ایک بات اچھی طرح سن لو
دنیا بھر کے تمام جمہوری، خوشحال، لبرل معاشرے دراصل امیدوں کی دکانیں ہوتے ہیں، جہاں سے وہاں کے لوگ امیدیں خریدتے ہیں۔
LOS ANGELES:
آئیں ذرا بات کرتے ہیں ان لوگوں کی جو پان کی دکانوں، کیفوں یا گلیوں میں اپنے اپنے گھروں کے تھلوں پر بیٹھ کر یا آفسوں میں ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر یا سٹرکوں کے کنارے دیہاڑی کے انتظار میں رہتے ہوئے یا اپنے رکشہ تھوڑی دیر کے لیے چھاؤں میں روک کر اخبار پڑھتے ہوئے اور خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے لمبی لمبی باتیں کرتے ہیں، اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں، زیادتیوں، سارے ظلم، ساری برائیوں اور ساری خرابیوں پر رکے بغیر گھنٹوں بولتے رہتے ہیں، ادھر چائے یا سگریٹ، پان یا آفس کا وقت یا اخبار ختم ہوا، یہ لوگ یہ جا وہ جا اور اپنے گھر جا کر لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔
ہر غم و فکر سے بے نیاز لمبے لمبے خراٹے لیتے رہتے ہیں، شام میں اٹھتے ہیں، کبھی کسی کو گالیاں دیتے ہیں، کبھی کسی کو برا بھلا کہنے بیٹھ جاتے ہیں، رات میں گھنٹوں مختلف ٹی وی چینلز پر مذاکرے دیکھتے ہیں، خبریں اور تجزیے سنتے ہیں، اپنا چہرہ لال پیلا کرتے ہیں اور آخر میں یہ کہتے ہوئے ٹی وی بند کر دیتے ہیں کہ کچھ بدلنے والا نہیں ہے۔ اور ایک بار پھر سو نے کے لیے پلنگ پر لیٹ جاتے ہیں اور بس آنکھ لگتی ہی ہے تو بجلی چلی جاتی ہے تو پھر پلنگ پر بیٹھ کر بجلی والوں کو موٹی موٹی تازہ تازہ گالیاں دینے لگ جاتے ہیں اور اتنی زور سے دیتے ہیں کہ باقی محلے والوں کو کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
یہ سب وہ لوگ ہیں جو اس طرح زندگی گزار رہے ہیں جیسے یہ کوئی عادت ہو، ایسی عادت جسے تبدیل نہ کیا جا سکے۔ عادت یا تو بہترین غلام ہوتی ہے یا بدترین آقا، ظاہر ہے غلاموں کے غلام تو ہو نہیں سکتے، اس کے تو صرف بدترین آقا ہو سکتے ہیں۔ یہ سب کے سب اس ملک کے باشندے ہیں جسے غریبوں نے امیروں کے لیے تعمیر کیا ہے۔ ان سب کے امیدوں کے چراغ عرصے سے بجھے اوندھے پڑے ہیں، جن کی ویرانی دیکھ کر دل وحشت سے پھٹ جاتا ہے۔ جہاں امید نہ ہو وہاں وحشت آخری پناہ ہوتی ہے۔
دنیا بھر کے تمام جمہوری، خوشحال، لبرل معاشرے دراصل امیدوں کی دکانیں ہوتے ہیں، جہاں سے وہاں کے لوگ امیدیں خریدتے ہیں۔ یاد رہے امیدیں ہی آپ کو خوش رکھتی ہیں لیکن جب معاشرہ بدحال، غلام، انتہاپسند، رجعت و قدامت پسند بن جاتا ہے اور جہالت و اندھیروں کی قوتیں اسے دبوچ لیتی ہیں تو وہاں امیدوں کی دکانیں بند ہو جاتی ہیں اور وحشت کی دکانیں کھل جاتی ہیں، پھر آپ کو ڈھونڈنے سے امید کی کوئی دکان کھلی ہوئی نہیں ملتی، وہاں پھر صرف وحشت ملتی ہے امید نہیں۔ ذہن میں رہے حقیقی مفلس وہ ہی ہوتا ہے جس کی امیدیں بھی مر جائیں۔
اس وقت ہم سب حقیقی مفلس ہیں۔ ہم نے 18 کروڑ جیتے جاگتے کارآمد انسانوں کو ناکارہ، ردی بنا دیا ہے اور کاٹھ کباڑ میں تبدیل کر دیا ہے، جو اب ملک کی تعمیر اور ترقی میں کوئی بھی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہے، بس صرف باتیں کرنے کے قابل ہیں۔ ہمارے ساتھ کچھ بھی ایسا نہیں ہوا ہے جس کے لیے ہم یہ کہہ سکیں کہ اس کی کوئی امید نہیں تھی یا یہ کہ یہ سب غیر متوقع ہو گیا ہے یا ہمارے ساتھ انہونی ہو گئی ہے، یہ تو پہلے ہی روز ظاہر ہو گیا تھا کہ آگے چل کر ہمارے ساتھ کیا کچھ ہونے والا ہے کیونکہ جس راستے پر آپ چل رہے ہوتے ہیں اس کی منزل کا سب کو پتہ ہوتا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ مسا فر انجانا بنے چلتا رہے۔ جس روز قرارداد مقاصد نے جنم لیا تھا اسی روز سے منزل صاف دکھائی دینا شروع ہو گئی تھی، ظاہر ہے عقل کو استعمال کیے بغیر سب کاموں کا انجام ہمیشہ ایک ہی نکلتا ہے اور اس کے علاوہ کچھ اور نکل بھی نہیں سکتا ہے، آپ سب باتیں چھوڑیں، اور دنیا کی تاریخ بار بار پڑھ لیں، اب ذرا آپ ہی بتا دیں کہ جن قوموں یا لوگوں نے عقل کو استعمال کیے بغیر جو کام کیے ان سب کا کیا انجام ہوا؟ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، غلط نہیں ہو رہا۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم نے اپنے آغاز میں ہی عقل کا قتل کر دیا تھا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ہمارے سارے اقدامات اور فیصلے عقل کے خلاف تھے۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ وہ خدائی چوبدار، نفرتوں کے دیوتا، اذیتوں کے پجاری، سما ج کے اندھے کانے بہرے ٹھیکیدار اور قاتل جو سقراط کے خون کے پیاسے تھے جو عقل، علم، دانائی اور سچائی کے دشمن تھے، کیا وہ آج بھی اپنی محرومیوں کا انتقام لینے کے لیے ہماری گلیوں میں نہیں پھرتے ہیں، کہ جہاں کوئی سقراط نظر آ جائے تو اسے زہر کا پیالہ پلا دیں۔ ہم سب ایسی کشتی میں سوار ہیں جو اس قدر بوسیدہ ہو چکی ہے کہ جب ہم ایک سوراخ بند کرتے ہیں تو دوسری جگہ سے پانی اندر آنے لگ جاتا ہے، کہ اگر ہم نے فوراً جنگی بنیادوں پر کشتی اور کشتی میں سوار 18 کروڑ لوگوں کو مضبوط، توانا، خوشحال، بااختیار، آزاد نہیں کیا تو پھر کیا ہونے والا ہے، کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
ملک کے حکمرانوں، سیاست دانوں، انتہاپسندوں اور ملک کی اشرافیہ ایک بات اچھی طرح سے سن لو کہ بس اب بہت ہو چکا، لوگوں کو آزاد ہونے دو، لوگوںکو سوچنے دو، انھیں اپنی مرضی کے مطابق ملک تشکیل کرنے دو۔ بہت ڈرامہ بازی ہو چکی، بہت لوٹ مار ہو چکی، بہت بدمعاشی ہو چکی، لوگوں کو جینے دو، خو ش ہونے دو۔