انسانیت اور بھلائی
ہمارے مذہب اسلام میں زکوٰۃ کا ایک بہترین نظام موجود ہے کہ وہ لوگ زرکثیر رکھتے ہوں
RAJANPUR/FAISALABAD:
گیراج اورسرونٹ کوارٹرز میں ان تمام چیزوں کے لیے جگہ بنادی جاتی ہے جو گھر والوں کے لیے بے کار ہوجاتی ہیں، جو بے مصرف گھر میں جگہ گھیرتی ہیں۔ برسوں یہ چیزیں پڑی رہتی ہیں اور آخر کار گل سڑ کر ہی کوڑے کے ڈبے میں پہنچتی ہیں۔ حالانکہ وہ اشیا جو آپ کے لائق استعمال نہ ہوں یا اپنی پسندیدگی کھوچکی ہوں اگر ان کو آپ اسٹور کرنے کی بجائے کسی مستحق کو دے دیں تو وہ شاید زیادہ بہتر ہو۔
بالکل اسی طرح پورے کراچی کے ہوٹلز اور ریسٹورنٹ کا تقریباً 22 ٹن کھانا ہر رات کچرے کے ڈھیروں میں ڈال دیا جاتا ہے، حالانکہ ممکنات میں سے ہے کہ ان کو ضرورت مندوں تک پہنچایا جاسکتا ہے۔
اور اسی طرح بے شمار ہزاروں ایسی اشیا ہوتی ہیں جو مالکان کے لیے فضول لیکن بے تحاشا ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرسکتی ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے کاحال ایسا ہوگیا ہے کہ ضرورت مندوں سے ہی باقی بچی چیزوں کو چھینا جا رہا ہوتا ہے۔ چیخ و پکار اپنی جگہ مگر اب تماشا سمجھ کر دیکھنے والوں کا بھی جواب نہیں، عوام الناس اور حکمران دونوں ہی تماش بینی میں شامل ہیں اب جب تک کہ اوپر سے کوئی ڈنڈا نہ برسے، ڈپریشن اور اسٹریس بہت تیزی کے ساتھ بڑھتے ہی جا رہے ہیں کہ بچے سے لے کر بوڑھے تک اس بیماری میں مبتلا نظر آتے ہیں۔
ہر شہری اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھے اور انصاف دینے والے جب خود لٹیرے بن جائیں تو یہ گیراج اور سرونٹ کوارٹرز بھی منہ تک بھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہمارے مذہب اسلام میں زکوٰۃ کا ایک بہترین نظام موجود ہے کہ وہ لوگ زرکثیر رکھتے ہوں ان لوگوں کو سہارا دیں ان کی مدد کریں جوکسی بھی وجہ سے تکلیف اور پریشانی میں مبتلا ہیں اتنا خوبصورت نظام ہے یہ کہ معاشرہ بہت حد تک متوازن شکل اختیار کرسکتا ہے اگر اس نظام کو پوری ایمانداری اور خلوص کے ساتھ لے کر چلا جائے۔
پاکستان کا شمار ان ملکوں میں آتا ہے جہاں کے باسی چیریٹی کرنے میں اپنی مثال نہیں رکھتے امیر اور غریب دونوں ساتھ ساتھ کھڑے نظر آئے جب بھی ہمارے ملک میں کوئی بھی آواز آئی یا کوئی بھی ناگہانی حادثہ درپیش ہوا، امیر و غریب، مرد و عورت یہاں تک کہ بچے بھی کسی سے پیچھے نہ رہے۔ دل و جان اور خلوص ایسی ایسی مثالیں بنیں کہ واہ واہ۔ ایمان تازہ ہوجاتا ہے اور اللہ عالی شان کے بنائے گئے قانون اور اصول اتنے شاندار طریقے سے اپنی جگہ کھڑے نظر آتے ہیں کہ انسانوں کی تمام پلاننگ تمام اصول صرف اور صرف کوڑا کرکٹ بن کر رہ جاتے ہیں۔
گاندھی کسی اجلاس میں موجود تھے یہ 1947 کا سن ہے ، گاندھی کا پہناوا اور رہن سہن بہت ہی سادہ تھا، تمام موجودہ حاضرین سے مخاطب ہوکر گاندھی نے کہا کہ اگر میں سادگی کی بات کروں تو مجھے مسلمانوں کے عمرؓ اور ابوبکرؓ کی ہی مثال دینی ہوگی کیونکہ وہ بڑی سلطنتوں کے سربراہ رہے ہیں۔ کرشن چندر کی مثال اس لیے نہیں دے سکتا کہ وہ کوئی سیاسی شخصیت نہیں۔
ہمارا تو ورثہ ہی اتنا شاندار ہے کہ کبھی ہمارا سر جھک ہی نہیں سکتا، ہماری مثالیں تو پوری دنیا کے عالم و فاضل اسکالرز دیتے ہیں کیونکہ سچائی کو کوئی چھپا نہیں سکتا۔ زندگی گزارنے کے انداز، لالچ اور طمع سے پاک زندگیاں تاقیامت تک عظمت کا نشان رہیں گی۔ رسول پاکؐ کی زندگی ایک عالی شان عظمت کا نشان ہے، آپ ان کی زندگی کا کوئی بھی پہلو دیکھ لیں محبت اور توازن کا اعلیٰ منظر پیش کرتا ہے۔
بے تحاشا دولت اور حرص کے پیچھے بھاگنے والے، کتے بلیوں کی طرح موت سے ہمکنار ہوتے ہیں، حقوق العباد کو مٹی کے نیچے دفن کرنے والے، خود کیسی کیسی موت سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ ہم سب دیکھتے بھی ہیں جانتے بھی ہیں مگر ان سب کے باوجود ذرہ برابر اوقات نہ رکھنے کے باوجود ایسی ایسی چالیں کھیلتے ہیں کہ اللہ کی امان۔ کبھی تو ہم خود کو دیکھیں کبھی تو ہم اپنے جہالت کے اندھیرے دورکریں کہ آکسفورڈ اور ہارورڈ کی ڈگریاں بھی کچھ نہیں کرپاتیں۔ بندہ ایسی ایسی چالیں چلتا رہتا ہے اور پھر ایک دن اپنی ہی چالوں کی نذر ہوجاتا ہے، اور شاید جب تک دنیا قائم رہے گی، ابلیس، اور چالبازیوں کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔
ایک محاورہ ہے کہ ''پتھر اپنی جگہ پر ہی بھاری ہوتا ہے۔'' کب تک ہم اپنے تانے بانے ادھر ادھر سے ملاتے رہیں گے اپنی توقیر، اپنی عزت اسی پتھر کی طرح کیجیے جو اپنی جگہ پر ہی بھاری ہوتا ہے۔ادھار مانگی گئی چیزیں تو ایک نہ ایک دن واپس کرنی ہوتی ہیں۔ اور جو اصل ہے وہی ہمارا اثاثہ رہ جاتا ہے، اور ہم تو ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جن کا اثاثہ سبحان اللہ! اللہ جانے کن گورکھ دھندوں میں زندگیاں رچ بس گئی ہیں، بناوٹی رکھ رکھاؤ نے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو جاہلوں کی صف میں کھڑا کردیا ہے۔ خاندان کا پریشر، اپنوں کی ہوس ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے اور پھر بھی ویسے کے ویسے ہی۔ قدم قدم پر انسان تماشا بنا ہوا ہے اور اب یہ کھیل چوبیس گھنٹے ٹیلی ویژن کی اسکرینوں پر Live دیکھا جاسکتا ہے۔
حیرت کہیں زیادہ ہوتی ہے اس کھیل تماشوں سے تمام معاشرہ مریض ہی بنتا چلا جا رہا ہے۔ سرعام بے ایمانی، گندگی و غلاظت، سرعام بڑے بڑے ناموں کے کرتوت کھول کھول کر بتائے جا رہے ہیں، کیا رہ جاتی ہے عزت جب اپنی ہی اولاد اور پوری دنیا کے سامنے گندگی اور غلاظت کے نمونے بن کر پیش ہو رہے ہیں پھر بھی پروٹوکول اور عزت کی آوازیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے کئی اقوال ایسے ہیں جن کو ہم اپنی روز مرہ کی زندگیوں میں زندہ و جاوید دیکھ رہے ہیں اور واہ واہ کرتے ہیں یہ علم کے شہر کیسے کیسے راز بتا گئے ہیں کہ انجام بھی ہم دیکھ رہے ہیں، مگر پھر بھی تجربات کرنے سے باز کوئی نہیں آتا۔ اللہ عالی شان نے بار بار فرمایا کہ میں اپنے فرائض معاف کردوں گا مگر حقوق العباد کی پوچھ گچھ ہوگی اور اس میں معافی نہیں!
کوئی نہ کوئی اسکینڈل پوری سوسائٹی میں ہیجان برپا کر دیتا ہے اور ہفتوں اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔ جو لوگ شدید محنت سے، بے تحاشا جدوجہد سے انسانیت کے لیے آگے بڑھتے ہیں انھیں مختلف نام دے کر ان کی آوازوں کو خاموش کردیا جاتا ہے۔ سندھی، مہاجر، پٹھان، عیسائی، پنجابی، بلوچ کیا ہم اور ہماری نسلیں ان ہی گورکھ دھندوں میں پھنسی رہیں گی؟ جب کہ رسول پاکؐ کا آخری خطبہ صاف صاف کہتا ہے کہ کسی عجمی کو عربی پر اور کسی عربی کو عجمی پر فوقیت نہیں، نہ کالے کو گورے پر نہ گورے کو کالے پر، تقویٰ ہی اعلیٰ ٹھہرا، کہ جو متقی اور پرہیز گار ہے۔
انسانی تاریخ کے سنہرے الفاظ جو تاقیامت تک کے لیے راہ عمل بتاتے رہیں گے جس دن ہم نے سیکھ لیے سمجھ لیے زندگیاں ایسی آسان اور عالی شان ہوجائیں گی کہ نہ غم ہوگا اور نہ فکر، نہ ہزاروں گز زمینوں کی طلب نہ شوگر ملز کی دوڑ لگی ہوگی، لوگوں کو مارنے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، بڑے بڑے وار بھی بے کار اور لاحاصل ہوجاتے ہیں، جب توکل اللہ کی جڑیں مضبوطی کے ساتھ قدم جما لیتی ہیں۔
گیراج اورسرونٹ کوارٹرز میں ان تمام چیزوں کے لیے جگہ بنادی جاتی ہے جو گھر والوں کے لیے بے کار ہوجاتی ہیں، جو بے مصرف گھر میں جگہ گھیرتی ہیں۔ برسوں یہ چیزیں پڑی رہتی ہیں اور آخر کار گل سڑ کر ہی کوڑے کے ڈبے میں پہنچتی ہیں۔ حالانکہ وہ اشیا جو آپ کے لائق استعمال نہ ہوں یا اپنی پسندیدگی کھوچکی ہوں اگر ان کو آپ اسٹور کرنے کی بجائے کسی مستحق کو دے دیں تو وہ شاید زیادہ بہتر ہو۔
بالکل اسی طرح پورے کراچی کے ہوٹلز اور ریسٹورنٹ کا تقریباً 22 ٹن کھانا ہر رات کچرے کے ڈھیروں میں ڈال دیا جاتا ہے، حالانکہ ممکنات میں سے ہے کہ ان کو ضرورت مندوں تک پہنچایا جاسکتا ہے۔
اور اسی طرح بے شمار ہزاروں ایسی اشیا ہوتی ہیں جو مالکان کے لیے فضول لیکن بے تحاشا ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرسکتی ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے کاحال ایسا ہوگیا ہے کہ ضرورت مندوں سے ہی باقی بچی چیزوں کو چھینا جا رہا ہوتا ہے۔ چیخ و پکار اپنی جگہ مگر اب تماشا سمجھ کر دیکھنے والوں کا بھی جواب نہیں، عوام الناس اور حکمران دونوں ہی تماش بینی میں شامل ہیں اب جب تک کہ اوپر سے کوئی ڈنڈا نہ برسے، ڈپریشن اور اسٹریس بہت تیزی کے ساتھ بڑھتے ہی جا رہے ہیں کہ بچے سے لے کر بوڑھے تک اس بیماری میں مبتلا نظر آتے ہیں۔
ہر شہری اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھے اور انصاف دینے والے جب خود لٹیرے بن جائیں تو یہ گیراج اور سرونٹ کوارٹرز بھی منہ تک بھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہمارے مذہب اسلام میں زکوٰۃ کا ایک بہترین نظام موجود ہے کہ وہ لوگ زرکثیر رکھتے ہوں ان لوگوں کو سہارا دیں ان کی مدد کریں جوکسی بھی وجہ سے تکلیف اور پریشانی میں مبتلا ہیں اتنا خوبصورت نظام ہے یہ کہ معاشرہ بہت حد تک متوازن شکل اختیار کرسکتا ہے اگر اس نظام کو پوری ایمانداری اور خلوص کے ساتھ لے کر چلا جائے۔
پاکستان کا شمار ان ملکوں میں آتا ہے جہاں کے باسی چیریٹی کرنے میں اپنی مثال نہیں رکھتے امیر اور غریب دونوں ساتھ ساتھ کھڑے نظر آئے جب بھی ہمارے ملک میں کوئی بھی آواز آئی یا کوئی بھی ناگہانی حادثہ درپیش ہوا، امیر و غریب، مرد و عورت یہاں تک کہ بچے بھی کسی سے پیچھے نہ رہے۔ دل و جان اور خلوص ایسی ایسی مثالیں بنیں کہ واہ واہ۔ ایمان تازہ ہوجاتا ہے اور اللہ عالی شان کے بنائے گئے قانون اور اصول اتنے شاندار طریقے سے اپنی جگہ کھڑے نظر آتے ہیں کہ انسانوں کی تمام پلاننگ تمام اصول صرف اور صرف کوڑا کرکٹ بن کر رہ جاتے ہیں۔
گاندھی کسی اجلاس میں موجود تھے یہ 1947 کا سن ہے ، گاندھی کا پہناوا اور رہن سہن بہت ہی سادہ تھا، تمام موجودہ حاضرین سے مخاطب ہوکر گاندھی نے کہا کہ اگر میں سادگی کی بات کروں تو مجھے مسلمانوں کے عمرؓ اور ابوبکرؓ کی ہی مثال دینی ہوگی کیونکہ وہ بڑی سلطنتوں کے سربراہ رہے ہیں۔ کرشن چندر کی مثال اس لیے نہیں دے سکتا کہ وہ کوئی سیاسی شخصیت نہیں۔
ہمارا تو ورثہ ہی اتنا شاندار ہے کہ کبھی ہمارا سر جھک ہی نہیں سکتا، ہماری مثالیں تو پوری دنیا کے عالم و فاضل اسکالرز دیتے ہیں کیونکہ سچائی کو کوئی چھپا نہیں سکتا۔ زندگی گزارنے کے انداز، لالچ اور طمع سے پاک زندگیاں تاقیامت تک عظمت کا نشان رہیں گی۔ رسول پاکؐ کی زندگی ایک عالی شان عظمت کا نشان ہے، آپ ان کی زندگی کا کوئی بھی پہلو دیکھ لیں محبت اور توازن کا اعلیٰ منظر پیش کرتا ہے۔
بے تحاشا دولت اور حرص کے پیچھے بھاگنے والے، کتے بلیوں کی طرح موت سے ہمکنار ہوتے ہیں، حقوق العباد کو مٹی کے نیچے دفن کرنے والے، خود کیسی کیسی موت سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ ہم سب دیکھتے بھی ہیں جانتے بھی ہیں مگر ان سب کے باوجود ذرہ برابر اوقات نہ رکھنے کے باوجود ایسی ایسی چالیں کھیلتے ہیں کہ اللہ کی امان۔ کبھی تو ہم خود کو دیکھیں کبھی تو ہم اپنے جہالت کے اندھیرے دورکریں کہ آکسفورڈ اور ہارورڈ کی ڈگریاں بھی کچھ نہیں کرپاتیں۔ بندہ ایسی ایسی چالیں چلتا رہتا ہے اور پھر ایک دن اپنی ہی چالوں کی نذر ہوجاتا ہے، اور شاید جب تک دنیا قائم رہے گی، ابلیس، اور چالبازیوں کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔
ایک محاورہ ہے کہ ''پتھر اپنی جگہ پر ہی بھاری ہوتا ہے۔'' کب تک ہم اپنے تانے بانے ادھر ادھر سے ملاتے رہیں گے اپنی توقیر، اپنی عزت اسی پتھر کی طرح کیجیے جو اپنی جگہ پر ہی بھاری ہوتا ہے۔ادھار مانگی گئی چیزیں تو ایک نہ ایک دن واپس کرنی ہوتی ہیں۔ اور جو اصل ہے وہی ہمارا اثاثہ رہ جاتا ہے، اور ہم تو ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جن کا اثاثہ سبحان اللہ! اللہ جانے کن گورکھ دھندوں میں زندگیاں رچ بس گئی ہیں، بناوٹی رکھ رکھاؤ نے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو جاہلوں کی صف میں کھڑا کردیا ہے۔ خاندان کا پریشر، اپنوں کی ہوس ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے اور پھر بھی ویسے کے ویسے ہی۔ قدم قدم پر انسان تماشا بنا ہوا ہے اور اب یہ کھیل چوبیس گھنٹے ٹیلی ویژن کی اسکرینوں پر Live دیکھا جاسکتا ہے۔
حیرت کہیں زیادہ ہوتی ہے اس کھیل تماشوں سے تمام معاشرہ مریض ہی بنتا چلا جا رہا ہے۔ سرعام بے ایمانی، گندگی و غلاظت، سرعام بڑے بڑے ناموں کے کرتوت کھول کھول کر بتائے جا رہے ہیں، کیا رہ جاتی ہے عزت جب اپنی ہی اولاد اور پوری دنیا کے سامنے گندگی اور غلاظت کے نمونے بن کر پیش ہو رہے ہیں پھر بھی پروٹوکول اور عزت کی آوازیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے کئی اقوال ایسے ہیں جن کو ہم اپنی روز مرہ کی زندگیوں میں زندہ و جاوید دیکھ رہے ہیں اور واہ واہ کرتے ہیں یہ علم کے شہر کیسے کیسے راز بتا گئے ہیں کہ انجام بھی ہم دیکھ رہے ہیں، مگر پھر بھی تجربات کرنے سے باز کوئی نہیں آتا۔ اللہ عالی شان نے بار بار فرمایا کہ میں اپنے فرائض معاف کردوں گا مگر حقوق العباد کی پوچھ گچھ ہوگی اور اس میں معافی نہیں!
کوئی نہ کوئی اسکینڈل پوری سوسائٹی میں ہیجان برپا کر دیتا ہے اور ہفتوں اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔ جو لوگ شدید محنت سے، بے تحاشا جدوجہد سے انسانیت کے لیے آگے بڑھتے ہیں انھیں مختلف نام دے کر ان کی آوازوں کو خاموش کردیا جاتا ہے۔ سندھی، مہاجر، پٹھان، عیسائی، پنجابی، بلوچ کیا ہم اور ہماری نسلیں ان ہی گورکھ دھندوں میں پھنسی رہیں گی؟ جب کہ رسول پاکؐ کا آخری خطبہ صاف صاف کہتا ہے کہ کسی عجمی کو عربی پر اور کسی عربی کو عجمی پر فوقیت نہیں، نہ کالے کو گورے پر نہ گورے کو کالے پر، تقویٰ ہی اعلیٰ ٹھہرا، کہ جو متقی اور پرہیز گار ہے۔
انسانی تاریخ کے سنہرے الفاظ جو تاقیامت تک کے لیے راہ عمل بتاتے رہیں گے جس دن ہم نے سیکھ لیے سمجھ لیے زندگیاں ایسی آسان اور عالی شان ہوجائیں گی کہ نہ غم ہوگا اور نہ فکر، نہ ہزاروں گز زمینوں کی طلب نہ شوگر ملز کی دوڑ لگی ہوگی، لوگوں کو مارنے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، بڑے بڑے وار بھی بے کار اور لاحاصل ہوجاتے ہیں، جب توکل اللہ کی جڑیں مضبوطی کے ساتھ قدم جما لیتی ہیں۔