الزام تماشا
عرفان کی عمر شاید سات سال ہو گی۔ ابو کے ساتھ ہی اسکول آتا تھا ۔۔۔
چھ سال کا عادل اپنے والدین کے ساتھ گھر واپس آیا۔ دروازہ کھولا اور گھر کے اندر جانے لگا تو ہوا کی وجہ سے عادل کا ہاتھ دروازے میں آ گیا اور اس کو چوٹ لگ گئی۔ وہ زور زور سے رونے لگا۔ ابو آواز سن کر آ گئے۔ عادل کو گود میں اٹھایا اور دروازے کو زور سے تھپڑ مارا۔ گندا دروازہ میرے بیٹے کو چوٹ لگا دی۔
عرفان کی عمر شاید سات سال ہو گی۔ ابو کے ساتھ ہی اسکول آتا تھا۔ آج وہ گاڑی سے اتر کے جانے لگا تو گھوم کر ابو کی طرف والے دروازے پر آیا ابو نے دروازہ کھولا تو عرفان قریب کھڑا تھا اس کو دروازہ لگا اور وہ سڑک پر گر گیا۔ ابو گھبرا کر اترے بیٹے کو اٹھایا۔ کپڑے جھاڑے اور گاڑی کے دروازے کو تھپڑ مار کر بولے گندا دروازہ میرے بیٹے کو سڑک پر گرا دیا۔
مریم کی ابھی تیسری سالگرہ نہیں ہوئی گھر پر ہی رہتی ہے ابھی اسکول کے دن شروع نہیں ہوئے۔ امی اسے کچن کے سامنے لاؤنج میں صوفے پر بٹھا کر کھلونے دے کر دوپہر کا کھانا تیار کرتی ہیں۔ اس دن مریم کی گڑیا اس کے ہاتھ سے گر گئی جس کو اٹھانے کے لیے وہ صوفے سے اترنے کی کوشش میں پھسل گئی تو سامنے رکھی میز سے سر ٹکرا گیا۔ مریم کے رونے کی آواز سن کر امی بھاگ کر آئیں مریم کو اٹھایا وہ تھوڑا چپ ہوئی تو امی نے میز کو تھپڑ مارا۔ میری بیٹی کو چوٹ لگاتی ہے۔ گندی میز۔
یہ تمام واقعات 1980ء کے عشرے میں پیش آئے تھے۔ اب عادل، عرفان اور مریم بڑے ہو گئے ہیں اور ان کی شادیاں ہو گئی ہیں اور ان کے بھی بچے ہیں۔ ان تینوں میں کوئی رشتہ یا قدر مشترک نہیں تھی اور نہ آج ہے مگر ان تینوں کے والدین میں ضرور ہے حالانکہ وہ دادا، دادی اور نانا نانی بنے ہیں کہ آپس میں کوئی رشتہ نہ ہی کوئی ناتا تو پھر کیا قدر مشترک ہوئی۔ اور وہ قدر مشترک یہی کہ عادل، عرفان اور مریم کے والدین نے اپنے انداز و الفاظ سے اپنے بچوں کو غیر محسوس طریقے پر یہ سکھایا کہ غلطی نہیں مانو اور کچھ ایسا ویسا ہو جائے تو کسی بھی طور پر الزام کسی بھی اور پر دھر دو، اور خود کو کسی طور پر بھی قصوروار، ذمے دار مت سمجھو اور نہ ہی کسی کو سمجھنے دو۔ یہ سلسلہ ہے کہ جاری ہے نسل در نسل اور زندگی کے ہر شعبے میں رائج ہے۔ اسی طرز فکر اور عمل کا مظاہرہ ہم روز اپنے آس پاس کرتے بھی ہیں اور مشاہدہ بھی کرتے ہیں۔
سڑکوں کے مناظر عام ہیں۔ کوئی اپنی غلطی مان لے تو بڑی بات ہے اور قابل عزت بھی ہے مگر صد افسوس کہ سگنل توڑ کر دوسری گاڑی کو ٹکر مارنے والے صاحب بھی اڑ جاتے ہیں کہ میں نے تو غلطی کی ہی نہیں بلکہ جس کا سگنل سبز تھا وہ گاڑی آہستہ چلا رہا تھا۔ اگر رفتار تیز ہوتی تو بچ سکتا تھا۔ اب وہ جا کر دوسری گاڑی کو تھپڑ مارے یا سگنل کے کھمبے کو لات مارے۔ تو میرے لیے وہ عرفان ہی ہو گا چاہے نام کچھ بھی کیوں نہ ہو۔
آج کل روز ہی ٹی وی پر میٹرک کے امتحانات میں نقل کے حوالے سے کراچی اور اندرون سندھ سے خبر ہوتی ہے۔ کھلے عام نقل کے مناظر۔ بے شرمی کی آخری حد بھی ختم مگر احساس ہی نہیں۔ پوچھیں تو جواب ملے گا کہ اسکول میں استاد آتے ہی نہیں تھے جو ہم کو پڑھاتے۔ خود تمام سال وقت کا ضیاع کر دینا اور پھر سال کے آخر میں یہ حال اور پھر ڈھیٹ بن کر یہ جواب۔ وہی طرز عمل کے میری نہیں استاد کی غلطی۔ الزام اپنے سر سے اتارو اور خود کو ہی دھوکہ دیتے ہوئے مطمئن ہو جاؤ۔ چند سال کے بعد نوکری کی تلاش۔ نتیجہ ناکامی، الزام، سسٹم پر ڈال دو۔ اب نہ ہے پاس تعلیم، نہ ہی کوئی ہنر۔ وہی ڈھیٹ بن کر۔ شاید یہ عادل ہو گا۔
گھر میں جھگڑے کے شادی کے بعد وہی ساس بہو کے سدا بہار قصے اور تمام دن ایک تناؤ کا ماحول۔ آپ کی غلطی ہے کہ آپ نے مجھے بیٹی نہیں بہو سمجھا ہے۔ تم نے کون سے کام کیے ہیں بیٹی بن کر۔ پھر وہ مرحلہ کہ ساتھ رہنا ناممکن اور ایک نیا سلسلہ جنگ۔ کوئی اپنی غلطی مان لے تو گویا گناہ ہو گیا۔ یہ مریم ہو گی۔ اور ایسی ہی بہت سی مریم اس وقت بھی اپنے گھر میں اور اپنے آس پاس عادل اور عرفان کی طرح کچھ ایسے ہی تجربات اور مشاہدے کر رہے ہوں گے۔
یہی طرز عمل۔ اور یہی انداز تربیت ہے کہ ہمارے آپس کے معاملات میں زیادہ تر لوگ اس بات کو اپنی زندگی کا اصول مان چکے ہیں اپنا طریقہ بنا چکے ہیں کہ اگر کوئی غلطی ہو جائے تو ذمے داری کود کبھی قبول نہ کرنا بلکہ ہر وہ کوشش کرنا کے مورد الزام کسی اور کو گردانا جائے۔ ہمارے اس دور میں بھی یہ سب جاری ہے۔ جی اسی دور میں کہ جب ہر گھر میں موجود ہے کمپیوٹر اگر نہیں تو ہے موبائل۔ جس کی طاقت روز بروز بڑھتی ہوئی4G-3G جس پر انٹرنیٹ موجود ہے۔ جی انٹرنیٹ کہ جس نے دنیا کو ''گلوبل ولیج'' بنایا ہے۔ مگر والدین کو اس سہولت میں صرف کھیل کود اور گانے یا پھر فلمیں ہی ملتی ہیں۔ جب کہ اسی انٹرنیٹ کی سہولت کو بچوں کی تربیت کے لیے معلومات حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے میں کیا حرج ہے۔ مگر شاید اس پر بھی کوئی جواز مل جائے۔
چند سال قبل میری تجویز تھی وزیر تعلیم صاحب کے لیے کہ محترم پہلی جماعت کی اردو کی کتاب میں ( الف) سے آج تک انار موجود ہے۔ اگر شروع کے اسی نصاب میں اس کی جگہ۔ الف سے اخلاق لکھ دیا جائے تو بچے سوال کریں گے اپنے استاد سے کہ یہ اخلاق کیا ہوتا ہے تو پھر محترم اساتذہ کو اخلاق کی تعریف کرنی ہو گی۔ واضح کرنا ہو گا کہ یہ کیا ہوتا ہے۔ اپنے عمل سے دکھانا ہو گا۔
مکمل طور پر عملی طور پر مظاہرہ کرنا ہو گا۔ میری رائے میں آج ہم جس مقام پر ہیں بطور ایک قوم کے اور جو مسائل ہم روز جھیل رہے ہیں اس کی ایک وجہ سینہ زوری بھی ہے۔ غلطی کرو اور پھر اڑ جاؤ کہ میری کوئی کوتاہی نہیں کوئی غلطی نہیں۔ اور یہی سماجی رویہ ہم کو بگاڑتا جا رہا ہے معاشرے کے ہر طبقے میں یہ سماجی بیماری پھیل گئی ہے۔
اسی سماجی بیماری کا عکس ہماری سیاسی زندگی میں بھی بھرپور طور پر نظر آتا ہے۔ برسوں سے وہی رویہ، بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے نمایندے یہ سب کچھ کرتے نظر آتے ہیں پھر وہی رویہ ان کے پیروکار بھی کرتے نظر آتے ہیں علما، مولوی حضرات ہوں یا گھروں میں والدین۔ سب اس ساز میں شامل ہیں۔ اس اخلاقی تباہی کی سازش میں ذمے دار ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ سازش غیر ملکی نہیں اور اگر اقرار کر لیا جائے کہ یہ بھی سازش ہے تو پھر ہماری کمزوری اس میں بھی واضح ہے کہ گھر کی دیواریں کمزور، چھوٹی کہ کوئی بھی سازش ہمارے گھر میں کود کر آ جائے۔ گھس جائے اور ہم کچھ بھی نہ کر سکیں۔
بچے ہمارے، ہمارا کل کا مستقبل قوم کا، جس پر ہر قوم ہر ملک جس نے ترقی کی منازل طے کی ہیں ان کا رہنما اصول رہا ہے۔ بچوں کی صرف تعلیم نہیں تربیت بھی میری نظر میں ہم مجرم ہیں۔ ہم نے جو بویا ہے وہی کاٹ رہے ہیں۔ میں نے دانستہ طور پر کوئی کامیابی ہو، کچھ اچھا ہو تو ہم نے کیا۔ اور جب کچھ برا ہو، لوگ سوال کریں تو آس پاس دیکھ کر الزام دھر دو۔ کسی ماتحت کو الزام لگا کر لٹکا دو۔ اور پھر ڈھیٹ بن کر نئے زخم لگانے مسکراتے ہوئے آ جاؤ۔ ذہن ماؤف ہے اور آنکھ دیکھ رہی ہے پھر کوئی نیا تماشا ہونے کو ہے ''الزام تماشا''۔