حسرتؔ کی حسرت

انسان جس کا بنیادی مظہر انسانیت ہے، وہ دم توڑ چکی ہے۔


Anis Baqar May 08, 2015
[email protected]

1951ء کی بات ہے جب میں اسکول میں داخل بھی نہ ہوا تھا اور نہ ہی میرا شعور اتنا بلند ہوا تھا کہ اتنی چھوٹی عمر میں سیاسی باتیں اور رہنماؤں کی باتیں یاد رکھوں۔ زیادہ تر وہ باشعور نسل جو ان دنوں نوجوان تھی یا جو لوگ 40/30 برس کے تھے گزر چکے ہیں ظاہر ہے 60 برس سے زیادہ کا وقت گزر گیا جب ڈینسو ہال کراچی میں سید الاحرار مولانا حسرت موہانی کو اس وقت کے ترقی پسند ادیبوں کی انجمن نے چیدہ چیدہ دانشوروں کی محفل میں مدعو فرمایا تھا۔ جو باتیں میں تحریر کر رہا ہوں' یہ ایک راوی کے طور پر تحریر کر رہا ہوں جو مجھے ان میں سے اس شخص نے بتائیں جو بہ فضل خدا بقید حیات ہے حسرت موہانی حج سے واپس آ گئے تھے اور چند دنوں کے لیے کراچی میں قیام فرمایا تھا تو جلسہ گاہ میں جو لوگ موجود تھے۔

ان میں کچھ لوگوں کے اسمائے گرامی یہ ہیں سید محمد تقی، رئیس امروہوی، عزیز سلام بخاری، زیڈ اے بخاری، پروفیسر مجتبیٰ حسین، طیب بخاری، مولانا فرنگی محلی، کاوش رضوی۔ مولانا حسرت موہانی کا موضوع قرارداد مقاصد تھا۔ بقول سیدالاحرار انھوں نے قرارداد مقاصد کو پاکستان کے دستور کی بنیاد بنائے جانے پر سخت الفاظ میں مذمت کی تھی اور فرمایا تھا کہ اس سے ملک میں نسلی اور مذہبی اختلافات بھڑکیں گے اور اب گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ ہو گیا کہ پاکستان میں مختلف اسلامی فرقوں اور اقلیتوں کے مابین رنجشیں بڑھ رہی ہیں اور رواداری کے بجائے نفرت کا عفریت سر اٹھا چکا ہے۔

انسان جس کا بنیادی مظہر انسانیت ہے، وہ دم توڑ چکی ہے۔ انسانی زندگی کے چراغ محض نظریات کے اختلاف کے باعث گُل کیے جا رہے ہیں۔ اب قیام پاکستان کے 68 برس کے بعد بھی حب الوطنی پر ملک کی مختلف صوبائی اسمبلیوں میں قراردادیں پاس کی جا رہی ہیں اور جب یہ قرارداد سندھ اسمبلی میں آئی کہ بحث ہو تو فلور نقار خانہ بن گیا ایک فکر پر کئی سمتوں اور زاویوں سے بوچھاڑ تھی اور قرارداد کو دامن پھیلانے کی جگہ نہ ملی اور اب یہ قرارداد ملک کے سب سے بڑے صوبے کے ایوان میں داخل بحث ہونے کو ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ یہاں بھی یہ قرارداد پاس ہو جاتی ہے اور سندھ میں یہ قرارداد پیش نہ ہو پاتی ہے تو قرارداد اختلاف کا اور نفاق کا مرکز بن جائے گی۔ گویا پاکستان کے نظریے پر ایک نئی بحث کا آغاز ہو گا جس کا اندازہ حسرت موہانی کو اس زمانے میں بھی تھا۔

مگر ملک پر دانشوروں کی حکومت نہ رہی اور نہ انصاف انسان کو مل سکا خصوصیت کے ساتھ جو لوگ ہجرت کر کے آئے ان پر کیا کیفیت طاری رہی۔ حبیب جالبؔ کی اس نظم کے چند اشعار سے واضح ہو جائے گی اور جب کوئی ہجرت کرتا ہے تو اس کی توقعات زیادہ ہوتی ہیں اور اگر مجموعی طور پر نسل پرستی، فرقہ پرستی ہو تو پھر اس کا ردعمل بھی مثبت اور منفی رویوں میں ڈوبا ہوتا ہے۔

رہبروں نے رہزنی لوٹ مار کر کے مقامی اور غیر مقامی دونوں کو دھوکا دیا۔ جس کی وجہ سے ملک میں دوریاں پیدا ہو گئیں اور نام نہاد رہبروں نے اس کو مزید نفرتوں میں بدل ڈالا اور پھر نسلی اور فرقہ پرستی کی دیواریں کھڑی کر دی گئیں۔ حکومتوں سے عوام کی پاسداری نہ ہوئی بلکہ لیڈروں نے منی لانڈرنگ کے نت نئے طریقے استعمال کیے۔ روٹی، کپڑا، مکان کی کہانی، غریب مزید تقسیم ہوتے گئے لہٰذا اب غریبی مٹاؤ پر اجتماعی جدوجہد نہ رہی مزدور تقسیم ہوئے، دانشور تقسیم ہوئے کیونکہ قیادت کا سرچشمہ عوام نہیں ہیں اور نہ ہی عوام کو اپنی آنکھیں کھول کر مطالعہ کرنے کی ترغیب لیڈروں کا کوئی گروپ دیتا ہے۔ مثال کے طور پر عالمی منڈی میں پٹرول کی مندی جاری ہے اور پٹرول 40 فیصد مزید کمی کے نرخ پر آ گیا مگر اس کی تشہیر نہ کی گئی اور نہ ہی پٹرول کے نرخ کم ہونے کو ہیں اس مسئلے پر حزب اختلاف اور اقتدار دونوں نے اس خبر کو پوشیدہ رکھا ہے۔

کیونکہ اس میں عوام کا مفاد ہے مگر اپنے ذاتی مفادات پر جہاں ضرب لگنے کو ہے وہاں یہ زبردست قسم کا اختلاف کرتے ہیں۔ مثلاً کراچی میں پیپلز پارٹی کی جیالیوں کی پریس کانفرنس جس میں انھوں نے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے خلاف اپنی للکار سنائی 'سمجھ میں نہ آیا۔ ذوالفقار مرزا نے آصف علی زرداری پر الزامات لگائے لیکن جب اقتدار میں تھے تو مرزا کی خاموشی کو کیا سمجھا جائے؟ پھر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی گرفتاری کے لیے اتنی فورس کا استعمال' پھر ایسے موقع پر چیئرمین بلاول بھٹو کی خاموشی کیا معنی؟ پھر اب مرکزی حکومت کا صوبائی حکومت کے لیے نہ کوئی سنجیدہ کارروائی پھر مرکزی حکومت اور افواج پاکستان کے ایک صفحے پر بظاہر کھڑے ہونے کے باوجود انداز بیاں میں یکسانیت نظر نہیں آتی۔

صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ملک میں مرکزی سیاسی خیالات کے حامل نہیں۔ بعض مواقعے پر خصوصاً پنجاب کے وزیر اعلیٰ اس قدر صوبائی خودمختاری کا رویہ رکھتے ہیں کہ جیسے وہ معاشی اور سیاسی معاملات میں بالکل خودمختار ہیں اور وزیر اعظم بھی ان باتوں کا خیال نہیں رکھتے جس کی وجہ سے ملک میں مرکزیت نہیں ہے، چینی صدر کی آمد پر بعض مواقعے پر ایسے ہی مناظر دیکھنے میں آئے۔

صوبے ایسے برتاؤ کرتے ہیں جیسے کہ وہ خودمختار ریاست ہیں ربط باہم کا فقدان ہے۔ ملک میں نہ کوئی وزیر خارجہ ہے اور نہ مستقبل میں امکانات ہیں اس لیے غیر ممالک کے ساتھ تعلقات کی کیا نوعیت ہے جس کی وجہ سے ابہام پیدا ہو رہے ہیں۔ ایک عام خیال ہے کہ نواز حکومت جو طالبان کی ہمنوا تھی اب ضرب عضب کی نقیب ہے اور تمام اینکر پرسن اسی انداز میں گفتگو کر رہے ہیں۔ اب ایم کیو ایم پر ''را'' سے مبینہ روابط کی بات ہے تو اس میں کتنی صداقت ہے' محض الفاظ کی جادوگری سے ایم کیو ایم کو دبانے سے اس کی مقبولیت میں مزید اضافے کے امکانات ہیں۔ جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن پر کوئی دو رائے نہیں۔ مگر اس کے لیے شفافیت انتہائی ضروری ہے ورنہ اجتماعی نفرتوں میں اضافے کے امکانات ہیں اور دیرپا امن قائم نہ ہو گا بلکہ حسرت موہانی کے 64 برس قبل کے بیان کو مزید تقویت ملے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں