پاکستان کا افغان حکومت اور طالبان مذاکرات کا خیر مقدم

طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا شروع ہونا خوش آیند امر ہے جس کے خطے پر یقیناً خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے

افغانستان کے حالات سے پاکستان بھی متاثر ہو رہا ہے اس لیے پاکستان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔ فوٹو : فائل

افغانستان میں قیام امن کے لیے قطر میں افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان دو روزہ باضابطہ مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔پاکستانی سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان قطر میں شروع ہونے والے مذاکرات کی حمایت کرتا ہے' بطور سہولت کار فریقین کے درمیان مذاکرات کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کریں گے' پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے، خطے میں قیام امن کا دارومدار افغانستان کے حالات پر ہے ہماری خواہش ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں مزید بہتری آئے۔

طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا شروع ہونا خوش آیند امر ہے جس کے خطے پر یقیناً خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ افغان حکومت کے ساتھ باضابطہ مذاکرات نہیں کر رہے بلکہ امن کے حوالے سے بحث مباحثہ کیا جا رہا ہے۔ بعض خبروں کے مطابق 2013ء میں امریکا کی رضا مندی سے قطر میں طالبان کا دفتر قائم کیا گیا تھا تاکہ طالبان سے بات چیت کا عمل شروع کیا جا سکے۔

قبل ازیں قطر میں امریکا طالبان کے درمیان مذاکرات ہو چکے ہیں مگر وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ حامد کرزئی حکومت نے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی خواہش کا کئی بار اظہار کیا مگر طالبان حامد کرزئی کے رویے سے شاکی رہے جس کے باعث ان کے درمیان کبھی مفاہمتی عمل پروان نہ چڑھ سکا۔

حامد کرزئی کا رویہ پاکستان کے بارے میں بھی معاندانہ رہا وہ اکثر و بیشتر پاکستان کے خلاف بیان بازی کرتے رہے جس سے خطے میں قیام امن کی خواہش کو ہمیشہ نقصان پہنچتا رہا' حامد کرزئی کا جھکاؤ پاکستان کی بہ نسبت بھارت کی جانب زیادہ رہا اور افغانستان میں بھارتی عمل دخل بڑھنے سے پاکستان کی سلامتی کو بھی مسائل درپیش ہوئے۔ افغانستان کے راستے بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت پاکستان نے کئی بار پیش کیے مگر افغان حکومت نے اس جانب کوئی توجہ نہ دی۔


امریکا نے افغانستان میں طالبان کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی اس جنگ میں اگرچہ طالبان کو شکست ہوئی اور ان کا اقتدار ختم ہوگیا تاہم طالبان نے امریکا کے خلاف گوریلا جنگ شروع کر دی جس میں طالبان کو اچھا خاصا نقصان بھی پہنچا اور ان کے اہم افراد بڑی تعداد میں مارے ہو گئے' طالبان کبھی اتنی بڑی قوت اور طاقت مجتمع نہ کر سکے جس سے وہ امریکا کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا سکیں لیکن تمام تر قوت اور ٹیکنالوجی کے باوجود امریکا کو طالبان کے گوریلا اور خود کش حملوں کے باعث سکون نصیب نہ ہوا اور وہ اس کے لیے مسلسل درد سر بنے رہے۔

امریکا نے اس مشکل صورت حال سے نمٹنے کے لیے طالبان کو مذاکرات کی پیشکش کی مگر بات چیت آگے نہ بڑھ سکی۔ افغانستان کے حالات سے پاکستان بھی متاثر ہو رہا ہے اس لیے پاکستان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔ افغانستان کے حالات خراب ہوئے تو جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد فرار ہو کر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئی، بعدازاں جنگجوؤں کے مختلف گروہوں کی جانب سے شروع کی جانے والی دہشت گردی کے باعث پاکستان کا امن بری طرح متاثر ہوا' امریکا نے ان قبائلی علاقوں میں چھپے ہوئے جنگجوؤں پر ڈرون حملے شروع کر دیے جس سے بڑی تعداد میں جنگجو ہلاک ہوئے۔

جس میں بے گناہوں کی اموات ہوئیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق موجودہ افغان حکومت کا قطر میں طالبان سے مذاکرات کا عمل شروع کرنا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ افغان حکومت یہ حقیقت تسلیم کر چکی ہے کہ وہ طالبان جنگجوؤں پر مستقل طور پر قابو نہیں پا سکتی اور ان کے حملے اس کی سلامتی کے لیے خطرہ بنے رہیں گے لہٰذا اس نے جنگ لڑنے کے بجائے قیام امن کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا ہے، امریکا اور افغان حکومت کو اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کا راستہ جنگ کے میدان سے ہو کر نہیں گزرتا اس کے لیے انھیں مذاکرات ہی کو ترجیح دینا پڑے گی۔طالبان بھی حملے بند کرکے مذاکرات کے ذریعے معاملات کا حل تلاش کریں تاکہ خانہ جنگی کا شکار افغانستان میں امن قائم ہو سکے۔

دوحہ میں شروع ہونے والے ان مذاکرات میں کیا پیشرفت ہوتی ہے اور فریقین کس نتیجے پر پہنچتے ہیں اس کے بارے میں فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ ان مذاکرات میں مثبت پیش رفت ہو تاکہ خطے میں قیام امن کی راہ ہوار ہو سکے۔

پاکستان ایک طویل عرصہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے جس میں اس کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے اگر افغانستان میں قیام امن کی راہ ہموار ہوتی ہے تو اس سے پاکستان میں بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے خاطر خواہ مدد ملے گی۔ دوحہ مذاکرات میں شریک فریقین کو چاہیے کہ وہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے لچکدار رویہ اختیار کریں تاکہ جلد از جلد کسی مثبت نتیجے پر پہنچا جا سکے۔
Load Next Story