ساجدہ کی کہانی
راشد کے قتل کی وزیر اعظم، صوبائی وزراء اعلی، سابق صدر آصف زرداری اور الطاف حسین سمیت سب نے مذمت کی۔
لاہور:
ہندوستان کے دارالحکومت دلی سے متصل ضلع گڑگائوں کے گاؤں حسن پور میں بلوچ اور پٹھانوں کے خاندان صدیوں سے آباد تھے۔ ساجدہ بلوچ خاندان میں پیدا ہوئی۔ حسن پور کے بلوچوں کی پورے علاقے میں دھاک تھی۔ یوں ہندوؤں سے مقابلہ تھا۔ بلوچ ہمیشہ بہادری کے ساتھ علاقے میں اپنی بالادستی قائم کرتے تھے، جس کی وجہ سے ہندوؤں سے ایک چپقلش رہتی تھی۔ جب پاکستان بنا تو راولپنڈی، لاہور اور لائلپور وغیرہ میں ہندو مسلمان فسادات پھوٹ پڑے۔ یہاں سے جانے والے ہندو شرنارتھیوں نے ضلع گڑگاؤں میں فساد برپا کر دیا۔ گاؤں کے کئی مشتعل افراد نے حسن پور پر حملہ کیا۔
ساجدہ کے والدین، قریبی رشتے دار اور عزیز ان حملوں میں شہید ہو گئے۔ وہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ پاکستان آ گئی۔ ساجدہ کی شادی بائیں بازو کے کارکن مزدور رہنما اور نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما اشفاق احمد خان سے ہوئی۔ اشفاق احمد خان کے والد، بھائی اور کئی قریبی رشتے دار حسن پور کے فسادات میں شہید ہوئے تھے۔
اشفاق احمد خان نے اپنے چچا زاد بھائی اختر رحمن خان عرف آئی اے رحمن کے نظریات کی پیروی کرتے ہوئے کارل مارکس کے فلسفے کو پڑھنا شروع کیا اور میاں افتخار کی آزاد پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ آزاد پاکستان پارٹی نیشنل عوامی پارٹی میں ضم ہو گئی، تو وہ ملتان ڈویژن میں نیپ کو منظم کرنے لگے۔ اس کے ساتھ ہی ٹریڈ یونین میں بھی کام شروع کر دیا۔ اشفاق احمد خان کے چچا عبدالرحمن خان وکالت کرتے تھے، اس طرح اشفاق احمد خان نے بھی وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔
اشفاق احمد خان کی وکالت زیادہ تر مزدوروں اور غریبوں کے حقوق کے لیے ہوتی تھی تو وہ معاشی اعتبار سے زیادہ کامیاب وکیل نہیں رہے اس طرح گھر کا بوجھ ساجدہ پر پڑا۔ شادی کے بعد اپنے شوہر کے آدرش کی تسکین کے لیے مشکلات پر گزر کرنا زندگی کا حصہ بن گیا۔ اشفاق احمد خان نے ملتان میں ایوب آمریت کے خلاف 1968ء کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے کئی دفعہ وارنٹ بھی نکلے، گھر پر خفیہ پولیس والے چھاپے مارتے رہے اور ساجدہ کو بچوں کی تربیت کے ساتھ ان اہلکاروں کو بھی بھگتنا پڑتا۔ جنرل یحییٰ خان کے دورِ اقتدار میں ملتان کی اﷲ وسایہ ٹیکسٹائل ملز کے مزدوروں نے تاریخی ہڑتال کی۔
اشفاق احمد خان نے اس تحریک کی قیادت کی اور پابند سلاسل ہوئے اور فوجی عدالت نے ایک سال قید کی سزا دی۔ ان کے ساتھ ہی اشرف رضوی ایڈووکیٹ اور پیپلز پارٹی کے رہنما محمود نواز جابر بھی تھے، ایک سال تک بہاولپور جیل میں مقید رہے۔ 1970ء کے انتخابات کے کچھ دنوں قبل رہا ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اشفاق خان کو ویتنام میں سفیر مقرر کیا۔ ساجدہ اپنے بچوں کے ساتھ ملتان میں رہ گئیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں اشفاق خان واپس ملتان آ گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب تحریکِ بحالئ جمہوریت MRD بن چکی تھی اور سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری تھا۔
اشفاق خان اس دور میں عارضہ قلب میں مبتلا ہوئے مگر مارشل لاء حکام نے انھیں گرفتار کر کے ملتان جیل میں نظربند کر دیا۔ اب ساجدہ اور ان کے بچے کبھی جیل اور کبھی نشتر اسپتال کا چکر لگاتے۔ اشفاق احمد خان 1991ء میں دل کے عارضے کی بناء پر دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اشفاق احمد خان اور ساجدہ کے ہاں راشد رحمن پیدا ہوا۔ راشد نے کم عمری سے پہلے اپنے والد اور تایا کو سیاسی جدوجہد کرتے دیکھا۔ جنرل یحییٰ خان کے دورِ اقتدار میں جب ان کے والد کو ایک سال قید کی سزا ہوئی تھی تو اس وقت وہ چھوٹے تھے مگر اپنی ماں کے چہرے سے انھیں پریشانیوں کا علم ہوتا تھا مگر جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں انھوں نے فوجی آمریت کے بہیمانہ اقدامات دیکھے۔
راشد نے اپنے دادا اور والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وکالت کا پیشہ اختیار کیا اور مظلوم طبقات کی داد رسی کو اپنی زندگی کا شعار بنا لیا۔ راشد رحمن نے انسانی حقوق کمیشن HRCP میں شمولیت اختیار کی، انھیں انسانی حقوق کی اہمیت اور انسانی حقوق کے بارے میں جدید نظریات سے آگاہی حاصل ہوئی۔ انھیں یہ سبق ملا کہ مظلوم طبقات، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کی جدوجہد اس وقت ہی کامیاب ہو سکتی ہے جب ریاست پر عوام کی بالادستی ہو اور عوام کی بالادستی ایک سیکیولر ریاست کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ جمہوری نظام ایک سیکیولر ریاست کے قیام سے ہی مستحکم ہو سکتا ہے۔
راشد رحمن نے وکیل کی حیثیت سے عدالتوں سے انصاف دلانے کے علاوہ غریبوں کو جدید تنظیم کاری سے منسلک کرنے اور عوام کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کو بھی اپنی جدوجہد کا حصہ بنایا۔ راشد رحمن نے پنجاب کے سرائیکی علاقے میں کسانوں، مزدوروں، خواتین اور اقلیتوں کو منظم کرنے میں اپنی زندگی وقف کر دی۔ وہ کئی کئی دن گھر نہیں آ پاتے۔ کبھی کوٹ ادو میں ہوتے کبھی ڈیرہ غازی خان کے دور دراز علاقے میں اور کبھی شجاع آباد اور لودھراں میں۔ راشد انسانی حقوق کے سب سے بڑے علمبردار کی حیثیت سے ابھرے۔ راشد رحمن نے 2007ء کی وکلاء تحریک کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اگرچہ راشد رحمن اس وقت ملتان ہائی کورٹ بار اور ملتان بار ایسوسی ایشن کے عہدیدار نہیں تھے مگر عدلیہ کی بالادستی اور جنرل مشرف کے اقتدار کے خاتمے کے لیے دن رات ایک کر دیا، راشد کو ملتان پولیس نے گرفتار کیا اور ملتان سے کئی سو کلومیٹر دور اٹک جیل میں بند کر دیا۔ جیل میں وکلاء تحریک کے رہنما منیر ملک بھی قید تھے۔ راشد کی کچھ عرصہ قبل انجیوگرافی ہوئی تھی مگر انھوں نے اپنی صحت کی پرواہ نہیں کی۔ راشد نے مظفر گڑھ کی مظلوم عورت اور مختاراں مائی کے لیے آواز بلند کی۔ انھوں نے مختاراں کو انصاف دلانے کے لیے تھانے، پولیس کے دفاتر اور عدالتوں کے چکر لگائے۔
راشد رحمن نے غیرت کے نام پر قریبی عزیزوں کے ہاتھوں قتل ہونے والی لڑکیوں کے مقدمات کی پیروی کی، بھٹہ مزدوروں کو حقوق دلانے کے لیے آواز اٹھائی اور سرائیکی علاقے میں بے زمین کسانوں پر ایک اہم کتاب لکھی۔ راشد رحمن کو 7 مئی کی شام کو ملتان میں ان کے دفتر میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔
راشد کے قتل کی وزیر اعظم، صوبائی وزراء اعلی، سابق صدر آصف زرداری اور الطاف حسین سمیت سب نے مذمت کی۔ امریکا کی وزارتِ خارجہ، اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ملزمان کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ پولیس نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے جدید طریقے استعمال کرنے کا دعویٰ کیا مگر قاتل گرفتار نہیں ہوئے اور ایک سال بیت گیا۔ ساجدہ کے والدین کو شہید کرنے والے ہندو ' سکھ تھے اور ان کا تعلق بھارت سے تھا اس لیے بچ گئے تھے مگر اب ساجدہ کے بیٹے کو قتل کرنے والے پاکستانی ہیں۔ ملک میں عوام کے نمایندوں کی حکومت ہے مگر 70 سالہ ساجدہ انصاف سے محروم ہے۔