یہ رستہ دیر سے سُونا پڑا ہے
انسانی ذہن بھی عجیب ہے! کوئی بھولی بسری بات یاد کرنا چاہو تو اس قدر بے نیاز ہوجاتا ہے
انسانی ذہن بھی عجیب ہے! کوئی بھولی بسری بات یاد کرنا چاہو تو اس قدر بے نیاز ہوجاتا ہے گویا ہم سے واقف ہی نہیں۔ اور اگر شامت اعمال سے کوئی بات بھلانا چاہو تو بضد ہوجاتا ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ آج صبح سے میں اپنے ذہن کی اسی ضد کا شکار ہوں، چاہتا ہوں کہ بات کو بھول جاؤں، اس مخمصے سے رہائی پاؤں۔ لیکن میری ہر تازہ کوشش پر ذہن برہم ہوجاتا ہے اور اس کا اشارہ پاتے ہی بات کا عنکبوت میرے گرد کچھ اور ریشمی تار بن دیتا ہے۔
تنگ آکر میں نے مدافعت کا ارادہ ترک کردیا ہے اور اپنی شکست تسلیم کرلی۔ آخر کچھ نہ کچھ سوچنا تو ہے! اگر ذہن بضد ہے تو اسی کی بات سہی۔ لیکن یہ بات بے ڈھنگی ضرور ہے، یعنی ہمارے قومی کردار کا علامتی مظہر کیا ہے؟ کوئی کہے بھلا یہ کیا بات ہوئی۔ لیکن بات شاید اتنی مضحکہ خیز بھی نہیں۔ آخرکوئی نہ کوئی علامتی مظہر تو ضرور ہوگا۔ سوچیے اگر زمین کے اس بے ڈھنگے فٹ بال کا ایک گمنام سا گوشہ ہمارا اپنا ہے تو اس کی خاک کی تاثیر اور پانی کا ذائقہ بھی اپنا ہوگا اور پھر منطق کی رو سے اس تاثیر اور ذائقے کا کوئی علامتی مظہر بھی کہیں نہ کہیں ضرور چھپا ہوگا۔ کوشش کرنی چاہیے۔ شاید گوہر مقصود ہاتھ لگ جائے۔
یوں علامتی مظہر کا قصہ کوئی نیا بھی نہیں، انگریز کو لیجیے اس نے اپنے قومی کردار کے لیے کیسی خوبصورت علامت وضع کی ہے۔ ''جان بل'' میں وہ سب کچھ ہے جو انگریز کے کردار سے خاص ہے۔ طمانیت، عزلت پسندی اور قوت۔ کئی سال کی بات ہے میں نے ''جان بل'' کے علامتی مظہر کو ایک کارٹون کے روپ میں دیکھا تھا۔ کارٹون کچھ اس طرح بنایا گیا تھا کہ جان بل کے چہرے سے خشونت کے بجائے تبسم مترشح تھا۔ بل صاحب ایک کرسی پر بیٹھے تھے اور ان کی توند بے تحاشا بڑھی ہوئی تھی۔ میز پر شراب کی بوتل پڑی تھی اور ماحول، پرسکون، طمانیت اور سیر چشمی چھائی ہوئی تھی۔
انگریز کے قومی کردار کی اس سے بہتر کوئی تصویر پیش نہیں کی جاسکتی۔ امریکی کا معاملہ انگریز سے قدرے جدا ہے امریکی شاید ازل سے آوارہ گرد ہے۔ اس کے پاؤں میں چکر ہے ایک جگہ کا ہو رہنا اسے گوارہ نہیں۔ پھر اس کے کردار میں کچھ یہودی پن بھی ہے۔ وہ ہر شے کی ایک قیمت مقرر کرلیتا ہے۔ اس کے قومی کردار کا علامتی مظہر ''چچا سام'' سے بہتر اور کیا ہوسکتا تھا۔ چچاؤں کی ساری قوم ہی آوارہ گردوں اور خانہ بدوشوں کی قوم ہے۔کسی بھی برخوردار بھتیجے سے پوچھ لیجیے وہ اپنے چچا کی پراسرار شخصیت سے متاثر ہوگا۔
اس کا چچا جب کبھی آئے گا اسے دور دیس کے جھوٹے، سچے قصے سنائے گا۔ لیکن چند روز میں ہی پاؤں کا چکر چچا کو پھر کسی نئے دیس میں لے جائے گا۔ بھتیجے کو چچا کی کفایت شعاری کا شاید گلہ ہو لیکن چچا بے چارہ کیا کرے؟ بھتیجوں کی قوم بھی تو پرلے درجے کی فضول خرچ واقع ہوئی ہے۔ امریکی کردار کو جس کسی نے ''چچا سام'' کے نام سے واضح کیا تھا وہ ایک قومی ہی نہیں بین الاقوامی حیثیت کا انسان تھا۔ حیرت ہے کہ اسے نوبل پرائز کا مستحق قرار کیوں نہیں دیا۔
قارئین کرام! اگرچہ آج میں نے ارادہ کیا تھا کہ سیاسی گفتگو سے پرہیز کروں گا۔ کیونکہ اس پر لکھتے لکھتے قلم سوکھ گئے ذہن رسائی سے محروم، علم و آگہی سے خالی، طبیعت بھی امریکیوں کی طرح آوارہ گردی پر مائل۔ تو ایسے میں جان چھڑائے رکھنا ہی موزوں لگتا ہے۔ اور جب جو دکھائی دیتا ہو۔ وہ دراصل نہ ہو۔ سامنے کا عمل سایہ رکھتے ہوئے وجود سے محروم ہو۔ تو انسان کیا تحریر کرے۔
میں کبھی یہ طے نہیں کر پایا کہ ہمیں بحیثیت قوم اپنی اصلاح کی ابتدا کس مقام سے کرنی چاہیے۔ کس موڑ پر آکر یہ طے کریں کہ اس سے آگے کا سفر ہم ان اصولوں کے ساتھ طے کریں گے۔ ورنہ یہیں رک کر پہلے سوچیں، جائزہ لیں اپنی خرابیوں کے اسباب و علل پر مباحثوں کا اہتمام کریں۔ میں نے اپنے آپ سے یہ گفتگو کرنے کے لیے بہت سی نشستوں کا اہتمام کیا اور معقول دلائل کے ساتھ، کئی سمتیں تجویز کرنے کے بعد گھنٹوں تک بحث کی۔
مثلاً موضوعات یہ رہے کہ:
(1)کیا ہمیں ایک مستقل نظام حکومت درکار ہے۔ جو اغلباً جمہوریت ہو۔
(2)کیا ملک میں لٹریسی ریٹ کو بڑھانا چاہیے یہ نعرہ لگا کر کہ ہمیں صرف تعلیم چاہیے اور یہی ہماری منزل مراد ہے۔ کیونکہ تعلیم ہوگی، لوگ باشعور ہوں گے تو باقی سب وہ خود بہتر کر لیں گے۔
(3) ہمیں Communication کو بہتر بناتے ہوئے ملک میں سڑکوں کا جال بچھا دینا چاہیے۔ فاصلے کم ہوں گے تو کافی کچھ بہتر ہوجائے گا۔
(4)ہم ساری قوم اب ایک انقلاب کے لیے متحد ہوجائیں جس میں ایک مخصوص مراعات یافتہ طبقے سے بزور شمشیر اپنے حقوق چھین لیے جائیں۔
(5)اب دین کا نفاذ ناگزیر ہوگیا۔ مکمل شرعی نظام حکومت ہو۔ انصاف و عدل ہوگا۔ چور کے ہاتھ کٹیں، زانی کو سنگسار کیا جائے تو باقی مجرم خود ہی جرم سے باز آجائیں گے۔
(6)ملک طبقاتی نظام کی وجہ سے ترقی نہیں کر پا رہا سب سے پہلے اس کے خلاف جدوجہد کی جائے۔ لیکن میری تمام نشستیں برخاست ہوتی رہیں اور میں کسی ایسے نقطے پر پہنچنے میں ناکام رہا جسے میں حاصل گفتگو قرار دے کر مطمئن ہوجاتا کہ میں نے ملکی مسائل کا دائمی حل ڈھونڈ، یا ایجاد کرلیا۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ اس کی مارکیٹنگ شروع کردی جائے۔ البتہ میں مزید الجھتا چلا گیا اور مجھے وہ سرا نہیں مل سکا جسے میں آب حیات قرار دیتا۔ لیکن سوچنے کا عمل بذات خود ایک ایسا علم ہے۔ جس میں آپ کو ایسے ایسے کشف و کرامات کا مشاہدہ ہوگا جو بعض اوقات ناقابل یقین ٹھہرتے ہیں۔یقین کیجیے۔ ''خودشناسی خدا شناسی ہے۔''
سردست میں بات کو دائرہ امکان تک محدود رکھوں گا۔ کیونکہ مجھے جستجو ہے، مجھے پریشانی ہے کہ دنیا بھر میں سدھار آرہا ہے۔ معاشرے ترقی یافتہ کہیں کہیں لیکن ترقی پذیر تو تقریباً ہر مقام پر ہیں۔ پھر ہم کہاں جا رہے ہیں؟ دیکھیے مسائل کے نام رکھنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ آپ انھیں مہنگائی، کرپشن، مارشل لا، کچھ خاندانوں کی حکمرانی، امیر کا امیر تر ہونا، غریب کا غربت میں بڑھ جانا، ملک غلط بنا یا صحیح، یہود و نصاریٰ کی سازشیں، شدت پسندی، تعلیم کی کمی، کچھ بھی قرار دے لیں۔
لیکن جو بھی کچھ تھا یا ہے وہ ٹھیک کیوں نہیں ہوتا۔ میں ایک چوٹ کی مثال دوں گا۔ جو لگ جاتی ہے لیکن پھر اس پر کھرنڈ آجاتا ہے۔ رفتہ رفتہ وہ زخم مندمل ہوکر بھر جاتا ہے۔ گویا وقت یا فطرت اگر کوئی چپ سادھ کر بھی بیٹھ جائے تو چیزوں کو اعتدال پر لانے میں اپنا کردار ضرور ادا کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے معاملے میں یہ مثال ناکام کیوں ہے؟اور تقریباً تجربات تو ہم کر بھی چکے انھیں دہرا بھی لیا۔ گویا آئینی ترامیم کا اضافہ بڑھتی ہوئی ملکی آبادی سے کم نہیں اور دینی لحاظ سے بھی ہم کم وراسٹائل نہیں۔ کہاں ہم باادب نہیں۔ یعنی میدان حشر میں اگر کسی بھی فرقے کو جائز و شرعی کہا گیا تو اپنے پاس سارے ہیں۔ کوئی تو لگے گا۔
تنگ آکر میں نے مدافعت کا ارادہ ترک کردیا ہے اور اپنی شکست تسلیم کرلی۔ آخر کچھ نہ کچھ سوچنا تو ہے! اگر ذہن بضد ہے تو اسی کی بات سہی۔ لیکن یہ بات بے ڈھنگی ضرور ہے، یعنی ہمارے قومی کردار کا علامتی مظہر کیا ہے؟ کوئی کہے بھلا یہ کیا بات ہوئی۔ لیکن بات شاید اتنی مضحکہ خیز بھی نہیں۔ آخرکوئی نہ کوئی علامتی مظہر تو ضرور ہوگا۔ سوچیے اگر زمین کے اس بے ڈھنگے فٹ بال کا ایک گمنام سا گوشہ ہمارا اپنا ہے تو اس کی خاک کی تاثیر اور پانی کا ذائقہ بھی اپنا ہوگا اور پھر منطق کی رو سے اس تاثیر اور ذائقے کا کوئی علامتی مظہر بھی کہیں نہ کہیں ضرور چھپا ہوگا۔ کوشش کرنی چاہیے۔ شاید گوہر مقصود ہاتھ لگ جائے۔
یوں علامتی مظہر کا قصہ کوئی نیا بھی نہیں، انگریز کو لیجیے اس نے اپنے قومی کردار کے لیے کیسی خوبصورت علامت وضع کی ہے۔ ''جان بل'' میں وہ سب کچھ ہے جو انگریز کے کردار سے خاص ہے۔ طمانیت، عزلت پسندی اور قوت۔ کئی سال کی بات ہے میں نے ''جان بل'' کے علامتی مظہر کو ایک کارٹون کے روپ میں دیکھا تھا۔ کارٹون کچھ اس طرح بنایا گیا تھا کہ جان بل کے چہرے سے خشونت کے بجائے تبسم مترشح تھا۔ بل صاحب ایک کرسی پر بیٹھے تھے اور ان کی توند بے تحاشا بڑھی ہوئی تھی۔ میز پر شراب کی بوتل پڑی تھی اور ماحول، پرسکون، طمانیت اور سیر چشمی چھائی ہوئی تھی۔
انگریز کے قومی کردار کی اس سے بہتر کوئی تصویر پیش نہیں کی جاسکتی۔ امریکی کا معاملہ انگریز سے قدرے جدا ہے امریکی شاید ازل سے آوارہ گرد ہے۔ اس کے پاؤں میں چکر ہے ایک جگہ کا ہو رہنا اسے گوارہ نہیں۔ پھر اس کے کردار میں کچھ یہودی پن بھی ہے۔ وہ ہر شے کی ایک قیمت مقرر کرلیتا ہے۔ اس کے قومی کردار کا علامتی مظہر ''چچا سام'' سے بہتر اور کیا ہوسکتا تھا۔ چچاؤں کی ساری قوم ہی آوارہ گردوں اور خانہ بدوشوں کی قوم ہے۔کسی بھی برخوردار بھتیجے سے پوچھ لیجیے وہ اپنے چچا کی پراسرار شخصیت سے متاثر ہوگا۔
اس کا چچا جب کبھی آئے گا اسے دور دیس کے جھوٹے، سچے قصے سنائے گا۔ لیکن چند روز میں ہی پاؤں کا چکر چچا کو پھر کسی نئے دیس میں لے جائے گا۔ بھتیجے کو چچا کی کفایت شعاری کا شاید گلہ ہو لیکن چچا بے چارہ کیا کرے؟ بھتیجوں کی قوم بھی تو پرلے درجے کی فضول خرچ واقع ہوئی ہے۔ امریکی کردار کو جس کسی نے ''چچا سام'' کے نام سے واضح کیا تھا وہ ایک قومی ہی نہیں بین الاقوامی حیثیت کا انسان تھا۔ حیرت ہے کہ اسے نوبل پرائز کا مستحق قرار کیوں نہیں دیا۔
قارئین کرام! اگرچہ آج میں نے ارادہ کیا تھا کہ سیاسی گفتگو سے پرہیز کروں گا۔ کیونکہ اس پر لکھتے لکھتے قلم سوکھ گئے ذہن رسائی سے محروم، علم و آگہی سے خالی، طبیعت بھی امریکیوں کی طرح آوارہ گردی پر مائل۔ تو ایسے میں جان چھڑائے رکھنا ہی موزوں لگتا ہے۔ اور جب جو دکھائی دیتا ہو۔ وہ دراصل نہ ہو۔ سامنے کا عمل سایہ رکھتے ہوئے وجود سے محروم ہو۔ تو انسان کیا تحریر کرے۔
میں کبھی یہ طے نہیں کر پایا کہ ہمیں بحیثیت قوم اپنی اصلاح کی ابتدا کس مقام سے کرنی چاہیے۔ کس موڑ پر آکر یہ طے کریں کہ اس سے آگے کا سفر ہم ان اصولوں کے ساتھ طے کریں گے۔ ورنہ یہیں رک کر پہلے سوچیں، جائزہ لیں اپنی خرابیوں کے اسباب و علل پر مباحثوں کا اہتمام کریں۔ میں نے اپنے آپ سے یہ گفتگو کرنے کے لیے بہت سی نشستوں کا اہتمام کیا اور معقول دلائل کے ساتھ، کئی سمتیں تجویز کرنے کے بعد گھنٹوں تک بحث کی۔
مثلاً موضوعات یہ رہے کہ:
(1)کیا ہمیں ایک مستقل نظام حکومت درکار ہے۔ جو اغلباً جمہوریت ہو۔
(2)کیا ملک میں لٹریسی ریٹ کو بڑھانا چاہیے یہ نعرہ لگا کر کہ ہمیں صرف تعلیم چاہیے اور یہی ہماری منزل مراد ہے۔ کیونکہ تعلیم ہوگی، لوگ باشعور ہوں گے تو باقی سب وہ خود بہتر کر لیں گے۔
(3) ہمیں Communication کو بہتر بناتے ہوئے ملک میں سڑکوں کا جال بچھا دینا چاہیے۔ فاصلے کم ہوں گے تو کافی کچھ بہتر ہوجائے گا۔
(4)ہم ساری قوم اب ایک انقلاب کے لیے متحد ہوجائیں جس میں ایک مخصوص مراعات یافتہ طبقے سے بزور شمشیر اپنے حقوق چھین لیے جائیں۔
(5)اب دین کا نفاذ ناگزیر ہوگیا۔ مکمل شرعی نظام حکومت ہو۔ انصاف و عدل ہوگا۔ چور کے ہاتھ کٹیں، زانی کو سنگسار کیا جائے تو باقی مجرم خود ہی جرم سے باز آجائیں گے۔
(6)ملک طبقاتی نظام کی وجہ سے ترقی نہیں کر پا رہا سب سے پہلے اس کے خلاف جدوجہد کی جائے۔ لیکن میری تمام نشستیں برخاست ہوتی رہیں اور میں کسی ایسے نقطے پر پہنچنے میں ناکام رہا جسے میں حاصل گفتگو قرار دے کر مطمئن ہوجاتا کہ میں نے ملکی مسائل کا دائمی حل ڈھونڈ، یا ایجاد کرلیا۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ اس کی مارکیٹنگ شروع کردی جائے۔ البتہ میں مزید الجھتا چلا گیا اور مجھے وہ سرا نہیں مل سکا جسے میں آب حیات قرار دیتا۔ لیکن سوچنے کا عمل بذات خود ایک ایسا علم ہے۔ جس میں آپ کو ایسے ایسے کشف و کرامات کا مشاہدہ ہوگا جو بعض اوقات ناقابل یقین ٹھہرتے ہیں۔یقین کیجیے۔ ''خودشناسی خدا شناسی ہے۔''
سردست میں بات کو دائرہ امکان تک محدود رکھوں گا۔ کیونکہ مجھے جستجو ہے، مجھے پریشانی ہے کہ دنیا بھر میں سدھار آرہا ہے۔ معاشرے ترقی یافتہ کہیں کہیں لیکن ترقی پذیر تو تقریباً ہر مقام پر ہیں۔ پھر ہم کہاں جا رہے ہیں؟ دیکھیے مسائل کے نام رکھنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ آپ انھیں مہنگائی، کرپشن، مارشل لا، کچھ خاندانوں کی حکمرانی، امیر کا امیر تر ہونا، غریب کا غربت میں بڑھ جانا، ملک غلط بنا یا صحیح، یہود و نصاریٰ کی سازشیں، شدت پسندی، تعلیم کی کمی، کچھ بھی قرار دے لیں۔
لیکن جو بھی کچھ تھا یا ہے وہ ٹھیک کیوں نہیں ہوتا۔ میں ایک چوٹ کی مثال دوں گا۔ جو لگ جاتی ہے لیکن پھر اس پر کھرنڈ آجاتا ہے۔ رفتہ رفتہ وہ زخم مندمل ہوکر بھر جاتا ہے۔ گویا وقت یا فطرت اگر کوئی چپ سادھ کر بھی بیٹھ جائے تو چیزوں کو اعتدال پر لانے میں اپنا کردار ضرور ادا کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے معاملے میں یہ مثال ناکام کیوں ہے؟اور تقریباً تجربات تو ہم کر بھی چکے انھیں دہرا بھی لیا۔ گویا آئینی ترامیم کا اضافہ بڑھتی ہوئی ملکی آبادی سے کم نہیں اور دینی لحاظ سے بھی ہم کم وراسٹائل نہیں۔ کہاں ہم باادب نہیں۔ یعنی میدان حشر میں اگر کسی بھی فرقے کو جائز و شرعی کہا گیا تو اپنے پاس سارے ہیں۔ کوئی تو لگے گا۔