اضافی بیلٹ پیپرز پیشگی اجازت کے بغیر چھاپے سابق الیکشن کمشنر پنجاب
آج بھی تحریک انصاف کے وکیل حفیظ پیرزادہ کی انور محبوب پر جرح جاری رہے گی۔
دھاندلی کی تحقیقات کیلیے قائم جوڈیشل کمیشن کے روبرو سابق الیکشن کمشنر پنجاب محبوب انور نے دوران جرح تسلیم کیا ہے کہ الیکشن 2013 میں ریٹرننگ افسروں کی ڈیمانڈ کے مطابق بعض حلقوں کیلیے اضافی بیلٹ پیپر چھاپے گئے تھے۔
اضافی بیلٹ پیپر چھاپنے کی پیشگی اجازت حاصل نہیں کی گئی تھی لیکن تحریری اطلاع الیکشن کمیشن کے مرکزی دفترکو کی گئی تھی، بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا کام 5مئی تک مکمل نہیں ہوا تھا جبکہ بیلٹ پیپر براہ راست ریٹرننگ افسروں کو بھیجے جاتے ہیں۔
تحریک انصاف کے وکیل حفیظ پیرزادہ کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے اضافی بیلٹ پیپرز کی چھپائی کو معمول کے مطابق قرار دیا اور کہا کہ اضافی بیلٹ پیپر ہر الیکشن اور ہر حلقے میں چھاپے جاتے ہیں۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ کچھ حلقوں میں الیکشن کمیشن مقرر وقت میں انتخابی مواد پولنگ اسٹیشنوں پر نہیں پہنچا سکا تاہم اس حوالے سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی۔
چیف جسٹس اور کمیشن کے سربراہ جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن نے ن لیگ سے پیر تک گواہوں کی فہرست طلب کرلی جبکہ انکوائری جلد نمٹانے کیلیے آج (جمعے کو)اور پیر کو پورا دن سماعت کا فیصلہ کیا ہے۔ دوران جرح حفیظ پیرزادہ کے بیشتر سوالوںپر سابق صوبائی الیکشن کمشنر یہی کہتے رہے کہ انھیں یاد نہیں، انھیں 2013کے الیکشن شیڈول کی تاریخیں بھی یاد نہیں تھیں، یہاں تک کہ انھیں انتخابی نشانات الاٹ کرنے کی تاریخ بھی یاد نہیں تھی۔
سماعت ملتوی کرنے سے قبل کمیشن نے ہدایت کی کہ جو دیگر پارٹیاں گواہوں کی فہرست یا اضافی دستاویزات داخل کرانا چاہتی ہیں وہ ان کے مقاصد اور وجوہ بھی واضح کریں تاکہ کمیشن کیلیے آسانی رہے۔ کمیشن نے سابق صوبائی الیکشن کمشنر کو پابند کیاکہ ان پر جرح ابھی مکمل نہیں ہوئی، وہ حلف لے چکے ہیں اس لیے کسی سے جرح کے حوالے سے کوئی بات نہ کریں۔ حفیظ پیرزادہ نے سرکاری گواہ سے سوال کیا کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی 5مئی تک مکمل ہونا تھی مگر نہیں ہوئی تو ایسی کیا چیز رہ گئی تھی جس کی وجہ سے تاخیر ہوئی تو انور محبوب نے جواب دیا کہ مجھے اس بات کا علم نہیں۔ محبوب انور نے بتایا کہ بیلٹ پیپرز کی ڈیمانڈ ریٹرننگ افسر کرتے ہیں اور پرنٹنگ پریس میں چھپنے والے پیپرز براہ راست ان کو ہی پہنچائے جاتے ہیں۔
حفیظ پیرزادہ نے ان سے پوچھا کہ جہانگیر ترین کے حلقے این اے 154لودھراں کیلیے 15 ہزار زائد بیلٹ پیپرز چھاپے گئے تھے کیا انھیں اس بات کا علم ہے تو انھوں نے کہاکہ یاد نہیں۔ انھوں نے تسلیم کیاکہ ریٹرننگ افسران کی جانب سے بیلٹ پیپرز کی آنے والی ڈیمانڈ کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا اور میری رٹائرمنٹ تک میری اطلاع کے مطابق یہ ریکارڈ الیکشن کمیشن کے پاس موجود تھا۔ محبوب انور نے بتایا کہ وہ 4دسمبر 2012 سے 25 مارچ 2014 تک پنجاب میں صوبائی الیکشن کمشنر رہے اس دوران 3ماہ کیلیے سپریم کورٹ کے احکام کے تحت ان کی ڈیوٹی کراچی میں لگائی گئی تاہم3 ماہ بعد وہ واپس پنجاب آگئے۔
انھوں نے پنجاب سے الیکشن کمیشن کے رکن جسٹس رٹائرڈ ریاض کیانی کے ساتھ ملاقاتوں اور ان سے ہدایات لینے کی تردید کی اور کہا کہ عام انتخابات کے دوران ان کے ساتھ ایک ہی ملاقات لاہور آفس میں سرکاری میٹنگ کے دوران ہوئی۔آئی این پی کے مطابق محبوب انور نے کہا کہ میں چیف الیکشن کمشنر کے ماتحت تھا، میرا الیکشن کمیشن کے کسی رکن سے براہ راست تعلق نہیں تھا، انتخابی مواد پرنٹنگ کارپوریشن سے ریٹرننگ افسران کو بھجوایا جاتا تھا۔ حفیظ پیرزادہ نے پوچھا کیا آپ کو یہ علم نہیں تھا کہ پیپرا رولز کے بغیر کاغذ خریدا گیا ۔
جس پر انور محبوب نے جواب دیا کہ مجھے اس بات کا علم نہیں۔ حفیظ پیرزادہ نے جرح کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا بیلٹ پیپر رجسٹرڈ ووٹرز کے مطابق چھاپ کر بھیجے گئے تو انھوں نے جواب دیا کہ بیلٹ پیپر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد سے زائد بنا کر بھیجے گئے تھے۔ کمیشن کے رکن جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آپ سوال کے مطابق جواب دیں جس پر انور محبوب نے بتایا کہ آر اوز رجسٹرڈ ووٹوں کے مطابق بیلٹ پیپرز کی چھپوائی کی درخواست کرتے تھے۔ حفیظ پیرزادہ نے سوال کیا کہ کیا کچھ ریٹرننگ افسران نے 100 فیصد سے زائد بیلٹ پیپرز مانگے تھے جس پر انھوں نے جواب دیا کہ ہاں ریٹرننگ افسران کی جانب سے ایسی درخواستیں آتی رہتی تھیں۔ آج بھی تحریک انصاف کے وکیل حفیظ پیرزادہ کی انور محبوب پر جرح جاری رہے گی۔
آن لائن کے مطابق جوڈیشل کمیشن نے محبوب انور پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ جو کچھ جانتے ہیں اس کا صحیح صحیح جواب دیں۔ محبوب انورنے عبدالحفیظ پیرزادہ کے مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ریٹرننگ آفیسر طے کرتاہے کہ کتنے بیلٹ پیپر چھاپنے ہیں، وہ لکھ کر دیتا ہے۔ پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا 19اپریل 2013 کو چھپائی کا عمل شروع ہوچکا تھا۔ اس پر محبوب انور نے کہا کہ یہ عمل5مئی سے شروع ہوا۔ حفیظ پیرزادہ نے پرنٹنگ کارپوریشن کی جانب سے بھجوائے گئے خط کا پوچھا تو انھوں کہا کہ انھیں اس حوالے سے صحیح طور پر یاد نہیں، انتخابات سے 3 روز قبل تک انتخابی سامان حلقوں تک پہنچانے میں ہم کامیاب نہیں ہوئے تھے۔
پرنٹنگ سے متعلقہ 200افراد کی بابت سوال پر محبوب انور نے کہا کہ انھیں اس حوالے سے معلومات نہیں ہیں۔ پیرزادہ نے کہا کہ کارپوریشن نے کہا تھا کہ امیدواروں کی تعداد کی وجہ سے بیلٹ پیپرز کی چھپائی ڈبل کرنا پڑی؟۔ اس بارے میں وہ کیا کہتے ہیں، اس پر انھوں نے کہا کہ ایسی کوئی بات ان کے علم میں نہیں۔
اضافی بیلٹ پیپر چھاپنے کی پیشگی اجازت حاصل نہیں کی گئی تھی لیکن تحریری اطلاع الیکشن کمیشن کے مرکزی دفترکو کی گئی تھی، بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا کام 5مئی تک مکمل نہیں ہوا تھا جبکہ بیلٹ پیپر براہ راست ریٹرننگ افسروں کو بھیجے جاتے ہیں۔
تحریک انصاف کے وکیل حفیظ پیرزادہ کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے اضافی بیلٹ پیپرز کی چھپائی کو معمول کے مطابق قرار دیا اور کہا کہ اضافی بیلٹ پیپر ہر الیکشن اور ہر حلقے میں چھاپے جاتے ہیں۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ کچھ حلقوں میں الیکشن کمیشن مقرر وقت میں انتخابی مواد پولنگ اسٹیشنوں پر نہیں پہنچا سکا تاہم اس حوالے سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی۔
چیف جسٹس اور کمیشن کے سربراہ جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن نے ن لیگ سے پیر تک گواہوں کی فہرست طلب کرلی جبکہ انکوائری جلد نمٹانے کیلیے آج (جمعے کو)اور پیر کو پورا دن سماعت کا فیصلہ کیا ہے۔ دوران جرح حفیظ پیرزادہ کے بیشتر سوالوںپر سابق صوبائی الیکشن کمشنر یہی کہتے رہے کہ انھیں یاد نہیں، انھیں 2013کے الیکشن شیڈول کی تاریخیں بھی یاد نہیں تھیں، یہاں تک کہ انھیں انتخابی نشانات الاٹ کرنے کی تاریخ بھی یاد نہیں تھی۔
سماعت ملتوی کرنے سے قبل کمیشن نے ہدایت کی کہ جو دیگر پارٹیاں گواہوں کی فہرست یا اضافی دستاویزات داخل کرانا چاہتی ہیں وہ ان کے مقاصد اور وجوہ بھی واضح کریں تاکہ کمیشن کیلیے آسانی رہے۔ کمیشن نے سابق صوبائی الیکشن کمشنر کو پابند کیاکہ ان پر جرح ابھی مکمل نہیں ہوئی، وہ حلف لے چکے ہیں اس لیے کسی سے جرح کے حوالے سے کوئی بات نہ کریں۔ حفیظ پیرزادہ نے سرکاری گواہ سے سوال کیا کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی 5مئی تک مکمل ہونا تھی مگر نہیں ہوئی تو ایسی کیا چیز رہ گئی تھی جس کی وجہ سے تاخیر ہوئی تو انور محبوب نے جواب دیا کہ مجھے اس بات کا علم نہیں۔ محبوب انور نے بتایا کہ بیلٹ پیپرز کی ڈیمانڈ ریٹرننگ افسر کرتے ہیں اور پرنٹنگ پریس میں چھپنے والے پیپرز براہ راست ان کو ہی پہنچائے جاتے ہیں۔
حفیظ پیرزادہ نے ان سے پوچھا کہ جہانگیر ترین کے حلقے این اے 154لودھراں کیلیے 15 ہزار زائد بیلٹ پیپرز چھاپے گئے تھے کیا انھیں اس بات کا علم ہے تو انھوں نے کہاکہ یاد نہیں۔ انھوں نے تسلیم کیاکہ ریٹرننگ افسران کی جانب سے بیلٹ پیپرز کی آنے والی ڈیمانڈ کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا اور میری رٹائرمنٹ تک میری اطلاع کے مطابق یہ ریکارڈ الیکشن کمیشن کے پاس موجود تھا۔ محبوب انور نے بتایا کہ وہ 4دسمبر 2012 سے 25 مارچ 2014 تک پنجاب میں صوبائی الیکشن کمشنر رہے اس دوران 3ماہ کیلیے سپریم کورٹ کے احکام کے تحت ان کی ڈیوٹی کراچی میں لگائی گئی تاہم3 ماہ بعد وہ واپس پنجاب آگئے۔
انھوں نے پنجاب سے الیکشن کمیشن کے رکن جسٹس رٹائرڈ ریاض کیانی کے ساتھ ملاقاتوں اور ان سے ہدایات لینے کی تردید کی اور کہا کہ عام انتخابات کے دوران ان کے ساتھ ایک ہی ملاقات لاہور آفس میں سرکاری میٹنگ کے دوران ہوئی۔آئی این پی کے مطابق محبوب انور نے کہا کہ میں چیف الیکشن کمشنر کے ماتحت تھا، میرا الیکشن کمیشن کے کسی رکن سے براہ راست تعلق نہیں تھا، انتخابی مواد پرنٹنگ کارپوریشن سے ریٹرننگ افسران کو بھجوایا جاتا تھا۔ حفیظ پیرزادہ نے پوچھا کیا آپ کو یہ علم نہیں تھا کہ پیپرا رولز کے بغیر کاغذ خریدا گیا ۔
جس پر انور محبوب نے جواب دیا کہ مجھے اس بات کا علم نہیں۔ حفیظ پیرزادہ نے جرح کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا بیلٹ پیپر رجسٹرڈ ووٹرز کے مطابق چھاپ کر بھیجے گئے تو انھوں نے جواب دیا کہ بیلٹ پیپر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد سے زائد بنا کر بھیجے گئے تھے۔ کمیشن کے رکن جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آپ سوال کے مطابق جواب دیں جس پر انور محبوب نے بتایا کہ آر اوز رجسٹرڈ ووٹوں کے مطابق بیلٹ پیپرز کی چھپوائی کی درخواست کرتے تھے۔ حفیظ پیرزادہ نے سوال کیا کہ کیا کچھ ریٹرننگ افسران نے 100 فیصد سے زائد بیلٹ پیپرز مانگے تھے جس پر انھوں نے جواب دیا کہ ہاں ریٹرننگ افسران کی جانب سے ایسی درخواستیں آتی رہتی تھیں۔ آج بھی تحریک انصاف کے وکیل حفیظ پیرزادہ کی انور محبوب پر جرح جاری رہے گی۔
آن لائن کے مطابق جوڈیشل کمیشن نے محبوب انور پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ جو کچھ جانتے ہیں اس کا صحیح صحیح جواب دیں۔ محبوب انورنے عبدالحفیظ پیرزادہ کے مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ریٹرننگ آفیسر طے کرتاہے کہ کتنے بیلٹ پیپر چھاپنے ہیں، وہ لکھ کر دیتا ہے۔ پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا 19اپریل 2013 کو چھپائی کا عمل شروع ہوچکا تھا۔ اس پر محبوب انور نے کہا کہ یہ عمل5مئی سے شروع ہوا۔ حفیظ پیرزادہ نے پرنٹنگ کارپوریشن کی جانب سے بھجوائے گئے خط کا پوچھا تو انھوں کہا کہ انھیں اس حوالے سے صحیح طور پر یاد نہیں، انتخابات سے 3 روز قبل تک انتخابی سامان حلقوں تک پہنچانے میں ہم کامیاب نہیں ہوئے تھے۔
پرنٹنگ سے متعلقہ 200افراد کی بابت سوال پر محبوب انور نے کہا کہ انھیں اس حوالے سے معلومات نہیں ہیں۔ پیرزادہ نے کہا کہ کارپوریشن نے کہا تھا کہ امیدواروں کی تعداد کی وجہ سے بیلٹ پیپرز کی چھپائی ڈبل کرنا پڑی؟۔ اس بارے میں وہ کیا کہتے ہیں، اس پر انھوں نے کہا کہ ایسی کوئی بات ان کے علم میں نہیں۔