اے بھائی ذرا دیکھ کر چلو
ہم ہر چیز میں سسٹم کو برا کہتے ہیں، چلیے مانا ہر چیز میں ہماری نہیں سسٹم کی غلطی ہےلیکن یہ ٹریفک تو سسٹم نہیں چلا رہا
ISLAMABAD:
اگر آپ پارٹیشن کے وقت کی تصویریں انٹرنیٹ پر سرچ کریں تو صدر کراچی کے علاقے کی ایک تصویر ملتی ہے جس میں دور دور تک سڑک خالی ہے، بیچ چوراہے میں ایک سپاہی کھڑا ہے اور سڑک کے ایک طرف ایک سائیکل سوار سپاہی کے اشارے کا انتظار کر رہا ہے، بیت گئے وہ دن، جیسے پاکستان میں ہر چیز بدل گئی ہے، ویسے ہی ٹریفک کا حال بھی پوری طرح بدل گیا ہے، حال سے بے حال ہوگیا ہے۔
آج پاکستان کے ہر بڑے شہر میں گاڑیوں کی بھرمار ہے، ہر جگہ ٹریفک جام، کہیں بسوں کا دھواں تو کہیں ہارن بجاتی گاڑیاں، گاڑیوں کے درمیان اتنی کم جگہ کہ وہاں سے ایک ہاکی نہ نکل پائے اس جگہ میں سے اسکوٹر والوں کا زبردستی اسکوٹر نکالنے کی کوشش، ساتھ ہی سونے پر سہاگا گدھا گاڑیاں، چاہے وہ دن کا کوئی بھی پہر کیوں نہ ہو، گھر سے نکل کر ہر وقت ٹریفک میں پھنس کر ہر آدمی کو لگتا ہے کہ وہ کسی سرکس کا حصہ ہو۔
پاکستان میں ٹریفک کو لے کر حالات اتنے برے نہیں تھے، یہ سلسلہ جب شروع ہوا جب پاکستان میں 1990's میں گاڑیوں کو حکومت نے ایک اسکیم کے ذریعے ملک میں امپورٹ کیا اور لوگوں کو قسطوں پر گاڑیاں خریدنے کا موقع دیا، یہ اسکیم کوئی خاص کامیاب نہیں ہوئی، ہزاروں گاڑیاں پورٹ پر کھڑے کھڑے گل گئیں، لوگوں نے اپنے نوکروں اور چوکیداروں کے نام سے ٹیکسیاں نکلوائیں اور خود استعمال کرنے لگے۔
اس اسکیم کے آنے سے ہوا یہ کہ دوسری کمپنیوں نے بھی اس ماڈل کو اپنالیا، یعنی قسطوں پر گاڑیاں دینا یا دوسرے لفظوں میں financing۔ وہ فنانسنگ جس کے ذریعے اب ہر اس شخص کے لیے گاڑی لینا آسان ہوگیا جن کے لیے پوری قیمت ادا کرکے گاڑی لینا ممکن نہیں تھا۔ پاکستان میں پچھلے دس سال میں لاکھوں کی تعداد میں گاڑیوں میں اضافہ ہوا، مگر سڑکوں میں کوئی خاص بدلاؤ نہیں ہوا۔
امریکا کی تیزی سے ترقی کی وجہ ان کا سڑکوں کا نیٹ ورک ہے، ورلڈ وار کے بعد جب امریکن سپاہی گھر واپس آئے تو ان کے پاس کوئی کام نہیں تھا ایسے میں حکومت نے ان کو پورے ملک میں سڑکیں بنانے کے کام میں لگا دیا، امریکا کے چھوٹے بڑے شہروں کے بیچ بہت سی سڑکوں کے نیٹ ورک ہیں، جن سے نہ صرف لوگوں کو بلکہ کاروبار کو بھی ایک دوسرے سے جڑنے میں مدد ملتی ہے اور یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔
پاکستان میں اس وقت 61 فیصد آبادی گاؤں دیہات میں رہتی ہے اور اسی لیے ہمارے یہاں بہتر سڑکوں کا نیٹ ورک ہونا اور بھی ضروری ہے جو مختلف گاؤں اور شہروں کو جوڑے اس سے نہ صرف لوگوں کو سفر میں آسانی ہوگی بلکہ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کو بہت فائدہ ہوگا۔
پاکستان میں اس وقت کل ملا کر 263775 کلومیٹر سڑک ہے جس میں سے تقریباً 70 فیصد سڑک پکی ہے، پاکستان کی روڈ Density یعنی رقبے کے حساب سے سڑک .32 کلومیٹر ہے جو آس پڑوس کے ملکوں سے کم ہے یعنی ہمارے یہاں رقبے کے حساب سے سڑکیں کم ہیں۔
پچھلے کئی سال میں سڑکوں سے متعلق کئی پراجیکٹس پر کام کیا گیا ہے، لاہور، اسلام آباد، کراچی میں کئی جگہ فلائی اوورز ، ساتھ میں پاک چین پروجیکٹس جس میں گوادر سے کاشغر تک بننے والی سڑک تقریباً 2400 کلومیٹر لمبی ہوگی اس کے علاوہ 6 لین کراچی لاہور موٹروے پر بھی کام ہو رہا ہے جو 460کلومیٹر رائے کوٹ سے اسلام آباد سڑک کو توسیع دے گی۔
پاکستان کی ترقی میں گاؤں اور شہر کا سڑکوں کا نیٹ ورک سے جڑ جانا ایک اہم قدم ہوگا لیکن شہروں میں بیشتر جگہ فلائی اوورز بن جانے کے بعد بھی سڑکوں پر ٹریفک کا حال برا ہے اور اس کی وجہ بڑھتی ہوئی گاڑیاں اور گاڑیوں کو چلانے والے وہ ڈرائیور ہیں جو ٹریفک کے اصولوں کا خیال نہیں رکھتے۔
ایک رپورٹ کے مطابق آج پاکستان میں سڑک پر نکلنے والے لاکھ لوگوں میں سے اٹھارہ کا روز ایکسیڈنٹ ہوتا ہے، یہ وہ نمبر ہے جو بیشتر ملکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے یہی نمبر سوئیڈن میں تین ہے، یوکے میں 3.1، ناروے 4.3، سوئٹزرلینڈ4.3، آئرلینڈ4.7،جرمنی اور ڈنمارک بھی 4.7۔
رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ پاکستان میں ایکسیڈنٹ کی وجہ زیادہ ٹریفک نہیں ہے بلکہ ایکسیڈنٹ کی ٹاپ پانچ وجوہات میں بھی یہ شامل نہیں، حیران کن طور پر پاکستان کے کئی بڑے شہروں میں حادثات کی وجہ شراب پی کر گاڑی چلانا ہے، وہ شراب جو ہمارے یہاں مکمل طور پر BAN ہے۔
دنیا کے بڑے ممالک جیسے امریکا، کینیڈا میں لمبی لمبی ہائی ویز ہیں جس پر لوگ سو، ایک سو بیس کلومیٹر کی رفتار سے گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں، ایسے میں کوئی بات ہوجائے تو بریک لگانا مشکل ہوتا ہے اور اس طرح ایکسیڈنٹ ہوجاتا ہے، لیکن پاکستان کے شہروں میں اتنے رش والی سڑکوں پر حادثات اسپیڈ کی وجہ سے نہیں ہوتے بلکہ اکثر اوقات محض شوبازی میں نوجوان اسپیڈنگ کرتے ہیں۔
ایک اور بڑی وجہ پاکستان میں روڈ ایکسیڈنٹس کی قانون کو نظر میں نہ رکھنا ہے، ان کی اہمیت کو نہ سمجھنا، لوگ جان بوجھ کر ٹریفک کے قوانین کو نظرانداز کرتے ہیں اور ان میں سے بیشتر وہ ہوتے ہیں جو پڑھے لکھے ہیں اور اچھی گاڑیاں چلا رہے ہیں۔
ایک اور وجہ حادثات کی گاڑی چلاتے وقت لوگوں کا اپنے بچوں کو دیکھنا ہے، پاکستان میں بچوں کو کار سیٹ میں بٹھانے کا نہ قانون ہے نہ رواج، جو حادثات کا بڑا سبب بن جاتا ہے۔
پچھلے کچھ عرصے سے ایک مسئلہ موبائل فونز کا بھی ہے۔ پہلے ان پر صرف کان پر رکھ کر بات کی جاتی تھی لیکن اب فونز پر ایس ایم ایس، فیس بک، واٹس ایپس جیسی چیزیں جو اکثر لوگ ڈرائیونگ کے دوران دیکھنے لگ جاتے ہیں جس سے حادثہ ہوسکتا ہے۔
ہم ہر چیز میں سسٹم کو برا کہتے ہیں، چلیے مانا ہر چیز میں ہماری نہیں سسٹم کی غلطی ہے لیکن یہ ٹریفک تو سسٹم نہیں چلا رہا، یہ تو ہم خود چلا رہے ہیں، ملک میں کچھ نہیں بھی بدل رہا ہے تو کم ازکم اپنے گاڑی چلانے کے طریقے اور انداز کو ضرور بدلیں تاکہ ہمارے یہاں کسی اور چیز کا نہیں تو ٹریفک کا حال ضرور بہتر ہوسکے۔
اگر آپ پارٹیشن کے وقت کی تصویریں انٹرنیٹ پر سرچ کریں تو صدر کراچی کے علاقے کی ایک تصویر ملتی ہے جس میں دور دور تک سڑک خالی ہے، بیچ چوراہے میں ایک سپاہی کھڑا ہے اور سڑک کے ایک طرف ایک سائیکل سوار سپاہی کے اشارے کا انتظار کر رہا ہے، بیت گئے وہ دن، جیسے پاکستان میں ہر چیز بدل گئی ہے، ویسے ہی ٹریفک کا حال بھی پوری طرح بدل گیا ہے، حال سے بے حال ہوگیا ہے۔
آج پاکستان کے ہر بڑے شہر میں گاڑیوں کی بھرمار ہے، ہر جگہ ٹریفک جام، کہیں بسوں کا دھواں تو کہیں ہارن بجاتی گاڑیاں، گاڑیوں کے درمیان اتنی کم جگہ کہ وہاں سے ایک ہاکی نہ نکل پائے اس جگہ میں سے اسکوٹر والوں کا زبردستی اسکوٹر نکالنے کی کوشش، ساتھ ہی سونے پر سہاگا گدھا گاڑیاں، چاہے وہ دن کا کوئی بھی پہر کیوں نہ ہو، گھر سے نکل کر ہر وقت ٹریفک میں پھنس کر ہر آدمی کو لگتا ہے کہ وہ کسی سرکس کا حصہ ہو۔
پاکستان میں ٹریفک کو لے کر حالات اتنے برے نہیں تھے، یہ سلسلہ جب شروع ہوا جب پاکستان میں 1990's میں گاڑیوں کو حکومت نے ایک اسکیم کے ذریعے ملک میں امپورٹ کیا اور لوگوں کو قسطوں پر گاڑیاں خریدنے کا موقع دیا، یہ اسکیم کوئی خاص کامیاب نہیں ہوئی، ہزاروں گاڑیاں پورٹ پر کھڑے کھڑے گل گئیں، لوگوں نے اپنے نوکروں اور چوکیداروں کے نام سے ٹیکسیاں نکلوائیں اور خود استعمال کرنے لگے۔
اس اسکیم کے آنے سے ہوا یہ کہ دوسری کمپنیوں نے بھی اس ماڈل کو اپنالیا، یعنی قسطوں پر گاڑیاں دینا یا دوسرے لفظوں میں financing۔ وہ فنانسنگ جس کے ذریعے اب ہر اس شخص کے لیے گاڑی لینا آسان ہوگیا جن کے لیے پوری قیمت ادا کرکے گاڑی لینا ممکن نہیں تھا۔ پاکستان میں پچھلے دس سال میں لاکھوں کی تعداد میں گاڑیوں میں اضافہ ہوا، مگر سڑکوں میں کوئی خاص بدلاؤ نہیں ہوا۔
امریکا کی تیزی سے ترقی کی وجہ ان کا سڑکوں کا نیٹ ورک ہے، ورلڈ وار کے بعد جب امریکن سپاہی گھر واپس آئے تو ان کے پاس کوئی کام نہیں تھا ایسے میں حکومت نے ان کو پورے ملک میں سڑکیں بنانے کے کام میں لگا دیا، امریکا کے چھوٹے بڑے شہروں کے بیچ بہت سی سڑکوں کے نیٹ ورک ہیں، جن سے نہ صرف لوگوں کو بلکہ کاروبار کو بھی ایک دوسرے سے جڑنے میں مدد ملتی ہے اور یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔
پاکستان میں اس وقت 61 فیصد آبادی گاؤں دیہات میں رہتی ہے اور اسی لیے ہمارے یہاں بہتر سڑکوں کا نیٹ ورک ہونا اور بھی ضروری ہے جو مختلف گاؤں اور شہروں کو جوڑے اس سے نہ صرف لوگوں کو سفر میں آسانی ہوگی بلکہ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کو بہت فائدہ ہوگا۔
پاکستان میں اس وقت کل ملا کر 263775 کلومیٹر سڑک ہے جس میں سے تقریباً 70 فیصد سڑک پکی ہے، پاکستان کی روڈ Density یعنی رقبے کے حساب سے سڑک .32 کلومیٹر ہے جو آس پڑوس کے ملکوں سے کم ہے یعنی ہمارے یہاں رقبے کے حساب سے سڑکیں کم ہیں۔
پچھلے کئی سال میں سڑکوں سے متعلق کئی پراجیکٹس پر کام کیا گیا ہے، لاہور، اسلام آباد، کراچی میں کئی جگہ فلائی اوورز ، ساتھ میں پاک چین پروجیکٹس جس میں گوادر سے کاشغر تک بننے والی سڑک تقریباً 2400 کلومیٹر لمبی ہوگی اس کے علاوہ 6 لین کراچی لاہور موٹروے پر بھی کام ہو رہا ہے جو 460کلومیٹر رائے کوٹ سے اسلام آباد سڑک کو توسیع دے گی۔
پاکستان کی ترقی میں گاؤں اور شہر کا سڑکوں کا نیٹ ورک سے جڑ جانا ایک اہم قدم ہوگا لیکن شہروں میں بیشتر جگہ فلائی اوورز بن جانے کے بعد بھی سڑکوں پر ٹریفک کا حال برا ہے اور اس کی وجہ بڑھتی ہوئی گاڑیاں اور گاڑیوں کو چلانے والے وہ ڈرائیور ہیں جو ٹریفک کے اصولوں کا خیال نہیں رکھتے۔
ایک رپورٹ کے مطابق آج پاکستان میں سڑک پر نکلنے والے لاکھ لوگوں میں سے اٹھارہ کا روز ایکسیڈنٹ ہوتا ہے، یہ وہ نمبر ہے جو بیشتر ملکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے یہی نمبر سوئیڈن میں تین ہے، یوکے میں 3.1، ناروے 4.3، سوئٹزرلینڈ4.3، آئرلینڈ4.7،جرمنی اور ڈنمارک بھی 4.7۔
رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ پاکستان میں ایکسیڈنٹ کی وجہ زیادہ ٹریفک نہیں ہے بلکہ ایکسیڈنٹ کی ٹاپ پانچ وجوہات میں بھی یہ شامل نہیں، حیران کن طور پر پاکستان کے کئی بڑے شہروں میں حادثات کی وجہ شراب پی کر گاڑی چلانا ہے، وہ شراب جو ہمارے یہاں مکمل طور پر BAN ہے۔
دنیا کے بڑے ممالک جیسے امریکا، کینیڈا میں لمبی لمبی ہائی ویز ہیں جس پر لوگ سو، ایک سو بیس کلومیٹر کی رفتار سے گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں، ایسے میں کوئی بات ہوجائے تو بریک لگانا مشکل ہوتا ہے اور اس طرح ایکسیڈنٹ ہوجاتا ہے، لیکن پاکستان کے شہروں میں اتنے رش والی سڑکوں پر حادثات اسپیڈ کی وجہ سے نہیں ہوتے بلکہ اکثر اوقات محض شوبازی میں نوجوان اسپیڈنگ کرتے ہیں۔
ایک اور بڑی وجہ پاکستان میں روڈ ایکسیڈنٹس کی قانون کو نظر میں نہ رکھنا ہے، ان کی اہمیت کو نہ سمجھنا، لوگ جان بوجھ کر ٹریفک کے قوانین کو نظرانداز کرتے ہیں اور ان میں سے بیشتر وہ ہوتے ہیں جو پڑھے لکھے ہیں اور اچھی گاڑیاں چلا رہے ہیں۔
ایک اور وجہ حادثات کی گاڑی چلاتے وقت لوگوں کا اپنے بچوں کو دیکھنا ہے، پاکستان میں بچوں کو کار سیٹ میں بٹھانے کا نہ قانون ہے نہ رواج، جو حادثات کا بڑا سبب بن جاتا ہے۔
پچھلے کچھ عرصے سے ایک مسئلہ موبائل فونز کا بھی ہے۔ پہلے ان پر صرف کان پر رکھ کر بات کی جاتی تھی لیکن اب فونز پر ایس ایم ایس، فیس بک، واٹس ایپس جیسی چیزیں جو اکثر لوگ ڈرائیونگ کے دوران دیکھنے لگ جاتے ہیں جس سے حادثہ ہوسکتا ہے۔
ہم ہر چیز میں سسٹم کو برا کہتے ہیں، چلیے مانا ہر چیز میں ہماری نہیں سسٹم کی غلطی ہے لیکن یہ ٹریفک تو سسٹم نہیں چلا رہا، یہ تو ہم خود چلا رہے ہیں، ملک میں کچھ نہیں بھی بدل رہا ہے تو کم ازکم اپنے گاڑی چلانے کے طریقے اور انداز کو ضرور بدلیں تاکہ ہمارے یہاں کسی اور چیز کا نہیں تو ٹریفک کا حال ضرور بہتر ہوسکے۔