حکم پر عمل نہ ہوا تو توہین عدالت کی کارروائی ہوسکتی ہے لاہور ہائیکورٹ

فیصلے میں کوئی پابندی نہیں تھی،وسیم سجاد،صدر کو دو عہدے رکھنے کی اجازت نہیں دی،چیف جسٹس عمرعطا بندیال، سماعت ملتوی


Numainda Express October 11, 2012
جعلی مقابلوں میں 9افرادکی ہلاکت کا سخت نوٹس،سیشن جج سے رپورٹ طلب،حافظ سعید کیس میں احمر بلال صوفی عدالتی معاون مقرر۔ فوٹو: فائل

لاہورہائیکورٹ کے پانچ رکنی فل بینچ نے صدرآصف علی زرداری کے خلاف دائر توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران قرار دیا ہے کہ عدالت نے جب واضع کر دیا تو کیا باقی رہ گیا۔

یہ کوئی سول کورٹ کا فیصلہ نہیں، لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر آئین کے تحت پابندی ضروری ہے، اگر اس فیصلے پر کسی کو اختلاف تھا تو اس کے خلاف اپیل دائر کرنی چاہیے تھی جو نہیں کی گئی، اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے پر اگر عمل درآمد نہیں ہو گا تو معاشرے میں انصاف قائم نہیں ہو سکتا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ عدالت کا حکم ہے اس میں کوئی ابہام نہیں صدر پاکستان آصف علی زرداری کو ایک عہدہ رکھنا ہے، عدالت ایک دفعہ پھر واضع کر نا چاہتی ہے کہ اس فیصلے پر عمل درآمد ہونا ہے، اگرعمل درآمد نہیں ہو گا تو توہین عدالت کی کارروائی شروع ہوسکتی ہے۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت 31 اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے وفاق پاکستان کے وکیل کو صدر مملکت سے ہدایات لیکر پیش ہونے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمار کس دیتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کا قانون ایک چھتری ہے اور کسی بھی فرد کو چاہے وہ صدر پاکستان ہی کیوں نہ ہو عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ وسیم سجاد نے بحث کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کوئی پابندی نہیں تھی اس لیے اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔

انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ عدالت نے 12مئی کے حکم میں لفظ'' Expect '' استعمال کیا ہے یہ عدالتی حکم نہیں ہے، صدر وفاق کی علامت ہے، پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے صدرمخدوم امین فہیم ہیں جبکہ راجہ پرویز اشرف جنرل سیکرٹری ہیں، پاکستان پیپلزپارٹی کے کوچیئرمین آصف علی زرداری ہیں اس لیے صدر آصف علی زرداری نے کوئی سیاسی عہدہ نہیں سنبھالا ہوا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ عدالت نے صدر کے عہدے کی عزت اور وقار کو سامنے رکھتے ہوئے لفظ Expectاستعمال کیا ہے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عدالت نے صدر کو دو عہدے رکھنے کی اجازت دی ہے۔

اے کے ڈوگر اور اظہر صدیق نے اعتراض اٹھایا کہ وسیم سجاد کیس کے میرٹ پر بات کر رہے ہیں ان کو یہ حق حاصل نہیں، صدر زردار ی نے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا اور وہ فیصلہ حتمی ہو چکا ہے۔ جسٹس ناصر سعید شیخ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 204کے تحت اعلیٰ عدالت کو فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے لیے توہین عدالت کا اختیار دیا گیا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صدر زرداری اب بھی عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کر دیں تو عدالت انہیں وقت دینے کے لیے تیار ہے مگر عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ہونا ضروری ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی فیصلے عمل درآمد کے لیے ہوتے ہیں اور عدالتیں آئین کے تحت کام کر تی ہیں اور آئین پر عمل درآمد کرنے کے لیے کسی کو کہنے کی ضرورت نہیں۔ وسیم سجاد نے کہا کہ یہ کام پارلیمنٹ پر چھوڑ دینا چاہیے تھا۔ جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ایک سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہے نا تو کوئی پارلیمنٹ نے اس بارے میں کوئی قانون سازی کی اور نہ ہی کوئی عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ہوا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے وفاق کے وکیل وسیم سجاد اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کر تے ہوئے کہا کہ یہ عدالت کا حکم ہے اس میں کوئی ابہام نہیں صدر آصف علی زرداری کو ایک عہدہ رکھنا ہے عدالت ایک دفعہ پھر واضع کر نا چاہتی ہے کہ اس فیصلے پر عمل درآمد ہونا ہے اگرعمل درآمدنہیں ہوگاتوتوہین عدالت کی کارروائی شروع ہوسکتی ہے۔

دریں اثناء لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ایک ہی روزمیں جعلی پولیس مقابلے میں نوافرادکی ہلاکت کا سخت نوٹس لیتے ہوئے سیشن جج کوسات روز میں انکوائری کر کے رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عمرعطاء بندیال نے جماعتہ الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعیدکی جانب سے دائردرخواست جس میں انھوں نے امریکا میں زیرسماعت ممبئی حملہ کیس میں سرکاری سطح پر وکیل فراہم کرنے کے لئے عدالت کے روبرواستدعا کر رکھی ہے۔ لاہورہائیکورٹ نے ڈرون حملوں کیخلاف کیس کی سماعت5 نومبر تک ملتوی کردی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں