ریونیو انتظامیہ پاکستانی ٹیکس نظام میں خرابی کی ذمہ دار ہے عالمی بینک

پیچیدہ ٹیکس نظام،تنگ ٹیکس بیس اورٹیکسوں میں بڑے پیمانےپردی جانےوالی رعایت وچھوٹ کم ریونیو موبلائزیشن کی بڑی وجوہات ہیں


Irshad Ansari May 04, 2015
ایف بی آر کو کمپلائنس و ریونیو بڑھانے کیلیے سسٹم کو الائن، اسٹرکچر، آپریشنز اور پراسیس کو جدید ایڈمنسٹریشن سے ہم آہنگ کرنا ہوگا، رپورٹ۔ فوٹو: فائل

عالمی بینک نے کہا ہے کہ پیچیدہ ٹیکس نظام، تنگ ٹیکس بیس اور ٹیکسوں میں بڑے پیمانے پر دی جانیوالی رعایت و چھوٹ کو پاکستان میں کم ریونیو موبلائزیشن کی بڑی وجوہات ہیں۔

ایف بی آر کو ٹیکس دہندگان کے کمپلائنس کی شرح اور ٹیکس وصولیاں بڑھانے کیلیے اپنے سسٹم کو الائن کرنے کے ساتھ ساتھ اسٹرکچر، آپریشنز اور پراسیس کو جدید ٹیکس ایڈمنسٹریشن سے ہم آہنگ بنانا ہوگا۔ ایف بی آر ذرائع نے گزشتہ روز''ایکسپریس''کو بتایا کہ یہ بات گروتھ اور ریونیو میں تیزی لانے کیلیے قائم ٹرسٹ فنڈ کے ٹیکسوں سے متعلقہ حصہ پر عملدرآمد کے پہلے سال کے لیے ورک پلان کی تیاری کیلیے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنیوالے عالمی بینک کے جائزہ مشن نے اپنی رپورٹ میں کہی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ جائزہ مشن کے دورہ پاکستان کا بنیادی مقصد ایف بی آر کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر موازنہ کرنا اور صلاحیتوں میں اضافے کیلیے سرگرمیوں کی نشاندہی کرنا ہے جنہیں گروتھ اور ریونیو میں تیزی لانے کیلیے قائم ٹرسٹ فنڈ کے ٹیکسوں سے متعلقہ حصے پر عملدرآمد کے پہلے سال کیلیے پروگرام میں شامل کرنا ہے۔

ذرائع کے مطابق پبلک سیکٹر اسپیشلسٹ راول فلیکس جُنکوئرہ کی سربراہی میں پاکستان کا دورہ کرنیوالے عالمی بینک کے جائزہ مشن میں سینئر اکانومسٹ محمد وحید،آئی ٹی اسپیشلسٹ رمیش سیوا،ریسرچ اینالسٹ فرانسیسکو لازارو،ٹیکس کنسلٹنٹ مس سٹیفن سویٹ، سینئر پبلک سیکٹر اسپیشلسٹ بھٹی اور ایکسٹنڈڈ ٹرم کنسلٹنٹ مس ارم توقیر شامل تھے۔ مذکورہ جائزہ مشن نے ایف بی آر حکام کے ساتھ مل کر تفصیلی جائزہ لینے کے بعد رپورٹ مرتب کی ہے جس میں بتایا ہے کہ پاکستان میںکم ریونیو موبلائزیشن کی وجوہات میں ٹیکس دہندگان کی جانب سے کمپلائنس کا کم ہونا، ٹیکس نیٹ بیس کا کم ہونا، ٹیکسوں میں دی جانیوالی رعایت و چھوٹ اور پیچیدہ ٹیکس سسٹم شامل ہیں۔ ان وجوہات کی وجہ سے پاکستان میں ٹیکس ریونیو اکھٹا کرنے کے اخراجات بھی بہت زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ کمزور اور غیر فعال ٹیکس انتظامیہ کی وجہ سے ملک کا ٹیکس سسٹم متاثر ہورہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران ایف بی آرنے ٹیکس ایڈمنسٹریشن، فنکشنل بیسڈ آرگنائزیشنل اسٹرکچر، کچھ ٹیکس آگہی مہم اور ای فائلنگ سمیت دیگر زعبوں میں متعدد اصلاحات متعارف کروائی ہیں جس میں بڑے ٹیکس دہندگان کیلیے سو فیصد ای فائلنگ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایف بی آر نے کثیر السالہ اسٹریٹجی پیپر اور بزنس پراسیس کو سادہ و آسان بنانے کے ساتھ ساتھ آئی آر آئی ایس کی صورت میں نیا انفارمیشن ٹیکنالوجی سسٹم بھی ڈیولپ کیا ہے مگر تمام ٹیکسوں کی انٹیگریشن نہیں کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹیکس دہندگان کے کمپلائنس کی شرح کو بڑھانے اور ٹیکس وصولیاں بڑھانے کیلیے ایف بی آر کو اپنے سسٹم کو الائن کرنا ہوگا اور اسٹرکچر، آپریشنز کے ساتھ ساتھ پراسیس کو جدید ٹیکس ایڈمنسٹریشن سے ہم آہنگ بنانا ہوگا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایف بی آر کو انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بزنس پراسیس میں پائی جانیوالی خامیوں کودور کرنا ہوگا۔ علاوہ ازیں ایف بی آر کو اپنے کور اور اہم بزنس پراسیس کو انٹیگریٹ اور اسٹریم لائن کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی بینک کے جائزہ مشن کی جانب سے رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایف بی آر کو ٹیکس سروسز کر بہتر بنانے، پراسیس انکمپاسنگ ہارڈ ویئر، سافٹ ویئر، ڈیزاسٹر ریکوری اور بزنس کمیونٹی پلان کیلیے ماسٹر پلان مرتب کرنے کی ضرورت ہے اور آئی ٹی ای اسٹریٹجی کو فعال و موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ جائزہ مشن نے تجویز دی ہے کہ ایف بی آر کے افسران و ملازمین کی صلاحیتوں کو بڑھایا جائے اور ایف بی آر کو درکار اسٹاف فراہم کیا جائے۔ اس کے علاوہ ٹیکس آڈٹ،انفورسمنٹ اور ٹیکس پیئرز اسسٹنس سمیت دیگر شعبوں میں زیادہ ماہر اور تجربہ کار افسران و اسٹاف کو تعینات کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں