جب تھکی ہوئی زمین نے انگڑائی لی

امدادی تنظیم آکسفیم کے مطابق متاثرہ علاقوں میں بجلی کا رابطہ منقطع ہے اور مواصلاتی نظام بھی درست کام نہیں کر رہا

7.8 شدت کے اس زلزلے کا مرکزدارالحکومت کٹھمنڈو سے 80 کلومیٹر شمال مغرب میں پوکھار کے علاقے میں تھا،فوٹو : فائل

جب ریکٹر اسکیل پر زلزلے کے شدت اعشاریہ سات تک پہنچ جائے تو پھر اس شدت کی زد پر آنے والے علاقے پر تباہی نازل نہ ہو، یہ ممکن نہیں۔ پچیس اپریل2o15 کی صبح ابھی دوپہر میں ڈھل رہی تھی کہ اُس پر اچانک بدنصیبی کے مکروہ آسیب نے پر پھیلانا شروع کر دیے۔

بُدھ کی سرزمین 7.8 اسکیل کے پہلے جھٹکے سے پچپن سیکنڈ تک لرزاں رہی اوراس ایک منٹ سے کم وقفے میں ہی نیپال تہ و بالا ہو گیا۔ موت چہار سوتباہی کی تال پررقص کر رہی تھی، ابھی یہ رقص رکا نہیں تھا کہ زمین نے 6.5 کی شدت سے ایک اور قہقہہ لگا دیا، ابھی یہ بھی تھما نہ تھا کہ پانچ شدت اور پھر چار شدت کے کم و بیش سولہ مابعد (آفٹر شاکس) جھٹکے آئے۔ یہ جھٹکے نیپال تک ہی محدود نہیں رہے بل کہ انہوں نے بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان کے مختلف علاقوں کو بھی لرزا کر رکھ دیا۔

تین دن بعد تک کے تازہ اعداد وشمار کے مطابق نیپال میں زلزلے سے ہلاکتیں 3300 سے تجاوز کر گئی تھیں اور ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ موجود تھا۔ نیپال کی وزارت داخلہ کی ترجمان لکشمی ڈہکال نے تصدیق کی تھی کہ ہلاک شدگان کی تعداد 3300 سے تجاوز کر گئی ہے جب کہ زخمیوں کی تعداد ساڑھے چھے ہزار سے زیادہ بتائی گئی۔

جس میں ماؤنٹ ایورسٹ پر اٹھارہ کوہ پیماؤں کی ہلاکت اس مجموعی تعداد کے علاوہ ہے۔ اس ہیبت ناک زلزلے کے نتیجے میں بھارت میں بھی 61 افراد ہلاک ہوئے۔ چینی حکام کے بقول نیپال میں آنے والے زلزلے کے جھٹکے تبت میں بھی محسوس کیے گئے،جہاں مختلف عمارتیں منہدم ہونے سے17 افراد مارے گئے۔

زلزلے کی وجہ سے لوگوں میں شدید خوف و ہراس نے انہیں ہڈیوں میں اتر جانے والی یخ راتیں گھروں سے باہر گذارنے پر مجبور کیے رکھا کیوں کہ زندہ بچ جانے والے اپنے پیاروں کی طرح زمین بوس ہونے والی عمارتوں کے ملبے تلے دبنے سے ڈر رہے تھے۔ جن لوگوں کے گھر زلزلے کی تباہی سے بچ گئے ہیں وہ بھی کسی گراؤنڈ یا پارک میں رہنے کو ترجیح دے رہے تھے۔

ہفتے کی دوپہر 7.8 شدت کے اس زلزلے کا مرکز دارالحکومت کٹھمنڈو سے 80 کلومیٹر شمال مغرب میں پوکھار کے علاقے میں تھا اور اس کے جھٹکے بھارت، بنگلہ دیش، چین، تبت اور پاکستان میں بھی محسوس کیے گئے۔

ابھی تک صرف کٹھمنڈو میں ہونے والی تباہی کی تفصیل سامنے آئی ہے، جہاں بڑے پیمانے پر عمارتیں منہدم ہو چکی ہیں اور مواصلات کا نظام اور سڑکیں تباہ ہونے کی وجہ سے دیگر علاقوں تک رسائی میں امدادی ٹیموں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ زلزلے سے زخمی ہونے والے ہزاروں افراد کو طبی امداد پہنچائی جا رہی ہے اور امریکا سمیت مختلف ملکوں سے امدادی و طبی ٹیمیں نیپال پہنچ چکی تھیں۔

تین کروڑ آبادی والے ملک نیپال کے مقامی حکام کے مطابق 75 میں سے 35 اضلاع کے زلزلے سے متاثر ہوئے۔ زلزلے کی وجہ سے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ بھی کانپی اور برفانی تودے گرنے سے 18 کوہ پیما چشم زدن میں ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ بیس کیمپ سے متعدد افراد کو کٹھمنڈو منتقل کیا گیا۔

نیپال میں گزشتہ 81 برسوں میں آنے والا یہ شدید ترین زلزلہ تھا۔ اس سے قبل 1934 میں آنے والے 8.3 شدت کے زلزلے میں دس ہزار افراد لقمۂ مرگ بنے تھے۔ نیپالی حکام کے مطابق ضمنی جھٹکوں کی وجہ سے تین دن بعد بھی امدادی سرگرمیوں میں شدید رکاوٹیں آ رہی تھیں۔ ڈاکٹر اس خوف سے، کہ کہیں اسپتال کی عمارت بھی نہ گر جائے، سڑک کے کنارے زخمیوں اور بیماروں کو طبی امداد دیتے رہے جب کہ متعدد زخمیوں کے آپریشن خیموں میں کیے گئے۔

کھٹمنڈو کے نیشنل ٹراما سینٹر کے ڈاکٹر دیپندر پانڈے نے بتایا '' ہمارے پاس صرف ایک آپریشن تھیئیٹر ہے جب کہ صورت حال کو دیکھیں تو پندرہ بھی کم ہوں گے، انہوں نے بتایا کہ تب تک وہ شدید زخمیوں کے تقریباً 36 آپریشن کر چکے تھے۔ سرکاری اور نجی اسپتالوں میں گنجائش سے زیادہ مریض اور ادویات کی کمی نے صورت حال کو مزید بگاڑ دیا ہے اور اس وجہ سے مریضوں کا آسمان تلے علاج ہوتا رہا۔

امدادی تنظیم آکسفیم کے مطابق متاثرہ علاقوں میں بجلی کا رابطہ منقطع ہے اور مواصلاتی نظام بھی درست کام نہیں کر رہا ۔ ایک طرف اسپتالوں میں میتیں رکھنے کے لیے جگہ کم تھی تو دوسری جانب سڑکوں کے تباہ ہونے کے باعث دیگر ممالک سے پہنچنے والی امداد بھی متاثرہ علاقوں تک نہیں پہنچ پا رہی تھی کیوں کہ تودے گرنے کی وجہ سے بہت سے دیہی علاقوں کے ساتھ کئی بڑے شہروں سے بھی زمینی رابطہ منقطع ہو چکا تھا۔ اتوار کی صبح یعنی26 اپریل تک پہلا غیر ملکی ہوائی جہاز کٹھمنڈو کے ہوائی اڈے پر امدادی سامان لے کر اترا جب کہ ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ سے بھی15 زخمی کوہ پیماؤں کو دارالحکومت پہنچایا گیا تھا۔


امریکا نے ابتدائی طور پر امدادی سرگرمیوں کے لیے دس لاکھ ڈالر کی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا جب کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں کے لیے ماہر امدادی ٹیموں کو نیپال بھیجنے کا اعلان ہوا۔ در ایں اثنا پاکستان کی طرف سے بھی امدادی سامان، ٹیموں کے ساتھ چار ہوائی جہازوں میں نیپال بھیجنے کا اعلان کیا گیا۔

فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے مطابق تیس بستروں کا ایک اسپتال، خوراک، تلاش اور امداد کی خصوصی ٹیموں کے ارکان کو کٹھمنڈو پہنچایا گیا اور نیپال بھیجے گئے ہوائی جہازوں کے ذریعے متاثرہ علاقوں سے سات پاکستانی خاندانوں کو بھی وطن واپس لایا گیا۔ وطن واپس پہنچنے والے پاکستیانیوں نے بتایا کہ وہاں عوام میں شدید خوف ہے اور بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی ہیں، بھاری تعداد میں لوگ زخمی ہیں، جنھیں خوراک اور بنیادی سہولیات کی قلت کا سامنا ہے۔ پاکستان نے چار سی ون تھرٹی طیاروں میں30 بستروں کا فیلڈ اسپتال، طبی عملہ اور امدادی سامان نیپال بھیج دیا تھا۔

اسی دوران میں فرانس اور جرمنی کی ٹیمیں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے نیپال پہنچ چکی تھیں۔ اقوام متحدہ کے بہبود اطفال کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ نیپال کے زلزلے سے جہاں تین ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں، وہیں کم از کم ایک ملین کے قریب مختلف عمروں کے بچے متاثر ہوئے ہیں۔ یونیسیف کے مطابق نیپالی بچوں کے ذہنوں پر زلزلے کی تباہ کاری کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں، جو برسوں موجود رہ سکتے ہیں۔ یونیسیف نے خاص طور پر بچوں کے لیے پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی پر خاص طور پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔

غیر ملکی سیاح نیپال سے اپنے وطن جانے کے لیے اپنی سی کوششوں میں مارے مارے پھرتے نظر آرہے ہیں۔ وہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں کو فوری طور پر چھوڑنے کے لیے بے چین ہیں ،لیکن کھٹمنڈو کے ہوائی اڈے پر عالمی برادری کے امدادی سامان کے طیاروں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ اِس باعث مسافر طیاروں کو سردست ترجیح نہیں دے جا رہی۔ بھارت نے اب تک ایک ہزار کے قریب غیر ملکی افراد کو اپنے سامان بردار جنگی طیاروں کے ذریعے بھارتی شہروں میں منتقل کیا ہے۔

چین نے بھی اب تک ایک ہز ار کے قریب غیر ملکی باشندوں کو نیپال سے باہر نکالا ہے۔ یاد رہے کہ نیپال میں سالانہ بنیادوں پر آٹھ لاکھ غیر ملکی سیاح کوہ ہمالیہ کے دروں اور ترائیوں کے گھنے جنگلات کا لطف لینے پہنچتے ہیں۔ اِن میں ماؤنٹ ایورسٹ کے علاوہ دوسری چوٹیوں کو سر کرنے والے کوہ پیما بھی شامل ہیں۔ نیپال کی اقتصادیات کا بھی خاصا انحصار انہی غیر ملکیوں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ہے۔

نیپال کا حالیہ زلزلہ ان ہی ''خطوط'' پر آیا جن پر سات سو سال پہلے ان کے پیش رو دو بڑے زلزلے آئے تھے۔ ریکٹر سکیل پر سات اعشاریہ آٹھ کی شدت سے آنے والے حالیہ تباہ کن زلزلے کی بنیاد80 برس پہلے اس وقت پڑی جب 1934 میں یہاں ایک بہت بڑا زلزلہ آیا تھا۔ 1934 کے زلزلے نے نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو کے ایک چوتھائی حصے کو ملیامیٹ کر دیا تھا اور اس میں17 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ماہرینِ ارضیات نے تجزیہ کیا ہے کہ اسی برس قبل جو بھوں چال آیا تھا اس کی وجہ سے زمین کی یہ ہی پلیٹیں ہل گئی تھیں اور ابھی پوری طرح اس کی چولیں نہیں بیٹھی تھیں، خدشہ یہ ہی تھا کہ جب یہ چولیں بیٹھیں گی تو ایک بار پھر ایک بڑا زلزلہ آئے گا۔ حالیہ زلزلہ زمین میں دراڑیں پڑنے کی وجہ سے ارضی دباؤ کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کی وجہ سے آیا۔

ماہرین نے خطے کے میدانی علاقوں میں اپنی تحقیق کے دوران حالیہ ہفتوں میں ہی 1934 کے مذکورہ زلزلوں سے پیدا ہونے والے زمینی اثر کو دریافت کیا تھا۔ فرانس کی ریسرچ ایجنسی کے مسٹر لوراں بولنگر اور ان کے ساتھی نے نیپال میں تحقیق کے دوران گزشتہ ماہ ہی اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے ایک بڑے زلزلے کا خدشہ ظاہرکیا تھا اورجس علاقے کی نشان دہی کی تھی،25 اپریل کو عین اسی مقام سے زلزلہ پھوٹا۔ بولنگر کی ٹیم نے مرکزی جنوبی نیپال کے جنگلوں میں ملک کے اس درز زدہ حصے کے پاس جو سطح زمین سے متصل ہے، کھدائی کی تھی۔

یہ علاقہ مغرب سے مشرق کو ایک ہزار کلومیٹر سے زیاددہ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ ماہرین نے یہاں سے ملنے والے کوئلے کے ٹکڑوں سے معلوم کیا کہ آخری مرتبہ زمین کب رخنہ زدہ ہوئی تھی۔ قدیم تحریروں میں کئی بڑے بھوںچالوں کا ذکر ہے لیکن یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ وہ کہاں آئے تھے کیوں کہ مون سون کی بارشیں زمین کو دھو دیتی ہیں اورگھنے جنگل بھی زمین کو چھپا دیتے ہیں تاہم بولنگر کی ٹیم کو کوئلے کے تجزیے سے معلوم ہوا تھا کہ اس علاقے میں کافی عرصے سے زمین رخنہ زدہ نہیں ہوئی تھی۔

بولنگر کی ٹیم نے دو ہفتے پہلے نیپال کی ارضیاتی سوسائیٹی میں ایک رپورٹ پیش کی اور کہا '' ہم نے بتا دیا ہے یہ دراڑیں 1505 اور 1833 میں آنے والے زلزلوں کی وجہ سے نہیں پڑیں اور آخری مرتبہ زمینی دراڑوں میں حرکت، امکانی طور پر 1344 میں ہوئی تھی''۔ جب بولنگر اور ان کی ٹیم نے ارضیاتی نمونوں کو دیکھا تو انھیں بہت تشویش ہوئی اور انہوں نے کہا ''ہم دیکھ سکتے تھے کہ پوکھارا اور کھٹمنڈو میں خاص طور پر زلزلے کا خدشہ ہے کیوں کہ 1344 میں بھی انھیں دو شہروں میں امکانی طور پر زلزلہ آیا تھا''۔

اب ماہرین کی ٹیم کو فکر ہے کہ یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں اور آئندہ بھی اس خطے میں زلزلوں کا امکان ہے۔ بولنگر کا کہنا ہے 'ابتدائی اشاروں سے پتہ چلتا ہے کہ زمین میں اب بھی دباؤ باقی ہے اور آنے والی دہائیوں میں ہم ایک اور بڑے زلزلے کی توقع کر سکتے ہیں، جو اس زلزلے کے مقام سے جنوب مغرب میں آئے گا۔
Load Next Story