والدین کا قصور
سرپرستوں اور والدین کی یہ چشم پوشی یا غلطی اپنے بچوں کی شادی میں غیر ضروری تاخیر ہے۔
ISLAMABAD:
میں ایوان فکر کے ذریعے انتہائی دردمندی کے ساتھ والدین اور سرپرستوں کی ایک ایسی چشم پوشی کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گی، جو بظاہر تو بہت معمولی نظر آتی ہے، لیکن اس کے نتیجے میں جو اثرات معاشرے پر مرتب ہو رہے ہیں وہ بہت نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ سرپرستوں اور والدین کی یہ چشم پوشی یا غلطی اپنے بچوں کی شادی میں غیر ضروری تاخیر ہے۔
آپ یقینا اس بات سے متفق ہوں گے کہ آج کل کے اکثر والدین نے شادی کو ایک کٹھن ترین مرحلہ بنا دیا ہے جس میں ان کے اپنے رویے اور سماج کا بھی عمل دخل شامل ہے۔ اگر لڑکی ہو تو جب تک ڈھیروں جہیز جمع نہ ہوجائے والدین شادی کے بارے میں سوچتے تک نہیں اور اگر لڑکا ہو تو پہلے وہ اپنا کیریئر بنائے، ڈھیروں رقم جمع کرے اور اچھا سا گھر بنائے تب اس کے والدین کو فکر ہوتی ہے اور پھر وہ کسی اونچے خاندان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں یا پھر والدین یہ سوچتے ہیں کہ لڑکوں سے پہلے لڑکیوں کی شادی کردیں کیونکہ اگر لڑکوں کی شادی پہلے کر دی تو وہ ہاتھ سے نکل جائیں گے اور ان کی بہنوں کی شادی کے اخراجات کون اٹھائے گا۔
اسی طرح سوچتے سوچتے بچوں کی عمریں نکل جاتی ہیں اور وہ بڑھاپے کی دہلیز کے قریب جا پہنچتے ہیں اور پھر یہ رونا رویا جاتا ہے کہ بچوں کی شادی نہیں ہو رہی۔ آپ مجھے یہ بتائیں کہ جب لڑکوں کی شادی نہیں ہوگی تو لڑکیوں کی شادی کس طرح ہوگی؟ جب سب والدین یہی چاہیں گے کہ ہماری لڑکیوں کی شادی ہوجائے اور اپنے لڑکوں کی شادیاں نہیں کریں گے تو معاشرتی توازن تو ازخود ہی بگڑ جائے گا،والدین کو اپنے اس رویے پر غور کرنا چاہیے۔ پچھلے دس پندرہ سالوں میں جب سے تعلیم کی اہمیت واضح ہوگئی ہے تو اپنے آپ کو گردوپیش، محلہ یا خاندان میں ہی دیکھتے ہوں گے کہ اکثر لڑکے جو خود تو فیکٹریوں یا کارخانوں میں کام کرتے ہیں اپنی بہنوں کو ضرور پڑھاتے ہیں تاکہ ان کی اچھی جگہ شادی ہو سکے۔
لہٰذا آج کے اس دور میں ہمیں لڑکیوں کا معیار تعلیم زیادہ نظر آتا ہے۔ والدین یہاں بھی غلطی کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکا ہی ڈھونڈتے ہیں جب کہ لڑکوں کے مقابلے میں اکثر لڑکیاں اب زیادہ تعلیم یافتہ ہوچکی ہیں۔ لڑکے روزگار کے چکر میں تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں اس طرح لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم میں فرق بہت سے مسائل پیدا کرتا ہے۔
آپ بھی اس بات سے واقف ہوں گے کہ پہلے زمانے میں لڑکے، لڑکیاں سولہ اٹھارہ یا بائیس سال کی عمر میں سن بلوغت تک پہنچتے تھے جب کہ آج میڈیا کے اس دور میں سن بلوغت کی عمر کم ہوکر بارہ تیرہ سال ہوگئی ہے اور اس صورت جب بچوں کے جذبات کو طرح طرح کی پابندیوں، بے جا رسموں اور رویوں سے دبایا جائے اور بجائے ان کی شادی کے طویل انتظار کی زنجیروں میں اس قدرتی تقاضے کو جکڑ دیا جائے تو جذبات شدت اختیار کرکے معاشرتی اقدار کی دھجیاں اڑانے کا سبب بھی بن سکتے ہیں شاید اکثر والدین یہ بات نہیں جانتے کہ بعض حالات میں دبے ہوئے جذبات سے پرتشدد طبیعت، چڑچڑا پن، غصہ، بیزاری اور شدت پسندی جیسی ہولناک بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں۔
معاشرے کی طرف آئیں تو اخبارات میں دن بہ دن ڈکیتی، قتل، چوری اور ریپ کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اگر بغور مشاہدہ کیا جائے اور باریک بینی سے جائزہ لیں تو ایسے جرائم میں نو عمر لڑکوں کی تعداد آپ کو زیادہ نظر آئے گی اور ان جرائم میں اضافے کے پیچھے بھی بڑا ہاتھ والدین کا ہی نظر آئے گا کیونکہ یہ ایک fact ہے کہ جب بچوں کے جذبات کچل دیے جائیں تو وہ تخریبی سرگرمیوں میں اپنے آپ ہی ملوث ہوجاتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے بچوں کے جرم میں والدین بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں۔
شادی میں غیر ضروری تاخیر والدین اور اولاد دونوں کے حق میں نقصان دہ ہے ہر صاحب نظر یہ بات جانتا ہے کہ اگر کسی بھوکے کو صرف بار بار روٹی دکھائی جائے اور کھانے نہ دی جائے تو آخر کار وہ تنگ آکر روٹی چھین لیتا ہے۔
وہ وقت دور نہیں جب آپ کی اولاد تمام بندھنوں اور معاشرتی قدروں کو توڑ دیں اس کا حل یہی ہے کہ جلد سے جلد اولاد کی شادی کا اہتمام کریں اگر والدین اپنی ہٹ دھرمی اور انا کو قربان نہیں کرسکتے تو پھر دنیا اور آخرت دونوں جگہ مسائل کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں بتائیے آپ کو معاشرے کی فضول رسمیں، دکھاوا اور اپنی انا عزیز ہے یا اپنی اولاد؟
عام طور پر شادی میں تاخیر کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ مہنگائی بہت زیادہ ہے اور آمدنی کم ہے شادی کے لیے پیسے جوڑتے جوڑتے ہی کافی وقت لگ جاتا ہے لڑکی کی شادی پر پانچ سے چھ لاکھ اور لڑکے کی شادی پر تین ساڑھے تین لاکھ خرچ ہوجاتے ہیں اور تنخواہوں کا جو معیار ہے وہ اوسطاً سات آٹھ ہزار ہے۔
اگر ہر مہینے ایک ہزار روپے بھی کاٹ کر بچائے جائیں تو لڑکے کی شادی کے لیے آٹھ سال اور لڑکی کے لیے سولہ سالہ انتظار کرنا پڑے گا۔ جہاں تک مہنگائی کی بات ہے تو اس کا تعلق آدمی کی قوت خرید سے ہے۔ پچاس اور سو سال پہلے کے لوگ بھی یہی بات کیا کرتے تھے اب مہنگائی کا رونا رو کر کوئی روٹی کھانا تو نہیں چھوڑ سکتا ۔
شادی کا ایک بڑا اہم اور ضروری کام اس کا اعلان ہے شاید اسی مقصد کے لیے اتنا بکھیڑا پالا جاتا ہے اور اس قدر مہمانوں کو جمع کیا جاتا ہے۔ یہ کام مسجد سے باآسانی لیا جاسکتا ہے۔ گھر پر منعقدہ شادی کی اس سادہ مگر پروقار تقریب کا اعلان مسجد کے مولوی سے کروا دیا جائے ویسے بھی مسجد سے کئی اعلانات کیے جاتے ہیں اس میں ایک یہ بھی سہی۔
میں ایوان فکر کے ذریعے انتہائی دردمندی کے ساتھ والدین اور سرپرستوں کی ایک ایسی چشم پوشی کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گی، جو بظاہر تو بہت معمولی نظر آتی ہے، لیکن اس کے نتیجے میں جو اثرات معاشرے پر مرتب ہو رہے ہیں وہ بہت نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ سرپرستوں اور والدین کی یہ چشم پوشی یا غلطی اپنے بچوں کی شادی میں غیر ضروری تاخیر ہے۔
آپ یقینا اس بات سے متفق ہوں گے کہ آج کل کے اکثر والدین نے شادی کو ایک کٹھن ترین مرحلہ بنا دیا ہے جس میں ان کے اپنے رویے اور سماج کا بھی عمل دخل شامل ہے۔ اگر لڑکی ہو تو جب تک ڈھیروں جہیز جمع نہ ہوجائے والدین شادی کے بارے میں سوچتے تک نہیں اور اگر لڑکا ہو تو پہلے وہ اپنا کیریئر بنائے، ڈھیروں رقم جمع کرے اور اچھا سا گھر بنائے تب اس کے والدین کو فکر ہوتی ہے اور پھر وہ کسی اونچے خاندان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں یا پھر والدین یہ سوچتے ہیں کہ لڑکوں سے پہلے لڑکیوں کی شادی کردیں کیونکہ اگر لڑکوں کی شادی پہلے کر دی تو وہ ہاتھ سے نکل جائیں گے اور ان کی بہنوں کی شادی کے اخراجات کون اٹھائے گا۔
اسی طرح سوچتے سوچتے بچوں کی عمریں نکل جاتی ہیں اور وہ بڑھاپے کی دہلیز کے قریب جا پہنچتے ہیں اور پھر یہ رونا رویا جاتا ہے کہ بچوں کی شادی نہیں ہو رہی۔ آپ مجھے یہ بتائیں کہ جب لڑکوں کی شادی نہیں ہوگی تو لڑکیوں کی شادی کس طرح ہوگی؟ جب سب والدین یہی چاہیں گے کہ ہماری لڑکیوں کی شادی ہوجائے اور اپنے لڑکوں کی شادیاں نہیں کریں گے تو معاشرتی توازن تو ازخود ہی بگڑ جائے گا،والدین کو اپنے اس رویے پر غور کرنا چاہیے۔ پچھلے دس پندرہ سالوں میں جب سے تعلیم کی اہمیت واضح ہوگئی ہے تو اپنے آپ کو گردوپیش، محلہ یا خاندان میں ہی دیکھتے ہوں گے کہ اکثر لڑکے جو خود تو فیکٹریوں یا کارخانوں میں کام کرتے ہیں اپنی بہنوں کو ضرور پڑھاتے ہیں تاکہ ان کی اچھی جگہ شادی ہو سکے۔
لہٰذا آج کے اس دور میں ہمیں لڑکیوں کا معیار تعلیم زیادہ نظر آتا ہے۔ والدین یہاں بھی غلطی کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکا ہی ڈھونڈتے ہیں جب کہ لڑکوں کے مقابلے میں اکثر لڑکیاں اب زیادہ تعلیم یافتہ ہوچکی ہیں۔ لڑکے روزگار کے چکر میں تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں اس طرح لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم میں فرق بہت سے مسائل پیدا کرتا ہے۔
آپ بھی اس بات سے واقف ہوں گے کہ پہلے زمانے میں لڑکے، لڑکیاں سولہ اٹھارہ یا بائیس سال کی عمر میں سن بلوغت تک پہنچتے تھے جب کہ آج میڈیا کے اس دور میں سن بلوغت کی عمر کم ہوکر بارہ تیرہ سال ہوگئی ہے اور اس صورت جب بچوں کے جذبات کو طرح طرح کی پابندیوں، بے جا رسموں اور رویوں سے دبایا جائے اور بجائے ان کی شادی کے طویل انتظار کی زنجیروں میں اس قدرتی تقاضے کو جکڑ دیا جائے تو جذبات شدت اختیار کرکے معاشرتی اقدار کی دھجیاں اڑانے کا سبب بھی بن سکتے ہیں شاید اکثر والدین یہ بات نہیں جانتے کہ بعض حالات میں دبے ہوئے جذبات سے پرتشدد طبیعت، چڑچڑا پن، غصہ، بیزاری اور شدت پسندی جیسی ہولناک بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں۔
معاشرے کی طرف آئیں تو اخبارات میں دن بہ دن ڈکیتی، قتل، چوری اور ریپ کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اگر بغور مشاہدہ کیا جائے اور باریک بینی سے جائزہ لیں تو ایسے جرائم میں نو عمر لڑکوں کی تعداد آپ کو زیادہ نظر آئے گی اور ان جرائم میں اضافے کے پیچھے بھی بڑا ہاتھ والدین کا ہی نظر آئے گا کیونکہ یہ ایک fact ہے کہ جب بچوں کے جذبات کچل دیے جائیں تو وہ تخریبی سرگرمیوں میں اپنے آپ ہی ملوث ہوجاتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے بچوں کے جرم میں والدین بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں۔
شادی میں غیر ضروری تاخیر والدین اور اولاد دونوں کے حق میں نقصان دہ ہے ہر صاحب نظر یہ بات جانتا ہے کہ اگر کسی بھوکے کو صرف بار بار روٹی دکھائی جائے اور کھانے نہ دی جائے تو آخر کار وہ تنگ آکر روٹی چھین لیتا ہے۔
وہ وقت دور نہیں جب آپ کی اولاد تمام بندھنوں اور معاشرتی قدروں کو توڑ دیں اس کا حل یہی ہے کہ جلد سے جلد اولاد کی شادی کا اہتمام کریں اگر والدین اپنی ہٹ دھرمی اور انا کو قربان نہیں کرسکتے تو پھر دنیا اور آخرت دونوں جگہ مسائل کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں بتائیے آپ کو معاشرے کی فضول رسمیں، دکھاوا اور اپنی انا عزیز ہے یا اپنی اولاد؟
عام طور پر شادی میں تاخیر کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ مہنگائی بہت زیادہ ہے اور آمدنی کم ہے شادی کے لیے پیسے جوڑتے جوڑتے ہی کافی وقت لگ جاتا ہے لڑکی کی شادی پر پانچ سے چھ لاکھ اور لڑکے کی شادی پر تین ساڑھے تین لاکھ خرچ ہوجاتے ہیں اور تنخواہوں کا جو معیار ہے وہ اوسطاً سات آٹھ ہزار ہے۔
اگر ہر مہینے ایک ہزار روپے بھی کاٹ کر بچائے جائیں تو لڑکے کی شادی کے لیے آٹھ سال اور لڑکی کے لیے سولہ سالہ انتظار کرنا پڑے گا۔ جہاں تک مہنگائی کی بات ہے تو اس کا تعلق آدمی کی قوت خرید سے ہے۔ پچاس اور سو سال پہلے کے لوگ بھی یہی بات کیا کرتے تھے اب مہنگائی کا رونا رو کر کوئی روٹی کھانا تو نہیں چھوڑ سکتا ۔
شادی کا ایک بڑا اہم اور ضروری کام اس کا اعلان ہے شاید اسی مقصد کے لیے اتنا بکھیڑا پالا جاتا ہے اور اس قدر مہمانوں کو جمع کیا جاتا ہے۔ یہ کام مسجد سے باآسانی لیا جاسکتا ہے۔ گھر پر منعقدہ شادی کی اس سادہ مگر پروقار تقریب کا اعلان مسجد کے مولوی سے کروا دیا جائے ویسے بھی مسجد سے کئی اعلانات کیے جاتے ہیں اس میں ایک یہ بھی سہی۔