بینکوں کے قرضے موبائل فون سے ادائیگی زیادہ قابل اعتبار

ماہراقتصادیات پیرکرجرن کا کہنا ہےموبائل فون کی مددسےانکے بارے میں معلومات کاحصول ایسے لوگوں کے لیےمعاون ثابت ہوسکتا ہے


Magazine Report May 03, 2015
موبائل فون کے ’’میٹا ڈیٹا‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے کسی بھی شخص پرقرض کی ادائیگی یا عدم ادائیگی کا اعتبارکیا جاسکتا ہے،تحقیق ۔ فوٹو : فائل

بینکوں اور مالیاتی فرموں سے قرض رقوم کے حصول کا رجحان زور پکڑ رہا رہے وہیں ترقی پذیراورغیرترقی یافتہ ممالک میں قرض خواہوں کے بارے میں رقوم کی عدم ادائیگی کے حوالے سے بے اعتباری بھی موجود ہے۔ تاہم جدید موبائل فون سسٹم نے اس ضمن میں قرض خواہ اور قرض دہندہ دونوں کی معاونت بھی کی ہے۔

ایک جدید تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ موبائل فون کے ''میٹا ڈیٹا'' کو سامنے رکھتے ہوئے کسی بھی شخص پرقرض کی ادائیگی یا عدم ادائیگی کا اعتبارکیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے موبائل بل بروقت ادا کررہا ہے تو اس سے ظاہر ہوگا کہ وہ بینک یا مالیاتی ادارے سے لیا گیا قرض بھی لوٹانے کے معاملے میں ذمے داری کا مظاہرہ کرے گا۔

چوںکہ ترقی پذیر ممالک میں قرضوں کے حصول کا رْجحان زیادہ ہے۔ لوگ چھوٹی صنعت لگانے، کاروبار یا تعلیم کے حصول کے لیے بیرون ملک سفر کرنے یا مکان اور جائیداد کی خریداری کے لیے قرض کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔ ان ہی ملکوں میں قرض کے لین دین میں مشکلات بھی پیش آتی ہیں۔

اس ضمن میں بعض مالیاتی فرموں نے بھی موبائل فون کے ڈیٹا کی مدد سے کچھ تجربات کیے ہیں۔ موبائل فوج کے تصریحی بیانات یا میٹاڈیٹا کی مدد سے صارف کے بارے میں اہم نوعیت کی معلومات حاصل ہوجاتی ہیں۔ اس ضمن میں صارف کے انٹرنیٹ کے استعمال کی صلاحیت کو بھی جانچا جاتا ہے۔

حال ہی میں ایسا ہی ایک تجربہ ''انٹرپرینیل فائنانس لیب'' نامی ایک کمپنی نے کیا تاکہ وہ موبائل فون کے ڈیٹا کی مدد سے صارف کا اعتماد تلاش کرسکے۔

امریکا کی براؤن یونیورسٹی ورسٹی کے ماہراقتصادیات ڈینیل پیرکجرن کی معاونت سے کی گئی اس تحقیق میں تین ہزار افراد پر تجربہ کیا گیا۔ ان سب نے بینکوں سے قرض لے رکھا تھا۔ دورانِ تحقیق ان کی فون کال کے اوقات، کال کا دورانیہ اور کال کے اخراجات کا تجزیہ کیا گیا۔



مالیاتی کمپنی ''انٹرپرینیل فائنانس لیب'' نے لوگرتھمی ریاضیاتی فارمولے کے تحت مختلف موبائل صارفین کے میٹا ڈیٹا کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ اس دوران یہ جانچا کیا گیا کہ آیا صارف منطقع ہونے والی کال فورا دوبارہ ڈائل کررہا ہے یا نہیں۔ کیا وہ اپنے فون کا پوسٹ پیڈ بل بروقت ادا کرتا ہے؟

اگران سوالوں کا جواب 'ہاں' میں ہے تو وہ ایک قابل اعتبار شخص ہے جو احساس ذمے داری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ کمپنی نے کچھ ایسے موبائل صارفین کے بارے میں بھی معلومات حاصل کیں جو بینک کی برانچوں سے بہت دور تھے تاکہ ان کی جگہ کا تعین کرانے کی کوشش کی جاسکے۔فائنانس لیب کے تحت کی جانے والی تحقیق کے نتائج حال ہی میں امریکی ریاست میسی چیوسٹس کے شہر کیمبرج میں منعقدہ ''نیٹ موب'' کانفرنس میں پیش کیے گئے اور ماہرین نے انہیں قابل اعتبار قرار دیا۔

امریکی کمپنی ''سیگفنی'' سے وابستہ موبائل ڈیٹا کی ماہر کیویان شو کا کہنا ہے کہ کسی بھی شخص کے موبائل کال اور رابطوں کی معلومات سے اس کے طرز عمل کا اندازہ لگانا آسان ہے۔ یہ ڈیٹا بتاتا ہے کہ صارف روز مرہ کی بنیاد پر رابطوں میں کتنا سچ اور کتنا جھوٹ بولتا ہے اوراس پر کس قدر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔

چوںکہ موبائل فون صارف یا قرض حاصل کرنے سے کسی بھی وقت رابطے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے یہی وجہ ہے کہ اسے قرض کی رقم کی ادائی کے حوالے سے بر وقت متنبہ بھی کیا جاسکتا ہے۔

ترقی پذیر ملکوں میں چوںکہ قرض کا حصول ایک پیچیدہ مسئلہ رہتا ہے۔ موبائل کے ذریعے صارف کے بارے میں اہم معلومات ملنے کے بعد ایسے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے جو معاشی طور پر تو کم زور ہیں مگر احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے والے ہیں۔

امریکی ریاست کیلیفورنیا کے سانٹا مونیکا شہر میں قائم ایک کمپنی ''انونچر'' نے بھی اس باب میں تجربات کیے ہیں۔ کمپنی کی جانب سے موبائل صارفین کی روز مرہ کی کالوں، ان کے دورانیے اور آنے والی لاگت کا اندازہ لگایا تاکہ یہ جانچا جاسکے کہ آیا اس پُراعتماد کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ اس طرح اس کمپنی نے کچھ لوگوں کو قسطوں پر موبائل سیٹ فراہم کیے اور انہوں نے ان کی بروقت ادائیگی کردی تھی۔

ایسا لی لوگرتھمی فارمولے کے تحت تجربہ ''لینڈو'' نامی کمپنی نے فلپائن اور کولمبیا جیسے غریب ملکوں میں کیا۔ لینڈو نے صارفین کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بالخصوص فیس بک، ٹیوٹر اور لنکڈان کے ذریعے بھی شہریوں سے رابطہ کیا۔ ان سے پوچھا گیا کہ آیا انہوں نے خود یا ان کے دوستوں نے قرض لیا ہے اور کیا وہ انشورنس کی رقم بروقت ادا کرتے ہیں۔ تو ان کا جواب بھی اثبات میں تھا۔ ان میں سے بعض نے موٹرسائکلیں اور موبائل فون بھی قرض پرلے رکھے تھے۔

جامعہ براؤن کے ماہراقتصادیات پیر کرجرن کا کہنا ہے ترقی پذیر ممالک میں قرض کے خواہاں لوگوں کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا۔ ان کے بارے میں معلومات کا حصول مشکل ہوتا ہے۔ موبائل فون کی مدد سے ان کے بارے میں معلومات کا حصول ایسے لوگوں کے لیے معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں