اقوام متحدہ اور افغان حکومت کا قطر میں طالبان کا دفتر کھولنے پر اتفاق
طالبان رہنماؤں کے نام اقوام متحدہ کی دہشت گردی کی بلیک لسٹ سے خارج کیے جائیں، طالبان کا مطالبہ
قطر میں جاری امن مذاکرات میں اقوام متحدہ اور افغان حکومت نے طالبان کا سیاسی دفتر کھولنے کا مطالبہ منظورکرلیا ہے۔
غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق افغانستان میں قیام امن کے لیے اقوام متحدہ ، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات میں تینوں فریقوں کے نمائندے اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ طالبان کے ساتھ رابطوں اور مذاکرات کے لیے ان کا دفتر قطر میں کھولا جائے تاہم فریقین میں غیر ملکی افواج کی فوری افغانستان سے انخلا کے معاملے پراتفاق نہیں ہوسکا۔ مذاکرات کے بعد جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ قطر میں ہونے والے 2 روزہ غیر سرکاری اجلاس میں تنیوں فریقین کے 40 نمائندوں نے شرکت کی۔
اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ طالبان سے مسلسل مذاکرات کا عمل جاری رکھنے کے لیے اسے دوحہ میں سیاسی دفتر کھولنے کی اجازت دی جائے جب کہ اجلاس میں اس بات کا بھی مطالبہ کیا گیا کہ طالبان رہنماؤں کے نام اقوام متحدہ کی دہشت گردی کی بلیک لسٹ سے خارج کیے جائیں تاکہ وہ مذاکرات کے لیے سفر کرسکیں جب کہ غیر ملکی فوجوں کی موجودگی میں طالبان نے لڑائی بند کرنے سے بھی انکار کردیا۔
مذاکرات کا انعقاد دنیا بھر میں جاری لڑائیوں کے حل کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم پگواش کونسل اور قطر کی حکومت نے مشترکہ طور پر کیا تھا جس میں شریک 40 نمائندوں میں خواتین بھی شریک ہوئیں۔
واضح رہے کہ طالبان نے 2013 میں بھی دوحہ میں اپنا سیاسی دفتر کھولا تھا تاہم دفتر کی افتتاحی تقریب میں طالبان کی جانب سے اپنی سابق حکومت کا پرچم لہرانے پر اس وقت کے صدر حامد کرزئی نے اعتراض کردیا تھا جس پر دفتر کو بند کردیا گیا۔
غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق افغانستان میں قیام امن کے لیے اقوام متحدہ ، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات میں تینوں فریقوں کے نمائندے اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ طالبان کے ساتھ رابطوں اور مذاکرات کے لیے ان کا دفتر قطر میں کھولا جائے تاہم فریقین میں غیر ملکی افواج کی فوری افغانستان سے انخلا کے معاملے پراتفاق نہیں ہوسکا۔ مذاکرات کے بعد جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ قطر میں ہونے والے 2 روزہ غیر سرکاری اجلاس میں تنیوں فریقین کے 40 نمائندوں نے شرکت کی۔
اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ طالبان سے مسلسل مذاکرات کا عمل جاری رکھنے کے لیے اسے دوحہ میں سیاسی دفتر کھولنے کی اجازت دی جائے جب کہ اجلاس میں اس بات کا بھی مطالبہ کیا گیا کہ طالبان رہنماؤں کے نام اقوام متحدہ کی دہشت گردی کی بلیک لسٹ سے خارج کیے جائیں تاکہ وہ مذاکرات کے لیے سفر کرسکیں جب کہ غیر ملکی فوجوں کی موجودگی میں طالبان نے لڑائی بند کرنے سے بھی انکار کردیا۔
مذاکرات کا انعقاد دنیا بھر میں جاری لڑائیوں کے حل کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم پگواش کونسل اور قطر کی حکومت نے مشترکہ طور پر کیا تھا جس میں شریک 40 نمائندوں میں خواتین بھی شریک ہوئیں۔
واضح رہے کہ طالبان نے 2013 میں بھی دوحہ میں اپنا سیاسی دفتر کھولا تھا تاہم دفتر کی افتتاحی تقریب میں طالبان کی جانب سے اپنی سابق حکومت کا پرچم لہرانے پر اس وقت کے صدر حامد کرزئی نے اعتراض کردیا تھا جس پر دفتر کو بند کردیا گیا۔