آسٹریلوی بھیڑوں کی درآمد میں قواعد کی سنگین خلاف ورزی کا انکشاف
بھیڑیں پہنچنے سے 72 گھنٹے قبل اور آسٹریلیا سے روانگی کے 27روز بعد ہیلتھ سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا
بحرین سے مسترد کی جانے والی آسٹریلوی بھیڑوں کی پاکستان درآمد کے دوران سنگین بے قاعدگیوں اور قرنطینہ قواعد وضوابط اور متعلقہ قوانین کی صریحاً خلاف ورزی کا انکشاف ہوا ہے۔
وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کی تحقیقاتی کمیٹی نے آسٹریلیوی بھیڑوں کی درآمد سے متعلق فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں چونکادینے والے انکشافات کیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بھیڑوں کی کلیئرنس کے دوران پاکستان اینمل کورنٹائن (امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ آف اینمل اینڈ اینمل پراڈکٹس) ایکٹ 1979اور رولز 1980 پر مکمل عمل درآمد نہیں کیا گیا اورقرنطینہ جانچ کے قانونی طریقہ کار، رولز و ایکٹ کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ درآمد کنندگان نے مسترد کردہ بھیڑوں کی درآمد کے لیے 24اگست کو جاری کردہ این او سی استعمال کیا ۔
دوسری جانب بھیڑوں کو کلیئر قرار دینے والے افسران نے بھی وزارت سے دوبارہ اجازت طلب کیے بغیر ہی 24اگست کے این او سی کو قبول کرلیا جو قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ میں آسٹریلوی حکام کی جانب سے بھیڑوں کی صحت سے متعلق جاری کردہ ہیلتھ سرٹیفکیٹ 612-000891 پر بوگس اور فیک کے الفاظ کے ساتھ شکوک کا اظہار کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ بھیڑیں پاکستان کے لیے روانہ نہیں کی گئی تھیں تاہم بھیڑوں کو پاکستان کی بندرگاہ پہنچنے سے 72گھنٹے قبل اور آسٹریلیا سے روانہ ہونے کے 27روز بعد یکم ستمبر کو ہیلتھ سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا سمندر میں بھیڑوں کا طبی معائنہ اور پاکستان کے لیے فٹ قرار دینا اپنی جگہ تحقیق طلب ہے۔
پاکستان اینمل کورنٹائن رولز 1980 کے سیکشن 4، کلاز (v) چیپٹر 2کے مطابق جانور لانے والے جہاز کے لیے قرنطینہ ڈپارٹمنٹ کو جہاز کا روسٹر فراہم کرنا لازم ہے پاکستانی اینمل قرنطینہ رولز 1980 کے مطابق پاکستانی حکام کی ذمے داری ہے کہ کنٹری آف اوریجن سے روانہ ہونے والے جانوروں کی درست تعداد سے متعلق دستاویزی ثبوت اور جانچ پڑتال کی جائے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکام نے بھیڑوں کو بحرین کی جانب سے مسترد کیے جانے کی وجوہ معلوم کیے بغیرکلیر کردیا۔ پاکستانی بندرگاہ پر آف لوڈ ہونے والی بھیڑوں کی درست تعداد معلوم نہیں ہوسکی۔
تحقیقاتی رپورٹ میں 2افسران کے ذریعے 21000بھیڑوں کا معائنہ کیے جانے پر سخت اعتراضی کمنٹ دیے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ جہاز پر موجود 21000بھیڑوں کا معائنہ انتہائی حساس اور اہم معاملہ تھا جسے تفصیلی وٹرنری معائنہ کے بغیر 2افسران نے نمٹا دیا اور اس معائنے کے لیے وٹرنری ماہرین کی بھی خدمات حاصل نہیں کی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق غیرقانونی طور پر قرنطینہ قرار دیے گئے سلاٹر ہائوس میں جانوروں کو قرنطینہ کے طور پر رکھنے کے لیے سہولتیں ناکافی پائی گئیں اور بھیڑیں کھلے آسمان تلے بغیر شیڈ کے رکھی گئیں جہاں بھیڑوں کو گننے کے لیے بھی کوئی انتظام نہ تھا۔ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ وفاقی سیکریٹری وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے حکم پر تشکیل کردہ تحقیقاتی کمیٹی نے مرتب کی ہے جس میں ڈاکٹر محمد الیاس، قرنطینہ آفیسر اے کیو ڈی پشاور، ڈاکٹر جاوید ارشد ڈائگناسٹک اسپیشلسٹ، ایف ایم ڈی پراجیکٹ ایف اے او اسلام آباد، ڈاکٹر عارف سلیم میمن، قرنطینہ آفیسر ( این اے پی ایچ آئی ایس) کراچی اور ڈاکٹر اسلم پرویز عمرانی، ڈائریکٹر (سی وی ڈی ایل) حیدرآباد اور حکومت سندھ کے نمائندے کے طورپر ڈاکٹر نذیر کلہوڑو شامل ہیں۔
وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کی تحقیقاتی کمیٹی نے آسٹریلیوی بھیڑوں کی درآمد سے متعلق فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں چونکادینے والے انکشافات کیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بھیڑوں کی کلیئرنس کے دوران پاکستان اینمل کورنٹائن (امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ آف اینمل اینڈ اینمل پراڈکٹس) ایکٹ 1979اور رولز 1980 پر مکمل عمل درآمد نہیں کیا گیا اورقرنطینہ جانچ کے قانونی طریقہ کار، رولز و ایکٹ کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ درآمد کنندگان نے مسترد کردہ بھیڑوں کی درآمد کے لیے 24اگست کو جاری کردہ این او سی استعمال کیا ۔
دوسری جانب بھیڑوں کو کلیئر قرار دینے والے افسران نے بھی وزارت سے دوبارہ اجازت طلب کیے بغیر ہی 24اگست کے این او سی کو قبول کرلیا جو قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ میں آسٹریلوی حکام کی جانب سے بھیڑوں کی صحت سے متعلق جاری کردہ ہیلتھ سرٹیفکیٹ 612-000891 پر بوگس اور فیک کے الفاظ کے ساتھ شکوک کا اظہار کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ بھیڑیں پاکستان کے لیے روانہ نہیں کی گئی تھیں تاہم بھیڑوں کو پاکستان کی بندرگاہ پہنچنے سے 72گھنٹے قبل اور آسٹریلیا سے روانہ ہونے کے 27روز بعد یکم ستمبر کو ہیلتھ سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا سمندر میں بھیڑوں کا طبی معائنہ اور پاکستان کے لیے فٹ قرار دینا اپنی جگہ تحقیق طلب ہے۔
پاکستان اینمل کورنٹائن رولز 1980 کے سیکشن 4، کلاز (v) چیپٹر 2کے مطابق جانور لانے والے جہاز کے لیے قرنطینہ ڈپارٹمنٹ کو جہاز کا روسٹر فراہم کرنا لازم ہے پاکستانی اینمل قرنطینہ رولز 1980 کے مطابق پاکستانی حکام کی ذمے داری ہے کہ کنٹری آف اوریجن سے روانہ ہونے والے جانوروں کی درست تعداد سے متعلق دستاویزی ثبوت اور جانچ پڑتال کی جائے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکام نے بھیڑوں کو بحرین کی جانب سے مسترد کیے جانے کی وجوہ معلوم کیے بغیرکلیر کردیا۔ پاکستانی بندرگاہ پر آف لوڈ ہونے والی بھیڑوں کی درست تعداد معلوم نہیں ہوسکی۔
تحقیقاتی رپورٹ میں 2افسران کے ذریعے 21000بھیڑوں کا معائنہ کیے جانے پر سخت اعتراضی کمنٹ دیے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ جہاز پر موجود 21000بھیڑوں کا معائنہ انتہائی حساس اور اہم معاملہ تھا جسے تفصیلی وٹرنری معائنہ کے بغیر 2افسران نے نمٹا دیا اور اس معائنے کے لیے وٹرنری ماہرین کی بھی خدمات حاصل نہیں کی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق غیرقانونی طور پر قرنطینہ قرار دیے گئے سلاٹر ہائوس میں جانوروں کو قرنطینہ کے طور پر رکھنے کے لیے سہولتیں ناکافی پائی گئیں اور بھیڑیں کھلے آسمان تلے بغیر شیڈ کے رکھی گئیں جہاں بھیڑوں کو گننے کے لیے بھی کوئی انتظام نہ تھا۔ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ وفاقی سیکریٹری وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے حکم پر تشکیل کردہ تحقیقاتی کمیٹی نے مرتب کی ہے جس میں ڈاکٹر محمد الیاس، قرنطینہ آفیسر اے کیو ڈی پشاور، ڈاکٹر جاوید ارشد ڈائگناسٹک اسپیشلسٹ، ایف ایم ڈی پراجیکٹ ایف اے او اسلام آباد، ڈاکٹر عارف سلیم میمن، قرنطینہ آفیسر ( این اے پی ایچ آئی ایس) کراچی اور ڈاکٹر اسلم پرویز عمرانی، ڈائریکٹر (سی وی ڈی ایل) حیدرآباد اور حکومت سندھ کے نمائندے کے طورپر ڈاکٹر نذیر کلہوڑو شامل ہیں۔