دو مسافر دو ملک

مسعود احمد برکاتی کو برٹش میوزیم دیکھنے کا بہت اشتیاق تھا ۔۔۔

تینتیس سال ہوئے مسعود احمد برکاتی حکیم محمد سعید کے ساتھ انگلینڈ اور فرانس گئے۔ دو مسافر، دو ملک۔ پہلے لندن، آکسفورڈ اور کیمبرج میں اہل علم و دانش سے ملنا تھا، پھر پیرس جانا تھا۔ وہاں بھی پڑھے لکھے لوگوں ہی کی محفل میں شرکت کرنا تھی۔ یہ اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے کے رسالے ''کوریئر'' کے ایڈیٹروں کی میٹنگ تھی۔ ہمدرد فاؤنڈیشن سے حکیم محمد سعید کی نگرانی میں یہ بین الاقوامی رسالہ اردو میں شایع ہوتا تھا۔

حکیم صاحب لندن میں اہل علم سے مل کر اور پیرس میں یونیسکو کی میٹنگ میں شرکت کر کے اپنے کینیڈا اور امریکا کے اگلے سفر پر روانہ ہو گئے، مسعود احمد برکاتی نے پیرس کی سیر کی۔ لندن میں بھی وہ اسی طرح اپنا وقت گزارتے رہے۔ ان کے اس سفر کی کہانی ان کی یہ چھوٹی سی کتاب ''دو مسافر، دو ملک'' ہے۔ اس میں بنیادی طور پر تو وہ بچوں سے مخاطب ہیں لیکن ان کا پیغام اپنے ہم وطنوں خصوصاً ان سے ہے جن کا پاکستان کے بنانے اور بگاڑنے میں دخل ہے۔

لندن اور پیرس دونوں جگہ انھوں نے جو معاشرتی ماحول دیکھا اس کا اپنا ملک کے ماحول سے مقابلہ کرنے پر خود کو مجبور پایا۔ مسعود احمد برکاتی کو ہائیڈپارک کو دیکھ کر تقریر و تحریر کی آزادی کا خیال آنا ضروری تھا۔ لکھتے ہیں۔ ''یہاں ہر طرح کی آزادی ہے، حکومت کو ٹوکنے کی آزادی، اپنے خیالات پھیلانے کی آزادی۔ اخبارات پوری طرح آزاد ہیں۔ وہ حکومت پر سخت تنقید کرتے ہیں، لیکن حکومت انھیں بند نہیں کرتی، ایڈیٹروں کو قید نہیں کرتی، ان کو غدار نہیں کہتی۔ اس لیے وہاں غلطیوں کی اصلاح جلد ہو جاتی ہے۔''

لندن: آکسفورڈ اور کیمبرج میں آٹھ دن قیام کے دوران میں مسعود برکاتی کو جب بھی موقع ملا وہ تنہا گھومنے کو نکل کھڑے ہوئے۔ ٹیوب میں بھی سفر کیا، ٹیکسی میں بھی اور پیدل بھی پھرے۔ اجنبیوں سے بھی ملے، دکانداروں کے طریقے اور گاہکوں کے اطوار بھی دیکھے۔ انھیں ایک فقیر بھی ملا۔ کالا نہیں گورا تھا۔ لکھتے ہیں۔ ''میں اپنے میزبان یوسف حسین نقوی کی قیام گاہ ڈریک فیلڈ روڈ پر فٹ پاتھ پر چلا جا رہا تھا۔ میں نے دیکھا مخالف سمت سے ایک آدمی آ رہا ہے۔ قریب آ کر مجھ سے کہنے لگا، کیا آپ مجھے چائے پینے کے لیے دس پنس دے سکتے ہیں؟ میں نے دس پنس کا سکہ اس کے حوالے کیا اور وہ شکریہ کہہ کر چلا گیا۔''

اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے برکاتی صاحب کہتے ہیں کہ بھکاری پن مجبوری کا نام نہیں ہے بلکہ بری عادت یا خراب ذہنیت بھیک منگواتی ہے۔ غیرت مند آدمی چاہے کتنا ہی ضرورت مند ہو وہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے گا۔

مسعود احمد برکاتی نے اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا ہے کہ لندن میں وہ جس بازار میں گئے وہاں انھیں کتابوں کی دکانیں نظر آئیں۔ لکھتے ہیں۔ ''میں نے ان دکانوں میں جھانکا ضرور۔ ایک تو کتابوں پر نظر ڈالنا بھی چاہتا تھا، دوسرے چند کتابوں کی تلاش بھی تھی۔ بچوں کی کتابوں کا اندازہ بھی کرنا تھا۔ بچوں کی کتابیں وہاں جتنی عمدہ لکھی جاتی ہیں اتنی ہی عمدہ چھپتی ہیں۔ بچوں کے ہر موضوع پر خاص طور پر سائنس پر کتابیں کثرت سے چھپتی ہیں۔ کاش ہمارے ہاں بھی بچوں کے ادب کی اہمیت کو سمجھا جائے۔''

مسعود احمد برکاتی کو برٹش میوزیم دیکھنے کا بہت اشتیاق تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ حکیم صاحب کے ساتھ جا کر دیکھیں۔ وہاں وہ کئی بار جا چکے تھے اور ان کی سب چیزوں پر نظر تھی لیکن حکیم صاحب مصروف تھے۔ انھوں نے پھر خود جو کچھ دیکھ سکتے تھے دیکھا۔ لکھتے ہیں۔ ''برٹش میوزیم کہنے کو تو ایک بڑا عجائب گھر ہے لیکن سمجھ میں نہیں آتا اس کو کیا کہوں؟ تاریخ و تہذیب کا خزانہ ہے؟ مگر مجھے تاریخ کا خلاصہ زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ اس میں کیا کچھ نہیں۔ ہر وہ چیز محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے انسان کی جدوجہد کا علم ہوتا ہے۔''

برکاتی صاحب نے لندن کی سیر کرنے کے لیے حکیم صاحب کے مشورے پر گائیڈڈ ٹور کا پروگرام لیا اور ہائیڈ پارک، قصر بکنگھم، ویسٹ منسٹرایبے، ٹاور آف لندن، پکاڈلی سرکس سب دیکھ لیا۔ ٹیوب میں بھی سیر کر لی۔ انھوں نے ان سب جگہوں کا تعارف کرایا ہے اور اپنے تاثرات بھی قلم بند کیے ہیں۔ لکھتے ہیں۔ ''واپس آتے ہوئے میں ٹورسٹ بس کے آخری اسٹاپ پر اترنے کے بجائے درمیان میں اتر پڑا اور بازار میں گھومنے لگا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ منزل اور سمت متعین کر کے چلنا چاہیے لیکن کبھی کبھی اور کچھ دیر کے لیے آدمی بے سمت ہو جائے تو بڑا مزہ آتا ہے۔


اس طرح اسے شاید آزادی کا احساس ہوتا ہے۔ یوں تو آدمی ہر وقت ہر جگہ پابندیوں میں جکڑا رہتا ہے لیکن کبھی کبھی اسے موقع مل جائے اور وہ اپنے آپ کو آزاد محسوس کرے تو اسے سکون محسوس ہوتا ہے۔ بس یوں ہی میں بھی نامعلوم راستوں پر چلنے لگا۔ کہیں کہیں رکتا، کسی دکان میں گھس جاتا، کہیں سے کچھ خرید لیتا۔ معلوم نہیں کن کن بازاروں سے گزرا۔ کن گلیوں میں مڑا۔ کہاں کہاں ٹھٹھکا۔ مجھے پیدل چلنے میں لطف آ رہا تھا لیکن یہاں ایک خرابی ہے، بازار جلدی بند ہونے لگتے ہیں۔ چھ بجے ہی سے دکانیں بڑھنے لگتی ہیں۔ سیاح کا دل تو یہ چاہتا ہے کہ چوبیس گھنٹے شہر جاگتا رہے لیکن شہر کے چوبیس گھنٹے جاگنے والے علاقے الگ ہوتے ہیں۔''

برکاتی جس دن لندن پہنچے تھے اسی شام کو وہ اپنے میزبان کے گھر سے نکل کر چہل قدمی کرتے ہوئے ایک قریبی پارک میں چلے گئے۔ تھوڑی دیر پارک کے کنارے کھڑے ہو کر تازہ ہوا میں سانس لیتے رہے۔ اندھیرا ہونے کے ساتھ چاند بھی نکل آیا۔ لکھتے ہیں۔ ''میں نے سوچا کیا یہ بھی وہی چاند ہے جس کو میں پاکستان میں دیکھا کرتا ہوں؟ ہاں یہ وہی چاند ہے، وہی آسمان ہے۔ صرف زمین وہ نہیں ہے۔ یہ زمین دوسروں کی ہے۔

میری زمین یہاں سے سات ہزار میل دور ہے۔ جس طرح چاند کا نور سب جگہ پہنچتا ہے اسی طرح محبت اور پیار کی روشنی بھی سب جگہ پھیل جائے تو کتنا اچھا ہو۔ کتنا مزہ آئے کہ ساری دنیا کے لوگ دلوں سے بغض، حسد اور نفرت نکال دیں اور بھائی بھائی بن کر ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوں اور اپنے علم اور اخلاق سے انسان کی بھلائی کے لیے کام کریں۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ ہر قوم کے اور ہر طبقے کے لوگ محبت کے بھوکے ہیں لیکن ان کے لیڈر ان کو امن چین سے نہیں رہنے دیتے۔''

لندن میں آٹھ دن گزار کر مسعود احمد برکاتی حکیم صاحب کے ساتھ پیرس پہنچے۔ مسعود احمد برکاتی پیرس شہر اور وہاں کی خاص خاص چیزیں دیکھنے کی کوشش کرتے۔ پیرس میں حکیم صاحب اور برکاتی صاحب ہوٹل ڈوکین میں ٹھہرے تھے۔ یہ ہوٹل یونیسکو کے صدر دفتر سے قریب تھا اس لیے میٹنگ کے لیے پیدل ہی چلے جاتے تھے۔ برکاتی صاحب کو خیال آتا تھا کہ پیرس کی خوبصورتی، پیرس کی تہذیب شناسی اور اس کی علم دوستی کی بنا پر ہی شاید یونیسکو کا صدر دفتر یہاں بنایا گیا ہے، اس فیصلے کی داد دینا پڑتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

''اسی طرح ایک دن مجھے خیال آیا کہ حکیم محمد سعید صاحب بھی تو اپنے شہر ثقافت کے لیے ایک بڑی زمین کی تلاش میں ہیں جہاں بڑی لائبریری ہو اور دوسرے اداروں کے علاوہ قلم کاروں اور عالموں کے رہنے اور کام کرنے کے لیے ''خانقاہیں'' بھی ہوں اور یہ عمارتیں باغوں سے گھری ہوں۔ اس کے لیے حکیم صاحب کئی سو ایکڑ زمین خریدنا چاہتے تھے۔ اس گلستان علم میں پھولوں پھلوں کی بہار اور علم کا نکھار یکجا ہو جائے تو حکیم صاحب کا خواب پورا ہو جائے۔''

حکیم محمد سعید صاحب تو پیرس سے امریکا اور کینیڈا کے سفر پر روانہ ہو گئے، مسعود احمد برکاتی کو کراچی واپس آنا تھا۔ ان کے پاس پیرس میں قیام کا وقت کم تھا تاہم انھوں نے یہاں کے قابل ذکر مقامات دیکھ لیے۔ ایک دن ٹیکسی پکڑ کر لوور میوزیم دیکھنے پہنچ گئے۔ جو دنیا کا سب سے بڑا میوزیم ہے یہاں انھوں نے مونالیزا کو بھی دیکھا۔ ان کی حالت یہ تھی کہ ہر تصویر پر نظر ٹھہر جاتی۔ ٹھہر کر دیکھنے کا مگر وقت نہ تھا۔

لہٰذا وہ چلتے ہی رہے اور دم لینے کے لیے بھی نہیں بیٹھے۔ وہاں نکلے تو دریائے سین سامنے آ گیا۔ پل پر پہنچ کر دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچ گئے، کتابوں کی دکان نظر آئی تو اس میں گھس گئے۔ ایک دن وہ مشہور تاریخی گرجا ''نوترے دام'' بھی دیکھنے پہنچ گئے۔ وہاں سے نکل کر نپولین کے مقبرے میں چلے گئے۔ ایک دن شانزالیرے بازار پہنچ گئے۔

لکھتے ہیں ''وقت کم تھا، بہت کم۔ پیرس بہت بڑا شہر ہے۔ بے شمار چیزیں دیکھنے کی ہیں۔ تھوڑے دنوں میں جتنا دیکھ سکتا تھا، دیکھا۔ فرانس کے لوگ بہت زیادہ زندہ دل اور شگفتہ مزاج ہوتے ہیں۔ زندگی کو پوری دلچسپی سے برتتے ہیں۔''
Load Next Story