آزادی کی تحریک
گزشتہ دنوں کراچی کی ایک سماجی کارکن سبین محمود کے قتل کا ایک انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت واقعہ پیش آیا۔
کوئی بھی سماجی کارکن خواہ سماج میں فعال کردار ادا کررہا ہو یا غیر فعال، اس کا کردار کسی بھی سطح کا ناپسندیدہ کیوں نہ ہو،اور اس کا 'گناہ' خواہ کتنا ہی 'کبیرہ' کیوں نہ ہو، اس انسان کے قتل کا کوئی بھی عذر تراش لیا جائے مگر اسے درست ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
زندگی فطرت کی طرف سے ودیعت کی جاتی ہے، زندہ رہنا اس کا فطری حق ہے اورکسی بھی انسان کو اس کے حق سے محروم کردینا ایک غیر فطری ،سخت ناپسندیدہ اور قابل مذمت فعل ہے، جس کا کوئی دفاع نہیں ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی و سماجی عمل میں اس نوعیت کے گھناؤنے قتال کے واقعات کو اپنے بطن میں سمو لینے کی بدرجہ اتم استعداد موجود ہوتی ہے کیونکہ سیاست اپنی سرشت میں سیاسی ہی ہوتی ہے، اسے اخلاقیات سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ تاریخ نوعِ انسانی کے قتال کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔
مہذب و غیرمہذب، جمہوری وغیرجمہوری، مذہبی و غیر مذہبی، شدت پسند اورغیر شدت پسند سبھی بعض مقامات پر اپنے مخالفین کے قتال کو نہ صرف جائز بلکہ اپنی بقا کے لیے ضروری خیال کرتے ہیں۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے واقعات کا تسلسل مقتدر طبقات کو مضبوط کرنے کی بجائے انھیں کمزورکرتا ہے۔ شکست و فتح کا تعلق افراد سے کم اور خیالات سے زیادہ ہوتا ہے۔ جو حکمران جلد اس اصول پرکاربند ہو جاتے ہیں وہ قدرے بہتر طریقے سے اپنے اقتدارکی طوالت کا جواز حاصل کرلیتے ہیں۔
گزشتہ دنوں کراچی کی ایک سماجی کارکن سبین محمود کے قتل کا ایک انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت واقعہ پیش آیا۔ اس واقعے کے بعد ایک افسوس ناک رویہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب اس کے کچھ ہی دیر بعد مغربی ذرایع ابلاغ میں پاکستان کے خفیہ اداروں کے خلاف حسبِ معمول متعصبانہ پروپیگنڈا شروع کردیا گیا۔ اس واقعے کی حقیقت کیا تھی اس کی تحقیق سے پہلے ہی زہریلے پروپیگنڈے کا آغاز ہونا تشکیک کو جنم دیتا ہے۔
واقعات کی حقیقی نوعیت کی تفہیم کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ جو واقعہ پیش آیا ہے اس کے ظہور میں آنے کے بعد اس میں سے کیا برآمد ہورہا ہے اور جو برآمد ہورہا ہے اس کا جھکاؤ کس سمت میں ہے۔ سبین محمود کے قتل کے واقعے کے بعد جس تیزی سے مغربی ذرایع ابلاغ میں پاکستان کے دفاعی اداروں کے خلاف یک رخے اور غیر استدلالی تجزیاتی پروپیگنڈے کا آغاز ہوا ہے اس سے تشکیک کا پہلو جنم لیتا ہے۔
لہذا ا یہ بات ذہن نشین رہنی ضروری ہے کہ سبین محمود کے قتل کا ارتکاب ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے اور اس کے فوراََ بعد مغربی ذرایع ابلاغ پر پیش کیے جانے والے متعصبانہ تجزیات اس منصوبہ بندی کا تسلسل ہیں۔
مخالف رائے رکھنے والوں کی طرف سے ایک دلیل یہ بھی پیش کی جارہی ہے کہ قتل کے اس واقعے کا تعلق پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں چلنے والی' علیحدگی' کی تحریک سے ہے۔ اس نقطہ نظر کے حامیوں کا کہنا ہے کہ چونکہ پاکستان کے دفاعی ادارے بلوچستان میں کسی تنظیم یا گروہوں کی مداخلت پسند نہیں کرتے ، اس لیے وہ ہر اس آواز کو خاموش کردینا چاہتے ہیں جس سے بلوچستان کی صورتحال میں بگاڑ کی کوئی صورت پیدا ہورہی ہو۔ اس طرح وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اسی رجحان کی بیخ کنی کے لیے قتال کا یہ واقعہ رونما ہوا ہے۔ یہ نقطہ نظر قابلِ مدافعت نہیں ہے۔
یہ درست ہے کہ بلوچستان کے عوام کو پاکستان کے مقتدر طبقات نے ایک طویل عرصے سے یرغمال بنا رکھا ہے اور جس میں بلاشبہ بلوچ سرداروں کی جاگیردارانہ ذہنیت بھی شامل ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ بلوچستان میں پسماندگی کی سطح دیگر صوبوں سے بلند ہے۔ اس کے باوجود بنیادی بات یہ ہے کہ بلوچستان میں چلنے والی' علیحدگی' کی تحریک حقیقی نہیں ہے،یہ بلوچ عوام کے اجتماعی شعور کی ترجمان تحریک نہیں ہے۔
یہ سامراجی ممالک میں مقیم چند مفاد پرست استحصالی سرداروں کے ان مفادات کی تحریک ہے جو اس وقت پاکستان سے زیادہ سامراجی ممالک کے مفادات سے وابستہ ہیں۔ یہ شاونسٹ قوم پرستی کے نام پرنفرت کے ابھار کی تحریک ہے، جس کے مبلغوں کے پاس کوئی معاشی و سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔قوم پرستانہ جذبات کے نام پر اقتدار کی ہوس کی تسکین کی تحریک ہے۔ محض استحصال اور لوٹ مار کے لیے اشکال کی تبدیلی کی خواہش ہے۔اور اس تحریک میں فعال کھلاڑیوں میں تقریباًساری دنیاکے ادارے اپنے اپنے مفادات کے تحت بلوچستان میں سرگرمِ عمل ہیں۔بلوچستان ایک ایسا علاقہ ہے جو خطے کی دیگر بڑی قوتوں کی وجہ سے اس وقت مغربی معاشی مرکزیت کو چیلنج کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں عالمی ایجنسیوں کی مداخلت بہت زیادہ ہوچکی ہے۔ 'علیحدگی' کی اس 'تحریک' کی غیر مشروط حمایت کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے بلوچستان کے عوام کی خدمت ہوگی، بلکہ اس سے ان قوتوں کا استحکام عمل میں آئے گا جن کی مداخلت سے انتشار کا یہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ قوم پرستی کے نام پر کسی بھی علیحدگی کی تحریک کی حمایت اس اجتماعی تناظر کو نظر انداز کرکے نہیں کی جاسکتی، جس تناظر میں کسی تحریک کو پیدا کیا جاتا ہے ، اور یہ بھی پیش نظر رکھا جاتا ہے کہ بعد ازاں اس تحریک کے اثرات کس سمت میں متعین ہوتے ہیں۔
اس میں ان پسے ہوئے استحصال زدہ طبقات کو کیا فائدہ پہنچے گا جن کے نام پر کسی تحریک کا آغاز کیا جاتا ہے؟ قومی آزادی کا سوال کوئی غیر متعین سوال نہیں ہے اور نہ ہی اسے کسی تجریدی فارمولے کے تحت حل ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس پر کسی بھی انقلابی کے دو سو برس پرانے فارمولے کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا۔یہ ایک مخصوص صورتحال میں ایک مقرونی سوال کی حیثیت رکھتا ہے۔جس میں یہ تقاضا کیا جاتا ہے کہ اس تحریک کے امکانات اور خدشات کو طبقاتی جدوجہد کی مرکزیت کی بنیاد پر متعین کرلیا جائے۔
آزادی کی تحریک کو غیر مشروط یا غیر متعین انداز میں تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ طبقاتی جدوجہد جو مقتدر طبقات کے خلاف مختلف علاقوں کے استحصال زدہ طبقات کی وحدت سے تشکیل پانی ہے اور جس میں طبقاتی جدوجہد کا سوال مرکز میں ہوتا ہے اسے نظر انداز کرتے ہوئے قوم پرستانہ رجحانات کو مرکزیت دی جارہی ہے۔
قوم پرستانہ جذبات کا ابھار طبقاتی جدو جہد کو مرکز سے ہٹانے کے مترادف ہے۔لہذا اس انداز میں تشکیل پائی ہوئی کوئی بھی تحریک ایک ''قومی تحریک'' تو ہوسکتی ہے مگر اسے ترقی پسندانہ انداز میں طبقاتی جدوجہد کے تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا۔ وہ تمام بلوچ سردار جو 'آزادی' کا نعرہ بلند کرتے ہیں وہ اپنے انٹرویوز اور تقریروں میں صوبہ پنجاب کے خلاف نفرت کو ابھارتے ہیں۔ ان کا طریقہ کار ترقی پسندانہ نہیں بلکہ شاؤنسٹ قوم پرستانہ ہے۔ پنجاب کوئی تجرید نہیں ہے، جونہی پنجاب کی تہہ میں اتر کر اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ بھی مزدوروں، کسانوں، ہاریوں اور مڈل اور لوئر مڈل کلاس اور مقتدر طبقات کی بالائی پرتوں کا مجموعہ نظر آتا ہے۔
پنجاب میں بھی جبر و استحصال کی سطح اتنی کم نہیں جتنی کہ نفرت کو ابھارنے والے بلوچ سرداروں نے تصورکررکھی ہے۔ پنجاب کے ان استحصال زدہ عوام کے ساتھ وحدت کی بنیاد پر قائم کی گئی جدوجہد ہی استحصالیوں اور جابر مقتدر طبقات سے نجات کا باعث بن سکتی ہے۔بلوچستان کے مظلوم اور ظالم طبقات کے مابین تفریق اور بالکل اسی طرح دوسرے صوبوں کے ظالم و مظلوم طبقات کے درمیان محتاط انداز میں قائم کی گئی تفریق ہی سے نچلے طبقات کے درمیان وحدت کا قضیہ جنم لے سکتا ہے۔
اس وحدت کے نتیجے میں علیحدگی کا سوال کوئی سوال ہی نہیں رہتا۔ بلوچستان میں شاؤنسٹ قوم پرستانہ نعرہ محض خالی اور تجریدی ہے، جو بلوچستان کے استحصالی جاگیرداروں اور وڈیروں کے ظلم و استحصال کو شاونسٹ قوم پرستی کی آڑ میں چھپا لیتا ہے۔
قومی تضاد کا ابھار طبقاتی تضاد کی تحلیل کو روکتا ہے۔ ایسی مثالیں ہمارے ہی خطے میں موجود ہیں۔ ہندوستان کی آزادی، ہندوستان سے پاکستان کا قیام اور بعد ازاں بنگلہ دیش کے قیام سے قومی جذبات کی تسکین کے علاوہ اورکوئی مثبت قدر برآمد نہیں ہوئی ہے۔ ان تینوں ممالک میں ایک ہی جیسی صورتحال ہے، استحصالی اور استحصال اور ظالم و مظلوم کے مابین خلیج گہری ہوتی چلی جارہی ہے۔قومی آزادی تو مل گئی مگر طبقاتی جبر و استحصال سے آزادی کا سوال آج بھی اتنا ہی اہم ہے۔
زندگی فطرت کی طرف سے ودیعت کی جاتی ہے، زندہ رہنا اس کا فطری حق ہے اورکسی بھی انسان کو اس کے حق سے محروم کردینا ایک غیر فطری ،سخت ناپسندیدہ اور قابل مذمت فعل ہے، جس کا کوئی دفاع نہیں ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی و سماجی عمل میں اس نوعیت کے گھناؤنے قتال کے واقعات کو اپنے بطن میں سمو لینے کی بدرجہ اتم استعداد موجود ہوتی ہے کیونکہ سیاست اپنی سرشت میں سیاسی ہی ہوتی ہے، اسے اخلاقیات سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ تاریخ نوعِ انسانی کے قتال کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔
مہذب و غیرمہذب، جمہوری وغیرجمہوری، مذہبی و غیر مذہبی، شدت پسند اورغیر شدت پسند سبھی بعض مقامات پر اپنے مخالفین کے قتال کو نہ صرف جائز بلکہ اپنی بقا کے لیے ضروری خیال کرتے ہیں۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے واقعات کا تسلسل مقتدر طبقات کو مضبوط کرنے کی بجائے انھیں کمزورکرتا ہے۔ شکست و فتح کا تعلق افراد سے کم اور خیالات سے زیادہ ہوتا ہے۔ جو حکمران جلد اس اصول پرکاربند ہو جاتے ہیں وہ قدرے بہتر طریقے سے اپنے اقتدارکی طوالت کا جواز حاصل کرلیتے ہیں۔
گزشتہ دنوں کراچی کی ایک سماجی کارکن سبین محمود کے قتل کا ایک انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت واقعہ پیش آیا۔ اس واقعے کے بعد ایک افسوس ناک رویہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب اس کے کچھ ہی دیر بعد مغربی ذرایع ابلاغ میں پاکستان کے خفیہ اداروں کے خلاف حسبِ معمول متعصبانہ پروپیگنڈا شروع کردیا گیا۔ اس واقعے کی حقیقت کیا تھی اس کی تحقیق سے پہلے ہی زہریلے پروپیگنڈے کا آغاز ہونا تشکیک کو جنم دیتا ہے۔
واقعات کی حقیقی نوعیت کی تفہیم کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ جو واقعہ پیش آیا ہے اس کے ظہور میں آنے کے بعد اس میں سے کیا برآمد ہورہا ہے اور جو برآمد ہورہا ہے اس کا جھکاؤ کس سمت میں ہے۔ سبین محمود کے قتل کے واقعے کے بعد جس تیزی سے مغربی ذرایع ابلاغ میں پاکستان کے دفاعی اداروں کے خلاف یک رخے اور غیر استدلالی تجزیاتی پروپیگنڈے کا آغاز ہوا ہے اس سے تشکیک کا پہلو جنم لیتا ہے۔
لہذا ا یہ بات ذہن نشین رہنی ضروری ہے کہ سبین محمود کے قتل کا ارتکاب ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے اور اس کے فوراََ بعد مغربی ذرایع ابلاغ پر پیش کیے جانے والے متعصبانہ تجزیات اس منصوبہ بندی کا تسلسل ہیں۔
مخالف رائے رکھنے والوں کی طرف سے ایک دلیل یہ بھی پیش کی جارہی ہے کہ قتل کے اس واقعے کا تعلق پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں چلنے والی' علیحدگی' کی تحریک سے ہے۔ اس نقطہ نظر کے حامیوں کا کہنا ہے کہ چونکہ پاکستان کے دفاعی ادارے بلوچستان میں کسی تنظیم یا گروہوں کی مداخلت پسند نہیں کرتے ، اس لیے وہ ہر اس آواز کو خاموش کردینا چاہتے ہیں جس سے بلوچستان کی صورتحال میں بگاڑ کی کوئی صورت پیدا ہورہی ہو۔ اس طرح وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اسی رجحان کی بیخ کنی کے لیے قتال کا یہ واقعہ رونما ہوا ہے۔ یہ نقطہ نظر قابلِ مدافعت نہیں ہے۔
یہ درست ہے کہ بلوچستان کے عوام کو پاکستان کے مقتدر طبقات نے ایک طویل عرصے سے یرغمال بنا رکھا ہے اور جس میں بلاشبہ بلوچ سرداروں کی جاگیردارانہ ذہنیت بھی شامل ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ بلوچستان میں پسماندگی کی سطح دیگر صوبوں سے بلند ہے۔ اس کے باوجود بنیادی بات یہ ہے کہ بلوچستان میں چلنے والی' علیحدگی' کی تحریک حقیقی نہیں ہے،یہ بلوچ عوام کے اجتماعی شعور کی ترجمان تحریک نہیں ہے۔
یہ سامراجی ممالک میں مقیم چند مفاد پرست استحصالی سرداروں کے ان مفادات کی تحریک ہے جو اس وقت پاکستان سے زیادہ سامراجی ممالک کے مفادات سے وابستہ ہیں۔ یہ شاونسٹ قوم پرستی کے نام پرنفرت کے ابھار کی تحریک ہے، جس کے مبلغوں کے پاس کوئی معاشی و سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔قوم پرستانہ جذبات کے نام پر اقتدار کی ہوس کی تسکین کی تحریک ہے۔ محض استحصال اور لوٹ مار کے لیے اشکال کی تبدیلی کی خواہش ہے۔اور اس تحریک میں فعال کھلاڑیوں میں تقریباًساری دنیاکے ادارے اپنے اپنے مفادات کے تحت بلوچستان میں سرگرمِ عمل ہیں۔بلوچستان ایک ایسا علاقہ ہے جو خطے کی دیگر بڑی قوتوں کی وجہ سے اس وقت مغربی معاشی مرکزیت کو چیلنج کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں عالمی ایجنسیوں کی مداخلت بہت زیادہ ہوچکی ہے۔ 'علیحدگی' کی اس 'تحریک' کی غیر مشروط حمایت کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے بلوچستان کے عوام کی خدمت ہوگی، بلکہ اس سے ان قوتوں کا استحکام عمل میں آئے گا جن کی مداخلت سے انتشار کا یہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ قوم پرستی کے نام پر کسی بھی علیحدگی کی تحریک کی حمایت اس اجتماعی تناظر کو نظر انداز کرکے نہیں کی جاسکتی، جس تناظر میں کسی تحریک کو پیدا کیا جاتا ہے ، اور یہ بھی پیش نظر رکھا جاتا ہے کہ بعد ازاں اس تحریک کے اثرات کس سمت میں متعین ہوتے ہیں۔
اس میں ان پسے ہوئے استحصال زدہ طبقات کو کیا فائدہ پہنچے گا جن کے نام پر کسی تحریک کا آغاز کیا جاتا ہے؟ قومی آزادی کا سوال کوئی غیر متعین سوال نہیں ہے اور نہ ہی اسے کسی تجریدی فارمولے کے تحت حل ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس پر کسی بھی انقلابی کے دو سو برس پرانے فارمولے کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا۔یہ ایک مخصوص صورتحال میں ایک مقرونی سوال کی حیثیت رکھتا ہے۔جس میں یہ تقاضا کیا جاتا ہے کہ اس تحریک کے امکانات اور خدشات کو طبقاتی جدوجہد کی مرکزیت کی بنیاد پر متعین کرلیا جائے۔
آزادی کی تحریک کو غیر مشروط یا غیر متعین انداز میں تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ طبقاتی جدوجہد جو مقتدر طبقات کے خلاف مختلف علاقوں کے استحصال زدہ طبقات کی وحدت سے تشکیل پانی ہے اور جس میں طبقاتی جدوجہد کا سوال مرکز میں ہوتا ہے اسے نظر انداز کرتے ہوئے قوم پرستانہ رجحانات کو مرکزیت دی جارہی ہے۔
قوم پرستانہ جذبات کا ابھار طبقاتی جدو جہد کو مرکز سے ہٹانے کے مترادف ہے۔لہذا اس انداز میں تشکیل پائی ہوئی کوئی بھی تحریک ایک ''قومی تحریک'' تو ہوسکتی ہے مگر اسے ترقی پسندانہ انداز میں طبقاتی جدوجہد کے تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا۔ وہ تمام بلوچ سردار جو 'آزادی' کا نعرہ بلند کرتے ہیں وہ اپنے انٹرویوز اور تقریروں میں صوبہ پنجاب کے خلاف نفرت کو ابھارتے ہیں۔ ان کا طریقہ کار ترقی پسندانہ نہیں بلکہ شاؤنسٹ قوم پرستانہ ہے۔ پنجاب کوئی تجرید نہیں ہے، جونہی پنجاب کی تہہ میں اتر کر اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ بھی مزدوروں، کسانوں، ہاریوں اور مڈل اور لوئر مڈل کلاس اور مقتدر طبقات کی بالائی پرتوں کا مجموعہ نظر آتا ہے۔
پنجاب میں بھی جبر و استحصال کی سطح اتنی کم نہیں جتنی کہ نفرت کو ابھارنے والے بلوچ سرداروں نے تصورکررکھی ہے۔ پنجاب کے ان استحصال زدہ عوام کے ساتھ وحدت کی بنیاد پر قائم کی گئی جدوجہد ہی استحصالیوں اور جابر مقتدر طبقات سے نجات کا باعث بن سکتی ہے۔بلوچستان کے مظلوم اور ظالم طبقات کے مابین تفریق اور بالکل اسی طرح دوسرے صوبوں کے ظالم و مظلوم طبقات کے درمیان محتاط انداز میں قائم کی گئی تفریق ہی سے نچلے طبقات کے درمیان وحدت کا قضیہ جنم لے سکتا ہے۔
اس وحدت کے نتیجے میں علیحدگی کا سوال کوئی سوال ہی نہیں رہتا۔ بلوچستان میں شاؤنسٹ قوم پرستانہ نعرہ محض خالی اور تجریدی ہے، جو بلوچستان کے استحصالی جاگیرداروں اور وڈیروں کے ظلم و استحصال کو شاونسٹ قوم پرستی کی آڑ میں چھپا لیتا ہے۔
قومی تضاد کا ابھار طبقاتی تضاد کی تحلیل کو روکتا ہے۔ ایسی مثالیں ہمارے ہی خطے میں موجود ہیں۔ ہندوستان کی آزادی، ہندوستان سے پاکستان کا قیام اور بعد ازاں بنگلہ دیش کے قیام سے قومی جذبات کی تسکین کے علاوہ اورکوئی مثبت قدر برآمد نہیں ہوئی ہے۔ ان تینوں ممالک میں ایک ہی جیسی صورتحال ہے، استحصالی اور استحصال اور ظالم و مظلوم کے مابین خلیج گہری ہوتی چلی جارہی ہے۔قومی آزادی تو مل گئی مگر طبقاتی جبر و استحصال سے آزادی کا سوال آج بھی اتنا ہی اہم ہے۔