ابھی نہیں تو کبھی نہیں
ان کے دور میں فتنہ فساد بھی زیادہ سر نہ اٹھا سکا لیکن وہ ان تمام آسائشوں کے باوجود ایک بدنصیب باپ تھے
سعودی عرب کی کابینہ میں اہم تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں، ولی عہد شہزادہ مقرن اور وزیر خارجہ سعود الفیصل کو برطرف کر دیا گیا ہے اور ان کی جگہ شہزادہ محمد بن نائف کو ولی عہد اور شہزادہ محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد بنا دیا گیا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان لا گریجویٹ ہیں۔
ان کا شمار اسکول میں سعودی عرب بھر میں ٹاپ دس پوزیشن حاصل کرنے والے طلبا میں رہا جب کہ شہزادہ نائف امریکا سے گریجویٹ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب سعودی عرب حوثی باغیوں کے باعث مشکلات کا شکار ہے یہ عمل کیا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریفارمنگ کا عمل شروع ہو چکا ہے بشرطیکہ اس کے نتائج بھی مثبت ثابت ہوں۔
عبدالرحمن ثالث 912ء میں مسند نشین ہوئے۔ اندلس میں بغداد کی طرح علم کی شمعیں روشن کیں اور قرطبہ کو ایسا مقام دلایا کہ کیچڑ اور جہالت میں ڈوبے اندلس میں روشنیاں جگمگا اٹھیں، اپنے ہم عصر بادشاہوں کے مقابلے میں عبدالرحمن ثالث نے ایسی کامیابیاں اور فتوحات حاصل کیں کہ ان پر رشک آتا۔
ان کے دور میں فتنہ فساد بھی زیادہ سر نہ اٹھا سکا لیکن وہ ان تمام آسائشوں کے باوجود ایک بدنصیب باپ تھے جنھیں اپنے ہی بیٹے کو قتل کروانا پڑا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا ایک صاحبزادہ یہ چاہتا تھا کہ ان کے بعد خلافت کا مالک وہ بن بیٹھے اپنی اس چاہت کو حاصل کرنے کے لیے اس نے ایک مخالف گروہ بنا لیا تھا یہ گروہ اسے اپنے ہی باپ کے خلاف بھڑکاتا رہتا۔ ایک مشاق، زیرک، سمجھدار خلیفہ کی نظر سے یہ بغاوت چھپ نہ سکی اور وہ جلد ہی اس کے اصل منبع تک پہنچ گئے مجبوراً انھیں اپنے ہی بیٹے کو قتل کروانا پڑا، اس کے بعد وہ تمام عمر جب تک زندہ رہے افسردہ و ملول ہی رہے۔ 961ء میں جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے کاغذات میں ایک خط برآمد ہوا جس پر کچھ اس طرح سے تحریر تھا۔
''مجھے خلافت کے تخت پر بیٹھے ہوئے پچاس برس گزر چکے ہیں۔ اس زمانے میں میرا مرتبہ بہت بڑھ گیا۔ مجھے خزائن اور مال و دولت اور لذت و خواہش کی سب چیزیں میسر ہوئیں۔ میں نے اپنے دل کے ارمان اچھی طرح نکال لیے۔
میں اپنے ہم عصر بادشاہوں کی نگاہوں میں بڑا ہی صاحب اعتبار و ذی عزت ہوں، مجھ سے وہ ڈرتے ہیں اور میری حالت پر رشک کرتے ہیں جو کچھ ایک انسان چاہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے سب دیا ہے۔ مگر جب خلافت کے زمانے کو خود دیکھتا ہوں جسے میں نے ایسی ظاہری عزت اور سعادت میں بسر کیا ہے تو وہ دن جنھیں میں اپنے نزدیک سعید اور نیک پاتا ہوں صرف چودہ ہی دن گزرے ہیں۔ اس بڑی مدت میں مجھے ان ہی ایام میں سچی خوشی رہی ہے۔ اس سے اے لوگو! تم بادشاہوں کی عظمت دنیا اور زندگانی کی قدر و قیمت کا اندازہ کر سکتے ہو۔''
محض چودہ دن ہی اس نے نیک اور اس انداز کے محسوس کیے جو اس کے اپنے خیال میں اسے خدا کے قریب کرتے ہیں یا باالفاظ دیگر ایک ایماندار، عوام اور اپنے عہدے سے وفادار اور پروردگار کے نیک بندے کی حیثیت سے انھوں نے پچاس برسوں یعنی اٹھارہ ہزار دو سو پچاس دنوں میں سے صرف چودہ دن گویا باقی کے اٹھارہ ہزار دو سو چھتیس دن انھوں نے جو دن ایک بادشاہ کی حیثیت سے گزارے وہ ان کی نظر میں کچھ بھی نہ تھے۔
بے مزہ بے کیف، پرآسائش لیکن حقیقی رنگوں سے محروم دن جس کا اقرار وہ اپنی تحریر میں کر چکے ہیں کہ ایک بادشاہ کی عظمت اور دنیا میں اس کی قدر و قیمت محض چودہ دن۔ یہ ایک بہت بڑی تلخ حقیقت ہے ہمیں عبدالرحمن ثالث کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انھوں نے اپنی زندگی کے اس بڑے سچ کا اعتراف کر کے یہ ظاہر کر دیا کہ ہر چمکتی شے سونا نہیں ہوتی، ہر آسائش راحت نہیں ہوتی۔ اپنے تئیں ہر اچھا فیصلہ پروردگار کی نظر میں مقام بلند نہیں کر دیتا لیکن پھر بھی ہم ماضی کے اوراق پلٹنے کے عادی نہیں ہیں۔
ایک طویل عرصے جنگ لڑنے کے بعد شمالی یمن اور جنوبی یمن 22 مئی 1990ء کو متحد جمہوری یمن بن گیا تھا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس متحد جمہوریہ کی طاقت دو گنی ہونے کے بعد وہ مضبوط، طاقتور اور اپنے پیروں پر کھڑا توانا یمن بن جاتا لیکن ایسا نہ ہوا۔ یہ عرب دنیا کا ایک ایسا کمزور کونا بن گیا جسے بڑی آسانی سے کسی بھی وقت الگ کر کے آئس کریم کی طرح نگلا جا سکتا تھا۔
اس کی سرحد جس جانب سے سعودی عرب اور مشرق سے عمان سے ملتی ہے یہ بہت سے عوامل کی نظر میں ایک ایسی سیڑھی کی راہ بن چکا تھا جسے عبور کر کے بہت سے مقاصد کو حاصل کیا جا سکتا تھا ایسے بہت سے عوامل کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ فروری 2012ء میں صدر ہادی کی حلف برداری کی تقریب میں صدارتی محل پر القاعدہ کا اچانک حملہ کرنا، اس کے بعد 2012ء میں امریکا کا اسپیشل آپریشنز ٹروپس کا یمن پہنچنا اور اس کے بعد دہشت گردی کی وارداتوں کا بڑھنا اور شیعہ اور سنی قبائل کے درمیان لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہونا اور رفتہ رفتہ ان سازشوں، لڑائیوں کا دائرہ سعودی عرب کے قریب پہنچنا، اس تمام عمل میں ہمیں اسلامی بڑی طاقتوں کا کمزور ہوم ورک نظر آتا ہے وہ اپنے بازو میں ہونے والی سازشوں سے بے خبر رہے جب کہ دور دراز سے ان کے لیے خاکے بنتے گئے اگر ایک بار ہم دل پر جبر کر کے فرض بھی کر لیں کہ اگر ناپاک عزائم پورے ہو گئے تو کیا ہو گا۔ پاکستان سمیت دوسرے تمام ممالک ایک دوسرے پر لعن طعن کرتے رہیں گے اور چال چلنے والے کامیاب ہو کر سینہ پھلاتے رہیں گے۔
سعودی حکومت نے اپنی کابینہ میں نمایاں تبدیلیاں کی ہیں۔ تبدیلی لانے کے لیے کسی معجزے کی ضرورت نہیں پڑے گی اگر حوثی قبائل نے ایسا کر دیا ہے تو اسے ایک مثبت انداز میں لیں اور اپنے اندر مزید تبدیلیاں لے کر آئیں۔
سونے کی مرسڈیز اور اپنی شہزادیوں کو سونے کے بنے باتھ روم جہیز میں دینا بند کریں، جب برطانیہ کے وزیر اعظم سائیکل پر سواری کر سکتے ہیں، لاطینی امریکا کے صدر ایک چھوٹے سے بوسیدہ مکان میں رہ سکتے ہیں تو مسلمان ممالک کے بادشاہ اور ہمارے حکمران سبھی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی پیروی کر سکتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک ماڈل نمونہ ہے۔ آپ آگے بڑھیں اور دوسرے چھوٹے مسلمان ملکوں کے لیے بھی مثال قائم کریں، غربت، بیروزگاری، جہالت ہی دہشت گردی، بغاوت اور گمراہی کو جنم دیتی ہے۔ اپنے قیمتی سرمائے سے اسی طرح کام لیں کہ جیسے اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں ورنہ ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں۔
ان کا شمار اسکول میں سعودی عرب بھر میں ٹاپ دس پوزیشن حاصل کرنے والے طلبا میں رہا جب کہ شہزادہ نائف امریکا سے گریجویٹ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب سعودی عرب حوثی باغیوں کے باعث مشکلات کا شکار ہے یہ عمل کیا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریفارمنگ کا عمل شروع ہو چکا ہے بشرطیکہ اس کے نتائج بھی مثبت ثابت ہوں۔
عبدالرحمن ثالث 912ء میں مسند نشین ہوئے۔ اندلس میں بغداد کی طرح علم کی شمعیں روشن کیں اور قرطبہ کو ایسا مقام دلایا کہ کیچڑ اور جہالت میں ڈوبے اندلس میں روشنیاں جگمگا اٹھیں، اپنے ہم عصر بادشاہوں کے مقابلے میں عبدالرحمن ثالث نے ایسی کامیابیاں اور فتوحات حاصل کیں کہ ان پر رشک آتا۔
ان کے دور میں فتنہ فساد بھی زیادہ سر نہ اٹھا سکا لیکن وہ ان تمام آسائشوں کے باوجود ایک بدنصیب باپ تھے جنھیں اپنے ہی بیٹے کو قتل کروانا پڑا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا ایک صاحبزادہ یہ چاہتا تھا کہ ان کے بعد خلافت کا مالک وہ بن بیٹھے اپنی اس چاہت کو حاصل کرنے کے لیے اس نے ایک مخالف گروہ بنا لیا تھا یہ گروہ اسے اپنے ہی باپ کے خلاف بھڑکاتا رہتا۔ ایک مشاق، زیرک، سمجھدار خلیفہ کی نظر سے یہ بغاوت چھپ نہ سکی اور وہ جلد ہی اس کے اصل منبع تک پہنچ گئے مجبوراً انھیں اپنے ہی بیٹے کو قتل کروانا پڑا، اس کے بعد وہ تمام عمر جب تک زندہ رہے افسردہ و ملول ہی رہے۔ 961ء میں جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے کاغذات میں ایک خط برآمد ہوا جس پر کچھ اس طرح سے تحریر تھا۔
''مجھے خلافت کے تخت پر بیٹھے ہوئے پچاس برس گزر چکے ہیں۔ اس زمانے میں میرا مرتبہ بہت بڑھ گیا۔ مجھے خزائن اور مال و دولت اور لذت و خواہش کی سب چیزیں میسر ہوئیں۔ میں نے اپنے دل کے ارمان اچھی طرح نکال لیے۔
میں اپنے ہم عصر بادشاہوں کی نگاہوں میں بڑا ہی صاحب اعتبار و ذی عزت ہوں، مجھ سے وہ ڈرتے ہیں اور میری حالت پر رشک کرتے ہیں جو کچھ ایک انسان چاہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے سب دیا ہے۔ مگر جب خلافت کے زمانے کو خود دیکھتا ہوں جسے میں نے ایسی ظاہری عزت اور سعادت میں بسر کیا ہے تو وہ دن جنھیں میں اپنے نزدیک سعید اور نیک پاتا ہوں صرف چودہ ہی دن گزرے ہیں۔ اس بڑی مدت میں مجھے ان ہی ایام میں سچی خوشی رہی ہے۔ اس سے اے لوگو! تم بادشاہوں کی عظمت دنیا اور زندگانی کی قدر و قیمت کا اندازہ کر سکتے ہو۔''
محض چودہ دن ہی اس نے نیک اور اس انداز کے محسوس کیے جو اس کے اپنے خیال میں اسے خدا کے قریب کرتے ہیں یا باالفاظ دیگر ایک ایماندار، عوام اور اپنے عہدے سے وفادار اور پروردگار کے نیک بندے کی حیثیت سے انھوں نے پچاس برسوں یعنی اٹھارہ ہزار دو سو پچاس دنوں میں سے صرف چودہ دن گویا باقی کے اٹھارہ ہزار دو سو چھتیس دن انھوں نے جو دن ایک بادشاہ کی حیثیت سے گزارے وہ ان کی نظر میں کچھ بھی نہ تھے۔
بے مزہ بے کیف، پرآسائش لیکن حقیقی رنگوں سے محروم دن جس کا اقرار وہ اپنی تحریر میں کر چکے ہیں کہ ایک بادشاہ کی عظمت اور دنیا میں اس کی قدر و قیمت محض چودہ دن۔ یہ ایک بہت بڑی تلخ حقیقت ہے ہمیں عبدالرحمن ثالث کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انھوں نے اپنی زندگی کے اس بڑے سچ کا اعتراف کر کے یہ ظاہر کر دیا کہ ہر چمکتی شے سونا نہیں ہوتی، ہر آسائش راحت نہیں ہوتی۔ اپنے تئیں ہر اچھا فیصلہ پروردگار کی نظر میں مقام بلند نہیں کر دیتا لیکن پھر بھی ہم ماضی کے اوراق پلٹنے کے عادی نہیں ہیں۔
ایک طویل عرصے جنگ لڑنے کے بعد شمالی یمن اور جنوبی یمن 22 مئی 1990ء کو متحد جمہوری یمن بن گیا تھا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس متحد جمہوریہ کی طاقت دو گنی ہونے کے بعد وہ مضبوط، طاقتور اور اپنے پیروں پر کھڑا توانا یمن بن جاتا لیکن ایسا نہ ہوا۔ یہ عرب دنیا کا ایک ایسا کمزور کونا بن گیا جسے بڑی آسانی سے کسی بھی وقت الگ کر کے آئس کریم کی طرح نگلا جا سکتا تھا۔
اس کی سرحد جس جانب سے سعودی عرب اور مشرق سے عمان سے ملتی ہے یہ بہت سے عوامل کی نظر میں ایک ایسی سیڑھی کی راہ بن چکا تھا جسے عبور کر کے بہت سے مقاصد کو حاصل کیا جا سکتا تھا ایسے بہت سے عوامل کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ فروری 2012ء میں صدر ہادی کی حلف برداری کی تقریب میں صدارتی محل پر القاعدہ کا اچانک حملہ کرنا، اس کے بعد 2012ء میں امریکا کا اسپیشل آپریشنز ٹروپس کا یمن پہنچنا اور اس کے بعد دہشت گردی کی وارداتوں کا بڑھنا اور شیعہ اور سنی قبائل کے درمیان لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہونا اور رفتہ رفتہ ان سازشوں، لڑائیوں کا دائرہ سعودی عرب کے قریب پہنچنا، اس تمام عمل میں ہمیں اسلامی بڑی طاقتوں کا کمزور ہوم ورک نظر آتا ہے وہ اپنے بازو میں ہونے والی سازشوں سے بے خبر رہے جب کہ دور دراز سے ان کے لیے خاکے بنتے گئے اگر ایک بار ہم دل پر جبر کر کے فرض بھی کر لیں کہ اگر ناپاک عزائم پورے ہو گئے تو کیا ہو گا۔ پاکستان سمیت دوسرے تمام ممالک ایک دوسرے پر لعن طعن کرتے رہیں گے اور چال چلنے والے کامیاب ہو کر سینہ پھلاتے رہیں گے۔
سعودی حکومت نے اپنی کابینہ میں نمایاں تبدیلیاں کی ہیں۔ تبدیلی لانے کے لیے کسی معجزے کی ضرورت نہیں پڑے گی اگر حوثی قبائل نے ایسا کر دیا ہے تو اسے ایک مثبت انداز میں لیں اور اپنے اندر مزید تبدیلیاں لے کر آئیں۔
سونے کی مرسڈیز اور اپنی شہزادیوں کو سونے کے بنے باتھ روم جہیز میں دینا بند کریں، جب برطانیہ کے وزیر اعظم سائیکل پر سواری کر سکتے ہیں، لاطینی امریکا کے صدر ایک چھوٹے سے بوسیدہ مکان میں رہ سکتے ہیں تو مسلمان ممالک کے بادشاہ اور ہمارے حکمران سبھی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی پیروی کر سکتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک ماڈل نمونہ ہے۔ آپ آگے بڑھیں اور دوسرے چھوٹے مسلمان ملکوں کے لیے بھی مثال قائم کریں، غربت، بیروزگاری، جہالت ہی دہشت گردی، بغاوت اور گمراہی کو جنم دیتی ہے۔ اپنے قیمتی سرمائے سے اسی طرح کام لیں کہ جیسے اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں ورنہ ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں۔