پیپلزپارٹی کی موجودہ حالت کا ذمے دارکون
پیپلزپارٹی کو اِس حالت اور نہج پر پہنچانے والا کوئی اور نہیں ہے اُس کی اپنی لیڈر شپ اپنی قیادت ہے۔
ABBOTABAD:
ملک کے چاروں صوبوں میں نمایندگی رکھنے والی ایک بڑی قومی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی یہ حالت شاید ہی گزشتہ پینتالیس چھیالیس برسوں میں کبھی دیکھی گئی ہوگی جیسی آجکل دیکھی جا رہی ہے۔عوام کی اکثریت کی جانب سے پارٹی سے اس قدر بے اعتنائی اور لا تعلقی نہ صرف حیران کن ہے بلکہ پارٹی کی قیادت کے لیے یقینا لمحہ فکریہ بھی ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ پارٹی کو اِس صورتحال سے آخر دوچار کس نے کیا۔
وہ کیا وجوہات اور عوامل ہیں جنکی بدولت پارٹی زوال و پستی کی اِس حد تک پہنچ گئی کہ حالیہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں سارے ملک سے اُسے صرف 7 نشستیں ہی مل پائیںاور وہ بھی بیشتر صرف ایک ہی صوبے سے۔ملک کے دیگر صوبوں میں اُسے کوئی قابلِ ذکر کامیابی نہیں ملی۔وہ پارٹی جو خود کو کبھی چاروں صوبوں کی زنجیر سمجھا کرتی تھی آج صرف ایک صوبے تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے جذباتی نعرے بھی اب اپنا سحر کھوتے جا رہے ہیں۔
پارٹی نے ایک لمبے عرصے تک بھٹو کے نام کو الیکشن میں کامیابی کے لیے بے دریغ استعمال کیا۔لوگوں نے بھی بھٹو خاندان سے محبت اور دلی وابستگی کی خاطرچالیس سال تک ایسے لوگوں کو بھی ووٹ دیے جس کے وہ بالکل اہل اور حقدار بھی نہ تھے ۔ لیکن اب شاید ایسے زمانے لد گئے ہیں۔ لوگوں کو عقل وشعور ، سوجھ بوجھ اور اچھے اور بُرے کی سمجھ آنے لگی ہے۔اُنہیں محسوس ہونے لگا ہے کہ وہ صرف بھٹو کے نام پر بلیک میل ہوتے رہے۔کوئی اُنہیں جذباتی نعروں اور تقریروں سے بے وقوف بناتا رہا اور وہ بنتے رہے۔
وہ مسلسل پستی اور زبوں حالی کی طرف جاتے رہے اور اُن کے رہنما اور لیڈر عیش کرتے رہے۔شروع شروع میں تو ملک کے اندر آمروں کے غیر جمہوری اقدامات سے پارٹی کو دوام ملتا رہا اور وہ مظلومیت اور محرومیت کا سہارا لے کر الیکشن جیتتی رہی۔مگر رفتہ رفتہ یہ فیکٹر بھی اپنا اثر کھوتا جا رہا ہے۔ خاص کر 2008ء کے الیکشن کے بعد جب عوام نے دیکھا کہ پارٹی کے لیڈر صرف اپنی ذات کے لیے کام کرتے ہیں۔
اُنہیں غریب عوام کا ذرّہ برابر بھی احساس نہیں ہے۔جو کامیاب ہوتا ہے خود اپنا مستقبل سنوارنے لگ جاتا ہے۔ عوام کے روز وشب ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں۔کوئی خوشحالی اُن کے دروازے کے پاس سے بھی نہیں گذرتی۔اپنی قیادت اور لیڈر شپ سے مایوس اور نااُمید کارکن اور ووٹر مجبوراً کسی دوسری پارٹی کے جانب متوجہ ہونے لگا۔
پارٹی اِس زعم میں مبتلا تھی کہ جب تک شہید بھٹو گڑھی خدا بخش نو ڈیروکے عالی شان مقبرے میں زندہ ہے اُس کا نام چلتا رہے گا۔ بی بی کے نامعلوم قاتلوں کو موردِ الزام دیکر عوام الناس کی ہمدردیاں سمیٹتے رہیں گے اور جمہوریت بہترین انتقام کا نعرہ لگا کر اُس کے ثمرات سے لطف اندوز اورمحظوظ ہوتے رہیں گے۔مگر یہ کھیل اب مزید نہیں چل سکتا ۔قوم ترقی و خوشحالی چاہتی ہے۔ صرف جذباتی نعروں پر وہ اب اپنا مستقبل تباہ کرنے پر تیار نہیں ہیں۔لوگ جب تقابلی جائزہ لیتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ کون اپنے عوام کی خدمت کررہا ہے اور کون صرف نعروں پر اُنہیں بہلا پھسلا رہا ہے تو وہ پھر اپنے رائے بدلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
2008 سے لے کر 2013 پیپلز پارٹی کو پورے پانچ سال ملے لیکن اُس نے اپنا اسلوب اور طرز نہیں بدلا ۔ وہ پھر کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کی وارداتوں میں مگن ہو گئی۔بڑے بڑے عہدوں پر چن چن کر ایسے لوگوں کو لگایا گیا جنکی وجہ شہرت نیکی اور ایمانداری کی بجائے بے ایمانی اور دغابازی پر مبنی تھی۔ رینٹل پاور پروجیکٹ سے لے کرحج کرپشن تک مال بنانے کے الزامات لگے۔ملک کی اعلیٰ عدلیہ متنبہ کرتی رہی لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔بلکہ اُسے اپنے خلاف کہہ کر ردکردیا گیا ۔ملک دہشت گردی کے شعلوں میں جلتا رہا، دھماکے اور خود کش حملے ہوتے رہے۔
گھر اُجڑتے رہے اورلوگ مرتے رہے مگر حکومت اپنی دھن میں مگن رہی ۔کراچی جلتا رہا، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری پروان چڑھتی رہی لیکن حکمران دوستی اور مفاہمت کی سیاست کرتے رہے ۔کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی کے ذریعے کبھی ایم کیو ایم اور کبھی مسلم لیگ (ق) کو اپنے کمزور اور لڑکھڑاتے اقتدار کی بیساکھیاں بناتے رہے۔گویا پانچ سال یونہی بیت گئے۔ نہ اندھیرے کم ہوئے اور نہ مہنگائی اور بے روزگاری۔ہم خوشحالی و کامرانی کی بجائے پستی اور انحطاط پذیری کی طرف دھکیل دیے گئے۔
ایسے حالات میں الیکشن کا نتیجہ تو پھر ایسا ہی نکلنا تھا۔پیپلز پارٹی کا ووٹر نئی اُبھرتی پارٹی تحریکِ انصاف کا ووٹر بن گیا۔ پنجاب میں اُسے بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں بھی نتائج کچھ حوصلہ افزا نہیں تھے۔ لے دے کر صرف صوبہ سندھ میں حقِ حکمرانی عطا کیا گیا لیکن افسوس کہ اب بھی اندازِ سیاست اور طرزِ حکمرانی نہیں بدلا۔ دو سال بیت گئے لیکن کوئی قابلِ ذکر ترقیاتی کام اب تک شروع نہیں کیا گیا۔
اندرونِ سندھ حالات اور بھی ناگفتہ بہ ہیں۔ کوئی ڈھنگ کا اسپتال ہے اور نہ کوئی معیاری اسکول اور کالج۔سڑکوں کی حالت انتہائی شکستہ ہے۔ عام آدمی کی حالتِ زار ناقابلِ بیان ہے۔ایسا لگتا ہے کہ یہ پاکستان کا سب سے پسماندہ علاقہ بنتا جا رہا ہے۔جو حالت تھر پارکر کی تھی اب سارے سندھ کی ہوتی جا رہی ہے۔کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ قائدین کے اپنے علاقے کچھ بہتر تصویر پیش کرتے ہیں لیکن بحیثیتِ مجموعی تمام سندھ کی حالت بہت خراب اور ابتر ہے۔ ایسے میں غریب ووٹر کیا کرے۔ کسے اپنا رہبر و رہنما منتخب کرے۔لہذا رفتہ رفتہ وہ پارٹی سے بدظن اور بد دل ہوتا گیا۔
پیپلزپارٹی کو اِس حالت اور نہج پر پہنچانے والا کوئی اور نہیں ہے اُس کی اپنی لیڈر شپ اپنی قیادت ہے۔ جنہوں نے بھٹوکا نام استعمال کرکے حکمرانی تو حاصل کر لی لیکن اپنے عوام کو کچھ نہ دیا۔ پارٹی کے حامیوں اور شیدائیوں کو مایوس کیا گیا ہے۔پیپلز پارٹی کا جیالا جئے بھٹو کے نعرے لگا لگا کر دم توڑ چکا ہے۔اُس میں اب مزید سکت اور ہمت باقی نہیں رہی۔ دو وقت کی روٹی کے لیے وہ آج بھی اُتنا ہی مجبور ہے جتنا وہ کل مجبور تھا۔اُس کے مصائب ومشکلات میں کمی تو کجا بلکہ کچھ اضافہ ہی ہوا ہے ۔یہ وہ وجوہات ہیں جنکی وجہ سے آج پاکستان پیپلز پارٹی چوتھے نمبرکی پارٹی بن چکی ہے۔جس سیاسی تدبر،ذہانت اور بصیرت پر پارٹی اقابرین کو بہت ناز ہے وہ ذہانت اور بصیرت آج کہاں گم ہو گئی ہے ۔
اقتدار بچانے کے لیے تو وہ اُچھل اُچھل کر باہر نکل رہی ہوتی ہے، لیکن جب قوم کی خدمت اور کارکردگی دکھانے کا وقت آتا ہے تو حیلے بہانے تراشے جانے لگتے ہیں۔کبھی کہا جاتے ہے کہ دہشت گردی ہمیں کام نہیں کرنے دے رہی ، کبھی کہاجاتا ہے، عدلیہ ہمارے ہاتھ روک رہی ہے اور کبھی کہاجاتا ہے وفاق ہمیں فنڈز نہیں دے رہا۔ پیپلز پارٹی کو اِس ملک کے عوام نے چار مرتبہ حکمرانی کا مینڈیٹ عطا کیا۔ مگر سندھ کے حالات جوں کے توں رہے۔لوگ جب دیگر صوبوں کو ترقی کرتا دیکھتے ہیں تو اُن کے اندر پلنے والا احساسِ کمتری اور احساسِ محرومی ایسے ہی ردِ عمل کا باعث بننے لگتا ہے۔پارٹی کے رہنماؤں کو چاہیے کہ جلد از جلد اِس بڑھتی ہوئی مایوسی اور نااُمیدی کا تدارک کریں۔ لوگوںکی گلوخلاصی کریں ۔
عوام کے مسائل حل کریں۔ اپنے صوبے میں کچھ کام کرکے دکھائیں۔مظلومیت اور محرومیت کے اثرات سے خود بھی باہر نکلیں اور دوسروں کو بھی نکالیں۔ ایسا نہ ہو کوئی دوسرا لیڈر علاقے کے لوگوں کے دل جیت کر سب کچھ سمیٹ لے اور آپ ہاتھ ملتے رہ جائیں۔آج کنٹونمنٹ بورڈ کی صرف سات سیٹس پر پارٹی کو کامیابی نصیب ہوئی ہے اگر پارٹی نے اپنا طرزِ عمل نہیں بدلا تو وہ دن دور نہیں جب اُس کی اپنے آبائی شہر لاڑکانہ کی نشست بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔
ملک کے چاروں صوبوں میں نمایندگی رکھنے والی ایک بڑی قومی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی یہ حالت شاید ہی گزشتہ پینتالیس چھیالیس برسوں میں کبھی دیکھی گئی ہوگی جیسی آجکل دیکھی جا رہی ہے۔عوام کی اکثریت کی جانب سے پارٹی سے اس قدر بے اعتنائی اور لا تعلقی نہ صرف حیران کن ہے بلکہ پارٹی کی قیادت کے لیے یقینا لمحہ فکریہ بھی ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ پارٹی کو اِس صورتحال سے آخر دوچار کس نے کیا۔
وہ کیا وجوہات اور عوامل ہیں جنکی بدولت پارٹی زوال و پستی کی اِس حد تک پہنچ گئی کہ حالیہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں سارے ملک سے اُسے صرف 7 نشستیں ہی مل پائیںاور وہ بھی بیشتر صرف ایک ہی صوبے سے۔ملک کے دیگر صوبوں میں اُسے کوئی قابلِ ذکر کامیابی نہیں ملی۔وہ پارٹی جو خود کو کبھی چاروں صوبوں کی زنجیر سمجھا کرتی تھی آج صرف ایک صوبے تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے جذباتی نعرے بھی اب اپنا سحر کھوتے جا رہے ہیں۔
پارٹی نے ایک لمبے عرصے تک بھٹو کے نام کو الیکشن میں کامیابی کے لیے بے دریغ استعمال کیا۔لوگوں نے بھی بھٹو خاندان سے محبت اور دلی وابستگی کی خاطرچالیس سال تک ایسے لوگوں کو بھی ووٹ دیے جس کے وہ بالکل اہل اور حقدار بھی نہ تھے ۔ لیکن اب شاید ایسے زمانے لد گئے ہیں۔ لوگوں کو عقل وشعور ، سوجھ بوجھ اور اچھے اور بُرے کی سمجھ آنے لگی ہے۔اُنہیں محسوس ہونے لگا ہے کہ وہ صرف بھٹو کے نام پر بلیک میل ہوتے رہے۔کوئی اُنہیں جذباتی نعروں اور تقریروں سے بے وقوف بناتا رہا اور وہ بنتے رہے۔
وہ مسلسل پستی اور زبوں حالی کی طرف جاتے رہے اور اُن کے رہنما اور لیڈر عیش کرتے رہے۔شروع شروع میں تو ملک کے اندر آمروں کے غیر جمہوری اقدامات سے پارٹی کو دوام ملتا رہا اور وہ مظلومیت اور محرومیت کا سہارا لے کر الیکشن جیتتی رہی۔مگر رفتہ رفتہ یہ فیکٹر بھی اپنا اثر کھوتا جا رہا ہے۔ خاص کر 2008ء کے الیکشن کے بعد جب عوام نے دیکھا کہ پارٹی کے لیڈر صرف اپنی ذات کے لیے کام کرتے ہیں۔
اُنہیں غریب عوام کا ذرّہ برابر بھی احساس نہیں ہے۔جو کامیاب ہوتا ہے خود اپنا مستقبل سنوارنے لگ جاتا ہے۔ عوام کے روز وشب ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں۔کوئی خوشحالی اُن کے دروازے کے پاس سے بھی نہیں گذرتی۔اپنی قیادت اور لیڈر شپ سے مایوس اور نااُمید کارکن اور ووٹر مجبوراً کسی دوسری پارٹی کے جانب متوجہ ہونے لگا۔
پارٹی اِس زعم میں مبتلا تھی کہ جب تک شہید بھٹو گڑھی خدا بخش نو ڈیروکے عالی شان مقبرے میں زندہ ہے اُس کا نام چلتا رہے گا۔ بی بی کے نامعلوم قاتلوں کو موردِ الزام دیکر عوام الناس کی ہمدردیاں سمیٹتے رہیں گے اور جمہوریت بہترین انتقام کا نعرہ لگا کر اُس کے ثمرات سے لطف اندوز اورمحظوظ ہوتے رہیں گے۔مگر یہ کھیل اب مزید نہیں چل سکتا ۔قوم ترقی و خوشحالی چاہتی ہے۔ صرف جذباتی نعروں پر وہ اب اپنا مستقبل تباہ کرنے پر تیار نہیں ہیں۔لوگ جب تقابلی جائزہ لیتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ کون اپنے عوام کی خدمت کررہا ہے اور کون صرف نعروں پر اُنہیں بہلا پھسلا رہا ہے تو وہ پھر اپنے رائے بدلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
2008 سے لے کر 2013 پیپلز پارٹی کو پورے پانچ سال ملے لیکن اُس نے اپنا اسلوب اور طرز نہیں بدلا ۔ وہ پھر کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کی وارداتوں میں مگن ہو گئی۔بڑے بڑے عہدوں پر چن چن کر ایسے لوگوں کو لگایا گیا جنکی وجہ شہرت نیکی اور ایمانداری کی بجائے بے ایمانی اور دغابازی پر مبنی تھی۔ رینٹل پاور پروجیکٹ سے لے کرحج کرپشن تک مال بنانے کے الزامات لگے۔ملک کی اعلیٰ عدلیہ متنبہ کرتی رہی لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔بلکہ اُسے اپنے خلاف کہہ کر ردکردیا گیا ۔ملک دہشت گردی کے شعلوں میں جلتا رہا، دھماکے اور خود کش حملے ہوتے رہے۔
گھر اُجڑتے رہے اورلوگ مرتے رہے مگر حکومت اپنی دھن میں مگن رہی ۔کراچی جلتا رہا، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری پروان چڑھتی رہی لیکن حکمران دوستی اور مفاہمت کی سیاست کرتے رہے ۔کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی کے ذریعے کبھی ایم کیو ایم اور کبھی مسلم لیگ (ق) کو اپنے کمزور اور لڑکھڑاتے اقتدار کی بیساکھیاں بناتے رہے۔گویا پانچ سال یونہی بیت گئے۔ نہ اندھیرے کم ہوئے اور نہ مہنگائی اور بے روزگاری۔ہم خوشحالی و کامرانی کی بجائے پستی اور انحطاط پذیری کی طرف دھکیل دیے گئے۔
ایسے حالات میں الیکشن کا نتیجہ تو پھر ایسا ہی نکلنا تھا۔پیپلز پارٹی کا ووٹر نئی اُبھرتی پارٹی تحریکِ انصاف کا ووٹر بن گیا۔ پنجاب میں اُسے بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں بھی نتائج کچھ حوصلہ افزا نہیں تھے۔ لے دے کر صرف صوبہ سندھ میں حقِ حکمرانی عطا کیا گیا لیکن افسوس کہ اب بھی اندازِ سیاست اور طرزِ حکمرانی نہیں بدلا۔ دو سال بیت گئے لیکن کوئی قابلِ ذکر ترقیاتی کام اب تک شروع نہیں کیا گیا۔
اندرونِ سندھ حالات اور بھی ناگفتہ بہ ہیں۔ کوئی ڈھنگ کا اسپتال ہے اور نہ کوئی معیاری اسکول اور کالج۔سڑکوں کی حالت انتہائی شکستہ ہے۔ عام آدمی کی حالتِ زار ناقابلِ بیان ہے۔ایسا لگتا ہے کہ یہ پاکستان کا سب سے پسماندہ علاقہ بنتا جا رہا ہے۔جو حالت تھر پارکر کی تھی اب سارے سندھ کی ہوتی جا رہی ہے۔کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ قائدین کے اپنے علاقے کچھ بہتر تصویر پیش کرتے ہیں لیکن بحیثیتِ مجموعی تمام سندھ کی حالت بہت خراب اور ابتر ہے۔ ایسے میں غریب ووٹر کیا کرے۔ کسے اپنا رہبر و رہنما منتخب کرے۔لہذا رفتہ رفتہ وہ پارٹی سے بدظن اور بد دل ہوتا گیا۔
پیپلزپارٹی کو اِس حالت اور نہج پر پہنچانے والا کوئی اور نہیں ہے اُس کی اپنی لیڈر شپ اپنی قیادت ہے۔ جنہوں نے بھٹوکا نام استعمال کرکے حکمرانی تو حاصل کر لی لیکن اپنے عوام کو کچھ نہ دیا۔ پارٹی کے حامیوں اور شیدائیوں کو مایوس کیا گیا ہے۔پیپلز پارٹی کا جیالا جئے بھٹو کے نعرے لگا لگا کر دم توڑ چکا ہے۔اُس میں اب مزید سکت اور ہمت باقی نہیں رہی۔ دو وقت کی روٹی کے لیے وہ آج بھی اُتنا ہی مجبور ہے جتنا وہ کل مجبور تھا۔اُس کے مصائب ومشکلات میں کمی تو کجا بلکہ کچھ اضافہ ہی ہوا ہے ۔یہ وہ وجوہات ہیں جنکی وجہ سے آج پاکستان پیپلز پارٹی چوتھے نمبرکی پارٹی بن چکی ہے۔جس سیاسی تدبر،ذہانت اور بصیرت پر پارٹی اقابرین کو بہت ناز ہے وہ ذہانت اور بصیرت آج کہاں گم ہو گئی ہے ۔
اقتدار بچانے کے لیے تو وہ اُچھل اُچھل کر باہر نکل رہی ہوتی ہے، لیکن جب قوم کی خدمت اور کارکردگی دکھانے کا وقت آتا ہے تو حیلے بہانے تراشے جانے لگتے ہیں۔کبھی کہا جاتے ہے کہ دہشت گردی ہمیں کام نہیں کرنے دے رہی ، کبھی کہاجاتا ہے، عدلیہ ہمارے ہاتھ روک رہی ہے اور کبھی کہاجاتا ہے وفاق ہمیں فنڈز نہیں دے رہا۔ پیپلز پارٹی کو اِس ملک کے عوام نے چار مرتبہ حکمرانی کا مینڈیٹ عطا کیا۔ مگر سندھ کے حالات جوں کے توں رہے۔لوگ جب دیگر صوبوں کو ترقی کرتا دیکھتے ہیں تو اُن کے اندر پلنے والا احساسِ کمتری اور احساسِ محرومی ایسے ہی ردِ عمل کا باعث بننے لگتا ہے۔پارٹی کے رہنماؤں کو چاہیے کہ جلد از جلد اِس بڑھتی ہوئی مایوسی اور نااُمیدی کا تدارک کریں۔ لوگوںکی گلوخلاصی کریں ۔
عوام کے مسائل حل کریں۔ اپنے صوبے میں کچھ کام کرکے دکھائیں۔مظلومیت اور محرومیت کے اثرات سے خود بھی باہر نکلیں اور دوسروں کو بھی نکالیں۔ ایسا نہ ہو کوئی دوسرا لیڈر علاقے کے لوگوں کے دل جیت کر سب کچھ سمیٹ لے اور آپ ہاتھ ملتے رہ جائیں۔آج کنٹونمنٹ بورڈ کی صرف سات سیٹس پر پارٹی کو کامیابی نصیب ہوئی ہے اگر پارٹی نے اپنا طرزِ عمل نہیں بدلا تو وہ دن دور نہیں جب اُس کی اپنے آبائی شہر لاڑکانہ کی نشست بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔