں ہے، بلکہ اب تو معاملات یقین کی حد تک آگئے ہیں۔''
ڈاکٹر ایلن کہتی ہیں:''ہم یہاں چھوٹے سبز بالشتیوں کی بات نہیں کررہے جو بعض یورپی ملکوں میں پائے جاتے ہیں، بلکہ ہم تو چھوٹے چھوٹے microbes یا خردبینی جرثوموں کی بات کررہے ہیں۔''
ان دوسری نو دنیاؤں کے بارے میں اب ناسا کے ماہرین کو شک نہیں، بلکہ کامل یقین ہوتا جارہا ہے کہ ان سبھی کی تحتی سطحوں میں سمندر موجود ہوسکتے ہیں اور ان میں اتنی بڑی مقدار میں پانی مل سکتا ہے جو ہماری پوری دنیا میں بھی نہیں ہوگا۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر ان تمام دنیاؤں میں پانی موجود ہے تو یقینی طور پر وہاں ''زندگی'' بھی کسی نہ کسی شکل میں ضرور موجود ہوگی۔
اس حوالے سے ناسا نے ایک انفوگرافک بھی جاری کیا ہے جس میں بڑی تفصیل کے ساتھ ہمارے نظام شمسی کی مختلف دنیاؤں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان میں زیر زمین کہاں کہاں اور کیسے سمندر ہوں گے۔ناسا کی سربراہ اور چیف سائنٹسٹ ڈاکٹر ایلن اسٹوفان نے تو یہ تک دعویٰ کردیا ہے کہ ہمیں اگلے دس یا بیس برسوں میں ان مقامات پر ''زندگی'' بھی مل سکتی ہے۔
پانی کی قلت اور تلاش کے حوالے سے گذشتہ دس برسوں کے دوران ناسا کے تحت انجام دی جانے والی سائنسی سرگرمیوں نے ہر طرف ہلچل مچادی ہے اور اس ادارے کے اہم انکشافات نے ہمیں پانی کے حوالے سے زیادہ پرامید بھی کردیا ہے، اسی لیے ہمارا جوش و خروش بھی بڑھ رہا ہے اور ہماری سرگرمیوں میں بھی دن رات اضافہ ہورہا ہے۔ ہم اپنی دنیا کے علاوہ اپنے نظام شمسی کی ان نو دنیاؤں کی ابتدا اور آغاز کو کھوج رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس کائنات میں پائی جانے والی دوسری دنیاؤں میں ''زندگی'' ضرور ملے گی۔''
ڈاکٹر ایلن نے مزید کہا:''اب ہم اپنی زندگی میں ہی اس سوال کا جواب تلاش کرلیں گے کہ ہمارے نظام شمسی اور اس سے دور دنیاؤں میں زندگی موجود ہے یا نہیں۔''
ہم سب اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ پانی زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اگر پانی نہیں ہوگا تو کرۂ ارض پر انسان بھی زندہ نہیں رہ سکے گا اور دوسری حیات کے لیے بھی اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ کچھ دوسرے ماہرین اور سائنس داں اس نظریہ کے حامی ہیں کہ ان نئی دنیاؤں میں زندگی کسی دوسری شکل میں موجود ہوسکتی ہے، یعنی وہ ہم انسانوں سے کسی نہ کسی حوالے سے الگ یا بہتر ہوسکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ دوسری دنیاؤں اور سیاروں میں پائی جانے والی زندگی کو پانی کی ضرورت ہی نہ ہو۔
لیکن یہ محض ایک خیال ہے اور ابھی تک ہمیں اس بارے میں کوئی ثبوت تو نہیں مل سکے ہیں، اس لیے فی الوقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان نو دنیاؤں کا کھوج لگائیں اور یہ معلوم کریں کہ آیا اس نظام شمسی میں ہم اکیلے ہیں یا دوسری مخلوقات بھی ہماری طرح ان پر پائی جاتی ہیں۔
مذکورہ ایجینسی کا کہنا ہے:''ناسا کے مشنز نے اب تک ہمارے نظام شمسی کو جس طرح کھوجا اور کھنگالا ہے اور نئی دنیاؤں کی دریافت کی ہے، ان کا بھرپور تجزیہ کیا ہے، اس کے بعد وہ دعوے سے یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں ان سبھی مقامات پر بہت بڑی مقدار میں پانی مل سکتا ہے۔ لیکن پانی ہماری پوری ریسرچ کا ایک معمولی سا حصہ ہے، جب کہ ہمارے لیے زیادہ اہم کرۂ ارض سے دور خلاؤں اور نئی دنیاؤں میں پانی جانے والی مخلوق یا زندگی ہے۔ ہم بنیادی طور پر یہ ریسرچ کررہے ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری ریسرچ میں پانی بھی ایک اہم حوالے کی حیثیت رکھتا ہے۔''
ہم سب جانتے ہیں کہ پانی میں پائے جانے والے کیمیائی عناصر ہائیڈروجن اور آکسیجن وہ عناصر ہیں جو اس کائنات میں بہت بڑی مقدار میں موجود ہیں۔ ستاروں کے درمیان پانی کی علامات دیوہیکل مالیکیولر بادلوں میں دیکھی جاسکتی ہیں یا پھر نئے پلانیٹری سسٹمز کے طبقات میں بھی یہ علامت مل سکتی ہے۔
ہمارے نظام شمسی میں گیس پر مشتمل عظیم الجثہ سیارے جیسے جوپیٹر، سیٹرن، یورینس اور نیپچون کے بارے میں خیال ہے کہ ان کے atmosphere یا ماحول میں ڈھیروں پانی ہوسکتا ہے۔ البتہ سائنس دانوں کے لیے ٹھوس چاند اور بونے سیارے زیادہ دل چسپی کے حامل ہیں۔
مثال کے طور پر سائنس دانوں نے حال ہی میں ناسا کی ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ کی مدد سے یہ ٹھوس شہادت حاصل کی کہ جوپیٹر کے چاند Ganymedeکی تحتی سطح پر نمکین پانی کا سمندر موجود ہے جو برف کی دو تہوں کے درمیان ایک سینڈوچ کی طرح اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔
نظام شمسی کی دوسری دنیاؤں پر پانی موجود ہے جیسے جوپیٹر کے چاند Ganymede پر پایا جاتا ہے، لیکن یہ مدوجزری حدت کے باعث ہوتا ہے۔ جو پیٹر کے اردگرد اس کا مدار ہے جو مکمل طور پر گول نہیں ہے، اس لیے اس سیارے کی کشش ثقل کے باعث یہ کھنچتا اور دھکیلا جاتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی سطح کے نیچے موجود برف پگھلتی ہے اور یہی وہ پانی ہے جس کی ہم بات کررہے ہیں۔
سیٹرن کے چاندوں EuropaاورEnceladusکے بارے میں بھی یہی خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ ان دونوں کی سطحوں کے نیچے پگھلے ہوئے پانی کا سمندر ہے جس کے قریب ہی معدنیات سے مالامال چٹانیں بھی موجود ہیں، اس لیے اس پانی میں تین اجزاء شامل ہوگئے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ اجزاء زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ یہ ہیں سیال پانی اور کیمیائی عناصر جو حیاتیاتی پراسیس کے لیے درکار ہوتے ہیں۔
یہ توانائی کے اہم ذرائع ہیں اور انہیں جان دار چیزیں استعمال کرتی ہیں۔ ناسا کے Cassini missionنے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ Enceladusبرفانی گیزرز کی ایک متحرک دنیا ہے۔ حالیہ ریسرچ یہ بھی بتاتی ہے کہ اس کے سمندری فرش پر ہائیڈروتھرمل سرگرمی بھی مسلسل جاری و ساری ہے، یہ ایک ایسی ماحولیاتی صفت ہے جو جان داروں کی پرورش اور ان کی نمو کے لیے نہایت مناسب ہے۔
پانی کی علامات مرکری یا عطارد پر پائے جانے والے آتش فشاں کے دہانوں کے پاس بھی دیکھی گئی ہیں۔ ایسا بھی لگتا ہے کہ کسی زمانے میں مارس یا مریخ پر پانی موجود تھا اور آج بھی اس کی سطح پر پانی کے دریا پائے جاتے ہیں، چاہے وہ مسلسل بہتے ہوں یا نہیں، مگر وہ موجود ضرور ہیں۔ اسی طرح زمین اور جوپیٹر کے درمیان موجود بونے سیارےCeres کی سطح پر بھی پانی ہوسکتا ہے اور اس میں زیر زمین بھی پانی مل سکتا ہے۔
ناسا کا ایک خلائی جہاز Dawnحال ہی میں اس کے مدار میں پہنچا ہے، امید ہے کہ یہ بتاسکے گا کہ یہ دنیا کس حد تک نم یا گیلی ہے۔کچھ اور سیاروں کے چاندوں جیسے Callisto, Titan, Mimasاور Triton کے بارے میں بھی یہی خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ ان پر بھی زیر زمین سمندر موجود ہیں، جب کہ پلوٹو جو ہمارے نظام شمسی کے انتہائی کنارے پر واقع ہے، یہ بھی نم یا گیلا سیارہ ہے اور اس پر پانی یقینی طور پر مل سکتا ہے۔
اگریہ ثابت ہوجائے کہ ان تمام نو دنیاؤں یا سیاروں پر پانی موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمارے نظام شمسی سے پرے،دور بہت دور پائے جانے والے دیگر سیاروں پر بھی یا تو سطح پر پانی کے سمندر ہوں گے یا زیر زمین یہ نعمت خداوندی مل سکتی ہے۔
اب اس ضمن میں کئی مشن پائپ لائن میں ہیں جن میں قریب ترین Transiting Exoplanet Survey Satellite (Tess)ہے جو 2017میں لانچ ہوگا اور یہ زمین جیسی نئی دنیاؤں اور چمک دار ستاروں کے قریب پہنچے گا جن میں سے بعض پر یقینی طور پر پانی ملے گا۔ ناسا کا اگلا خلائی پراجیکٹ گریٹ اسپیس آبزرویٹری اور جیمس ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ 2019میں خلاء میں روانہ کی جائے گی اور یہ دونوں ہی ان انوکھی اور نئی دنیاؤں کا اور ان کے فضائی ماحول کا مشاہدہ کریں گی۔
خلائی ماہرین اور سائنس داں یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم نے نئی دنیاؤں میں پانی دریافت کرلیا تو پھر ہمیں زمین پر پانی کی قلت پر پریشان ہونا نہیں پڑے گا اورنہ ہی ہم خشک دریاؤں،جھیلوں اورچشموں پر فکرمند ہوں گے، کیوں کہ ہمارے کرۂ ارض پرجو پانی آج پایا جاتا ہے وہ بھی تو کہیں باہر سے ہی آیا تھا۔
ہمارے نظام شمسی کی ہر دنیا نے اسی طرح دوسرے ذرائع سے پانی حاصل کیا ہوگا، چناں چہ ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ اب آپ اس وقت کا استقبال کرنے کی تیاری کریں جب آپ پانی کا ایک گلاس اپنے ہونٹوں تک لے جائیں گے تو پوچھیں گے:''یہ پانی کس کومٹ (دم دار ستارے) سے منگوایا گیا ہے؟ کیا یہ چاند کے سمندر کا پانی ہے یا مریخ کے کسی ایسے سمندر کا ہے جو اب خشک ہوچکا ہے۔''
یہ بھی واضح رہے کہ رات کے وقت ہماری دنیا کا آسمان exoplanetsسے بھرا ہوگا۔ واضح رہے کہ exoplanetsوہ سیارہ ہے جو سورج کے گرد گردش کرنے کے بجائے کسی ستارے کے گرد گردش کرتا ہے۔ چناں چہ وہ وقت جلد آنے والا ہے جب ہماری زمین سے خلاء میں بھیجے گئے مصنوعی سیاروں سے ہماری دنیا کا آسمان سجا ہوا دکھائی دے گا۔
یہاں ہمارے لوگ ایک سوال کرتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہماری اس زمین، ہمارے کرۂ ارض پر تو پانی ہے، مگر دوسرے سیاروں پر بظاہر نہیں ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ ایسا الجھا ہوا سوال ہے کہ جس کا بالکل صحیح جواب ہمارے سائنس دانوں کے پاس نہیں ہے، مگر ایسی بہت سی تھیوریز یا نظریات موجود ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ زمین پر پانی کیوں ہے اور دوسرے سیاروں پر کیوں نہیں ہے۔ پہلے ہم اپنی زمین کا موازنہ اس کے دو پڑوسیوں زہرہ یعنی وینس اور مریخ یعنی مارس سے کرتے ہیں۔
زہرہ کا سائز ہماری زمین جتنا ہی ہے، لیکن یہ بے حد گرم اور خشک ہے۔ یہاں کا درجۂ حرارت سینکڑوں ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ یہ سیارہ CO2 اور سلفر کمپاؤنڈز کے گاڑھے بادلوں میں ڈھکا ہوا ہے۔ ممکن ہے زہرہ پر اربوں سال پہلے کبھی پانی رہا ہو، مگر اس کے ساتھ دو مسائل تھے: پہلا یہ کہ یہ سورج سے بہت قریب ہونے کی وجہ سے نہایت کمزور مقناطیسی فیلڈ کا مالک تھا۔ ان دو عناصر کی وجہ سے نہایت گرم شمسی ہواؤں نے اس کے ماحول سے پانی کو ختم کردیا تھا۔ اس کے مقابلے میں زمین کا اپنا مقناطیسی فیلڈ ہے جو اس کی حفاظتی تہہ کے طور پر کام کرتا ہے۔
یہ شمسی ہواؤں کو دور دھکیل دیتا ہے اور وہ ہمارے پانی کو خشک نہیں کرپاتیں۔ دوسرے یہ کہ زمین سورج سے زیادہ دور بھی ہے اس لیے یہ ٹھنڈی رہتی ہے اور زمین کا پانی یا تو سیال شکل میں رہتا ہے یا منجمد شکل میں، مگر یہ ختم نہیں ہوپاتا۔ اب کچھ بات مریخ کی۔ اس کا مسئلہ دوسرا ہے۔ یہ زمین کے مقابلے میں زیادہ چھوٹا بھی ہے اور زیادہ ٹھنڈا بھی۔ اس کی مقناطیسی فیلڈ بھی بہت کمزور ہے اور اس کا پانی بھی شمسی ہواؤں کی وجہ سے اسی طرح ختم ہوگیا ہوگا جس طرح زہرہ کا پانی ختم ہوا تھا۔
چوں کہ یہ بہت چھوٹا ہے، اس لیے اس کی کشش ثقل بھی کم ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اسے پانی کے مالیکیولز کو شمسی ہوا کی وجہ سے خلاء میں پھٹنے کے لیے کم توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مریخ کے بارے میں اندازہ ہے کہ اس پر پانی موجود ہے۔ حال ہی میں ایسی شہادت ملی ہے کہ اگر مریخ پر واقعی پانی موجود ہے تو وہ منجمد شکل میں ہے اور زمین کی سطح کے نیچے دفن ہے۔ لیکن یہ شک بھی کیا جارہا ہے کہ اگر مریخ پر پانی موجود ہے تو وہ زمین کے مقابلے میں کم ہوگا۔
اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر آپ ایک سیارے پر رہتے ہیں اور آپ کو پانی کی وافر مقدار میں ضرورت ہے تو کئی چیزیں بالکل ٹھیک ٹھاک ہونی چاہییں۔ پہلی بات یہ ہے کہ آپ کو سورج کے زیادہ قریب نہیں ہونا چاہیے ورنہ آپ کے سیارے کا پانی ابل کر ختم ہوجائے گا اور اس سیارے کی فضا میں مل جائے گا۔ دوسرے یہ کہ آپ کو سورج سے زیادہ فاصلے پر بھی نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ اس صورت میں آپ کے سیارے پر موجود پانی جم جائے گا۔
تیسری بات یہ کہ آپ کے سیارے کی میگنیٹک فیلڈ یا مقناطیسی میدان بہت مضبوط ہونا چاہیے، تاکہ آپ کا پانی شمسی ہواؤں سے محفوظ رہے اور آپ کے سیارے کو بہت بڑا ور بھاری بھی ہونا چاہیے، تاکہ آپ کا پانی کھنچ کر خلا میں نہ چلا جائے۔
ہم اکثر اپنے سائنس دانوں اور ماہرین سے یہ سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ زمین پر پانی کیسے آتا ہے؟
یہ پانی ہماری دنیا سے باہر کی دنیا سے آیا، مگر اس کے لیے پانی کا بالکل صحیح اور متوازن اتصال combination درکار تھا جس کے بعد ہی ہمارا سیارہ پانی سے بھر گیا۔
صبح سویرے گرنے والی شبنم اور گرجتے ہوئے آبشاروں نے ہمارے شاعروں کو بھی متاثر کیا۔ مگر ساتھ ہی سمندری اور ہوائی طوفانوں جیسے Hurricanes اور typhoons نے بھی بڑی تباہی مچائی۔ پگھلتے ہوئے گلیشیئرز اور سمندری مدوجزر نے بھی ہمارے سامنے متعدد چیلینج کھڑے کیے، مگر اس کے باوجود بھی ہماری دنیا پیاسی ہی رہی۔ پانی ہماری دنیا اور اس پر بسنے والی زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے، مگر ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ آتا کہاں سے ہے۔
کم عمری میں اسکول میں بچوں کو پڑھایا جاتا ہے کہ ہماری زمین پر پائے جانے والے سمندروں، جھیلوں، دریاؤں وغیرہ کا پانی سورج کی تپش سے بھاپ بن کر اڑتا ہے جس سے بادل بنتے ہیں اور ان بادلوں کی وجہ سے ہی بارش ہوتی ہے جو ایک بار پھر ہمارے سمندروں، جھیلوں اور دریاؤں کو پانی سے بھردیتی ہے۔ یہ تو ایک سائیکل یا چکر ہے جو مسلسل جاری و ساری ہے، مگر اصل سوال یہ ہے کہ ہماری زمین پر بالکل شروع میں پانی آیا کہاں سے تھا؟ ہماری زمین پر پانی کے آنے کی کہانی لگ بھگ 13.8ارب سال پرانی ہے جب یہاں بگ بینگ یا عظیم دھماکا ہوا تھا۔ اس کی وجہ سے بے حد شدید توانائی کی لہریں پیدا ہوئیں اور گرم ذرات کا ایک سیلاب آگیا۔
اس کے بعد یہ ذرات آپس میں ملتے اور جڑتے چلے گئے جس کی وجہ سے atomic nucleiوجود میں آئی۔ پھر ڈھیروں ہائیڈروجن اور کم ہیلیم پیدا ہوئی۔ اس میں لیتھیم بھی ملی جس نے مزید ہائیڈروجن پیدا کی اور اس طرح پانی ملنے کی راہ ہموار ہوئی جس کے لیے دوسری ضروری چیز آکسیجن تھی۔ اس کے ایک ارب سال بعد ستارے اس منظر نامے میں داخل ہوئے۔
یہ ستارے ایک طرح سے نیوکلیئر بھٹیاں ہیں جنہوں نے بگ بینگ کے دھماکے کی راہ ہموار کی۔ پھر مزید پیچیدہ عناصر ظہور میں آئے جن میں کاربن، نائٹروجن اور آکسیجن شامل تھی۔ خلا میں عناصر کا کام جاری رہا اور پھر آکسیجن اور ہائیڈروجن نے مل کر H2Oکو جنم دیا۔ اس طرح پانی تو وجود میں آیا تھا مگر چوں کہ خلا میں ایک فضا پہلے سے موجود تھی جس کی سطح پر پانی بھی تھا، یہ پانی بخارات بن کر واپس خلا میں چلا گیا۔ آج ہمیں اپنی زمین پر جو پانی دکھائی دیتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ بہت بہت طویل عرصے پہلے ہماری زمین کے وجود میں آنے کے بعد اس تک پہنچا ہوگا۔ گویا پانی ایک خلائی تحفہ ہے اور خلاء سے ہی ہماری زمین پر آیا ہے۔
خلاء میں جانے والے ہمارے خلاء نوردوں کا یہ کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ہماری زمین پر پانی جن ذرائع سے پہنچا تھا، وہ comets(دم دار ستارے) اورasteroidsیا سیارچے تھے۔ ان دونوں میں برف ہوسکتی ہے اور یہ اسے ساتھ بھی لے جاسکتے ہیں۔ اور اگر یہ زمین سے ٹکراجائیں تو ان کے ذریعے ہماری زمین کو بڑی مقدار میں پانی مل سکتا ہے۔ ممکن ہے ماضی بعید میں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ بہت طویل عرصہ پہلے ان دم دار ستاروںاور سیارچوں نے اسی طرح ہماری زمین تک پانی پہنچایا ہوگا، مگر اس میں کتنی سچائی ہے، اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا اور یہ فی الحال ایک سربستہ راز ہی ہے۔
آپ جب کبھی اپنے گھر میں پانی کا نل کھولیں تو یہ ضرور سوچیں کہ جس پانی کو ہم بڑی بے دردی اور فراخ دلی کے ساتھ استعمال کررہے ہیں، یہ دوسری دنیاؤں سے کتنا طویل سفر طے کرکے ہم تک پہنچا ہے، اس لیے ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے اور اسے خواہ مخواہ ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
ناسا کا دعویٰ
''ہم اگلے دس سے بیس برسوں میں زندگی تلاش کرلیں گے''
ناسا کے عہدے داران کا یہ دعویٰ ہے کہ ہماری کہکشاؤں میں ہماری زمین جیسے کم از کم 200ارب سیارے موجود ہیں اور ہم جلد ہی ان میں سے کسی ایک پر زندگی کو تلاش کرنے میں کامیابی حاصل کرلیں گے۔ واشنگٹن میں ایک ٹاک شو میں اسپیس ایجینسی نے یہ اعلان کیا کہ جلد ہی ہمارا سابقہ بہت جلد، کم و بیش ایک عشرے کے دوران خلائی مخلوق سے پڑسکتا ہے جو دوسرے نظام شمسی کے دیگر سیاروں پر آباد ہے۔
ناسا کی چیف سائنٹسٹ ڈاکٹر ایلن اسٹافون نے یہ بھی کہا کہ ''میرا خیال بلکہ مجھے کامل یقین ہے کہ ہمیں کرۂ ارض سے بہت دور پرے واقع سیاروں پر زندگی کے ٹھوس شواہد مل رہے ہیں اور اسی لیے اگلے دس سے برس ہماری کامیابی کے ہوں گے جب ہمارا آمنا سامنا خلائی مخلوق سے ہوگا۔ ہمیں پتا ہے کہ ہمیں کہاں اور کیا کھوجنا ہے اور اس کے لیے ہمارے پاس تمام جدید ٹیکنالوجی موجود ہے۔''
ایجینسی میں کام کرنے والے عبوری ڈائریکٹر ڈاکٹر جیفری نیومارک کا یہ بھی کہنا ہے:''اب سوال ''نہیں''، ''کب'' یا ''اگر'' کا نہیں ہے، بلکہ اب تو معاملات یقین کی حد تک آگئے ہیں۔''
ڈاکٹر ایلن کہتی ہیں:''ہم یہاں چھوٹے سبز بالشتیوں کی بات نہیں کررہے جو بعض یورپی ملکوں میں پائے جاتے ہیں، بلکہ ہم تو چھوٹے چھوٹے microbes یا خردبینی جرثوموں کی بات کررہے ہیں۔''