ایشین ٹائیگر بننے کا خواب
چینی صدر شی چن پنگ کے دورے کے دوران پاک چائنا اقتصادی راہداری کے 30 منصوبوں سمیت تعاون کے51 معاہدوں پر دستخط ہوئے۔
عظیم دوست چین کے صدر شی چن پنگ کا فقید المثال استقبال یہ ظاہرکرتا ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی ہمالیہ سے بلند، سمندروں سے گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔ صدر شی چن پنگ نے اپنے دورے کے دوران اقتصادی تعاون کے مختلف معاہدوں ،صدر مملکت ممنون حسین، وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف سے ملاقاتیں، مشترکہ پریس کانفرنس اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ اس موقعے پر شی چن پنگ نے پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے جن جذبات کا اظہار کیا وہ دنیا بھر کے لیے کھلا پیغام ہے کہ دونوں ملکوں کی دوستی حقیقی معنوں میں سدا بہار ہے۔ دونوں ملک امن و ترقی کے تمام پہلوؤں پر پوری طرح متفق ہیں اور اسٹرٹیجک تعاون و شراکت داری کے لازوال رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے آئرن برادر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
چینی صدر شی چن پنگ کے دورے کے دوران پاک چائنا اقتصادی راہداری کے 30 منصوبوں سمیت تعاون کے51 معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ سول ایٹمی تعاون جاری رکھنے کے علاوہ آیندہ 2 سال میں باہمی تجارت کا حجم 20 ارب ڈالر تک لانے پر اتفاق کیا گیا۔ تقریباً 46 ارب ڈالر میں سے 28 ارب ڈالر کے منصوبے فوری اور 17 ارب ڈالر کے ضروری تقاضے مکمل کرنے کے بعد شروع کیے جائیں گے۔ صدر شی چن پنگ اور وزیرِ اعظم محمد نوازشریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے 8 منصوبوں کا افتتاح کیا اور توانائی کے 5 منصوبوں کا سنگِ بنیاد رکھا۔ 32 منصوبے 2018 کے انتخابی سال میں مکمل ہوجائیں گے جن میں توانائی کے تھرکول سمیت 22 پراجیکٹس بھی شامل ہیں۔
20 ارب ڈالر کے معاہدوں سے پاکستان کو 8 ہزار 3 سو میگاواٹ سے زائد بجلی ملے گی۔ جس سے ملک میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوسکے گا۔ دونوں ملکوں کے وفود میں مذاکرات کے دوران جن منصوبوں پر معاہدے ہوئے ان میں گوادر پورٹ، مواصلاتی انفراسٹریکچر، سائنس و ٹیکنالوجی سمیت متعدد شعبوں میں تعاون بڑھانے کے معاہدے شامل ہیں۔ یہ بھی طے پایا ہے کہ قراقرم ہائی وے کی اپ گریڈیشن کی جائے گی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ 45 ارب ڈالر سے زائد رقم میں کوئی سودی قرضہ شامل نہیں بلکہ یہ چینی کمپنیوں کی سرمایہ کاری ہے۔ اس سے خطے میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھے گا۔
یوں تو سب ہی معاہدے اہمیت کے حامل ہیں لیکن صدر شی چن پنگ کے دورے کے دوران سب سے زیادہ توجہ کا مرکوز پاک چین اقتصادی کوریڈور تھا۔ اس منصوبے کے تحت گہرے پانیوں والی بندرگاہ گوادر کو چین کے مغربی علاقے ہنکیسانگ سے منسلک کردیا جائے گا۔ گوادر سے خنجراب تک اقتصادی راہداری کا منصوبہ محض ریل یا دوڑکا نام نہیں بلکہ اس سے خطے کے ممالک کے اربوں عوام کو ایک دوسرے سے مربوط کردیا جائے گا۔ جس سے تجارت، صنعتی ترقی اور روزگار کے وسیع مواقعے میسر آئیں گے۔ واضح رہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان 2005 میں آزادانہ تجارت پر مذاکرات کے آغاز پر اتفاق کی شکل میں تاریخی پیش رفت ہوئی۔
اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ملکوںکے درمیان 2008 میں آزاد تجارت کا معاہدہ طے پایا۔ جس پر 2009 سے عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ 2010 میں صدر وین جیا ہاؤ کے دورۂ پاکستان کے موقعے پر 30ارب ڈالر سے زیادہ کے تجارتی معاہدے ہوئے تھے۔ اور اب چینی صدر شی چن پنگ کے حالیہ دورۂ پاکستان سے نئی اقتصادی تاریخ رقم کی جائے گی۔ واضح رہے کہ صدر شی چن پنگ کو ستمبر 2014 میں پاکستان کا دورہ کرنا تھا لیکن شاہراہ دستور پر عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کی وجہ سے یہ دورہ موخر ہوگیا تھا۔ پھر نومبر میں دورے کا پروگرام بنایاگیا لیکن سیکیورٹی کی صورتحال تسلی بخش نہ ہونے کی وجہ سے یہ دورہ ایک بار پھر ملتوی کرنا پڑا۔ لیکن اس تاخیر سے قومی معیشت 7، 8 ماہ پیچھے چلی گئی۔ جو ملک و قوم کا بڑا نقصان ہے۔
وزیر اعظم محمد نوازشریف پچھلے دورے حکومت میں بھی اس عزم کا واضح اظہار کرچکے تھے کہ وہ پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانا چاہتے ہیں لیکن ان کا یہ خواب قبل از وقت حکومت ختم کی جانے کی وجہ سے پورا نہیں ہوسکا۔ اب چینی صدر شی چن پنگ کا کہنا ہے کہ پاکستان اقتصادی معاہدوں پر عمل درآمد کرکے ایشیئن ٹائیگر بن سکتا ہے۔ بلاشبہ چین سے جو نئے اقتصادی روابط قائم ہوئے ہیں اگر نواز حکومت ان کے ثمرات بھرپور انداز سے حاصل کرے تو پھر وزیر اعظم محمد نواز شریف کا پاکستان کو ایشین ٹائیگر بننے کا خواب بھی پورا ہونے کا امکان ہے۔ اس موقعے پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان میں ایک لابی ایسی ہے جو ہر قومی منصوبے پر نکتہ چینی کرتی ہے اور اسے متنازع بنانے کی کوشش کرتی ہے۔
اسی طرح اقتصادی کوریڈور کے منصوبے کے حوالے سے بھی متنازع پالیسی اختیار کی جا رہی ہے، اس تاریخی موقعے پر ہمیں قومی اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں موجودہ حکومت تمام سیاسی قیادت کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔اور ہمیں محنت، دیانتداری اور شفافیت کو اپنا معیار بنانا ہوگا۔ ہمیں اب ساری توجہ ملک میں قیامِ امن، دہشتگردی اور جرائم کے خاتمے پر صرف کرنا ہوگی، تاکہ سرمایہ کاروں کو پر امن اور سازگار ماحول میسر آسکے۔ اس ضمن میں یہ بھی ضروری ہے کہ آپریشن ضرب عضب اور کراچی آپریشن کو مکمل کامیابی سے ہمکنار کیا جائے تاکہ خوف ودہشت سے پاک فضا میں اقتصادی ترقی کا سفر شروع کیا جاسکے۔
بلاشبہ اس بات سے کسی کو انکار ممکن نہیں کہ چین کے صدر کا حالیہ دورۂ پاکستان، پاک چین تعلقات، علاقائی ترقی اور خطے کے ممالک کی معاشی سرگرمیوں پر انمٹ نقوش چھوڑے گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ چین کے سرمایہ کاروں کی جانب سے 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان کو خطے کی ممتاز معاشی قوت بننے میں مدد دے گی تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری قیادت اور پالیسی ساز اس اہم ترین موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھائیں تاکہ یہ ملک ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن ہو اور اس ملک کا بھی شمار دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں ہو۔