اچھے لوگو زندہ رہو
آپ کا کردار تبھی اطمینان بخش ہے جب تک کہ زندگی کی تمام تر نعمتیں آپ پر حرام نہ قرار دے دی جائیں
گزشتہ ایک دَہائی سے بلوچستان میں جو آگ لگی ہے، اس کی تپش سے شاید ہی کوئی گھر کوئی گھرانہ محفوظ رہا ہو۔ ہم سبھی نے اس میں کوئی نظریاتی ساتھی، کوئی اچھا عزیز ضرور کھویا ہے۔ بلوچستان کا ہر گھرانہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اس سے ضرور متاثر ہوا ہے۔ ابھی اس سال جنوری میں گوادر میں کتاب میلے کے بہانے جمع ہونے والے کچھ ایسے ہی ہم فکر ساتھی ایک محفل میں ایسے ہی کھو جانے والے کچھ ہم عصروں کو یاد کر رہے تھے، کہ نہ جانے کس ترنگ میں آ کر ایک ساتھی نے فی البدیہہ دو سطریں کہیں؛
اچھے لوگو، پیارے لوگو، زندہ رہو
زندگی تم سے ہے، تم زندہ رہو
بظاہر سادہ سی ان دو سطروں میں ہم سب کے لیے وہ اتھاہ درد سمایا تھا، جو قریبی ساتھیوں کی بے وقت موت نے کسی زہریلے خنجر کی طرح ہمارے دلوں میں مستقل اتار دیا تھا۔ ساتھ ہی ایک دوسرے کی زندگیوں کے لیے وہ درد مندانہ دعا بھی، جو سب کے دلوں میں، سب کے لیے موجود تھی۔ اس لیے اگلے دو روز تک، گوادر کی گلیوں سے لے کر، کوہِ باتیل کی بلندیوں اور 'تیاب' کے ساحلوں تک، ہم ان سطروں کو زیر لب گن گناتے رہے، خود کو بہلاتے رہے۔ حتیٰ کہ رخصت ہوتے وقت سب کے لبوں پہ ایک دوسرے کے لیے یہی دعائیہ فقرے تھے۔
ان دو سطروں میں سمٹا دکھ اور اپنائیت کا بھرپور احساس آپ تبھی محسوس کریں گے جب آپ نے کسی فکری ساتھی یا عزیز کو بے وقت اور غیر ضروری طور پر کھو دیا ہو۔ ہاں بالکل، ہر اچھے ذہن کی وہ موت جو سماجی بہتری کے کسی کام نہ آئے، بے وقت اور غیر ضروری ہے۔ یہ جو تبدیلی یا انقلاب کے نام پر تحریکیں ہوتی ہیں نا، یہ موت (یا ان کے بقول شہادت) کو سب سے زیادہ گلوری فائی کرتی ہیں۔
ایسی تمام تحریکوں کا لٹریچر اٹھا کر دیکھ لیں، یہ بالخصوص نئی نسل کے لیے موت کو اس قدر دل فریب بنا دیتی ہیں کہ لوگ جوق در جوق موت کو بہ خوشی گلے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ اور یہ شہادتیں ان تحریکوں کا ایندھن ہوتی ہیں۔ ہر لاش کسی سوکھی لکڑی کی طرح تحریک کی بھٹی میں ڈال دی جاتی ہے، جس کی تپش پہ ان تحریکوں کے رہنما اپنی پسند کا پکوان پکاتے رہتے ہیں۔ مرنے والوں کے لیے ان تحریکوں کے بنے بنائے سلوگن؛ شہادت رائیگاں نہیں جائے گی، ایک نیا باب رقم ہو گا، فتح حق کی ہو گی......! اور ہم اپنی آنکھوں کے سامنے برسوں سے کئی شہادتوں کی رائیگانی دیکھتے آ رہے ہیں۔ نہ کوئی باب رقم ہوتا ہے، نہ لہو رنگ لاتا ہے۔ بس اتنا ہوتا ہے کہ ہر لاش اس آگ کو مزید کچھ دیر کے لیے بڑھاوا دے دیتی ہے، آگ لگائے رکھنے والوں کا کاروبار چلتا رہتا ہے۔
وہ جو بلوچستان میں لگی آگ کے شعلوں کے سرد پڑنے کا خواب دکھا رہے تھے، دیکھ لیں کہ ان کا خواب، سراب ثابت ہوا۔ اس آگ کے شر سے اب بلوچستان سمیت، بلوچوں کے ہمدرد بھی محفوظ نہیں رہے۔ یہ آگ اب اس قدر پھیل چکی ہے کہ اس پہ پانی ڈالنے کی کوشش کے لیے قریب آنے والا ہر 'ہمدرد' بھی اس کی تپش سے جھلس کر رہ جاتا ہے۔ حتیٰ کہ جو محض اس آگ کی نشان دہی کر دے، وہ بھی اس کے غیض و غضب کی زد میں آ جاتا ہے۔
کراچی میں اندھی گولیوں کا نشانہ بننے والی سبین محمود نامی نیک روح بس اسی ہمدردی کے جرم میں ماری گئی؛ وہ بتانا چاہتی تھی کہ ارضِ وطن کے ایک حصے میں آگ لگی ہے، اس آگ کو جانو، اس کی تپش کو پہچانو، اسے بجھانے کی سعی کرو۔ اور یہ عمل ظاہر ہے آگ لگانے والوں کو اشتعال دلانے کے مترادف ہے۔ آگ لگانا، جن کا ذریعہ معاش ہے، جن کے چولہے اسی آگ کی تپش سے جلتے ہیں، وہ بھلا کیوں کر اسے برداشت کرتے۔ وہ ایسے کسی نیک فعل کو، ایسے کسی فعل کو کیوں کر برداشت کریں۔جو سماج سواری کو اپنے سامان کی خود حفاظت کی ذمے داری کا درس دیتا ہو، وہاں حبس کے موسم میں سانسوں کے تسلسل کو قائم رکھنے کی ذمے داری بھی سانس لینے والوں پہ ہی ہوتی ہے۔ حبس بڑھ جائے تو اس کے خلاف احتجاج سے قبل سانسوں کی بحالی کا اہتمام ضروری ہوتا ہے کہ سانس بحال رہے گی تو اس حبس کے خلاف جدوجہد بھی ہو گی۔ تبدیلی کی کسی بھی تحریک سے قبل سماج کا معروض بدلنا اہم ہے۔
اور معروض کو بدلنا اپنی ساخت میں انقلابی سہی لیکن عملاً اصلاحی کام ہے، اس لیے اَن تھک اور صبر آزما جہد مسلسل کا تقاضا کرتا ہے۔ تاوقتیکہ یہی بدلا ہوا معروض، انقلاب کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔ تو جب تک معروض نہیں بدلا جاتا، اچھے لوگوں کی ذمے داری ہے کہ زندہ رہیں۔ ہر اچھے انقلابی کی اہم ترین ذمے داریوں میں سے ایک زندہ رہنا بھی ہے۔ اب جب کہ انقلاب پہ چند جتھوں کا قبضہ ہو چکا ہے۔ اب انقلاب محض بورژوا سیاسی جماعتوں کے منہ میں ہے، یا جن کے ہاتھ میں بندوق ہے۔ اور انقلابی صرف وہی ہے جو یا تو ان کے ساتھ ہے یا ان کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے۔
ان کے نزدیک آپ کا کردار تبھی اطمینان بخش ہے جب تک کہ زندگی کی تمام تر نعمتیں آپ پر حرام نہ قرار دے دی جائیں یا جب تک زندگی جیسی نعمت سے ہی آپ ہاتھ نہ دھو لیں۔ سبین محمود بھی کل تک سول سوسائٹی کی 'موم بتی مافیا' کے جگر بردہ خطابات کی زد میں تھیں، جان دے کر وہ 'امر ہو گئیں۔' نہیں صاحب، اس غلط فہمی میں مت رہیے، وہ کوئی امر ومر نہیں نہیں ہوئیں، ہم سب دنیاوی جھمیلوں میں جلد ہی بھول بھال جائیں گے کہ اس نام کی کوئی نیک روح بھی تھی، اور وہ بے خطا مار دی گئی تھی...اس لیے کہ ہم پہ وہ غلیظ معروض مسلط ہے جو کسی تبدیلی کے لیے اب تک موزوں ہی نہیں ہو پایا۔
سبین جیسے ساتھیوں کو خراج کا سب سے افضل عمل یہی ہو گا کہ اُسی راہ پہ چلا جائے جو سماجی تبدیلی کے لیے انھوں نے منتخب کی۔ اس قتل کا بہتر بدلہ یہی ہو گا کہ اس کام کے تسلسل کو ٹوٹنے نہ دیا جائے جو انسانی فلاح کے لیے انھوں نے اختیار کیا۔ تو انقلابیوں کا ٹیگ بورژوا سیاسی جماعتوں کے لیے رہنے دیتے ہیں، ہم اور آپ خود کو انسانی فلاح کے تسلسل والے قافلے کے ادنیٰ کارکن کے بطور شناخت کرتے ہیں؛ وہی قافلہ جس کے لیے اپنے فیضؔ نے کہا تھا؛
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے عَلم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
اور اس قافلے کے ہر رکن کے لیے یہ دعا اور یہ التجا کہ... 'اچھے لوگو، پیارے لوگو زندہ رہو/ زندگی تم سے ہے، تم زندہ رہو!'