قلم کی حقیقت وسعت اور مفہوم

قلم سےتحریرکرناعلم نہیں بلکہ اس کے لیے کامل و قابل ِ فہم تجزیاتی صلاحیت بھی کلیدی اہمیت کی حامل رہی ہے۔

’’قلم‘‘ اس کامل اور قابل ِ فہم تجزیاتی صلاحیت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی مادی یا غیر مادی شے کے منفی یا مثبت پہلوؤں سے روشناس کراتی ہے۔فوٹو : فائل

SUKKUR:
سورہ العلق میں ہے کہ اﷲ نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ جامع ترمذی کی حدیث 2233 میں حضور پاک ﷺ سے مروی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا۔ عربی زبان میں '' قلم'' کے معنی کاٹنے یا تراشنے کے ہیں۔ یہ ایک عمومی تجربے میں آئی حقیقت ہے کہ تراشنے اور کاٹنے سے ہی کوئی چیز انسانی استعمال کے قابل بنتی ہے۔

انسانی علم بھی حواس ِ خمسہ سے حاصل شدہ معلومات، مشاہدے اور اس کے تجزیے کی تراشیدہ شکل ہی ہے جو آگے چل کر مستقبل کے انسانوں کے لیے قابل ِ فہم ہوکر بہتر انسانی زندگی کی ضمانت بن سکتا ہے۔

حاصل شدہ معلومات، مشاہدے اور تجزیے کو بعد میں دوسرے انسانوں کے پڑھنے کے لائق بنانے کے لیے ہم انسان لسانی، تکنیکی اور ابلاغی مہارتوں کا سہارا لیتے ہیں۔ زبان بیانی، حسابی علم، ڈرائنگ وغیرہ ایسی ہی مہارتیں ہیں۔ لہٰذا ''قلم'' اس کامل اور قابل ِ فہم تجزیاتی صلاحیت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی مادی یا غیر مادی شے کے منفی یا مثبت پہلوؤں سے روشناس کراتی ہے اور قلم اس مادی شے کا بھی نام ہے، جس سے عموماً لفظوں کو تحریری شکل دی جاتی ہے۔

بہ اعتبار ِ زمانہ، کسی بھی انسان کی ذاتی سطح پر علم کی تین عبوری اقسام کچھ اس طرح بنتی ہیں۔ حاصل شدہ علم (ماضی)، مصدقہ علم حال (تجرباتی، تجزیاتی) اور (مستقبل کی پیشن گوئی یا گذشتہ علم کی بنیاد پر مبنی اندازوں کا) وجدانی علم۔ اگر آپ بغیر دائیں بائیں دیکھے سڑک عبور کرنے پر ماضی میں ایک حادثے کا شکار ہو چکے ہیں تو ہر دفعہ سڑک پر پہنچ کر آپ اپنے ماضی کے تجربے کے تجزیے کے نتیجے میں اچھا یا برا فیصلہ کریں گے چوں کہ آپ پہلے ایک نقصان اٹھا چکے ہیں لہٰذا، آپ دائیں بائیں دیکھتے ہیں اور پھر سڑک عبور کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

آپ سوچیے کہ دی گئی مثال میں آپ نے اپنے ماضی کے تجربے کا تجزیہ کیوں کیا؟ یقیناً یہ تجزیہ آپ نے اپنے مستقبل کو کسی نقصان دہ پہلو سے بچانے کے لیے کیا اور وہ نقصان دہ چیز اس دی گئی مثال میں کوئی متوقع ٹریفک حادثہ تھا جو آپ کے لیے جان لیوا بھی ہوسکتا تھا۔ کسی بھی مادی یا غیر مادی چیز کے لیے انسانی علم اسی منفی اور مثبت پہلوؤں کے ادراک اور ان کے بچاؤ یا اختیار کی صورتیں اختیار کرتے بتدریج پروان چڑھا ہے۔

انسانی مشاہدے کے بعد اس مشاہدے کے تجزیے کا ہونا، اﷲ تعالیٰ کے علم میں تھا۔ یہ تجزیہ یقینی طور پر انسان کسی منفی یا مثبت پہلو کی دریافت یا اس پر عبور کی خاطر کرتا ہے۔ جسے ہم آج کل کی زبان میں ریسرچ کہتے ہیں۔ یہ بات اﷲ تعالیٰ کے علم میں تھی کہ وقت کے ساتھ انسانی آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ بہت سے انسان مادی چیزوں کی ہیئت، ساخت، مادی اور کیمیائی خصوصیات کے حوالوں سے اور غیر مادی اشیا کے منفی اور مثبت پہلوؤں کی کھوج میں جت جائیں گے۔

اس کھوج سے روزگار اور قدرتی آفات سے بچاؤ کے لامحدود امکانات پیدا ہوں گے۔ نتیجتاً انسانی عقل کائناتی وسعتوں پر کمندیں ڈالنے کی ٹھانے گی اور واقعی اﷲ کی دی ہوئی توفیق سے انسانی علم کی سرحدیں کائنات میں دور دور تک پھیلتی چلی گئیں۔ قرآن ِ مجید اﷲ تعالیٰ کی علمی کتاب ہے اور یہ کائنات اﷲ تعالیٰ کی تکنیکی کتاب ہے۔ اﷲ کا علم اور اس کی تکنیک دونوں ہی لامحدود ہیں جب کہ انسانی عقل محدود ہے۔

اب ایک ایسے وقت نے انسانی دہلیز پر دستک دینا تھی جب بہت سے انسانوں کے لیے بھی ماضی کے اس علمی ورثے کو تجزیے کے لیے زبانی یاد رکھنا یا سنبھالنا ممکن نہ رہتا لہذا اﷲ تعالیٰ نے انسان کو ''قلم'' سے روشناس کرایا تاکہ ماضی حال اور مستقبل کا تمام کا تمام علم کسی بھی انسان کو کسی بھی وقت تجزیے کی خاطر استفادے کے لیے میسر رہے۔ یہ اﷲ تعالیٰ کے بے شمار احسانات میں سے ایک اور احسان ہے۔ فی زمانہ قلم نے مختلف شکلیں اختیار کیں ہیں۔

اﷲ کی عظیم منصوبہ بندی

سورہ البقرہ میں اﷲ نے فرمایا کہ ''ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال اور جان اور پھلوں کی کمی سے اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دیجیے۔'' دوسری طرف سورہ النسا اور سورہ البلد کی آیت چار سے واضح ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو کم زور پیدا کیا ہے۔ نظر، سماعت، قوت، علم ، بیماریوں اور آفتوں سے بچاؤ میں، جسمانی کم زوریوں کے ساتھ خوف، بھوک، پیاس، تحفظ وغیرہ جیسی کم زوریوں کی اجتماعی علامات کے ساتھ۔ کچھ نعمتوں کو بھی پیدا کیا ہے جو ان کم زوریوں یا اجتماعی علامات( Syndrome)کے مقابلے میں انسان کی مدد کرتی ہیں۔

مثلاً انسان کو بھوک لگتی ہے تو گندم پیدا کی مگر انسان کو اس کے لیے گندم اگانا پڑے گی اور انسان کو اس کا علم حاصل کرنا پڑے گا۔ جو چیزیں انسانی کم زوریوں میں اضافہ کریں اور انسانی زندگی کو متاثر کریں وہ منفی پہلو کہلائیں گی اور وہ جو ان اجتماعی علامات میں کمی کا باعث بنیں اور انسانی زندگی میں بہتری لائیں وہ نعمتیں یا مثبت پہلو کہلائیں گے۔ انہیں ہم عرف ِ عام میں نقصان اور فائدہ بھی کہتے ہیں۔

قرآنی تصدیق


ضرورت یہ دیکھنے کی ہے کہ کیا مادی اور غیر مادی اشیا کے مثبت اور منفی پہلوؤں یا فائدے اور نقصان کے اعتبار سے پیش کردہ Syndrome Plan کے تصور کی طرف اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کہیں کوئی اشارہ دیا ہے؟ سورہ فلق کی آیت نمبر 2 میں اﷲ تعالیٰ نے اشیا کے منفی پہلوؤں کی واضح نشان دہی کی ہے :'' اور ہر اس شے کے شر سے، جو اس نے پیدا کی'' قرآن میں سورہ البقرہ آیت 219 میں اﷲ تعالیٰ نے شراب اور جوئے کے متعلق فرمایا کہ ان میں لوگوں کے لیے فائدے بھی ہیں مگر ان کے نقصانات ان کے فائدوں سے زیادہ ہیں۔ سورہ النحل کی آیت 69 میں شہد کے فوائد کا ذکر ہے۔

سورہ الحدید کی آیت 25 میں لوہے کے فائدے اور نقصانات کا ذکر موجود ہے۔ سورہ الکہف کی آیات 103تا 105میں آخرت کے حوالے سے بھی نقصان کی بات اﷲ نے کی ہے''کہہ دیجیے کہ اگر تم کہو تو میں تمہیں بتا دوں کہ اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارے میں رہنے والے کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کی دنیاوی زندگی کی تمام تر کوششیں بے کار ہوگئیں اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس سے ملاقات کا انکار کیا، اس لیے ان کے اعمال غارت ہوگئے، پس قیامت کے دن ہم ان کے اعمال کا کوئی وزن قائم نہیں کریں گے'' ان آیات سے وا ضح ہو رہا ہے کہ ایمان کے بغیر کی گئی کوئی بھی نیکی اس کائنات کے مالک کے سامنے وزن قائم نہ کر پائے گی۔ مادے یا اس سے متعلق کسی عمل کے تمام یا چند منفی یا مثبت پہلوؤں کا جاننا علم کہلاتا ہے۔

دیگر علوم ، منفی اور مثبت پہلوؤں کے تناظر میں

ہم نماز، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ کے تمام مثبت اور منفی پہلوؤں کا علم بھی حاصل کرتے ہیں۔ مثلاً نماز کے مثبت پہلوؤں سے مراد نماز کو مکمل کرنے والے عوامل اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد ہیں۔ جب کہ نماز کے منفی پہلوؤں سے مراد وہ عوامل ہیں جن کے ہونے سے نماز کے معیار میں کمی ہو سکتی ہے ان عوامل میں ایسے نقصانات بھی شامل ہیں جو نماز نہ پڑھنے سے ہو سکتے ہیں یا وہ جو نماز پڑھنے سے آپ کو بظاہر دنیاوی اعتبار سے نقصانات ہو سکتے ہیں۔

انسان کے علم کی تعریف

انسانی علم، محدود مادی یا غیر مادی اشیا کے محدود منفی یا مثبت پہلوؤں پر محدود اور تحفظ پذیر دست رس کو کہتے ہیں۔ انسانی علم ارتقا پذیر اور تحفظ پذیر ہے اور انسان کو اپنے علم میں ترقی کے لیے مسلسل تجزیے، کوشش اور محنت کی محتاجی لاحق ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے اپنی ہر قسم کی تخلیقات میں انسانوں کے لیے ان کے Syndroms کے اعتبار سے فائدے اور نقصان کے پہلو رکھ کر انہیں مساویانہ طور پر تمام انسانوں کے لیے یک ساں قابل تسخیر بھی بنا دیا ہے۔ سورہ حم السجدہ آیت10میں فرمایا '' زمین میں برکت رکھی اور اس میں سب سامان ِ معیشت مقرر کیا صرف چار دنوں میں اور سب طلب گاروں کے لیے یکساں''

تسخیر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مثلاً سورج اگر مشرق سے طلوع ہوتا ہے تو انسان اس تسخیر کے بعد اسے مغرب، شمال یا جنوب سے بھی طلوع کروا سکے گا۔ تسخیر کا مطلب یہ ہے کہ انسان ان تخلیقات کے فائدے اور نقصان پر محدود دست رس حاصل کرسکتا ہے اور ان فائدوں اور نقصانات کو اپنی کم زوریوں Syndrome کے حوالے سے محدود استعمال کرسکتا ہے۔ یہ فوائد اور نقصانات مادی اور روحانی بھی ہو سکتے ہیں۔

لہذا قلم کے حوالے سے دونوں ہی معانی لازم و ملزوم ہیں کہ'' قلم'' انسان کی اس کامل و قابل ِ فہم تجزیاتی صلاحیت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی مادی یا غیر مادی شے کے منفی یا مثبت پہلوؤں سے روشناس کراتی ہے اور وہ اس کی بنیاد پر اپنی زندگی کے چھوٹے بڑے فیصلے کرتا ہے اور مادی طور پر قلم اس شے کو بھی کہتے ہیں جس سے عموماً لفظوں کو تحریری شکل ملتی ہے۔

اگر ایسا نہیں ہے تو پھر صرف عاقل، بالغ اور ہوش مند مسلمان ہی کو شرعی احکامات کا پابند کیوں بنایا گیا ہے؟ اور صرف اس پر ہی سزا و جزا کو لاگو کیوں کیا گیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ ہر عاقل، بالغ اور ہوش مند انسان ہی میں کامل و قابل ِ فہم تجزیاتی صلاحیت ہوتی ہے جس کی روشنی میں وہ نیکی یا برائی کا فیصلہ کرتا ہے۔

سورہ البلد آیت 10:'' اور ہم نے دکھا دیے اس کو دونوں راستے''۔ سورہ الشمس '' قسم ہے نفس ِ انسانی اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایا، پھر اس کو گناہوں اور پرہیز گاری کا الہام کیا، جس نے اسے پاک کیا وہ کام یاب ہوا۔'' اس تجزیاتی صلاحیت کے ساتھ ساتھ اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کو حق کی تسلیم میں اپنی مرضی اور اختیار کے استعمال کا پورا حق دیا ہے بلکہ اس مرضی اور اختیار کے استعمال کے بعد ہی اﷲ سے ہدایت کی امید ممکن ہے۔

جب کہ دوسری طرف قلم سے لفظوں کو تحریری شکل تو بچے بھی دے لیتے ہیں مگر اس سے وہ علمی طور پر پختہ کار تو نہیں بن جاتے۔ اس سے ثابت ہوا کہ محض قلم سے لفظ تحریر کر لینے سے انسان نے علم حاصل نہیں کیا بلکہ اس کے لیے کامل و قابل ِ فہم تجزیاتی صلاحیت بھی کلیدی اہمیت کی حامل رہی ہے۔
Load Next Story