پھر نئے صوبوں کی باتیں پہلا حصہ
پہلے ہم زبان لیکن مذہباً ہندو، اب مسلمان لیکن زبان مختلف ہے، بکھری ہندو اقلیت کے مقابل وہ اکثریت میں تھے۔
سندھ کی تقسیم کی بات ایک بار پھر کی جارہی ہے، ایم کیو ایم یہ بات براہ راست نہیں کررہی۔ کسی بھی زمین کو بانٹنے کا خیال پہلے ذہنوں میں آتا ہے اور پھر پھسل کر زبان پر، آئیڈیا کے حامی اور مخالف دلائل دیتے ہیں، تیسرے مرحلے میں نقشے اور سرحد کی بات کی جاتی ہے، حقوق دے دیے جائیں تو معاملہ دب جاتا ہے ورنہ ذہنوں میں کھینچی گئی لکیر کچھ عرصے بعد زمین پر کھینچ دی جاتی ہے۔
پرانے سندھی اپنے صوبے کی سرحدوں کو تقدس کا درجہ دیتے ہیں، صدیوں سے سندھ میں بسنے والا ایک بھی شخص نہیں ملے گا جو بٹوارے کے حق میں ہو۔ تحریک انصاف بھی سندھ کو یکجا رکھنے کی حامی ہے۔ جب بلدیاتی اختیارات دینے اور کرپشن ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو پیپلزپارٹی موثر جواب نہیں دیتی۔ قرارداد لاہور بھی اشاروں میں پاکستان کے قیام کی بات کرتی تھی۔ آہستہ آہستہ ذہنوں سے زبان پر آنے والا یہ خیال دنیا کے نقشے پر ابھر کر سامنے آگیا، سندھ کی مجوزہ تقسیم کے حوالے سے ''عزم نو'' میں 2012 سے اب تک نو دس کالم لکھے گئے ہیں۔ شاید کوئی نئی بات نہیں، اس لیے قارئین کو پچھلے تین برسوں میں تیار کی گئی دیگ سے چند دانے دکھائے جارہے ہیں۔ وہ اندازہ کرسکیںگے کہ چاول پک چکے ہیں یا یہ ہنڈیا بیچ چوراہے پر پھوٹے گی۔ تین برسوں میں لکھے گئے درجن بھر کالموں کی جھلک۔
''مہاجر صوبے کا نقشہ دیواروں پر نظر آنے لگا۔ کراچی و حیدرآباد کے در و دیوار مہاجر صوبے کے مطالبے سے بھرے نظر آنے لگے۔ اس تحریک نے پرانے سندھیوں کو محتاط کردیا۔ تقسیم سندھ سے سندھیوں کے پاس کوئی بڑا شہر بچتا ہی نہیں۔ اس طرح وہ سیاسی، ثقافتی اور معاشی طور پر سو سال پیچھے چلے جاتے ہیں۔ پیپلزپارٹی اس ملک پر پانچ مواقع پر پندرہ سال سے زیادہ حکومت کرچکی ہے بلدیاتی انتخابات ان کی لغت میں ہی نہیں۔ اس طرح بڑے شہر کے وسائل صوبے کی حکومت کے ہاتھ میں آجاتے ہیں، اہم وزراتیں شہری علاقوں کے نمایندوں کے ہاتھ میں نہیں ہوتیں، اس صورت میں کراچی، حیدرآباد کا کوئی والی وارث ہی نہیں ہوتا۔'' (صوبوں کی تقسیم، 28 مئی 2012)
''یہ سندھ ہے، اسے وادی مہران بھی کہتے ہیں، یہ پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ ہے، پہلے اس میں جو لوگ رہتے تھے انھیں پرانا سندھی کہتے ہیں، ہجرت کرکے آنے والوں کو نیا سندھی کہتے ہیں، پرانے سندھی سن ستر سے پیپلز پارٹی کو ووٹ دے رہے ہیں۔ کراچی، حیدرآباد کے اردو بولنے والے پہلے مسلم لیگ، پھر مذہبی پارٹیوں اور پھر ایم کیو ایم کو ووٹ دینے کی تاریخ رکھتے ہیں۔ دونوں بڑی آبادیوں کی سیاسی پسند و ناپسند الگ الگ ہے۔ ان کی محبوب شخصیات جدا جدا ہیں، پاکستان قائم ہوا تو کراچی اس کا دارالخلافہ قرار پایا۔ چار پانچ لاکھ کا شہر دو عشروں میں نصف کروڑ کا شہر بن گیا، صوبے کا مسئلہ دو لسانی اکائیوں کا الگ الگ جگہ آباد ہونا بھی ہے'' (''یہ سندھ ہے'' 20 ستمبر 2012)
''سندھ کی صورت حال عجیب مقام پر آگئی ہے۔ نہ آگے بڑھا جاسکتا ہے اور نہ پیچھے ہٹا جاسکتا ہے، اب وہ لوگ تو نہیں رہے جنھوں نے تقسیم ہند اور ہجرت کا فیصلہ کیا تھا۔ اب وقت کی رفتار ان کی اولادوں سے عقلمندانہ فیصلوں کا تقاضا کرتی ہے۔ پہلے 45 فیصد ہندو اس صوبے کی سیاست و معیشت پر حاوی تھے۔ اب مسلم اقلیتی صوبوں سے آنے والے اردو و گجراتی بولنے والے، پنجاب سے آنے والے ہنرمند تو پٹھان محنت کش ہر طرف چھاگئے ہیں۔ ایسے میں پرانے سندھی مسلمانوں کے مسئلے کی نوعیت بدل گئی ہے۔ پہلے ہم زبان لیکن مذہباً ہندو، اب مسلمان لیکن زبان مختلف ہے، بکھری ہندو اقلیت کے مقابل وہ اکثریت میں تھے۔
اب شہروں میں ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کے مقابل وہ اقلیت میں ہیں اور اپنی ہزاروں سالہ قدیم ثقافت کا حوالہ دے رہے ہیں، سیاست پر پہلے بھی وہ ففٹی ففٹی کے حصے دار تھے اور صورت حال اب بھی یہی ہے۔ اب بلدیاتی مسائل حل ہوں تو کیوں کر؟ کیفیت یہ ہے کہ مکان میں کرایہ دار رہ رہا ہے اب مالک مکان اسے رنگ و روغن کروانے،بلب لگانے، باتھ روم بنانے، کھڑکی نکالنے کی اجازت نہیں دے رہا۔ وہ ڈر رہا ہے کہ کہیں اس کے مکان پر قبضہ نہ ہوجائے۔ نہ کرائے دار سے مکان خالی کروایا جاسکتا ہے اور نہ اس کا حق ملکیت تسلیم کیا جاسکتا ہے، اب اسے صفائی ستھرائی کے اختیارات نہ دینا،فرش نہ بنانے دینا، پانی کی موٹر نہ لگانے دینا کب تک چل سکے گا؟'' (''سندھ کے لوگو! عقلمند بنو'' 31 اکتوبر 2012)
''کیا یہ تقسیم سندھ نہیں؟ ایک درجن تاریخی واقعات ایسے ہیں جو سوال کرتے ہیں کہ صوبہ سرجری کے عمل سے گزر چکا ہے یا نہیں؟ تقسیم ہند کے موقع پر سندھ تقسیم کیوں نہیں ہوا؟ جب بنگال کا ہندو اور پنجاب کا سکھ اپنی زمین کے ساتھ جدید ہندوستان میں شامل ہوا تو سندھ کا ہندو چالیس فیصد ہونے کے باوجود خالی ہاتھ کیوں ہندوستان روانہ ہوگیا؟ شاید پہلی مرتبہ اخبارات کے صفحات پر اٹھایا جانے والا سوال۔ اگر ہندوؤں کی اکثریت ان فیصلوں میں ہوتی جن کی سرحد بھارت سے ملتی ہے تو سندھ بھی پنجاب و بنگال کی طرح 47 میں تقسیم ہوجاتا، پورے سندھ میں بکھرے ہندو تہی دست رہے، نئی صدی میں بھٹو خاندان کے مقابل الطاف حسین کی تصاویر کے سائے میں مذاکرات کیا تھے؟ یہ حقوق کی جنگ نہیں بلکہ اسے سندھ کی دسویں تقسیم کہا جاسکتا ہے۔'' (''یہ تقسیم سندھ نہیں؟'' 3 دسمبر 2012)
''ہندوستان کے اتحاد کو بڑا مقدس سمجھا جاتا تھا۔ اس کی تقسیم کو گؤ ماتا کو کاٹنے کی مانند خیال کیا جاتا تھا۔ لیکن کیا ہوا؟ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی و کوریا تقسیم ہوا ہے سوویت یونین صدی کے ختم ہونے سے پہلے ختم ہوگیا، اسلام کے نام پر حاصل کردہ پاکستان کا ایک حصہ ٹوٹ کر بنگلہ دیش بنا۔ بلوچستان کا کچھ حصہ ایران کے پاس ہے تو کچھ پاکستان کے پاس پنجاب و کشمیر نامی خطے ہندوستان میں ہیں تو ہمارے ملک میں بھی افغانستان جب دو حصوں میں بٹا تو ایک حصہ آزاد ملک کہلایا تو دوسرا برٹش انڈیا کا صوبہ۔ کسی زمین کو دھرتی ماں کہہ کر تقدس کا درجہ دیا جائے؟ اصل زمین زرخیز زمین ہوتی ہے ورنہ بنجر زمین کو تو کوئی بیٹا نہیں بیچتا، دودھ دینا بند کردینے والی چہیتی بھینس کو قصائی کے حوالے کردیاجاتا ہے، اصل مسئلہ پیٹ کا مسئلہ ہے ورنہ روٹی کی خاطر دھرتی ماں کو چھوڑ جانے والوں کی داستانیں کچھ کم نہیں۔
اگر سندھی بولنے والے بڑی تعداد میں کراچی میں ہوتے تو مسئلہ نہ ہوتا، اگر کراچی واحد پورٹ سٹی اور صنعتی حب نہ ہوتا تب بھی اتنا شور شرابہ نہ ہوتا۔ اگر سندھی بولنے والوں کا اپنا کوئی بڑا شہر ترقی یافتہ اور بندرگاہ کے نزدیک ہوتا تب بھی جھگڑے کی شدت کم رہتی، تقسیم کس طرح روکی جائے؟ آصف زرداری نے اس حقیقت کو سمجھ کر ذوالفقار آباد کو بسانے کی ابتدا کی۔ جدید شہر اور پورٹ سٹی سندھیوں کے لیے اس لیے کہ نئے اور پرانے سندھیوں میں توازن قائم ہو۔ سندھ تقسیم نہیں ہوگا یا ہوچکا ہے۔
یہ سوال آج ہمارا موضوع ہے، حقیقت یہ ہے کہ صوبے کی انتظامی تقسیم کے آثار نظر آرہے ہیں، حقیقت سے آنکھیں چرائی جارہی ہیں اسے صدیوں کی روایت، زمین کے تقدس اور دھرتی ماں کے نعرے میں چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے، سچائی یہ ہے کہ کراچی جیسا بڑا شہر اور کماؤ پوت سندھیوں کے لیے اقلیتی شہر بن چکا ہے، لاہور بڑا شہر تو فیصل آباد، پنڈی اور ملتان بھی کچھ کم نہیں، پشاور سے ایبٹ آباد اور سوات کچھ ذرا سے ہی چھوٹے ہوںگے صرف انیس بیس کا فرق ہے، سندھ میں یہ فرق زمین اور آسمان کا ہے، آصف زرداری انتظامی بنیاد پر سندھ کی تقسیم کو مان چکے ہیں ''ذوالفقار آباد'' کی مخالفت کرنے والے بھی جان گئے ہیں کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا۔ ہمیں سوچنا ہے کہ واقعتاً سندھ تقسیم ہوچکا ہے۔'' (''سندھ تقسیم ہوچکا ہے'' 19 نومبر 2012)
پرانے سندھی اپنے صوبے کی سرحدوں کو تقدس کا درجہ دیتے ہیں، صدیوں سے سندھ میں بسنے والا ایک بھی شخص نہیں ملے گا جو بٹوارے کے حق میں ہو۔ تحریک انصاف بھی سندھ کو یکجا رکھنے کی حامی ہے۔ جب بلدیاتی اختیارات دینے اور کرپشن ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو پیپلزپارٹی موثر جواب نہیں دیتی۔ قرارداد لاہور بھی اشاروں میں پاکستان کے قیام کی بات کرتی تھی۔ آہستہ آہستہ ذہنوں سے زبان پر آنے والا یہ خیال دنیا کے نقشے پر ابھر کر سامنے آگیا، سندھ کی مجوزہ تقسیم کے حوالے سے ''عزم نو'' میں 2012 سے اب تک نو دس کالم لکھے گئے ہیں۔ شاید کوئی نئی بات نہیں، اس لیے قارئین کو پچھلے تین برسوں میں تیار کی گئی دیگ سے چند دانے دکھائے جارہے ہیں۔ وہ اندازہ کرسکیںگے کہ چاول پک چکے ہیں یا یہ ہنڈیا بیچ چوراہے پر پھوٹے گی۔ تین برسوں میں لکھے گئے درجن بھر کالموں کی جھلک۔
''مہاجر صوبے کا نقشہ دیواروں پر نظر آنے لگا۔ کراچی و حیدرآباد کے در و دیوار مہاجر صوبے کے مطالبے سے بھرے نظر آنے لگے۔ اس تحریک نے پرانے سندھیوں کو محتاط کردیا۔ تقسیم سندھ سے سندھیوں کے پاس کوئی بڑا شہر بچتا ہی نہیں۔ اس طرح وہ سیاسی، ثقافتی اور معاشی طور پر سو سال پیچھے چلے جاتے ہیں۔ پیپلزپارٹی اس ملک پر پانچ مواقع پر پندرہ سال سے زیادہ حکومت کرچکی ہے بلدیاتی انتخابات ان کی لغت میں ہی نہیں۔ اس طرح بڑے شہر کے وسائل صوبے کی حکومت کے ہاتھ میں آجاتے ہیں، اہم وزراتیں شہری علاقوں کے نمایندوں کے ہاتھ میں نہیں ہوتیں، اس صورت میں کراچی، حیدرآباد کا کوئی والی وارث ہی نہیں ہوتا۔'' (صوبوں کی تقسیم، 28 مئی 2012)
''یہ سندھ ہے، اسے وادی مہران بھی کہتے ہیں، یہ پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ ہے، پہلے اس میں جو لوگ رہتے تھے انھیں پرانا سندھی کہتے ہیں، ہجرت کرکے آنے والوں کو نیا سندھی کہتے ہیں، پرانے سندھی سن ستر سے پیپلز پارٹی کو ووٹ دے رہے ہیں۔ کراچی، حیدرآباد کے اردو بولنے والے پہلے مسلم لیگ، پھر مذہبی پارٹیوں اور پھر ایم کیو ایم کو ووٹ دینے کی تاریخ رکھتے ہیں۔ دونوں بڑی آبادیوں کی سیاسی پسند و ناپسند الگ الگ ہے۔ ان کی محبوب شخصیات جدا جدا ہیں، پاکستان قائم ہوا تو کراچی اس کا دارالخلافہ قرار پایا۔ چار پانچ لاکھ کا شہر دو عشروں میں نصف کروڑ کا شہر بن گیا، صوبے کا مسئلہ دو لسانی اکائیوں کا الگ الگ جگہ آباد ہونا بھی ہے'' (''یہ سندھ ہے'' 20 ستمبر 2012)
''سندھ کی صورت حال عجیب مقام پر آگئی ہے۔ نہ آگے بڑھا جاسکتا ہے اور نہ پیچھے ہٹا جاسکتا ہے، اب وہ لوگ تو نہیں رہے جنھوں نے تقسیم ہند اور ہجرت کا فیصلہ کیا تھا۔ اب وقت کی رفتار ان کی اولادوں سے عقلمندانہ فیصلوں کا تقاضا کرتی ہے۔ پہلے 45 فیصد ہندو اس صوبے کی سیاست و معیشت پر حاوی تھے۔ اب مسلم اقلیتی صوبوں سے آنے والے اردو و گجراتی بولنے والے، پنجاب سے آنے والے ہنرمند تو پٹھان محنت کش ہر طرف چھاگئے ہیں۔ ایسے میں پرانے سندھی مسلمانوں کے مسئلے کی نوعیت بدل گئی ہے۔ پہلے ہم زبان لیکن مذہباً ہندو، اب مسلمان لیکن زبان مختلف ہے، بکھری ہندو اقلیت کے مقابل وہ اکثریت میں تھے۔
اب شہروں میں ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کے مقابل وہ اقلیت میں ہیں اور اپنی ہزاروں سالہ قدیم ثقافت کا حوالہ دے رہے ہیں، سیاست پر پہلے بھی وہ ففٹی ففٹی کے حصے دار تھے اور صورت حال اب بھی یہی ہے۔ اب بلدیاتی مسائل حل ہوں تو کیوں کر؟ کیفیت یہ ہے کہ مکان میں کرایہ دار رہ رہا ہے اب مالک مکان اسے رنگ و روغن کروانے،بلب لگانے، باتھ روم بنانے، کھڑکی نکالنے کی اجازت نہیں دے رہا۔ وہ ڈر رہا ہے کہ کہیں اس کے مکان پر قبضہ نہ ہوجائے۔ نہ کرائے دار سے مکان خالی کروایا جاسکتا ہے اور نہ اس کا حق ملکیت تسلیم کیا جاسکتا ہے، اب اسے صفائی ستھرائی کے اختیارات نہ دینا،فرش نہ بنانے دینا، پانی کی موٹر نہ لگانے دینا کب تک چل سکے گا؟'' (''سندھ کے لوگو! عقلمند بنو'' 31 اکتوبر 2012)
''کیا یہ تقسیم سندھ نہیں؟ ایک درجن تاریخی واقعات ایسے ہیں جو سوال کرتے ہیں کہ صوبہ سرجری کے عمل سے گزر چکا ہے یا نہیں؟ تقسیم ہند کے موقع پر سندھ تقسیم کیوں نہیں ہوا؟ جب بنگال کا ہندو اور پنجاب کا سکھ اپنی زمین کے ساتھ جدید ہندوستان میں شامل ہوا تو سندھ کا ہندو چالیس فیصد ہونے کے باوجود خالی ہاتھ کیوں ہندوستان روانہ ہوگیا؟ شاید پہلی مرتبہ اخبارات کے صفحات پر اٹھایا جانے والا سوال۔ اگر ہندوؤں کی اکثریت ان فیصلوں میں ہوتی جن کی سرحد بھارت سے ملتی ہے تو سندھ بھی پنجاب و بنگال کی طرح 47 میں تقسیم ہوجاتا، پورے سندھ میں بکھرے ہندو تہی دست رہے، نئی صدی میں بھٹو خاندان کے مقابل الطاف حسین کی تصاویر کے سائے میں مذاکرات کیا تھے؟ یہ حقوق کی جنگ نہیں بلکہ اسے سندھ کی دسویں تقسیم کہا جاسکتا ہے۔'' (''یہ تقسیم سندھ نہیں؟'' 3 دسمبر 2012)
''ہندوستان کے اتحاد کو بڑا مقدس سمجھا جاتا تھا۔ اس کی تقسیم کو گؤ ماتا کو کاٹنے کی مانند خیال کیا جاتا تھا۔ لیکن کیا ہوا؟ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی و کوریا تقسیم ہوا ہے سوویت یونین صدی کے ختم ہونے سے پہلے ختم ہوگیا، اسلام کے نام پر حاصل کردہ پاکستان کا ایک حصہ ٹوٹ کر بنگلہ دیش بنا۔ بلوچستان کا کچھ حصہ ایران کے پاس ہے تو کچھ پاکستان کے پاس پنجاب و کشمیر نامی خطے ہندوستان میں ہیں تو ہمارے ملک میں بھی افغانستان جب دو حصوں میں بٹا تو ایک حصہ آزاد ملک کہلایا تو دوسرا برٹش انڈیا کا صوبہ۔ کسی زمین کو دھرتی ماں کہہ کر تقدس کا درجہ دیا جائے؟ اصل زمین زرخیز زمین ہوتی ہے ورنہ بنجر زمین کو تو کوئی بیٹا نہیں بیچتا، دودھ دینا بند کردینے والی چہیتی بھینس کو قصائی کے حوالے کردیاجاتا ہے، اصل مسئلہ پیٹ کا مسئلہ ہے ورنہ روٹی کی خاطر دھرتی ماں کو چھوڑ جانے والوں کی داستانیں کچھ کم نہیں۔
اگر سندھی بولنے والے بڑی تعداد میں کراچی میں ہوتے تو مسئلہ نہ ہوتا، اگر کراچی واحد پورٹ سٹی اور صنعتی حب نہ ہوتا تب بھی اتنا شور شرابہ نہ ہوتا۔ اگر سندھی بولنے والوں کا اپنا کوئی بڑا شہر ترقی یافتہ اور بندرگاہ کے نزدیک ہوتا تب بھی جھگڑے کی شدت کم رہتی، تقسیم کس طرح روکی جائے؟ آصف زرداری نے اس حقیقت کو سمجھ کر ذوالفقار آباد کو بسانے کی ابتدا کی۔ جدید شہر اور پورٹ سٹی سندھیوں کے لیے اس لیے کہ نئے اور پرانے سندھیوں میں توازن قائم ہو۔ سندھ تقسیم نہیں ہوگا یا ہوچکا ہے۔
یہ سوال آج ہمارا موضوع ہے، حقیقت یہ ہے کہ صوبے کی انتظامی تقسیم کے آثار نظر آرہے ہیں، حقیقت سے آنکھیں چرائی جارہی ہیں اسے صدیوں کی روایت، زمین کے تقدس اور دھرتی ماں کے نعرے میں چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے، سچائی یہ ہے کہ کراچی جیسا بڑا شہر اور کماؤ پوت سندھیوں کے لیے اقلیتی شہر بن چکا ہے، لاہور بڑا شہر تو فیصل آباد، پنڈی اور ملتان بھی کچھ کم نہیں، پشاور سے ایبٹ آباد اور سوات کچھ ذرا سے ہی چھوٹے ہوںگے صرف انیس بیس کا فرق ہے، سندھ میں یہ فرق زمین اور آسمان کا ہے، آصف زرداری انتظامی بنیاد پر سندھ کی تقسیم کو مان چکے ہیں ''ذوالفقار آباد'' کی مخالفت کرنے والے بھی جان گئے ہیں کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا۔ ہمیں سوچنا ہے کہ واقعتاً سندھ تقسیم ہوچکا ہے۔'' (''سندھ تقسیم ہوچکا ہے'' 19 نومبر 2012)