سعودی عرب میں ہونے والی تبدیلیاں اور پاکستان

سعودی عرب کے نئے حکمراں نے جب سے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ہے تب سے وہاں تبدیلیوں کا عمل جاری ہے۔


Shakeel Farooqi May 05, 2015
[email protected]

سعودی عرب کے نئے حکمراں نے جب سے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ہے تب سے وہاں تبدیلیوں کا عمل جاری ہے۔ یہ عمل بالکل فطری ہے کیونکہ ہر حکمراں کا اپنا ایک نکتہ نظر اور طریقہ کار ہوتا ہے۔ اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ:

ہر کہ آمد عمارتِ نو ساخت

نئے ولی عہد کوئی دقیانوسی مزاج کے حامل شخص نہیں ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے دوسرے لوگوں سے قدرے مختلف ہیں۔ انھوں نے اعلیٰ تعلیم امریکا میں حاصل کی ہے اور اس حوالے سے ان کی زندگی کا خاصا اہم اور قابل ذکر حصہ امریکا میں گزرا ہے۔ایف بی آئی کے علاوہ انھوں نے اسکاٹ لینڈ یارڈ سے بھی باقاعدہ تربیت حاصل کی ہوئی ہے۔

سعودی عرب کے نئے فرمانروا نے محنت اور افرادی قوت کے محکمے کے نگراں وزیر کو بھی تبدیل کردیا ہے جس سے اس بات کا عندیہ مل رہا ہے کہ غیر ملکیوں کے حوالے سے سعودی عرب کی آیندہ پالیسی میں بعض اہم تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ نئے بادشاہ پر یمن کے حالات کا دباؤکم ہو رہا ہے اور اب وہ اپنی توجہ ملک کے داخلی استحکام پر مرکوز کرنے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ محض چند ماہ کے مختصر عرصے میں ولی عہد کو تبدیل کرنا اور وزیر دفاع کو ان کی جگہ دینے کا عمل اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ شاہی خاندان کوکچھ اندرونی مسائل درپیش ہیں۔

یہ بات قابل ذکر اور قابل غور ہے کہ سابق ولی عہد اور سابق وزیر خارجہ کی تبدیلی صرف معمول کی بات نہیں بلکہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے جس کا ایک مخصوص پس منظر ہے۔ اس تبدیلی کو یمن کے حالیہ بحران کے تناظر میں دیکھنے سے معاملات کو سمجھنا قدرے آسان ہوجاتا ہے۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ سابق ولی عہد اور سابق وزیر خارجہ یمن پر فضائی حملوں کے حق میں نہیں تھے جب کہ نئے ولی عہد اور نائب وزیراعظم اس پالیسی کے حامی تھے کہ یمنی باغیوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی نرمی یا رعایت برتنے کے بجائے انھیں سختی کے ساتھ آہنی پنجے سے کچل دیا جائے۔

انھوں نے وزیرداخلہ کی حیثیت سے برادر ملک میں القاعدہ کی سرگرمیوں پر قابو حاصل کرنے کے لیے ایک نئی پالیسی وضع کی تھی جس کے تحت ہتھیار پھینک کر حکومت کی اطاعت قبول کرنے والوں کو سزائیں دینے کے بجائے ان کے رشتے داروں یا معزز قبائلی عمائدین کی شخصی ضمانتوں پر انھیں آزادانہ زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ اگرچہ یہ پالیسی کافی حد تک کامیابی سے ہمکنار ہوئی تھی لیکن اس پالیسی نے بعض خطرات کو بھی جنم دیا تھا۔

شاید آپ کو یاد ہو کہ 2009 میں القاعدہ کی تنظیم سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور عسکریت پسند عبداللہ حسن العصری نے وزیر داخلہ سے رابطہ کرکے معافی مانگی تھی اور اس کے عوض حکومت کی اطاعت قبول کرنے کی پیشکش کی تھی۔ العصری نے وزیر داخلہ سے ذاتی ملاقات کی خواہش بھی ظاہر کی تھی جسے قبول کرلیا گیا تھا لیکن اس ملاقات کے دوران اس نے اپنے جسم کے اندر چھپائے ہوئے بم کا دھماکا کردیا تھا۔ خوش قسمتی سے وزیر داخلہ اس خودکش حملے میں ہلاک ہونے سے تو بچ گئے تھے لیکن انھیں کچھ زخم ضرور آئے تھے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ خودکش حملہ کرنے والا دہشت گرد عبداللہ حسن العصری یمن سے ہی آیا تھا۔ اس ناکام خودکش حملے کے ردعمل کے طور پر وزیر داخلہ نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔

وزیر داخلہ پر ایک دو نہیں بلکہ چار ناکام قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں اور باغیوں اور دہشتگردوں کے خلاف انتہائی جرأت مندی اور پامردی کا مظاہرہ کرنے کے باعث انھیں شاہی خاندان میں بہت احترام اور پسندیدگی کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔جہاں تک نئے حکمراں کی جانب سے وزیر خارجہ کی تبدیلی کا تعلق ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ نئے حکمراں ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے۔ تاہم ان کی جگہ پر ایک سفارت کار کا تقرر اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ سعودی عرب ایک اسلامی ملک ہے لیکن اس کے نئے حکمراں اپنے دل میں جدت پسندوں کے لیے ایک نرم گوشہ ضرور رکھتے ہیں۔ اس خیال کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ نئے وزیر خارجہ اپنی وزارت اور اس کے ماتحت محکمے میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ شمولیت کے حق میں ہیں۔

پاسبان حرمین شریفین ہونے کے ناتے پاکستان اور اس کے عوام نے سعودی حکمرانوں کی ہمیشہ انتہائی عزت اور قدر و منزلت کی ہے۔ دونوں ممالک اور اس کے عوام اسلامی بھائی چارے اور اخوت کے اٹوٹ بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں اور دونوں کی حیثیت یک جان دو قالب کی سی ہے۔ دونوں ممالک نے ہر مشکل وقت میں شانہ بہ شانہ کھڑے ہوکر ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔

یمن کے حالیہ بحران کے موقعے پر بھی پاکستان اور اس کے عوام نے برادر اسلامی ملک سعودی عرب سے مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اسے اس بات کا پورا یقین دلایا تھا کہ اگر اس کی مقدس سرزمین پر براہ راست حملہ ہوا تو پاکستان اور اس کے عوام اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے اور آزمائش کی گھڑی میں وہ اسے کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

امن لازم ہے

Dec 22, 2024 03:40 AM |

انقلابی تبدیلی

Dec 22, 2024 03:15 AM |