ایک اہم سوال

ہر جمہوری معاشرے اور ملک میں اجتماعی زندگی کو مضبوط کرنے کے لیے کچھ اصول اور قوانین وضع کیے جاتے ہیں۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

ہر جمہوری معاشرے اور ملک میں اجتماعی زندگی کو مضبوط کرنے کے لیے کچھ اصول اور قوانین وضع کیے جاتے ہیں۔ یہ اصول اور قاعدے قانون ملک کے لیے ایک گائیڈ لائن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اصولوں اور قانون و قواعد کے اس مجموعے کو آئین کہا جاتا ہے۔ یہ آئین ایک طرح سے اجتماعی زندگی کا محور ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ آئین 1973ء میں نافذ کیا گیا، جسے تمام سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل تھی۔

کسی بھی ملک کا آئین کوئی آسمانی فرمودہ نہیں ہوتا کہ جس میں رد و بدل ممکن نہیں رہتا۔ آئین ملک کے عوام ہی بناتے ہیں اور حالات اور ضرورت کے تحت آئین میں ایک اصول کے مطابق رد و بدل کی گنجائش ہوتی ہے، اس رد و بدل کو آئینی ترامیم کہا جاتا ہے۔ ہمارے 1973ء کے آئین میں اب تک کئی ترامیم ہو چکی ہیں لیکن بد قسمتی سے ایک اہم مسئلہ اب تک متنازعہ بنا ہوا ہے اور وہ متنازعہ مسئلہ سیکولر آئین کا ہے۔

1949ء میں ایک قرارداد کے ذریعے جسے قرارداد مقاصد کا نام دیا گیا پاکستان کو ایک مذہبی ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔ اس قرارداد کی آئین میں شمولیت کے بعد یہ بحث مسلسل جاری ہے کہ ہمارے ملک کو کیا ایک مذہبی ریاست ہی ہونا چاہیے یا ایک سیکولر ریاست ہونا چاہیے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں دو عناصر کا ہونا ضروری ہے۔ ایک ہر قسم کے تعصب اور تنگ نظری سے بالاتری، دوسرے آفاقی ویژن۔ اگر مذکورہ جواب حاصل کرنے میں یہ دو عناصر شامل نہ ہوں تو ہم شاید کوئی درست فیصلہ کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔

ہر ملک، ہر معاشرے میں ایک برتر ادارہ ہوتا ہے جسے عدلیہ کہا جاتا ہے۔ اسی اعلیٰ اور برتر ادارے کے جج صاحبان نے 18ویں اور 21 ویں ترمیم کی سماعت کے دوران سوالات کی شکل میں آبزرویشن دی ہے۔ یہ آبزرویشن اس قدر اہم ہے کہ ملک کے مستقبل سے اس کا گہرا تعلق ہے۔ اس پس منظر میں اس ملک کے اہل علم، اہل دانش کی ذمے داری ہے کہ وہ محترم عدلیہ کے سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔

ہمارے چیف جسٹس نے سوال کیا ہے کہ ''عوام ملک کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے ہیں تو اس کا کیا طریقہ ہو گا؟'' اس حوالے سے گفتگو کو آگے بڑھانے سے پہلے اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ قرارداد مقاصد پیش کرنے والے کون تھے اور ان کا مقصد کیا تھا۔ دوئم پاکستان میں سیکولرازم کے خلاف پروپیگنڈے کا آغاز کیوں ہوا اور کس نے کیا؟ ان دو سوالوں پر غور کیے بغیر شاید سیکولر ازم کے مسئلے پر کسی منطقی جواب تک نہ پہنچ سکیں۔

کہا جاتا ہے متحدہ ہندوستان کی تقسیم کا محرک دو قومی نظریہ تھا۔ یعنی بھارت میں دو قومیں آباد تھیں جن کا طرز معاشرت جدا جدا تھا۔ چونکہ متحدہ ہندوستان میں رہنے والے کچھ مذہبی انتہا پسندوں نے اس مسئلے کو پر تشدد بنا دیا۔ اس لیے اعتدال پسند حلقوں میں بھی یہ تاثر پیدا ہوا کہ تقسیم ہی اس مسئلے کا حل ہے۔ سو ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔


اس تقسیم میں مسلم لیگ نے اہم کردار ادا کیا۔ یہاں اس حقیقت کی نشاندہی ضروری ہے کہ ممکنہ پاکستان جن علاقوں پر مشتمل تھا وہاں جاگیردارانہ، قبائلی، سرداری نظام رائج تھا۔ یہ حلقے یہ محسوس کرتے تھے کہ اگر ہندوستان تقسیم نہیں ہوتا تو پھر ان کی بادشاہتوں کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ یعنی زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیردارانہ نظام کو ختم کر دیا جائے گا۔ اس خوف کی وجہ سے یہ طبقات صرف مسلم لیگ میں شامل ہوئے بلکہ تقسیم ہند میں کلیدی کردار ادا کیا۔ قیام پاکستان ان طبقات کی پہلی کامیابی تھی۔ اس کے بعد انھیں یہ فکر لاحق ہوئی کہ اس ملک میں اپنی بالادستی اور اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنا ضروری ہے۔ سو ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ آئین میں قرارداد مقاصد کو شامل کرایا گیا تا کہ مذہب کے نام پر قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کے باسیوں کو قابو میں رکھنا آسان ہو جائے۔

اگر یہ طبقات قرارداد مقاصد سے مخلص ہوتے تو کب کے اس پر عمل درآمد کر لیتے۔ لیکن یہ طبقات قرارداد مقاصد کو محض اپنے طبقاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ سو انھیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ قرارداد مقاصد پر عمل ہونا چاہیے۔ اگرچہ یہ طبقات 68 سال سے اس ملک کی سیاست اور اقتدار پر قابض ہیں لیکن قرارداد مقاصد پر عمل در آمد سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔

اسے عوام کے جذبات سے کھیلنے کے ایک ہتھیار سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ اس حوالے سے بڑی چالاکی سے عوام کو فرقوں، زبان، قومیت کے نام پر اس طرح تقسیم کر دیا گیا کہ یہ تقسیم شدہ طبقے ایک دوسرے کے کٹر دشمن ہو کر رہ گئے۔ حتیٰ کہ 68 سال میں یہ تقسیم شدہ عوام ایک قوم بھی نہ بن سکے۔ آج دہشت گردی کی شکل میں ہم جو وحشیانہ قتل و غارت گری دیکھ رہے ہیں یہ بھی اسی تقسیم کا نتیجہ ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے حکمران طبقات دل ہی دل میں اس لیے خوش ہیں کہ اگر عوام تقسیم نہ ہوتے تو ان کی توجہ طبقاتی استحصال کی طرف مبذول ہو جاتی اور ملک سے استحصالی طبقات کا خاتمہ ہو جاتا۔ ان حقائق سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ قرارداد مقاصد پیش کرنے والے اصل طبقات کون تھے اور ان کے مقاصد کیا تھے۔ ان طبقات کو نہ مذہب سے کوئی دلچسپی ہے نہ وہ ریاست کو قرارداد مقاصد سے ہم آہنگ کرنے میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد جب روس کی سرپرستی میں سوشلسٹ بلاک تیزی سے دنیا میں مقبول ہونے لگا تو سامراجی ملکوں کو سخت تشویش لاحق ہو گئی کہ اگر سوشلسٹ معیشت، سرمایہ دارانہ معیشت کی جگہ لے لے گی تو استحصالی طاقتوں کی لوٹ مار کے سارے مواقعے ختم ہو جائیں گے۔ اس امکانی خطرے سے بچنے کے لیے سامراجی طاقتوں نے جو حربے استعمال کیے ان میں سے سیکولرازم کے خلاف پروپیگنڈا ایک اہم ترین حربہ تھا۔ سیکولرازم کو سوشلسٹ بلاک سے منسوب کر کے بھرپور طریقے سے یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ سوشلزم یا سیکولر ازم کا مطلب ''لادینیت'' ہے۔ حالانکہ پورے مغربی ممالک عملاً سیکولر ہیں۔

یہی نہیں بلکہ دو تین مسلم ملکوں کے علاوہ باقی تمام مسلم ممالک بھی سیکولر ہیں اور ان ملکوں میں رہنے والی اکثریت مسلمان ہے جن کے ایمان کو سیکولرازم سے کوئی خطرہ لاحق نہیں کیونکہ سیکولرازم کا واحد مقصد عوام کے ساتھ ریاست کی غیر جانبداری ہے اور ریاست کا یہ کردار اس لیے ضروری اور اہم ہے کہ ہر مسلم ملک میں مسلمان کے ساتھ غیر مسلم بھی لاکھوں کی تعداد میں رہتے ہیں جن کے حقوق کا بہتر تحفظ صرف وہی ریاست کر سکتی ہے جو مذہب کے حوالے سے غیر جانبدار ہو۔

ہم پچھلے دس پندرہ سال سے جس مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شکار ہیں اس کی جڑوں میں بھی ہماری ریاستی شناخت کا بڑا دخل ہے۔ آج کئی مسلم ملکوں میں مذہبی انتہا پسندی کے جو مظاہرے، تشدد اور دہشت گردی کی شکل میں دیکھے جا رہے ہیں اس کے پیچھے بھی ریاست کی مذہبی شناخت کامتحرک ہے۔ ہماری عدلیہ کو یقینا اس بات کا علم ہو گا کہ 1949ء میں کس طرح پاکستان کو ایک مذہبی شناخت دی گئی۔ ہمارا ملک ابھی تک معاشرتی حوالے سے نیم قبائلی جاگیردارانہ ہے اور وہ تمام خرابیاں جو نیم قبائلی جاگیردارانہ معاشروں میں ہوتی ہیں وہ پوری آب و تاب کے ساتھ ہمارے معاشرے میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ ترقی کے بعد راستے پر ایک آہنی دیوار کی طرح کھڑی ہوئی ہیں۔
Load Next Story