مقدمات کھولنے میں اب کوئی رکاوٹ نہیں بابراعوان
خط میں صدرکے استثنیٰ کا کوئی ذکر نہیں،بات اب ختم نہیں شروع ہوئی ہے
پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق وزیرقانون بابر اعوان نے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے لکھے گئے خط میں صدر کے استثنیٰ کا کوئی ذکر نہیں، بات اب ختم نہیں شروع ہوئی ہے۔
مقدمات کھولنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔ یہ خط پیپلزپارٹی کے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیاجائے گا اورشہیدوں کی قبروں کا ٹرائل ہوگا۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام ''کل تک'' میں میزبان جاوید چودھری سے گفتگومیں انھوں نے کہا آج وہ لوگ کہاں ہیں جو کہتے تھے کہ سو وزیراعظم بھی قربان ہوجائیں مگر خط نہیں لکھیں گے، جنہوں نے خط میں صدر کے استثنیٰ کا ذکر نہیں کیا وہ قوم اور پیپلزپارٹی کو جوابدہ ہوں گے اور وقت میری بات کی تصدیق کرے گا، پارٹی کے ساتھ میری وفاداری کے بارے میں بھی وقت ہی بتائے گا، میں کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔
بابر اعوان نے کہاکہ میں آج بھی اپنے موقف پر قائم ہوں اگر میں وزیرقانون ہوتا تو خط نہ لکھتا، جب تک میں وزیرقانون رہا وزیراعظم نہیں گیا ۔ لوگ اپنا قبلہ بدل لیتے ہیں، اپنا موقف بدل لیتے ہیں مگر میں آج بھی اپنے موقف پر قائم ہوں ۔ جب میں وزیرقانون تھا توپارٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ خط نہیں لکھا جائے گا، سینٹرل ایگزیکٹیوکمیٹی کا اجلاس ہوا تھا، لیکن اب فیصلہ تبدیل کیسے ہوا اور خط لکھنے کا فیصلہ کیسے کیا گیا؟ اس کا مجھے علم نہیں اور میرا خیال نہیں کہ سینٹرل کمیٹی کہیں بیٹھی ہے، چارہفتے گزر لینے دیں بہت سی چیزیں سامنے آجائیں گی ۔
انصاف ایک مسلسل عمل ہے جو ہوتا رہنا چاہیئے، جمہوریت کی فتح کا دن وہ تھا جب بی بی شہید کی کوششوں سے این آر او بنا تھا، جس کی بدولت بہت سے لوگوں کو آنے کا موقع ملا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ فرینڈلی ہاتھ کے ذریعے اس خط سے بہت بڑے میڈیا ٹرائل کا موقع فراہم کیا گیا ہے ۔ اس خط سے آئندہ کیا ہوگا اس سے زیادہ میری نظر ہوم گرائونڈ پر ہے کہ اس کے ذریعے کیا کیا ہوسکتا ہے ۔ جیالوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہوں ،کیونکہ انھوں نے باہر نکلنا ہے اور الیکشن کی مہم میں عوام کا سامنا کرنا ہے ،کہ یہ خط ان کے لیے مشکل پیدا کرسکتا ہے۔
مقدمات کھولنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔ یہ خط پیپلزپارٹی کے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیاجائے گا اورشہیدوں کی قبروں کا ٹرائل ہوگا۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام ''کل تک'' میں میزبان جاوید چودھری سے گفتگومیں انھوں نے کہا آج وہ لوگ کہاں ہیں جو کہتے تھے کہ سو وزیراعظم بھی قربان ہوجائیں مگر خط نہیں لکھیں گے، جنہوں نے خط میں صدر کے استثنیٰ کا ذکر نہیں کیا وہ قوم اور پیپلزپارٹی کو جوابدہ ہوں گے اور وقت میری بات کی تصدیق کرے گا، پارٹی کے ساتھ میری وفاداری کے بارے میں بھی وقت ہی بتائے گا، میں کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔
بابر اعوان نے کہاکہ میں آج بھی اپنے موقف پر قائم ہوں اگر میں وزیرقانون ہوتا تو خط نہ لکھتا، جب تک میں وزیرقانون رہا وزیراعظم نہیں گیا ۔ لوگ اپنا قبلہ بدل لیتے ہیں، اپنا موقف بدل لیتے ہیں مگر میں آج بھی اپنے موقف پر قائم ہوں ۔ جب میں وزیرقانون تھا توپارٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ خط نہیں لکھا جائے گا، سینٹرل ایگزیکٹیوکمیٹی کا اجلاس ہوا تھا، لیکن اب فیصلہ تبدیل کیسے ہوا اور خط لکھنے کا فیصلہ کیسے کیا گیا؟ اس کا مجھے علم نہیں اور میرا خیال نہیں کہ سینٹرل کمیٹی کہیں بیٹھی ہے، چارہفتے گزر لینے دیں بہت سی چیزیں سامنے آجائیں گی ۔
انصاف ایک مسلسل عمل ہے جو ہوتا رہنا چاہیئے، جمہوریت کی فتح کا دن وہ تھا جب بی بی شہید کی کوششوں سے این آر او بنا تھا، جس کی بدولت بہت سے لوگوں کو آنے کا موقع ملا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ فرینڈلی ہاتھ کے ذریعے اس خط سے بہت بڑے میڈیا ٹرائل کا موقع فراہم کیا گیا ہے ۔ اس خط سے آئندہ کیا ہوگا اس سے زیادہ میری نظر ہوم گرائونڈ پر ہے کہ اس کے ذریعے کیا کیا ہوسکتا ہے ۔ جیالوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہوں ،کیونکہ انھوں نے باہر نکلنا ہے اور الیکشن کی مہم میں عوام کا سامنا کرنا ہے ،کہ یہ خط ان کے لیے مشکل پیدا کرسکتا ہے۔