ہمارا پسندیدہ کھیل اور قلعہ شب قدر
پشاور سے چارسَدّہ جاتے ہوئے نا غمان چوک پر پہنچ کر دائیں ہاتھ چارسدہ کی طرف مڑنے کے بجائے بائیں۔۔۔
اُس وقت جب کہ ڈیفنس اور بحریہ ابھی معرضِ وجود میں نہیں آئے تھے اور پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر بھی مہنگی اور لمبی گاڑیاں نظر نہیں آتی تھیں، اُس وقت ملک میں امن اور خوشحالی تھی اور دنیا میں ہماری عزّت اور اہمیّت زیادہ تھی۔ کئی کھیلوں میں ہماری حکمرانی تھی، ہاکی میں ہم پوری دنیا کو ہرا کر چیمپئن شپ کا تاج پہن چکے تھے۔ اسکواش کے میدان میں بھی پاکستان کا ڈنکا بجتا تھا۔
پھر ایسازوال آیا کہ ہم نے اپنی اس عزّت اور اعزاز کو مال اور عیال کی محبتّ پر قربان کر دیا۔ اب تو ہمارے پاس ایک ہی گیم کی مہارت رہ گئی ہے اور وہ ہے بلیم گیم (Blame Game) جس میں نہ کوئی ہمارا ثانی ہے اور نہ ہمیں کوئی ہرا سکتا ہے۔ کہیں بھی کوئی بھی واقعہ یا سانحہ ہوجائے ہم لاشیں اٹھانے اور زخمیوں کو اسپتال لے جانے سے پہلے یہ سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ الزام کس پر تھو نپا جائے اور اس بات کو یقینی بنا نا تو ہم ہر گز نہیں بھولتے کہ ہمارا سیا سی مخالف الزام سے کسی صورت بچنے نہ پائے ۔
پشاور میں حالیہ طوفانی بارشوں سے بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا جس کا سب کو بہت دکھ ہے مگر اس ٹریجیڈی کے موقع پر بھی ہم اپنے ''فرضِ اوّلین''سے غافل نہیں رہے اور معمولی سا بھی وقت ضایع کیے بغیر ہم نے الزامات کے پائپ کھول دیے۔ کسی نے صوبائی حکومت پر الزام لگایا اور کسی نے مرکزی پر، کسی نے وزیر اور کسی نے وزیرِ اعلیٰ پر الزام دھرا،کسی نے محکمہ موسمیات کو مور دِ الزام ٹھہرادیا ۔ حتیٰ کہ اس بار تو آندھی اور بگولے بھی نہ بچ سکے۔ صوبائی حکومت کے کئی وفاداروں نے گلہ کرتے ہوئے کہا کہ طوفان نے آنا تھا تو وارننگ دے کر آتا یعنی مِس کال دے دیتااور بگولا آنے سے پہلے ایس ایم ایس کر دیتا۔
اس کے علاوہ ہر چینل پر تجزئے ہو رہے ہیں کہ ایس پی راؤ انوار کی پریس کانفرنس کا اصل مّحرک یا ذمّہ دار کون ہے اور الطاف حسین کی قابلِ اعتراض تقریر کی ذمّہ داری کس پر آتی ہے۔کون اصل ذمّہ دار ہے اور کون قصور وار ...اس سلسلے میں ایک تاریخی واقعہ سُن لیں تاکہ آپ کو فیصلہ کرنے میں آسانی رہے۔
پشاور سے چارسَدّہ جاتے ہوئے نا غمان چوک پر پہنچ کر دائیں ہاتھ چارسدہ کی طرف مڑنے کے بجائے بائیں ہاتھ مڑ جائیں تو دس منٹ کی ڈرائیو کے بعد آپ شبقدر پہنچ جائیں گے جہاں کا تاریخی قلعہ باہر سے آنے والے سیاحّوں کے لیے بہت پر کشش اور دلچسپی کا باعث ہے۔ اس تاریخی قلعے میں جہاں کبھی انگریز افسر رہاکرتے تھے اور جو آجکل فرنٹئیر کانسٹیبلری کے کمان افسر کی رہائش گاہ ہے، ایف سی شبقدر کے کمان افسر کی حیثّیت سے ناچیز بھی کچھ عرصہ گزار چکا ہے۔ (ایف سی بڑی زبردست فورس ہے۔ اس کے جوان بڑے بہادر ہیں ۔
دہشت گردی کے خلاف ایف سی کے ایس پی سے لے کر آئی جی تک نے جانیں قربان کی ہیں) کمان افسر جب قلعے کی سیڑھیوں سے نیچے اترتا تھا تو بگل بجتا تھا ، جسکے ساتھ ہی گھوڑوں کا دستہ اور سوار تیار ہو جاتے تھے مگر ہماری بار گھوڑے کی جگہ جیپ نے لے لی تھی مگر سیڑھیاں اترنے سے پہلے سیڑھیاں چڑھنے کی بات ہوجائے۔ سیڑھیاں ختم ہوتے ہی جب ہم پہلی بار صحن میں داخل ہوئے تو سامنے ایک عجیب و غریب منظردیکھنے کو ملا، عین درمیان میں ایک بہت اونچا ٹاور (مینار)تھاجسکے ساتھ بہت بڑے دروازے کے دونوں کو اڑموٹی زنجیر وں کے ساتھ بندھے ہوئے تھے ۔
دریافت کرنے پر مجھے بتایا گیا کہ شبقدر کا قلعہ سب سے پہلے سکھوّں نے حریّت پسندقبائلیوں (جنہوں نے سکھوں یا انگریزوں کی حکومت کو کبھی دل سے قبول نہیں )کے حملوں سے بچنے کے لیے اسوقت بنایا تھاجب اس علاقے پر رنجیت سنگھ کی حکومت تھی،ایک رات کو جب سکھوں کا قومی تہوار تھا، سکھ بٹالین نے قلعے میں خوب جشن منایا اور خوب جام چڑھائے، اس کی خبر مہمند قبائل کو بھی مل گئی لہٰذا مَہمند قبیلے کے بہادر اور سرفروش جوان آدھی رات کے بعد حملے کے لیے قلعے پر آپہنچے جہاں ساری سکھ فوج جشن کے زیرِ اثر مدہوش پڑی تھی لہٰذاء قبائلیوں کے ہاتھوں درجنوں سکھ فوجی مارے گئے۔
قلعے میں ہونے والے اس بہت بڑے جانی نقصان پر سکھوں کی اعلیٰ کمان نے اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا۔ کمیشن نے کئی ہفتوں کی تحقیق کے بعد فیصلہ سنایا (جو تاریخی حیثیت رکھتا ہے) کہ سکھ فوج کا نقصان اس لیے ہوا کہ قلعہ ٹو ٹ گیا اور قلعہ اس لیے ٹوٹا کہ دروازے کمزور ثابت ہوئے جو دشمنوں کو روکنے میں ناکام رہے، لہٰذاء فیصلے کے مطابق جانی نقصان کا اصل ذمے دار کوئی جرنیل ، کرنیل یا سنتری نہیں بلکہ قلعے کا دروازہ ہے۔ دروازے کی ناکامی اور جرم ثابت ہو جانے پراُسے عمر قید کی سزا دے دی گئی اس لیے دروازے اسوقت سے زنجیروں کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں اور اپنے کیے کی سزا بھگت رہے ہیں۔
کئی سالوں بعد ملک کے صدر کی حیثیّت سے ذوالفقار علی بھٹو ایف سی کی تاریخی پریڈ دیکھنے کے بعد اس تاریخی قلعے میں آئے تو ان کا سامنا بھی زنجیروں میں جکڑے ہوئے دروازوں سے ہوا ...کسی مصاحب سے اس کا تاریخی پس منظر سننے کے بعد ولولے اور انرجی سے بھرپور بھٹو صاحب نے ترنگ میں آکر کہا "OK, as President of Pakistan, I order to release them" (میں صدر ِ پاکستان کی حیثیّت سے انھیں رہا کرنے کا حکم دیتا ہوں ) مصاحبین نے تالیاں بجائیں ، مقامی ایس پی اور ڈی سی زنجیر ہٹانے کے لیے آگے بڑھے مگر ایف سی کے با وقار کمانڈنٹ نے انھیں روک دیا اور پورے اعتماد کے ساتھ بھٹو صاحب سے مخاطب ہو کر کہا
"Sir, this is history & nobody can change the history" (جناب ِوالا ! یہ تا ریخ ہے اور کوئی بھی شخص تاریخ کو تبدیل نہیں کر سکتا) جواب سننے والے لیڈر کے دماغ میں اقتدار کا خمار تو تھا مگر اُسکی آنکھوں میں علم کی چمک بھی تھی اور تاریخ کا ادراک بھی،اس لیے وہ سینئر پولیس افسر سے اختلاف کیے بغیر چائے کی میز کی طرف چل دیا۔
قلعہء شب قدر کا ذکر چھڑا ہے تو ماضی کی کئی یادیں تازہ ہو رہی ہیں۔ وہیں ایک بار ہمارے بزرگ اور میدانِ ظرافت کے جرنیل سیّد ضمیر جعفری مرحوم میرے پاس تشریف لائے ، رات کو شعر و سخن کی محفل منعقد ہوئی جس میں ایف سی کے ذریعے قرب و جوار سے اکھٹے کیے گئے بہت سے افسروں اور شاعروں نے شرکت کی، خوب رنگ جما ۔جعفری صاحب نے اپنی خاص لے میں اپنا اور میاں محمد بخش ؒ کا کلام سنایا اور حاضرین پر سحر طاری کر دیا۔اسی قلعہ میں راولپنڈی سے استاد رئیس خان بھی کئی بار آتے رہے او رچھت پر لکڑی کے فرش والے ہال میں وائلن سے اپنے بے مثال فن کا مظاہرہ کرکے حاضرین کے دلوں کے تار ہلاتے رہے۔ یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب یہ علاقہ اور صوبہ دھشت گردی کی لعنت سے پاک، شہر پُر امن اور شاہراہیں محفوظ تھیں۔
ایف سی کے کمان افسر کو چارسّدہ ضلع کا سب سے بڑا زمیندار بھی سمجھا جاتا تھا کیونکہ ایف سی کی ملکیت میں ابا زئی اور مچنی میں کئی مربعّوں پر مشتمل زرعی زمین تھی جسمیں مختلف پھلوں کے باغات تھے۔ آم، خوبانی اور مالٹا تو بڑا اعلیٰ کوالٹی کا ہوتا تھا۔
میں شبقدر میںتعینات تھا تو افضل شگری صاحب سندھ سے آکر ایف سی کے کمانڈنٹ لگ گئے ،شبقدر کے دورے کے دوران انھوں نے ذکر کیا کہ کراچی میں آرمی یونٹس اپنا کولڈ ڈرنک تیار کرتے ہیں اور جوانوں کومعمولی قیمت پر فراہم کرتے ہیں ۔ ہم نے بھی فوری طور پر چند پڑھے لکھے لڑکے کراچی بھیجے جو کولڈ ڈرنک کا فارمولا اورتیار کرنے کا طریقہ سیکھ آئے۔ مشینیں لاہور سے منگوائی گئیں اور چند ماہ میں ایف سی کولا تیار ہو کر بازار کی بوتل کے مقابلے میں چوتھائی قیمت پر جوانوں کو فراہم کیا جانے لگا۔ اپنے ذائقے اور کم قیمت کے باعث وہ اتنا مقبول ہوا کہ پشاور اور چارسدّہ کے افسروں کے گھروں سے ڈیمانڈز آنی شروع ہو گئیں، ایف سی کولا فیکٹری کو بعد میں کیپٹن شعیب نے اور زیادہ بہتر بنا دیا۔
شبقدر میں ہی ایک روز کسی نے بتایا کہ برطانیہ کے سابق وزیرِاعظم اور دوسری جنگ عظیم کے ہیرو ونسٹن چرچل بھی نوجوان جنگی وقایع نگار کی حیثّیت سے ایک سال اسی قلعے میں گزار چکے ہیں۔ تھوڑی سی جدوجہد کے بعد اُنکی ھَٹ ''تلاش''کر لی گئی ۔ صوبیدار میجر کو ہدایت دی گئی کہ چرچل صاحب کا پلنگ بھی تلاش کر کے لاؤ، سمجھدار افسر تھا ،دو تین روز بعدقصبے سے ایک قدیم طرز کاپلنگ لے آیا جو چرچل ھَٹ میں ڈال دیا گیا ، قیمت پوچھی تو کہنے لگاسر! چادر سمیت تین سو روپے میں مل گیا ہے۔
کمرے میں ہی ایک پرانا سا شیشہ اور کنگھی ( جس میں جوؤں کے بے گور و کفن لاشے ابھی تک موجود تھے) رکھ دی گئی اور باہر کتبہ آویزاں کر دیا گیا جس پر انگریزی میں تحریر تھا کہ ''سرونسٹن چرچل اس ھَٹ میں ایک سال تک قیام پذیر رہ چکے ہیں''۔ ہمیں انگریزوں کی اپنے اس عظیم لیڈر سے جذباتی وابستگی کا خوب اندازہ تھا، اُدھر ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کو بھی کہہ دیا گیا تھا کہ انگریز سیّاحوں کو قلعہء شبقدر بجھوانا ہے۔
لہٰذاء انگریز سیاحوں کے گروہ آنا شروع ہو گئے، جب ایف سی کے اے ڈی او احسان صادق انھیں بتاتے کہ چرچل صاحب اس پلنگ پر استراحت فرماتے تھے تو انگریز عقیدت سے پلنگ کو چھونے لگتے جب بتایا جا تا کہ اس شیشے میں وہ اپنا چہرہ مبارک دیکھتے تھے توسیّاح شیشہ دیکھنے لگتے (مگر پھر اپنا سا منہ دیکھ کر رہ جاتے) پھر کنگھی ہاتھ میں لے کر جوؤں کی میّتوں کو بوسے دینے لگتے۔ ایک دفعہ ایک جوڑا آیا ۔
جس نے چرَچل کا پلنگ دس ہزار پونڈ میں خریدنے کی خواہش ظاہر کی تو ایف سی کے گائیڈ (جو پوری طرح گائیڈڈ تھا) نے انھیں بتایا کہ''برٹش میوزیم والے پچاس ہزار پونڈ میں خریدنے کی آفر کر چکے ہیں لیکن ہم حکومت ِ پاکستان کی اجازت کے بغیر بیچ نہیں سکتے''۔ پھر انھوں نے پو چھا کہ آپ کو یہ یادگار maintain کرنے کا خیال کیسے آیا؟ تو انھیں بتایا گیا کہ''یہ دکانداری ہم نے آپ ہی سے سیکھی ہے۔ آپ کے گائیڈوں کے جھوٹ سُن سُن کراور مشاہیر کی جعلی رہائش گاہوں پر پونڈز لٹا کر ہی ہمیں یہ خیال آیا ہے''۔
بات ذمّہ داری ڈالنے سے شروع ہوئی تھی تو اگر دروازوں کو ذمے دار قرار دیکر عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے تو بگولے پر ذمے داری ڈالنے میں کیا حرج ہے ؟