سازشی ٹولے کی ناکامی
کراچی کی ہی کیا بات کریں وزیرستان سے لے کر کراچی تک ایک ہی کہانی ہے۔
PESHAWAR:
ضمنی انتخابات اتنے اہم نہیں ہوتے جتنے کراچی کے حلقہ 246 میں ٹھہرے۔ نادیدہ قوتوں نے کوشش کی کہ اس دفعہ ان نتائج کو بدل دیا جائے جو پچھلے 28 سال سے مسلسل ایم کیو ایم کے حق میں چلے آ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ زمینی حقائق نظر انداز ہو گئے اور خواہشات غالب آ گئیں۔ جو بات دیوار پر لکھی تھی وہ نظر انداز ہو گئی۔ میڈیا کے ذریعے یہ سوچ بنائی گئی کہ اس دفعہ اس حلقے سے ایم کیو ایم ہارے کہ ہارے۔ کامن سینس کی بات تھی کہ جو جماعت اس حلقے سے مدتوں سے جیت رہی ہو وہ کیسے ہار سکتی ہے۔ ساری توقعات اس حلقے کے لوگوں سے وابستہ کی گئیں کہ وہ ایم کیو ایم کے بجائے تحریک انصاف یا جماعت اسلامی کو جتوا دیں گے۔
یہ اس وقت ہوتا جب ان کی سوچ تبدیل ہوتی' وہ اس عدم تحفظ سے باہر نکلتے جس کا آغاز پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت سے ہوتاہے۔ لیاقت علی خان کی شہادت بعد مہاجر طبقہ اپنے آپ کو یتیم سمجھنے لگا جس کا کوئی پرسان حال نہ ہو۔ وہ لوگ جنہوں نے اور ان کے بزرگوں نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا، جو تحریک کا ہر اول دستہ تھے، جلد ہی سیاسی تنہائی کا شکار ہو گئے۔ اس کا انھیں انعام بھی یوں ملا کہ ہندوؤں اور سکھوں کے جانے سے مختلف شعبوں میں جو خلا پیدا ہوا، اس کو مہاجروں نے پر کیا۔ بیشتر اعلیٰ سرکاری نوکریوں پر مہاجر فائز ہو گئے جس کو سلیگ ہیرسن نے پنجابی مہاجر الائنس (گٹھ جوڑ) کا نام دیا۔ اس صورت حال میں دوسری قومیتوں میں بے چینی، محرومی پیدا ہونا فطری امر تھا۔ مہاجر کیوں کہ اپنی زمین اور علاقہ چھوڑ کر آئے تھے اس لیے ان کی مضبوطی عارضی ثابت ہوئی۔
پنجاب کیوں کہ اکثریتی صوبہ تھا اس لیے جلد ہی اسٹیبلشمنٹ پر فطری طور پر پنجابیوں کا غلبہ ہوگیا۔ اس صورت حال میں مہاجر جلد ہی احساس تنہائی کا شکار ہو گئے۔ یہ احساس انھیں شدت سے ستانے لگا کہ پاکستان بنانے میں ہم سب سے آگے تھے۔ اب ہمیں سب سے پچھلی صفوں میں دھکیل دیا گیا۔ اہل سندھ نے کھلی بانہوں سے مہاجروں کو خوش آمدید کہا۔ ان کی آباد کاری میں ہر طرح کی مدد کی۔ مہاجروں کی آمد کا سلسلہ پاکستان بننے کے بعد طویل عرصے تک جاری رہا۔ یہ مہاجر اتنی بڑی تعداد میں پاکستان آئے کہ نہ صرف کراچی بلکہ حیدر آباد، سکھر، میر پور خاص بھی مہاجروں کے شہر بن گئے۔ اب سندھیوں کو اپنا وجود خطرے میں نظر آنے لگا۔ آبادی کا تناسب بدلنے لگا۔ شہروں میں سندھی اقلیت میں بدلنے لگے۔
مہاجروں کی بالادستی بڑھنے لگی۔ اس صورت حال میں سندھی مہاجر دونوں قومتیں عدم تحفظ کا شکار ہو گئیں۔ مہاجروں کا استدلال تھا کیونکہ پاکستان بنانے میں ہمارا کردار سب سے زیادہ ہے اس لیے سندھ کے وسائل پر ہمارا حق ہے جب کہ سندھیوں کا مؤقف یہ ہے کہ سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی پر مہاجروں کا کنٹرول ہے۔ اسی طرح دوسرے بڑے شہروں حیدرآباد اور سکھر بھی مہاجروں کے کنٹرول میں ہیں۔ اس لیے ہماری معاشی تہذیبی لسانی شناخت خطرے سے دوچار ہے۔ اس وقت سندھی اس خطرے سے دوچار ہیں کہ سندھ کے بڑے شہر مہاجروں کے کنٹرول میں ہیں تو دوسری طرف پنجاب اور دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والوں کو سندھ کی زرخیز زمینیں الاٹ کر دی گئی ہیں تو اب سندھیوں کے پاس سندھ کے زیادہ تر جنگل بیاباں ہی رہ گئے ہیں۔ اس طرح سے دونوں قومیتوں میں ایک نہ ختم ہونے والی کشمکش جاری ہے جس کا اظہار آئے دن مختلف اشکال میں ہوتا رہتا ہے جو پاکستان کی معیشت، مستقبل اور سلامتی کے لیے نیک فال نہیں۔
پاکستان میں آغاز میں ہی موقع پرستوں نے سازشیں شروع کر دی تھیں۔انھوں نے اپنے ایجنڈے کو بروئے کار لانے کے لیے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح' لیاقت علی خان کو ابتدا ہی میں اپنے راستے سے ہٹا دیا اورپھر بعد میں بانی پاکستان کی بہن کو ایک فیلڈ مارشل نے انتخابی میدان میں شکست سے دوچار کر دیا۔... ہے نا دلچسپ بات۔کراچی نے اس وقت محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔اس وقت ابھی جذبے جوان تھے ' بظاہر قومی یالسانی عصبیت کا ظہورنہیں ہوا تھا لیکن اعلیٰ سطح پر اس قسم کے جذبات موجود تھے جس کا عام آدمی کو کوئی پتہ نہیں تھا۔ محض پاکستان میں ہی مہاجر آبادی کو تحفظات لاحق نہیں ہوئے بلکہ مشرقی پاکستان میں بھی بتدریج حالات خراب ہوتے چلے گئے۔
اس وقت مغربی پاکستان میں سب متحد تھے حتٰی کہ ہندوستان سے آنے والے بھی اس اتحاد میں شامل تھے۔ اس وقت بھی کسی نے حالات کو سنبھالنے کی کوشش نہیں کی تھی۔شایدکسی کو ضرورت بھی نہیں رہی تھی۔بنگالیوں میں جمہوریت کے جراثیم زیادہ تھے، وہاں جاگیرداری کا اثرونفوذ بھی کم تھا' تعلیم کی شرح بھی قدر زیادہ تھی 'اس لیے وہ بتدریج بیگانگی کا شکار ہوتے رہے اور بلآخر بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا۔اس معاملے میں زیادہ گہرائی میں نہیں جاؤں گا کیونکہ اس سے بہت سے لوگ ناراض ہو جائیں گے۔آپ سرد جنگ اور پھر تقسیم برصغیر کو ہی دیکھ لیں' بہت سے معاملات خود بخود سمجھ آ جائیں گے' مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ قائداعظم کے خوابوں کے مطابق ترقی پسند لبرل ماڈرن بننے والی ریاست بتدریج دائیں بازوکے کنٹرول میں چلی گئی۔1970میں بنگلہ دیش قائم ہونے کے بعد موجودہ پاکستان میں جمہوری قوتیں مسلسل کمزور ہونا شروع ہو گئیں۔آہستہ آہستہ انتہا پسندی کی سوچ پروان چڑھتے چڑھتے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ گئی اور پھر ضیاء الحق برسراقتدار آئے۔اس دور میں جو کچھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ضیاء الحق نے ملک کو افغانستان کی جنگ میں شریک کر دیا۔آج ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ اسی پالیسی کا نتیجہ ہے۔
کراچی میں آج کا منظرنامہ بھی اسی ماضی سے جڑا ہوا ہے۔کراچی کی ہی کیا بات کریں وزیرستان سے لے کر کراچی تک ایک ہی کہانی ہے۔ ایک وقت وہ بھی آگیا تھا جب ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس ملک پر انتہا پسندوں کا قبضہ ہو جائے گا۔ وہ تو بھلا ہو آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ان جاں باز محب وطن قابل فخر پاکستانیوں کا جنہوں نے اس طاقتور مؤثر سازشی ٹولے کو ناکام بنا دیا جو پاکستانی اقتدار اعلیٰ کے اندر ہی موجود تھا۔ بنگلہ دیش میں مہاجر بہاری کیمپ تقسیم برصغیر کی عبرتناک مثال ہیں... اب تو کراچی کے آگے سمندر ہے... اس کے بعد کوئی جائے پناہ نہیں۔
پاکستان کی تمام قومیتوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے۔ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ موجودہ بحران کا حل یہی ہے کہ تمام علاقوں کے حالات کو سامنے رکھ کر وہاں کے دکھ درد کا علاج کیا جائے۔ عوام جس کو مینڈیٹ دیں اسے تسلیم کیا جائے اور جرم کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ اسی میں پاکستان کی بقا ہے اور اسی میں اس ملک میں بسنے والی تمام قومیتوں کا بھلا ہے۔ حالات کو اگر من پسند شکل دینے کی کوشش کی گئی تو نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔
...مئی جون سے اگست ستمبر ایم کیو ایم اور اس کی لیڈر شپ کے لیے احتیاط طلب وقت کا آغاز ہو جائے گا۔
ضمنی انتخابات اتنے اہم نہیں ہوتے جتنے کراچی کے حلقہ 246 میں ٹھہرے۔ نادیدہ قوتوں نے کوشش کی کہ اس دفعہ ان نتائج کو بدل دیا جائے جو پچھلے 28 سال سے مسلسل ایم کیو ایم کے حق میں چلے آ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ زمینی حقائق نظر انداز ہو گئے اور خواہشات غالب آ گئیں۔ جو بات دیوار پر لکھی تھی وہ نظر انداز ہو گئی۔ میڈیا کے ذریعے یہ سوچ بنائی گئی کہ اس دفعہ اس حلقے سے ایم کیو ایم ہارے کہ ہارے۔ کامن سینس کی بات تھی کہ جو جماعت اس حلقے سے مدتوں سے جیت رہی ہو وہ کیسے ہار سکتی ہے۔ ساری توقعات اس حلقے کے لوگوں سے وابستہ کی گئیں کہ وہ ایم کیو ایم کے بجائے تحریک انصاف یا جماعت اسلامی کو جتوا دیں گے۔
یہ اس وقت ہوتا جب ان کی سوچ تبدیل ہوتی' وہ اس عدم تحفظ سے باہر نکلتے جس کا آغاز پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت سے ہوتاہے۔ لیاقت علی خان کی شہادت بعد مہاجر طبقہ اپنے آپ کو یتیم سمجھنے لگا جس کا کوئی پرسان حال نہ ہو۔ وہ لوگ جنہوں نے اور ان کے بزرگوں نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا، جو تحریک کا ہر اول دستہ تھے، جلد ہی سیاسی تنہائی کا شکار ہو گئے۔ اس کا انھیں انعام بھی یوں ملا کہ ہندوؤں اور سکھوں کے جانے سے مختلف شعبوں میں جو خلا پیدا ہوا، اس کو مہاجروں نے پر کیا۔ بیشتر اعلیٰ سرکاری نوکریوں پر مہاجر فائز ہو گئے جس کو سلیگ ہیرسن نے پنجابی مہاجر الائنس (گٹھ جوڑ) کا نام دیا۔ اس صورت حال میں دوسری قومیتوں میں بے چینی، محرومی پیدا ہونا فطری امر تھا۔ مہاجر کیوں کہ اپنی زمین اور علاقہ چھوڑ کر آئے تھے اس لیے ان کی مضبوطی عارضی ثابت ہوئی۔
پنجاب کیوں کہ اکثریتی صوبہ تھا اس لیے جلد ہی اسٹیبلشمنٹ پر فطری طور پر پنجابیوں کا غلبہ ہوگیا۔ اس صورت حال میں مہاجر جلد ہی احساس تنہائی کا شکار ہو گئے۔ یہ احساس انھیں شدت سے ستانے لگا کہ پاکستان بنانے میں ہم سب سے آگے تھے۔ اب ہمیں سب سے پچھلی صفوں میں دھکیل دیا گیا۔ اہل سندھ نے کھلی بانہوں سے مہاجروں کو خوش آمدید کہا۔ ان کی آباد کاری میں ہر طرح کی مدد کی۔ مہاجروں کی آمد کا سلسلہ پاکستان بننے کے بعد طویل عرصے تک جاری رہا۔ یہ مہاجر اتنی بڑی تعداد میں پاکستان آئے کہ نہ صرف کراچی بلکہ حیدر آباد، سکھر، میر پور خاص بھی مہاجروں کے شہر بن گئے۔ اب سندھیوں کو اپنا وجود خطرے میں نظر آنے لگا۔ آبادی کا تناسب بدلنے لگا۔ شہروں میں سندھی اقلیت میں بدلنے لگے۔
مہاجروں کی بالادستی بڑھنے لگی۔ اس صورت حال میں سندھی مہاجر دونوں قومتیں عدم تحفظ کا شکار ہو گئیں۔ مہاجروں کا استدلال تھا کیونکہ پاکستان بنانے میں ہمارا کردار سب سے زیادہ ہے اس لیے سندھ کے وسائل پر ہمارا حق ہے جب کہ سندھیوں کا مؤقف یہ ہے کہ سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی پر مہاجروں کا کنٹرول ہے۔ اسی طرح دوسرے بڑے شہروں حیدرآباد اور سکھر بھی مہاجروں کے کنٹرول میں ہیں۔ اس لیے ہماری معاشی تہذیبی لسانی شناخت خطرے سے دوچار ہے۔ اس وقت سندھی اس خطرے سے دوچار ہیں کہ سندھ کے بڑے شہر مہاجروں کے کنٹرول میں ہیں تو دوسری طرف پنجاب اور دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والوں کو سندھ کی زرخیز زمینیں الاٹ کر دی گئی ہیں تو اب سندھیوں کے پاس سندھ کے زیادہ تر جنگل بیاباں ہی رہ گئے ہیں۔ اس طرح سے دونوں قومیتوں میں ایک نہ ختم ہونے والی کشمکش جاری ہے جس کا اظہار آئے دن مختلف اشکال میں ہوتا رہتا ہے جو پاکستان کی معیشت، مستقبل اور سلامتی کے لیے نیک فال نہیں۔
پاکستان میں آغاز میں ہی موقع پرستوں نے سازشیں شروع کر دی تھیں۔انھوں نے اپنے ایجنڈے کو بروئے کار لانے کے لیے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح' لیاقت علی خان کو ابتدا ہی میں اپنے راستے سے ہٹا دیا اورپھر بعد میں بانی پاکستان کی بہن کو ایک فیلڈ مارشل نے انتخابی میدان میں شکست سے دوچار کر دیا۔... ہے نا دلچسپ بات۔کراچی نے اس وقت محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔اس وقت ابھی جذبے جوان تھے ' بظاہر قومی یالسانی عصبیت کا ظہورنہیں ہوا تھا لیکن اعلیٰ سطح پر اس قسم کے جذبات موجود تھے جس کا عام آدمی کو کوئی پتہ نہیں تھا۔ محض پاکستان میں ہی مہاجر آبادی کو تحفظات لاحق نہیں ہوئے بلکہ مشرقی پاکستان میں بھی بتدریج حالات خراب ہوتے چلے گئے۔
اس وقت مغربی پاکستان میں سب متحد تھے حتٰی کہ ہندوستان سے آنے والے بھی اس اتحاد میں شامل تھے۔ اس وقت بھی کسی نے حالات کو سنبھالنے کی کوشش نہیں کی تھی۔شایدکسی کو ضرورت بھی نہیں رہی تھی۔بنگالیوں میں جمہوریت کے جراثیم زیادہ تھے، وہاں جاگیرداری کا اثرونفوذ بھی کم تھا' تعلیم کی شرح بھی قدر زیادہ تھی 'اس لیے وہ بتدریج بیگانگی کا شکار ہوتے رہے اور بلآخر بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا۔اس معاملے میں زیادہ گہرائی میں نہیں جاؤں گا کیونکہ اس سے بہت سے لوگ ناراض ہو جائیں گے۔آپ سرد جنگ اور پھر تقسیم برصغیر کو ہی دیکھ لیں' بہت سے معاملات خود بخود سمجھ آ جائیں گے' مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ قائداعظم کے خوابوں کے مطابق ترقی پسند لبرل ماڈرن بننے والی ریاست بتدریج دائیں بازوکے کنٹرول میں چلی گئی۔1970میں بنگلہ دیش قائم ہونے کے بعد موجودہ پاکستان میں جمہوری قوتیں مسلسل کمزور ہونا شروع ہو گئیں۔آہستہ آہستہ انتہا پسندی کی سوچ پروان چڑھتے چڑھتے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ گئی اور پھر ضیاء الحق برسراقتدار آئے۔اس دور میں جو کچھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ضیاء الحق نے ملک کو افغانستان کی جنگ میں شریک کر دیا۔آج ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ اسی پالیسی کا نتیجہ ہے۔
کراچی میں آج کا منظرنامہ بھی اسی ماضی سے جڑا ہوا ہے۔کراچی کی ہی کیا بات کریں وزیرستان سے لے کر کراچی تک ایک ہی کہانی ہے۔ ایک وقت وہ بھی آگیا تھا جب ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس ملک پر انتہا پسندوں کا قبضہ ہو جائے گا۔ وہ تو بھلا ہو آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ان جاں باز محب وطن قابل فخر پاکستانیوں کا جنہوں نے اس طاقتور مؤثر سازشی ٹولے کو ناکام بنا دیا جو پاکستانی اقتدار اعلیٰ کے اندر ہی موجود تھا۔ بنگلہ دیش میں مہاجر بہاری کیمپ تقسیم برصغیر کی عبرتناک مثال ہیں... اب تو کراچی کے آگے سمندر ہے... اس کے بعد کوئی جائے پناہ نہیں۔
پاکستان کی تمام قومیتوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے۔ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ موجودہ بحران کا حل یہی ہے کہ تمام علاقوں کے حالات کو سامنے رکھ کر وہاں کے دکھ درد کا علاج کیا جائے۔ عوام جس کو مینڈیٹ دیں اسے تسلیم کیا جائے اور جرم کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ اسی میں پاکستان کی بقا ہے اور اسی میں اس ملک میں بسنے والی تمام قومیتوں کا بھلا ہے۔ حالات کو اگر من پسند شکل دینے کی کوشش کی گئی تو نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔
...مئی جون سے اگست ستمبر ایم کیو ایم اور اس کی لیڈر شپ کے لیے احتیاط طلب وقت کا آغاز ہو جائے گا۔