شُکر ہے یہ سب کسی غریب نے نہیں کیا
المیہ یہ ہے کہ بڑے بڑے سرکاری افسران بھی وڈیرے اور جاگیردار کی اجازت کے بغیر کچھ کرنے کی جسارت نہیں کرتے۔
BAHAWALPUR:
کل جب ٹیلی ویژن پر نظر پڑی تو سابقہ وزیر داخلہ سندھ و پیپلزپارٹی کے جیالے ذوالفقار مرزا اپنے علاقے کے تھانے میں جاکر نہ صرف ڈی ایس پی افسر کی تذلیل کررہے تھے بلکہ تھانے میں توڑ پھوڑ کا بازار بھی گرم کیا ہوا تھا۔ ٹیلی ویژن پر انکا اسٹائل اور ایکشن دیکھ کر مجھے تو انگلش فلموں میں کردار ادا کرنے والے ولن یاد آگیا۔
ایسا ولن جو اکثر ڈائریکٹر کی ہدایت اور اسکرپٹ کے مطابق اسطرح کا رول کرتا ہے کہ اپنے ساتھ مسلح لوگوں کو تھانے (پولیس اسٹیشن) لے کر آتا ہے اور کامیابی سے اپنے ساتھی کو چھوڑا کر لے جانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ یہی فلمی کام اسکی روزی روٹی کا باعث بھی بنتا ہے۔
بلاگ لکھنے کا مقصد بدین میں ہونے والا واقع ہی ہے۔ کسطرح ذوالفقار مرزا صاحب کامیابی سے تھانے پر ہلا بولتے ہیں اور باآسانی پوری شان و شوکت کے ساتھ قافلہ لے کر روانہ ہوجاتے ہیں۔ یہ واقع کسی سانحے سے کم نہیں کہ جس سے ذہن میں کئی سوالات پیدا ہوگئے ہیں کیونکہ جس معاملہ پر ذوالفقار مرزا طیش میں آئے تھے وہ یہ تھا کہ DSP بدین نے ذوالفقار مرزا کے قریبی ساتھی کے خلاف ڈکیتی کے الزام میں FIR درج کی تھی۔ بس پھر کیا تھا، ذوالفقار مرزا آندھی کی طرح آئے، DSP کو گالیاں دیں، اُن کا موبائل توڑا اور FIR رجسٹرر اپنے ساتھ لے کر طوفان کی طرح روانہ ہوگئے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ جاتے جاتے یہ پیار بھرا پیغام بھی دے گئے کہ اگر آئندہ انکے کسی حمایتی یا درباری کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تو نتائج اچھے نہیں ہونگے۔
چونکہ یہ کام ایک سرمایہ دار، جاگیردار نے کیا تھا، اس لیے ہر سو خاموشی اور سکون ہے۔ لیکن اگر یہی سب کچھ یا اِس کا عشر عشیر بھی وہاں کی غریب عوام یا کسی ہاری کی طرف سے ہوتا تو قانون اِس تیزی کے ساتھ حرکت میں آتا جس تیزی سے تیر کمان سے نکلتا ہے۔
اگر آپ اندرون سندھ جائیں تو وہاں کے حالات دیکھ کر آپکو اچھی طرح سے اندازہ ہوجائیگا کہ وہاں قانون کی حیثیت کیا ہے۔ متعلقہ علاقے کے حوالدار اور روزنامچہ لکھنے والے سے SSP تک، کوئی بھی اُس علاقے کے سائیں سے بغیر پوچھے کارروائی کرنے کی جسارت تک نہیں کرسکتا۔ کیونکہ سائیں کی ناراضگی کی صورت میں نہ صرف اسکا تبادلہ کردیا جائیگا بلکہ اگر غصہ زیادہ آجائے تو پھر نوکری بھی ہاتھ سے نکلنے کا خدشہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اندرون سندھ میں قانون و انصاف اُس علاقے کے سائیں سرکار کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جن کے آگے بڑے بڑے عہدوں پر فائز افسران بھی ہاتھ جوڑ کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ کل رات ذوالفقار مرزا کی گرفتاری کے لئے 4 ڈسٹرکٹ کے SSP افسران کو ہدایت کی گئی کہ وہ بدین پہنچیں مگر خبریں موصول ہورہی ہیں کہ اب تک ایسا نہیں ہوسکا ہے جبکہ دوسری طرف ذوالفقار مرزا نے گرفتاری سے بچنے کے لئے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے۔ میں دعوٰی تو نہیں کر رہا مگر اُمید قوی ہے کہ ایک دو روز میں ہی اس درخواست پر فیصلہ آجائیگا۔
پاکستان میں غریب اور امیر کے لئے قانون و آئین کے اطلاق اور انکی شقیں الگ الگ ہیں۔ ایک طرف عدالتوں سے اشتہاری قرار دئیے جانے والے ملزمان عدالت عظمٰی کے باہر احتجاج کر رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف پانی بجلی کی بندش اور نابینا افراد پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں اور حوالات میں بند کردیا جاتا ہے۔ ایک طرف سالوں سے لاپتہ غریب و متوسط طبقے کے افراد کے اہلخانہ ہر در پر دستک دے کر تھک چکے ہیں تو دوسری طرف مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک طرف تنخواہ لے کر آنے والا مزدور ڈاکووں کی گولی کا نشانہ بنتا ہے تو دوسری طرف عدالت سے وہی شخص باعزت بری کردیا جاتا ہے۔ کہیں بجلی اور گیس کے بل بھرنے کے بعد بھی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے تو کہیں بل نہ بھر کے بھی معزز طریقے سے سہولیات دی جاتی ہیں۔ کہیں سرکاری یونیفارم میں جرائم کئے جاتے ہیں تو کہیں راہ چلتے کسی غریب کو گرفتار کرکے جھوٹے مقدموں میں پابند سلاسل کردیا جاتا ہے۔ ایسے حالات دیکھ کر سوائے افسوس و کرب اور گزارشات کے کوئی چیز نہیں بچتی کیونکہ میں زندہ رہنا چاہتا ہوں آزاد گھومنا چاہتا ہوں۔ میرے اندر ابھی حبیب جالب بننے کی سکت نہیں لیکن انکے شعر پر اپنی تحریر کا اختتام ضرور کرونگا۔
آخر میں صدر پاکستان، وزیر اعظم پاکستان، چیف جسٹس آف پاکستان، آرمی چیف آف اسٹاف و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے گزارش ہے کہ اس ملک کو جناح کا پاکستان بنائیں۔ غریب کو بھی انصاف اور قانون کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ خدارا پاکستان کو مزید انتشار سے بچائیں اور ذوالفقار مرزا اور تمام اُن لوگوں کو سزا دی جائے جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں۔ غریبوں کے لئے ایک نئی اُمید اور امنگ قائم کریں تاکہ مجرم اپنی اصلی جگہ جائے اور عوام میں اظہار تحفظ پیدا ہو۔
[poll id="398"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
کل جب ٹیلی ویژن پر نظر پڑی تو سابقہ وزیر داخلہ سندھ و پیپلزپارٹی کے جیالے ذوالفقار مرزا اپنے علاقے کے تھانے میں جاکر نہ صرف ڈی ایس پی افسر کی تذلیل کررہے تھے بلکہ تھانے میں توڑ پھوڑ کا بازار بھی گرم کیا ہوا تھا۔ ٹیلی ویژن پر انکا اسٹائل اور ایکشن دیکھ کر مجھے تو انگلش فلموں میں کردار ادا کرنے والے ولن یاد آگیا۔
ایسا ولن جو اکثر ڈائریکٹر کی ہدایت اور اسکرپٹ کے مطابق اسطرح کا رول کرتا ہے کہ اپنے ساتھ مسلح لوگوں کو تھانے (پولیس اسٹیشن) لے کر آتا ہے اور کامیابی سے اپنے ساتھی کو چھوڑا کر لے جانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ یہی فلمی کام اسکی روزی روٹی کا باعث بھی بنتا ہے۔
بلاگ لکھنے کا مقصد بدین میں ہونے والا واقع ہی ہے۔ کسطرح ذوالفقار مرزا صاحب کامیابی سے تھانے پر ہلا بولتے ہیں اور باآسانی پوری شان و شوکت کے ساتھ قافلہ لے کر روانہ ہوجاتے ہیں۔ یہ واقع کسی سانحے سے کم نہیں کہ جس سے ذہن میں کئی سوالات پیدا ہوگئے ہیں کیونکہ جس معاملہ پر ذوالفقار مرزا طیش میں آئے تھے وہ یہ تھا کہ DSP بدین نے ذوالفقار مرزا کے قریبی ساتھی کے خلاف ڈکیتی کے الزام میں FIR درج کی تھی۔ بس پھر کیا تھا، ذوالفقار مرزا آندھی کی طرح آئے، DSP کو گالیاں دیں، اُن کا موبائل توڑا اور FIR رجسٹرر اپنے ساتھ لے کر طوفان کی طرح روانہ ہوگئے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ جاتے جاتے یہ پیار بھرا پیغام بھی دے گئے کہ اگر آئندہ انکے کسی حمایتی یا درباری کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تو نتائج اچھے نہیں ہونگے۔
چونکہ یہ کام ایک سرمایہ دار، جاگیردار نے کیا تھا، اس لیے ہر سو خاموشی اور سکون ہے۔ لیکن اگر یہی سب کچھ یا اِس کا عشر عشیر بھی وہاں کی غریب عوام یا کسی ہاری کی طرف سے ہوتا تو قانون اِس تیزی کے ساتھ حرکت میں آتا جس تیزی سے تیر کمان سے نکلتا ہے۔
اگر آپ اندرون سندھ جائیں تو وہاں کے حالات دیکھ کر آپکو اچھی طرح سے اندازہ ہوجائیگا کہ وہاں قانون کی حیثیت کیا ہے۔ متعلقہ علاقے کے حوالدار اور روزنامچہ لکھنے والے سے SSP تک، کوئی بھی اُس علاقے کے سائیں سے بغیر پوچھے کارروائی کرنے کی جسارت تک نہیں کرسکتا۔ کیونکہ سائیں کی ناراضگی کی صورت میں نہ صرف اسکا تبادلہ کردیا جائیگا بلکہ اگر غصہ زیادہ آجائے تو پھر نوکری بھی ہاتھ سے نکلنے کا خدشہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اندرون سندھ میں قانون و انصاف اُس علاقے کے سائیں سرکار کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جن کے آگے بڑے بڑے عہدوں پر فائز افسران بھی ہاتھ جوڑ کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ کل رات ذوالفقار مرزا کی گرفتاری کے لئے 4 ڈسٹرکٹ کے SSP افسران کو ہدایت کی گئی کہ وہ بدین پہنچیں مگر خبریں موصول ہورہی ہیں کہ اب تک ایسا نہیں ہوسکا ہے جبکہ دوسری طرف ذوالفقار مرزا نے گرفتاری سے بچنے کے لئے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے۔ میں دعوٰی تو نہیں کر رہا مگر اُمید قوی ہے کہ ایک دو روز میں ہی اس درخواست پر فیصلہ آجائیگا۔
پاکستان میں غریب اور امیر کے لئے قانون و آئین کے اطلاق اور انکی شقیں الگ الگ ہیں۔ ایک طرف عدالتوں سے اشتہاری قرار دئیے جانے والے ملزمان عدالت عظمٰی کے باہر احتجاج کر رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف پانی بجلی کی بندش اور نابینا افراد پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں اور حوالات میں بند کردیا جاتا ہے۔ ایک طرف سالوں سے لاپتہ غریب و متوسط طبقے کے افراد کے اہلخانہ ہر در پر دستک دے کر تھک چکے ہیں تو دوسری طرف مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک طرف تنخواہ لے کر آنے والا مزدور ڈاکووں کی گولی کا نشانہ بنتا ہے تو دوسری طرف عدالت سے وہی شخص باعزت بری کردیا جاتا ہے۔ کہیں بجلی اور گیس کے بل بھرنے کے بعد بھی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے تو کہیں بل نہ بھر کے بھی معزز طریقے سے سہولیات دی جاتی ہیں۔ کہیں سرکاری یونیفارم میں جرائم کئے جاتے ہیں تو کہیں راہ چلتے کسی غریب کو گرفتار کرکے جھوٹے مقدموں میں پابند سلاسل کردیا جاتا ہے۔ ایسے حالات دیکھ کر سوائے افسوس و کرب اور گزارشات کے کوئی چیز نہیں بچتی کیونکہ میں زندہ رہنا چاہتا ہوں آزاد گھومنا چاہتا ہوں۔ میرے اندر ابھی حبیب جالب بننے کی سکت نہیں لیکن انکے شعر پر اپنی تحریر کا اختتام ضرور کرونگا۔
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند ! یہاں نہ نکلا کر
آخر میں صدر پاکستان، وزیر اعظم پاکستان، چیف جسٹس آف پاکستان، آرمی چیف آف اسٹاف و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے گزارش ہے کہ اس ملک کو جناح کا پاکستان بنائیں۔ غریب کو بھی انصاف اور قانون کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ خدارا پاکستان کو مزید انتشار سے بچائیں اور ذوالفقار مرزا اور تمام اُن لوگوں کو سزا دی جائے جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں۔ غریبوں کے لئے ایک نئی اُمید اور امنگ قائم کریں تاکہ مجرم اپنی اصلی جگہ جائے اور عوام میں اظہار تحفظ پیدا ہو۔
[poll id="398"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی