ترقی یافتہ لاہور سے یتیم کراچی تک
میں بڑے بڑے شیشوں کے دروازوں سے مزین اس خوبصورت پلیٹ فارم پرکچھ ہی لمحے پہلے داخل ہوا تھا۔
میں بڑے بڑے شیشوں کے دروازوں سے مزین اس خوبصورت پلیٹ فارم پرکچھ ہی لمحے پہلے داخل ہوا تھا۔ مائیک پرخاتون کی مہذب آواز میں پہلے انگریزی پھر اردو میں اعلان ہوا کہ'' اگلی بس دو منٹ میں پلیٹ فارم پر آرہی ہے۔'' ٹھیک دو منٹ میں ایک صاف ستھری، دو بسوں کی لمبائی کے برابر لال رنگ کی، خوبصورت، چمچماتی بس شیشوں کے دروازوں کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔
پلیٹ فارم اور بس کے دروازے اپنے آپ کھلے،چند مسافر باہر نکلے اور مجھ سمیت چند اس میں داخل ہوگئے،دروازے دوبارہ بند ہو گئے اور بس چل پڑی... میں لاہور کی میٹرو بس میں پہلی بار سوار ہو چکا تھا۔
بس کے اندر کا ماحول ایر کنڈیشنڈ اور خوشبودار تھا۔اوپر کی جانب کمپیوٹرائزڈ مانیٹر نصب تھے جن کی اسکرین میں آگے بڑھتی بس کا نقشہ ، اگلے اسٹاپ کی معلومات اور گھڑی دکھائی دے رہی تھی۔تمام سیٹیں مسافروں سے بھری ہونے کے باعث بہت سے لوگ کھڑے ہوئے سفر کر رہے تھے جن میں، میں بھی شامل تھا۔ان کھڑے ہوئے مسافروں کے سہارے کے لیے اوپر Rods اور hand grips فراہم کی گئی تھیں جنھیں تھامے وہ کھڑے تھے۔
لیکن انھیں کھڑے ہو نے کے باوجود کوئی خاص دقت محسوس نہ ہو رہی تھی کیونکہ بس ٹھنڈی ، صاف ستھری اور خاموشی سے اپنے جدید ٹریک پر وقت کی پابندی کے ساتھ چلی جا رہی تھی۔وہ ہر اسٹاپ پر اپنے طے شدہ منٹ پر پہنچتی۔ وہ نان اسٹاپ بس ستائیس کلومیٹر کا فاصلہ 27 پلیٹ فارمز پررکتے ہوئے تقریباً 55 منٹ میں طے کرتی۔جب کہ وہی فاصلہ رکشہ ، ٹیکسی میں تقریباً 90 منٹ میں 450 روپے ادا کر کے طے کرنا پڑتا۔جو اس میٹرو بس میں سہولت و تیز رفتاری سے فقط 20 روپے میں طے کیا جا سکتا تھا۔بس ہر ایک کلومیٹر اور تین منٹ بعد اپنے اگلے اسٹاپ پر پہنچتی، بیس سیکنڈ کے لیے اس کے دروازے کھلتے ، مسافر اترتے اور چڑھتے اور وہ اپنی اگلی منزل کی جانب روانہ ہو جاتی۔بس چلنے پر اس میں موجود مائیک پر اگلے اسٹاپ کا اردو اور انگریزی میں اعلان کر دیا جاتا جس سے اترنے والے مسافر پہلے سے دروازوں تک پہنچ جاتے۔
میٹرو بس کا آدھے سے زیادہ سفر بلندی پر بنائے گئے اس کے مخصوص ٹریک پر نان اسٹاپ جاری رہتا۔ صرف دو مقامات پر اسے چند لمحوں کے لیے کبھی کبھار رکنا پڑتا، جہاں سے ایک طرف کی کچھ ٹریفک گزرتی۔بس کی کشادہ کھڑکیوں سے باہر دیکھنے پر گھنے درختوں، ہریالی اور تین لینوں والی صاف ستھری سڑکوں پر رواں دواں ٹریفک کا پُر سکون منظر دکھائی دیتا۔ وہ سڑکیں جہاں کبھی دھول ، مٹی کے بادل دکھائی دیتے تھے اب وہاں آلودگی کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔
نوجوان طالبات اطمینان سے بس کے اگلے خواتین کے مخصوص حصے میں آرام سے سفر کرتیں۔ نجانے کیوں اس پرسکون ، خاموش بس میں آرام دہ سفر کرتے ہوئے میری نظروں کے سامنے کراچی کی شور مچاتی ،سیاہ دھواں چھوڑتی، ٹوٹی پھوٹی بسوں کی چھتوں پر سوار غریب مسافروں کے دھول ، مٹی سے اٹے بے بس، مایوس چہرے آنے لگے جن کے نصیب میں انسانیت کا مذاق اڑاتی ان بسوں اور ان کے بدتہذیب کنڈیکٹروں کے سوا اور کچھ نہ تھا، نجانے ان غریبوں کی اعصاب شکن آزمائشیںکب ختم ہونا تھیں، ان کی قسمت کب بدلنا تھی۔
میں نے محسوس کیا کہ میٹرو بس نے لاہور کے شہریوں کی نفسیات پر بھی مثبت اثر ڈالا تھا۔ وہ پہلے کی نسبت مہذب اور پر سکون ہو گئے تھے۔ان کے چہروں پر ہم کراچی والوں کی طرح اب چڑچڑا پن اور تناؤ باقی نہ رہا تھا۔ میں نے وہاں سڑکوں ، دکانوں، ڈرائیوروں، اسکولوں سے بچوں کو لیتے والدین، شاپنگ کرتے لوگوں کے چہروں پر اطمینان دیکھا۔ جو دس سال پہلے کے میرے لاہور کے ٹرپ میں ان چہروں پر نہ تھا۔ تب میں نے وہاں لوگوں کو ٹریفک کے دھکوں،دھوؤں، مہنگائی اور گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے بلکتے ہوئے دیکھا تھا۔ مگر اب اللہ نے ان کی سن لی تھی۔
اس میٹروبس میں سفر کرتے ہوئے میں اللہ کا شکر ادا کر رہا تھاکہ اس نے آج مجھے پاکستان میں بھی یہ مبارک دن دیکھنا نصیب کیا تھا کہ میں عالمی معیار کی سفری سہولت سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔مجھے یاد ہے امریکا میں اپنے قیام کے دوران میں اسی طرح کی ماس ٹرانزٹ ٹرینوں میں سفر کرتے ہوے دعائیں کیا کرتا تھا کہ اللہ ہمیں بھی جلد یہ میٹرو ٹرینیں، بسیں پاکستان میں عطا فرمائے تاکہ ہمیں بھی ایک ترقی یافتہ ملک میں رہنے کا احساس اور فخر ہو سکے۔اللہ نے مجھ گنہگار کی دعائیں سن لی تھیں اور آج میں اپنے ہی وطن میں اس جدید، متاثر کن سواری میں سفر کر رہا تھا۔
میں میاں نواز، شہباز شریف کا بھی شکر گزار و احسان مند تھا کہ جنھوں نے عوام کی تکلیف کا احساس کرتے ہوئے پاکستان میں اس جدید سروس کو متعارف کرایا تھا ۔مجھے اللہ پر پورا بھروسہ اور موجودہ حکومت سے پوری امید ہے کہ وہ ایسی ہی میٹرو بس اور ٹرین کا جلد کراچی میں بھی آغاز کرکے یہاں کے پسے ہوئے عوام کی بھی دعائیں لے گی۔ انشااللہ!
اپنے چند روزہ قیام کے دوران میں نے محسوس کیا کہ لاہور اب وہ روایتی لاہور نہ رہا تھا بلکہ ایک جدید بین الاقوامی شہر کا روپ اختیارکرگیا تھا۔معیاری،کشادہ، ایل ای ڈی لائٹس سے جگمگاتی سڑکیں کسی بیرون ِ ملک کا منظر پیش کرتیں۔ میں نے وہاں لوگوں کو ان بنیادی ٹینشنوں سے آزاد دیکھا جن کا ہم کراچی والے اب بھی بری طرح شکارتھے۔میںنے وہاں لوگوں کے چہروں اور سڑکوں پر سکون اور امن دیکھا۔ لوگ وارداتوں کے خوف سے آزاد پر امن زندگی بسر کر رہے تھے۔قانون سخت ہونے کی وجہ سے جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی۔
اپنے قیام کے دوران میں نے فقط ایک پولیس موبائل دیکھی۔ یہی سکون میں نے ایران کی سڑکوں ، بازاروں اور لوگوں کے چہروں پر محسوس کیا تھا۔ لاہور میں بھی لوگوں کو اب نہ صرف جدید سفری سہولیات بلکہ پانی ، امن ،احساس ِ تحفظ جیسی نعمتیں بھی بہت حد تک فراہم کی جا چکی تھیں۔ پانی کی کوئی قلت نہ تھی، لوگ گھروں کے گیٹ کے باہر تک کے فرش اطمینان سے کھلے پانی سے دھوتے۔ لوڈ شیڈنگ بھی پہلے کے مقابلے میں کافی کم ہو چکی تھی۔ خواتین تنہا رات گئے تک بے فکری سے شاپنگ اور سفر کرتیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ نفسیاتی و ذہنی طور پہ پرسکون ہو چکے تھے،ان کے اعصاب پر سے بوجھ بہت حد تک ختم ہو چکا تھا۔
جب کہ کراچی میں لوگ بڑھتے ہوئے مسائل کے انبار تلے کچلے جا رہے تھے۔ پانی جیسی بنیادی ضرورت تک کو خریدنا پڑتا۔ چھ ماہ پہلے تک جو پانی کا ٹینکر پندرہ سو میں ملا کرتا اب شہری پانچ ہزار روپے میں خریدنے پر مجبور تھے۔پچھلی عید سے قبل نواز شریف کے دورے ِ کراچی میں پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے سندھ حکومت کو بھاری فنڈ جاری کیے گئے، نواز شریف کے اس فیصلے کو بہت سراہا گیا،کہا گیا کہ کراچی والوں کو عید سے قبل ہی وفاقی حکومت کی طرف سے عیدی دے دی گئے ، مگر وہ عیدی کہاں گئی کوئی نہیں جانتا۔الٹاعوام پہلے سے موجود پانی سے بھی محروم ہو گئے۔
نجانے کراچی والوں پر کسی کو ترس کیوں نہیں آتا جہاں عوام کے پاس منہ دھونے کو پانی ہے نہ سفر کے لیے مہذب سواری، نہ سڑکوں پر چلتے اور کاروبار کرتے ہوئے احساس ِ تحفظ ہے، نہ ہی لاہور کے خوش نصیب شہریوں کی طرح چہروں پر ترقی یافتہ شہر میں رہنے کا فخر اور اطمینان... ہمیں استغفار کے ساتھ خلوص ِدل سے اللہ سے دعا کر نی چاہیے کہ وہ ہمیں اور پاکستان کے دیگر شہریوں کو بھی لاہور کے شہریوں جیسی آسانیاں اور سکون عطا فرمائے ۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اللہ ہماری دعائیں قبول کر کے حالات کو ہمارے حق میں پلٹا دیتا ہے۔ اس کی پاک ذات ہر دور میں معجزے دکھاتی ہے۔مجھے یقین ہے کہ کراچی بھی زیادہ دیر تک یتیم و لاوارث نہیں رہے گا انشااللہ!