بھولے لوگ
ہر ہفتے چھٹی والے دن میں سانگھڑ شہر میں پڑھے لکھے لوگوں کے لیے موجود ٹھکانے چریا پیڑی جاتا ہوں
آج کل ہماری بجلی اور آسمانی بجلی ایک جیسی لگتی ہیں۔وہ بھی پلک جھپکتے آسمان پر چمکتی ،گرجتی ہے ،چند لمحوں میں نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے اور یہی حال ہماری بجلی کا ہے ، پتہ نہیں ہمارے حکمراں کب تک عوام کو جھوٹے وعدوں سے بہلاتے رہیں گے۔
میں بھی ہر شام اسی لوڈ شیڈنگ کے دوران اپنے ایک رشتے دار کے پاس گپ شپ لگانے جاتا ہوں ،جہاں دکاندار، زمیندار، کسان ، بیوپاری ،مزدور سب آ کر اکٹھے بیٹھتے ہیں ،اپنے دل کی بھڑاس نکال کر ذہنی عیاشی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ان میں سے کوئی پیپلزپارٹی، مسلم لیگ توکوئی مذہبی جماعتوں سے آس لگا کے بیٹھتے ہیں، ہرکوئی کسی نہ کسی جماعت کی حمایت میں باتیں کرتا ہے۔
کوئی پیپلز پارٹی کو مسیحا سمجھتا ہے توکوئی مسلم لیگ کو مشکل کشا، بلکہ زیادہ تر تو مذہبی جماعتوں کو ہر مسئلے کا علاج سمجھتے ہیں ۔آپس میں تو تو میں میں بھی ہوتی ہے ،ناراضگی بھی ہوجاتی ہے لیکن دوسرے دن کی شام پھر وہی بحث اور ضد،سالوں سے ان کی یہی پریکٹس چلی آ رہی ہے ۔ لیکن حالت یہ ہے کہ اتنے بڑے گاؤں میں ڈرینج سسٹم نہیں ، گیس لائن دیہات کے زیرو پوائنٹ سے گزرتی ہے ،لیکن گاؤں کا ایک بھی چولہا گیس سے نہیںجلتا ۔ برسوں سے یہاں کے مکین منتخب اراکین سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔
ہر ہفتے چھٹی والے دن میں سانگھڑ شہر میں پڑھے لکھے لوگوں کے لیے موجود ٹھکانے چریا پیڑی جاتا ہوں، جہاں کئی علم وادب کی باتیں ہوتی ہے لیکن افسوس کہ یہاں ڈیرہ ڈالے ہوئے کامریڈ صرف باتوں، مارکس نظریات اور تنقید پر تکیہ کیے ہوئے ہیں ۔یہ لوگ عام لوگوں سے رابطہ کرنے سے کوسوں دور بیٹھے ہوتے ہیں نہ ہی ان کے پاس اتنے مالی وسائل ہوتے ہیں کہ وہ اپنی سرگرمیاں کر سکیں۔ برسوں سے کچھ شہروں تک محدود، چندوں پرگزارا ہے ۔ اب اس حال میں جہاں ان میں اکثریت لوئر مڈل کلاس کی ہے ، اس صورت میں کوئی سیاست کیسے ہوسکتی ہے یا لوگوں کے مسائل حل ہوسکتے ہیں، کوئی شیخ چلی کا خواب ہو سکتا ہے ۔
سندھ کی پیرانی گدیوں کے معتقدین،جن کا مرکز درگاہوں کے احکامات ہوتے ہیں ، ان کی درگاہوں کو وہ اپنے اور اپنی آنیوالے نسلوں کے لیے نجات سمجھتے ہیں۔ سماجی تعلقات سے لے کر سیاسی سرگرمیوں تک یہ لوگ ان درگاہوں کے محتاج ہوتے ہیں ۔پیری مریدی ان کے خون میں رچی بسی ہے جسے وہ اپنی زندگی کے لیے فلاح اور نجات سمجھتے ہیں۔ کوئی ان من چلوں کوکیا سمجھائے کہ زندگی کا معیار ایسے بھی بدل سکتا ہے ۔
میں کبھی مذہب کی اہمیت سے انکاری نہیں رہا،بلکہ مذہب انسانی زندگی کو با ترتیب بناتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کے لیے مذہب کی بجائے مذہبی جماعتوں کی طرف دیکھتے ہیں ۔ویسے بھی جہاں غربت ہو ، وہاں اکثریت مذہب کی طرف رجوع کرتی ہے ، جس کا جائز یا ناجائز فائدہ مذہبی جماعتوں کو ہوتا ہے ، نتیجے میں ہر تیسرا آدمی مذہبی جماعتوں کی تقلید کرتے ملتا ہے۔
یہاں تک کہ طالبان اور داعش جیسی کٹر انتہا پسند تنظیموں کی بھی تعریف کرتے نہیں تھکتے کہ اصل اسلامی نظام یہی لائیں گے۔ افسوس کہ ملک کی غالب اکثریت اسلام کی اصل روح کو سمجھنے سے قاصر ہے یا مخصوص لوگوں نے ایسا ماحول پیدا کیا ہے۔ کیا خود کش حملے کو جائز سمجھنے والے بم دھماکوں میں معصوم انسانی جانیں لینے والے اور بچیوں کے اسکول کو تالا لگانے والے ، سائنس صنعت و ٹیکنالوجی کی اس 21 صدی میں اپنی اس روش سے اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں ؟کیا یہ افراد غربت ،بیروزگاری، بیماری اور جہالت کے خلاف جہاد نہیں کرسکتے۔
میں ان سب لوگوں کو اس ملک کے بھولے لوگ سمجھتا ہوں ، جو ملکی ترقی میں عملی حصہ لینے کے بجائے خوابوں اورخواہشوں میں اسے دیکھتے رہتے ہیں ۔ ان کے ذہن مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں ۔اس میں قصور کسی حد تک حکومت اور سول سوسائٹی کا بھی ہے، جو اپنا حقیقی کردار ادا نہیں کر پا رہے ۔ اگر ہم اسی جمود کا شکار رہے تو ہماری کئی آنے والی نسلیں بھی اس بھولے پن کا شکار رہیں گی ۔مجھے کولمبیا کے نوبل انعام یافتہ گبریل گارشیا مارکیز کا شہرہ آفاق ناول the hundred years of solitude یاد آرہا ہے جس میں انھوں نے اپنی قوم کی سو سالہ جہالت پر آنسو بہائے ہیں ۔