خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں… ایک خط
ان کی طرح آپ انسان کو انسان نہیں سمجھتے آپ ان غریب پاکستانیوں کے لیے کچھ بھی نہیں کرتے
KARACHI:
ملک بھر کے ''دلوں'' میں ''رفو'' کا اتنا ڈھیر سارا ''کام'' ہے کہ اگر ہم پڑھنے والوں کے مکتوبات چھاپنے پر آجائیں تو نہ صرف یہ کالم بلکہ پاس پڑوس کے دوسرے کالموں میں بھی جگہ نہ رہے پورا کالم ایک ''دیوار گریہ'' بن جائے، خدا ہمارے اس نظام کا خود ہی حافظ ہو کیوں کہ ''اندھے'' کی بیوی صرف خدا ہی کے سپرد ہوتی ہے، ایسا دل بہت کم ملے گا جس میں ہزاروں چھید نہ پڑے ہوں کیوں کہ ہمارے اس جمہوری عوامی اسلامی اور فلاحی نظام میں اس کے کافی سارے انتظامات اور مواقع دستیاب ہیں کیوں کہ
ناوک نے تیرے صید نے چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
لیکن آج ایک مکتوب کا ذکر ہم ضرور کرنا چاہیں گے، شب قدر سے ایک صاحب محمد علی ولد عجب خان نے جو مکتوب ہمیں بھیجا ہے یہ مکتوب بھی ان چیزوں میں سے ایک ہے، جسے دیکھ کر پرانے زمانے میں لوگ پہلے ہنستے تھے پھر روتے تھے یا پہلے رو دیتے تھے بعد میں ہنس دیتے تھے، لیکن یہ خط ان چیزوں سے بھی ذرا بڑھ کر ہے کیوں کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ پہلے رویا جائے یا ہنسا جائے اس لیے ایک ساتھ ہی دونوں کام کرنا پڑتے ہیں یا پشتو محاورے کے مطابق ایک آنکھ روتی ہے اور دوسری ہنستی ہے۔
اس مکتوب میں ایک بالکل ہی الگ قسم کی نفسیاتی کیفیت ہے موصوف کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی تنخواہ سات ہزار روپے ہے اور مسائل بے شمار ہیں جن میں سب سے بڑا مسئلہ اس کی بیٹی کی شادی ہے جس پر 80 ہزار روپے خرچ ہوں گے اور وہ چاہتے ہیں کہ کوئی اللہ کا نیک بندہ یہ 80 ہزار روپے دے دے، سب سے پہلے تو اپنی ساری کیفیت بیان کرنے کے بعد ہم کالم نگارں پر خوب خوب برسے ہیں کہ ہم یونہی کوئی فضول سا موضوع ڈھونڈ کر اس پر بے کار قسم کی لفاظیاں کرتے ہیں اور ''عوامی مسائل'' کی طرف توجہ نہیں دیتے کیوں کہ ہم صرف ٹی وی چینلوں کی بریکنگ نیوز کو لے کر موضوع بنا دیتے ہیں ہم کالم نگار بھی سیاست دانوں کی طرح ہیں، سیاست دانوں کی طرح ہمارے دلوں پر بھی اسلام آباد کی ربڑ اسٹمپ لگی ہوئی ہے۔
ان کی طرح آپ انسان کو انسان نہیں سمجھتے آپ ان غریب پاکستانیوں کے لیے کچھ بھی نہیں کرتے اور انھی سیاست دانوں کی طرح آپ ہمارے مسائل بھول جاتے ہیں، میں امید کرتا ہوں کہ آپ اپنے کالم میں کنجوسی نہیں کریں گے میرے اس خط کا ذکر ضرور کریں گے کیوں کہ یہ میری آواز نہیں بلکہ 19 کروڑ پاکستانیوں کی آواز ہے، سب سے پہلے تو ہم ان صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں ورنہ بخدا ہمیں آج تک پتہ ہی نہیں تھا کہ پاکستان کی آبادی انیس کروڑ ہے اور اس انیس کی انیس کروڑ آبادی کی یہ آواز ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ ان صاحب کو بیٹی کی شادی کے لیے 80 ہزار روپے دے دے، جہاں تک ان 80 ہزار روپوں اور اللہ کے بندوں کا تعلق ہے تو وہ تو امید ہے ہو جائے گا کیوں کہ یہ جو 19 کروڑ لوگ ہیں یہ سب کے سب اللہ کے بندے ہیں ان میں کوئی ایک تو یقیناً ایسا ہو گا جس کے ہم اور یہ ''صاحب'' بندے بن جائیں
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جسے خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
سب سے پہلے تو بڑی خوشی یہ سن کر ہوئی کہ ہم کالم نگار اتنے بڑے لوگ ہیں اور خود ہمیں ہی پتہ نہیں ہے اور یہ کہ ہم بھی کسی بڑے اور سلجھے ہوئے سیاست دان سے کم نہیں ہیں ذرہ نوازی کا شکریہ یہ آپ کا حسن ظن ہے ورنہ من آنم کہ من دانم ... اور وہ دوسری بات اسلام آباد کے ''ربڑ اسٹمپ'' والی
زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زبان کے لیے
اس کے بارے میں تو ہم قطعی لاعلم تھے کہ ہمیں پتہ ہی نہیں کہ ہمارا مقام اتنا بلند ہو چکا ہے یہ سعادت بزور بازو نیست ... اور یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا لیکن اپنے اس ''اونچے مرتبے'' اور عالی مقام کے باوجود ہم نے ان کی آواز عوام تک پہنچا دی ہے ان انیس کروڑ عوام تک، جن سب کی یہ آواز ہے، ایسا لگتا ہے کہ صاحب موصوف اپنے دکھ سے اتنے پریشان ہیں کہ یہ بھی بھول گئے کہ انیس کروڑ عوام میں اور کس کس کی اور کتنے کتنوں کے منہ سے ایسی چیخیں نکل رہی ہیں، شاید ان کو پتہ نہیں کہ
اس دنیا میں کتنا غم ہے
میرا غم پھر بھی کم ہے
اب ہم وثوق سے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ خدا کا ایسا کوئی بندہ نکل آئے گا یا نہیں جسے خدا کے بندوں سے پیار ہو گا اور خود ہمارے پاس بھی اتنے پیسے نہیں ہیں لیکن اتنا تو کر سکتے ہیں کہ ان کا مسئلہ حل کرنے میں کچھ ''دامے درمے'' نہ سہی قلمے و کالمے مدد تو کر سکتے ہیں سب سے پہلے تو ہم ان کو یہ مشورہ دینا چاہیں گے کہ آپ نے خود ''شادی'' کر کے کیا سکھ پایا ہے جو اب اپنی بیٹی کو بھی اس میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں۔
خود آپ کے مطابق آپ کی پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں باقی بیٹیوں کی شادیاں کروا چکے ہیں بیٹوں کی بھی یا تو کروا چکے ہوں گے یا کرنا چاہتے ہوں گے آپ کی بیوی بھی کینسر کی وجہ سے فوت ہو چکی ہے اور 7000 ہزار روپے میں آپ نہایت تنگی سے گزارہ کر رہے ہیں آپ اپنے آپ اور اپنے خاندان کی مثال سامنے رکھ کر بتائیں کہ ایک اور ایسا ''خاندان'' بنا کر اچھا کریں گے؟ ویسے 80 ہزار روپے کے بجائے اگر آپ کوئی ایسا داماد ڈھونڈ لیں جو جہیز کے بجائے ایک بیوی کا ضرورت مند ہو اور ہمارا خیال ہے کہ ایسے کئی شریف اور غریب شوہر آپ کی بیٹی کے لیے مل سکیں گے۔
فرض کیجیے اگر ایسا نہ بھی ہوا تو دنیا میں بن بیاہی خواتین اور مرد بھی ہوتے ہیں ہم نے ایسی کئی بن بیاہی خواتین کو دیکھا ہے جو بدصورتی یا غربت یا کسی بھی وجہ سے بن بیاہی رہ گئی ہیں اور آج وہ کوئی کام کوئی ہنر سیکھ کر پورے پورے گھرانوں کی کفالت کرتی ہیں، اس دنیا میں سب کچھ اپنی مرضی کا تو نہیں ہوتا چنانچہ ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے اور آپ تو خود اپنی شادی اور اس کے آفٹر شاک اور سائیڈایفیکٹ دیکھ چکے ہیں تو پھر یہ سلسلہ اور آگے کیوں بڑھانا چاہتے ہیں۔
جہاں تک اس کم بخت جہیز کا تعلق ہے واقعی یہ نہایت ہی درد ناک مسئلہ ہے لیکن بزرگوں نے کہا ہے کہ اگر آپ دوسروں کو ٹھیک نہیں کر سکتے تو کم از کم خود کو تو ٹھیک کر سکتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ جہیز کی لعنت میں ''جہیز'' والوں کا بھی قصور ہو لیکن جہیز دینے والے بھی کچھ کم قصور وار نہیں ہوتے وہ آخر اپنی بیٹی کو ''تہمت'' سمجھتے کیوں ہیں جہیز دے کر بیاہنے سے تو ایسا ہی لگتا ہے جیسے بیٹی تہمت ہو اور بیٹے والے اس تہمت کو قبول کرنے کا معاوضہ لے رہے ہوں ورنہ لڑکے والے لڑکی والوں کو کچھ ''دیتے'' نہیں بلکہ ''لیتے'' ہیں ایک پورے پلے پلائے انسان کو اپنے گھر لے جاتے ہیں کم از کم ایک بکری کی قیمت تو دینی چاہیے لیکن یہاں بیٹی بھی نہیں گائے بھینس بھی نہیں بھیڑ بکیری بھی نہیں صرف ''تہمت'' دی جاتی ہے ساتھ اس تہمت کو لے جانے کا معاوضہ بھی دیا جاتا ہے ۔
اگر آج ہی والدین جہیز دینے سے انکار کر دیں تو زیادہ سے زیادہ بیٹی غیر شادی شدہ رہ جائے گی لیکن تہمت سمجھ کر زندہ درگور کرنے سے تو بہتر ہے کہ غیر شادی شدہ ہی رہے کم از کم آج کی دنیا میں تو بیٹیوں کے لیے بھی کسی روزگار یا نان و نفقہ کے مواقع موجود ہیں خدا کے کسی بندے کے آگے ہاتھ دراز کرنے سے کیا یہ بہتر نہیں کہ اس سے مانگا جائے جس سے یہ سارے ''بندے'' مانگتے ہیں۔
ملک بھر کے ''دلوں'' میں ''رفو'' کا اتنا ڈھیر سارا ''کام'' ہے کہ اگر ہم پڑھنے والوں کے مکتوبات چھاپنے پر آجائیں تو نہ صرف یہ کالم بلکہ پاس پڑوس کے دوسرے کالموں میں بھی جگہ نہ رہے پورا کالم ایک ''دیوار گریہ'' بن جائے، خدا ہمارے اس نظام کا خود ہی حافظ ہو کیوں کہ ''اندھے'' کی بیوی صرف خدا ہی کے سپرد ہوتی ہے، ایسا دل بہت کم ملے گا جس میں ہزاروں چھید نہ پڑے ہوں کیوں کہ ہمارے اس جمہوری عوامی اسلامی اور فلاحی نظام میں اس کے کافی سارے انتظامات اور مواقع دستیاب ہیں کیوں کہ
ناوک نے تیرے صید نے چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
لیکن آج ایک مکتوب کا ذکر ہم ضرور کرنا چاہیں گے، شب قدر سے ایک صاحب محمد علی ولد عجب خان نے جو مکتوب ہمیں بھیجا ہے یہ مکتوب بھی ان چیزوں میں سے ایک ہے، جسے دیکھ کر پرانے زمانے میں لوگ پہلے ہنستے تھے پھر روتے تھے یا پہلے رو دیتے تھے بعد میں ہنس دیتے تھے، لیکن یہ خط ان چیزوں سے بھی ذرا بڑھ کر ہے کیوں کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ پہلے رویا جائے یا ہنسا جائے اس لیے ایک ساتھ ہی دونوں کام کرنا پڑتے ہیں یا پشتو محاورے کے مطابق ایک آنکھ روتی ہے اور دوسری ہنستی ہے۔
اس مکتوب میں ایک بالکل ہی الگ قسم کی نفسیاتی کیفیت ہے موصوف کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی تنخواہ سات ہزار روپے ہے اور مسائل بے شمار ہیں جن میں سب سے بڑا مسئلہ اس کی بیٹی کی شادی ہے جس پر 80 ہزار روپے خرچ ہوں گے اور وہ چاہتے ہیں کہ کوئی اللہ کا نیک بندہ یہ 80 ہزار روپے دے دے، سب سے پہلے تو اپنی ساری کیفیت بیان کرنے کے بعد ہم کالم نگارں پر خوب خوب برسے ہیں کہ ہم یونہی کوئی فضول سا موضوع ڈھونڈ کر اس پر بے کار قسم کی لفاظیاں کرتے ہیں اور ''عوامی مسائل'' کی طرف توجہ نہیں دیتے کیوں کہ ہم صرف ٹی وی چینلوں کی بریکنگ نیوز کو لے کر موضوع بنا دیتے ہیں ہم کالم نگار بھی سیاست دانوں کی طرح ہیں، سیاست دانوں کی طرح ہمارے دلوں پر بھی اسلام آباد کی ربڑ اسٹمپ لگی ہوئی ہے۔
ان کی طرح آپ انسان کو انسان نہیں سمجھتے آپ ان غریب پاکستانیوں کے لیے کچھ بھی نہیں کرتے اور انھی سیاست دانوں کی طرح آپ ہمارے مسائل بھول جاتے ہیں، میں امید کرتا ہوں کہ آپ اپنے کالم میں کنجوسی نہیں کریں گے میرے اس خط کا ذکر ضرور کریں گے کیوں کہ یہ میری آواز نہیں بلکہ 19 کروڑ پاکستانیوں کی آواز ہے، سب سے پہلے تو ہم ان صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں ورنہ بخدا ہمیں آج تک پتہ ہی نہیں تھا کہ پاکستان کی آبادی انیس کروڑ ہے اور اس انیس کی انیس کروڑ آبادی کی یہ آواز ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ ان صاحب کو بیٹی کی شادی کے لیے 80 ہزار روپے دے دے، جہاں تک ان 80 ہزار روپوں اور اللہ کے بندوں کا تعلق ہے تو وہ تو امید ہے ہو جائے گا کیوں کہ یہ جو 19 کروڑ لوگ ہیں یہ سب کے سب اللہ کے بندے ہیں ان میں کوئی ایک تو یقیناً ایسا ہو گا جس کے ہم اور یہ ''صاحب'' بندے بن جائیں
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جسے خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
سب سے پہلے تو بڑی خوشی یہ سن کر ہوئی کہ ہم کالم نگار اتنے بڑے لوگ ہیں اور خود ہمیں ہی پتہ نہیں ہے اور یہ کہ ہم بھی کسی بڑے اور سلجھے ہوئے سیاست دان سے کم نہیں ہیں ذرہ نوازی کا شکریہ یہ آپ کا حسن ظن ہے ورنہ من آنم کہ من دانم ... اور وہ دوسری بات اسلام آباد کے ''ربڑ اسٹمپ'' والی
زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زبان کے لیے
اس کے بارے میں تو ہم قطعی لاعلم تھے کہ ہمیں پتہ ہی نہیں کہ ہمارا مقام اتنا بلند ہو چکا ہے یہ سعادت بزور بازو نیست ... اور یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا لیکن اپنے اس ''اونچے مرتبے'' اور عالی مقام کے باوجود ہم نے ان کی آواز عوام تک پہنچا دی ہے ان انیس کروڑ عوام تک، جن سب کی یہ آواز ہے، ایسا لگتا ہے کہ صاحب موصوف اپنے دکھ سے اتنے پریشان ہیں کہ یہ بھی بھول گئے کہ انیس کروڑ عوام میں اور کس کس کی اور کتنے کتنوں کے منہ سے ایسی چیخیں نکل رہی ہیں، شاید ان کو پتہ نہیں کہ
اس دنیا میں کتنا غم ہے
میرا غم پھر بھی کم ہے
اب ہم وثوق سے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ خدا کا ایسا کوئی بندہ نکل آئے گا یا نہیں جسے خدا کے بندوں سے پیار ہو گا اور خود ہمارے پاس بھی اتنے پیسے نہیں ہیں لیکن اتنا تو کر سکتے ہیں کہ ان کا مسئلہ حل کرنے میں کچھ ''دامے درمے'' نہ سہی قلمے و کالمے مدد تو کر سکتے ہیں سب سے پہلے تو ہم ان کو یہ مشورہ دینا چاہیں گے کہ آپ نے خود ''شادی'' کر کے کیا سکھ پایا ہے جو اب اپنی بیٹی کو بھی اس میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں۔
خود آپ کے مطابق آپ کی پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں باقی بیٹیوں کی شادیاں کروا چکے ہیں بیٹوں کی بھی یا تو کروا چکے ہوں گے یا کرنا چاہتے ہوں گے آپ کی بیوی بھی کینسر کی وجہ سے فوت ہو چکی ہے اور 7000 ہزار روپے میں آپ نہایت تنگی سے گزارہ کر رہے ہیں آپ اپنے آپ اور اپنے خاندان کی مثال سامنے رکھ کر بتائیں کہ ایک اور ایسا ''خاندان'' بنا کر اچھا کریں گے؟ ویسے 80 ہزار روپے کے بجائے اگر آپ کوئی ایسا داماد ڈھونڈ لیں جو جہیز کے بجائے ایک بیوی کا ضرورت مند ہو اور ہمارا خیال ہے کہ ایسے کئی شریف اور غریب شوہر آپ کی بیٹی کے لیے مل سکیں گے۔
فرض کیجیے اگر ایسا نہ بھی ہوا تو دنیا میں بن بیاہی خواتین اور مرد بھی ہوتے ہیں ہم نے ایسی کئی بن بیاہی خواتین کو دیکھا ہے جو بدصورتی یا غربت یا کسی بھی وجہ سے بن بیاہی رہ گئی ہیں اور آج وہ کوئی کام کوئی ہنر سیکھ کر پورے پورے گھرانوں کی کفالت کرتی ہیں، اس دنیا میں سب کچھ اپنی مرضی کا تو نہیں ہوتا چنانچہ ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے اور آپ تو خود اپنی شادی اور اس کے آفٹر شاک اور سائیڈایفیکٹ دیکھ چکے ہیں تو پھر یہ سلسلہ اور آگے کیوں بڑھانا چاہتے ہیں۔
جہاں تک اس کم بخت جہیز کا تعلق ہے واقعی یہ نہایت ہی درد ناک مسئلہ ہے لیکن بزرگوں نے کہا ہے کہ اگر آپ دوسروں کو ٹھیک نہیں کر سکتے تو کم از کم خود کو تو ٹھیک کر سکتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ جہیز کی لعنت میں ''جہیز'' والوں کا بھی قصور ہو لیکن جہیز دینے والے بھی کچھ کم قصور وار نہیں ہوتے وہ آخر اپنی بیٹی کو ''تہمت'' سمجھتے کیوں ہیں جہیز دے کر بیاہنے سے تو ایسا ہی لگتا ہے جیسے بیٹی تہمت ہو اور بیٹے والے اس تہمت کو قبول کرنے کا معاوضہ لے رہے ہوں ورنہ لڑکے والے لڑکی والوں کو کچھ ''دیتے'' نہیں بلکہ ''لیتے'' ہیں ایک پورے پلے پلائے انسان کو اپنے گھر لے جاتے ہیں کم از کم ایک بکری کی قیمت تو دینی چاہیے لیکن یہاں بیٹی بھی نہیں گائے بھینس بھی نہیں بھیڑ بکیری بھی نہیں صرف ''تہمت'' دی جاتی ہے ساتھ اس تہمت کو لے جانے کا معاوضہ بھی دیا جاتا ہے ۔
اگر آج ہی والدین جہیز دینے سے انکار کر دیں تو زیادہ سے زیادہ بیٹی غیر شادی شدہ رہ جائے گی لیکن تہمت سمجھ کر زندہ درگور کرنے سے تو بہتر ہے کہ غیر شادی شدہ ہی رہے کم از کم آج کی دنیا میں تو بیٹیوں کے لیے بھی کسی روزگار یا نان و نفقہ کے مواقع موجود ہیں خدا کے کسی بندے کے آگے ہاتھ دراز کرنے سے کیا یہ بہتر نہیں کہ اس سے مانگا جائے جس سے یہ سارے ''بندے'' مانگتے ہیں۔