دھاتی شیشہ جو بلٹ پروف گلاس سے بھی زیادہ مضبوط

روایتی شیشے کے بجائے اسپائنل کا استعمال کیا جائے تو بلٹ پروف شیشے کا وزن نصف ہو جائے گا

’دھاتی شیشہ‘ میگنیشیئم اور المونیم کے ملاپ سے وجود میں آنے والی دھات سے بنایا گیا ہے جو ’اسپائنل‘ کہلاتی ہے۔۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
امریکی سائنس دانوں نے دھات سے ' شیشہ' تیار کرنے میں کام یابی حاصل کی ہے، جس کی بہ دولت مستقبل قریب میں انتہائی مضبوط اور بلٹ پروف اسکرینوں کا استعمال عام ہوسکتا ہے۔ یہ اسکرینیں موبائل فونز کے علاوہ ٹیلی ویژن، دروازوں، کھڑکیوں، کیمروں، ہوائی جہاز وں اور مصنوعی سیاروں سمیت ہزاروں لاکھوں اشیا میں استعمال ہوسکیں گی۔ تاہم ابتدائی طور پر اس کا استعمال امریکی فوج کے لیے تیار کیے جانے والے آلات اور ان کی مخصوص گاڑیوں تک محدود رہے گا۔

دراصل یہ پروجیکٹ امریکی بحریہ سے وابستہ سائنس دانوں کا ہے اور وہ اس کے ذریعے اپنی فوج کو مزید مضبوط اور طاقت ور بنانا چاہتے ہیں۔

یہ 'دھاتی شیشہ' میگنیشیئم اور المونیم کے ملاپ سے وجود میں آنے والی دھات سے بنایا گیا ہے جو 'اسپائنل' کہلاتی ہے۔ درحقیقت یہ شیشہ روایتی بلٹ پروف شیشے سے بھی زیادہ مضبوط اور پائیدار ہے۔

' اسپائنل' نامی دھات جسے میگنیشیم المونیٹ بھی کہا جاتا ہے، قیمتی پتھروں ( جم اسٹون) کی شکل میں قدرتی طور پر پائی جاتی ہے، مگر اس سے شیشہ بنانا کوئی آسان عمل نہیں تھا۔ اسی لیے دھاتی شیشے کی تیاری میں سائنس دانوں کو دس برس سے زاید عرصہ لگا۔ اسپائنل کی شفاف ترین قلمیں حاصل کرنے کے لیے سائنس دانوں نے اس کے انتہائی باریک سفوف ( نینو پاؤڈر) کو بلند درجۂ حرارت پر گرم کرتے ہوئے اس پر دباؤ ڈالا۔ اس عمل کا نتیجہ حسب منشا یعنی دھاتی شیشے کی صورت میں برآمد ہوا۔


دھاتی شیشے کی ایجاد کا سہرا امریکن نیول ریسرچ لیبارٹری کے ڈاکٹر جیس سینگرا اور ان کی ٹیم کے سَر ہے۔ ڈاکٹر جیس کے مطابق روایتی بلٹ پروف گلاس پلاسٹک اور شیشے کی پانچ موٹی تہوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اسپائنل کی موٹائی نصف سے بھی کم ہوتی ہے۔

اگر روایتی شیشے کے بجائے اسپائنل کا استعمال کیا جائے تو بلٹ پروف شیشے کا وزن نصف ہو جائے گا۔

اس طرح بلٹ پروف گاڑیاں زیادہ تیزی سے سفر کرسکیں گی اور وزن کم ہونے کی وجہ سے ایندھن کی بھی بچت ہوگی۔

اس کے علاوہ مختلف برقی آلات میں استعمال کرنے سے ان کے وزن پر اثر نہیں پڑے گا اور صارف موبائل فون، گھڑی وغیرہ اسی طرح اپنے ساتھ رکھ سکے گا، جیسے موجودہ شکل میں رکھتا ہے۔ سائنس دانوں نے اسے ایک اہم ایجاد قرار دیا ہے، جس کا فائدہ مستقبل میں عام آدمی بھی اٹھائے گا۔
Load Next Story