پانی چوری میں کراچی واٹر بورڈ کے افسران اور مافیا ملوث ہے شرجیل میمن

کسی پمپنگ اسٹیشن پر لوڈ شیڈنگ ہوئی تو ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی، صوبائی وزیراطلاعات وبلدیات


ویب ڈیسک May 08, 2015
اووربلنگ اور لوگوں کو بلیک میل کرنے والے ٹینکرز کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے گی، شرجیل میمن۔ فوٹو: فائل

KARACHI: صوبائی وزیراطلاعات شرجیل میمن کا کہنا ہے کہ اگر کسی پمپنگ اسٹیشن پر لوڈ شیڈنگ ہوئی تو ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی جب کہ اووربلنگ اور لوگوں کو بلیک میل کرنے والے ٹینکرز کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے گی۔

سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ پانی چوری میں واٹر بورڈ کے افسران اور مافیا ملوث ہے، بہت سے غیر قانونی ہائیڈرنٹس ختم کیا لیکن ہمارے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں کہ کیک کا سائز بڑھا سکیں، ایک پلیٹ میں کیک ہے اور 100 آدمی کھانے والے ہیں، دھایبجی پمپنگ اسٹیشن میں پانی کی گنجائش بڑھانے کے لئے کام کر رہے ہیں۔

شرجیل میمن نے کہا کہ واٹر بورڈ میں ساڑھے 13 ہزار ملازمین ہیں اور ہماری ریکوری 40 کروڑ تک جاتی ہے جس میں سے 30 کروڑ روپے تنخواہوں کی مد میں چلے جاتے ہیں، باقی 10 کروڑ روپے مرمت کے کاموں میں لگ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پانی کے بحران پر قابو پانے کےلئے حکومت نئے منصوبوں پر عمل شروع کررہی ہے، سندھ حکومت واٹر بورڈ کو بجلی کے بلوں کی مد میں 50 کروڑ روپے ماہانہ ادا کرتی ہے، اگر کسی پمپنگ اسٹیشن پر لوڈ شیڈنگ ہوئی تو ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی جب کہ اووربلنگ اور لوگوں کو بلیک میل کرنے والے ٹینکرز کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے گی۔

اس سے قبل وقفہ سوالات پر ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی خالد احمد کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے رواں برس بجٹ میں پانی کے لئے ایک ارب روپے مختص کئے لیکن ایک پائی بھی جاری نہیں کی گئی اور ساری رقم منجمند ہونے کے قریب ہے،کوئی بھی مسئلہ ہو تو کمیٹی بنا دی جاتی ہے مگراب مزید کمیٹیوں کا قیام نہیں فنڈز کے اجرا کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹینڈنگ کمیٹی نے کے فور منصوبے کے لیے 500 ملین گیلن منظورکئے لیکن سابق سٹی ناظم مصطفی کمال کے بعد کسی نے بھی پانی کے منصوبے پرکام نہیں کیا، 14 ارب روپے کی لاگت پر مشتمل کے فور منصوبہ اب 24 ارب کا ہوچکا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں