سونے قیمتی پتھروں کی تجارت میں ہمارا حصہ
پاکستان میں بھی مختلف ادوار میں اس صنعت کی ترقی کے لیے کافی قدم اٹھائے جاتے رہے
سونے اور قیمتی پتھروں کی سحر انگیزی اور 613 ارب ڈالر کی بین الاقوامی تجارت میں ہم کہاں کھڑے ہیں، آیئے! آپ کو دنیا کی سب سے مسحور کن آنکھوں کو خیرہ کردینے والی عالمی خواتین کے ہوش اڑانے والی اور عالمی مردوں کے لیے محفوظ ترین سرمایہ کاری کی پروڈکٹ سونے اور گولڈ جیولری اور قیمتی و نیم قیمتی پتھروں کی دنیا میں لیے چلتے ہیں۔
انٹرنیشنل ٹریڈ میپ کے مطابق سال 2013ء میں سونے و چاندی سے بنے زیورات، قیمتی و نیم قیمتی پتھروں کی بین الاقوامی تجارت کا حجم 613 ارب ڈالر رہا، یہ پروڈکٹ جو یونیورسل کسٹمر کوڈ کے چیپٹر نمبر 71 کے زمرے میں آتی ہے اس کے سر فہرست برآمدی ممالک میں برطانیہ، امریکا، چین، انڈیا، متحدہ عرب امارات، بیلجیم، سوئزرلینڈ اور اسرائیل رہے، پاکستان اس فہرست میں کافی نیچے نمبر 63 پر تقریباً437 ملین ڈالر کی برآمد کے ساتھ موجود ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے، گولڈ جیولری کی اہمیت اپنی جگہ پر مگر عالمی فیشن انڈسٹری میں قیمتی پتھروں کی بے انتہا طلب ہے جو حسن اور خوبصورتی جدت طرازی، تراش خراش، رنگوں کے انعکاس اور فنی مہارت کی بدولت انتہائی مہنگی قیمت کے حامل ہوتے ہیں۔
آپ نے اکثر خبریں پڑھی ہوں گی کہ بین الاقوامی نیلام میں فلاں پتھر سے سجی انگوٹھی لاکھوں ڈالر میں فروخت ہوئی، کوہ نور ہیرا کے نام سے بھی سب واقف ہیں، اگرچہ ایشیائی ممالک زیادہ تر 21 یا 22 قیراط گولڈ زیورات کو ترجیح دیتے ہیں مگر یورپین یا امریکی فیشن ٹرینڈز میں 18 یا 14 قیراط میں پتھر جڑے زیورات مقبول عام ہیں۔
پاکستان بھلے اس عالمی تجارت میں اپنا مقام نہ بنا سکا ہے مگر قدرت نے بے انتہا فیاضی سے ہمیں اس قیمتی معدنیات سے مالا مال کر رکھا ہے پاکستان میں پائے جانے والے قیمتی یا نیم قیمتی پتھروں میں یاقوت (Rubi) زمرد(Emerald) نیلم یا پکھراج (Sapphire) گلابی امپریل ٹوپاز(Imperial Tupaz) زرقون (zircon) بیروج (Aquamarine) عقیق (Agate) بلور (Quartz) ایپی ڈوٹ گارنیٹ، زبرجد (Peridot) کٹیلا (Amethyst) اوپل، تارمولین (Tourmaline) فیروزہ (Turquoise) وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے ذخائر کوہ ہندوکش، ہمالیہ، قراقرم کی رینجز میں بالخصوص اور کٹیلانگ کوہستان، شمالی علاقہ جات سوات، آزاد کشمیر اور بلوچستان کے علاقے میں کئی مقامات پر پائے جاتے ہیں، جدید کان کنی کے طریقہ کار پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے یہاں بلاسٹنگ کے ذریعے پتھر حاصل کیا جاتا ہے جس میں وہ اندر سے بھربھرا ہو جاتا ہے اور ضایع ہونے کا تناسب بہت زیادہ ہے مگر باوجود ان دشواریوں کے لاہور، کراچی اور پشاور میں چھوٹے کارخانوں کا جال بچھا ہوا ہے اس صنعت پر فیملی بزنس کا کافی غلبہ ہے ان قیمتی اور نایاب پتھروں کی بین الاقوامی مارکیٹ میں صحیح قیمت وصول کرنے کے لیے ہمیں ابھی بہت آگے جانا ہے۔
اب کچھ ذکر عالمی منڈیوں میں گولڈ کی خرید و فروخت کے رجحان کا ہو جائے، ورلڈ گولڈ کونسل کے مطابق سال 2014ء میں گولڈ کی طلب 3923.7 ٹن رہی، جب کہ گولڈ جیولی کی ڈیمانڈ 97 ارب ڈالر تھی، ایشیائی مارکیٹوں نے سال 2013ء میں سونے کی زبردست خریداری کی یہ مارکیٹیں اب مستحکم ہیں اور آیندہ سالوں میں جدت طرازی اور نت نئی پروڈکٹس آنے کے امکانات زیادہ ہیں اگرچہ امریکا، چین اور بھارت گولڈ کے بڑے مارکیٹ لیڈر ہیں مگر سونے کی انفرادی کھپت کے لحاظ سے سنگاپور، تائیوان اور ہانگ کانگ سر فہرست ہیں، عالمی گولڈ مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ پر نظر رکھنے والوں کے لیے شنگھائی گولڈ ایکسچینج کے انٹرنیشنل بورڈ کا آغاز ہونا، ہانگ کانگ کے نئے سودے اور تھائی لینڈ اسٹاک ایکسچینج میں فزیکل گولڈ ایکسچینج کا آغاز ہونا شامل ہے، یہ سب باتیں قارئین کے لیے بھی دلچسپی کا باعث ہوں گی کہ دنیا بھر میں سونے و جواہرات کی دنیا میں کیا کچھ ہلچل مچ رہی ہے۔
یہ امر قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گا کہ دنیا کی بڑے گولڈ کی منڈیوں میں وہاں کے مقامی خریدار کہا کرتے ہیں امریکا میں سب سے زیادہ شادی کی انگوٹھی یا بینڈ کے لیے خریداری کی جاتی ہے، چین میں نئے بچوں کی پیدائش یا نیو ایئر کے موقعے پر سونے کا تحفہ دیا جاتا ہے بھارت میں سب سے زیادہ سونا دیوالی کے لیے خریدا جاتا ہے پاکستان میں سب سے زیادہ شادی بیاہ کے لیے بڑی سرمایہ کاری ہے، ایک جائزہ ہم لیتے چلیں کہ آخر جو ممالک اربوں ڈالر کی گولڈ اور جیولری کی برآمدات کرتے ہیں وہ اس مقام تک کیسے پہنچے، اگر ہم چین، بھارت، متحدہ عرب امارات یا دیگر ممالک کی اس پروڈکٹ میں ترقی کا راستہ تلاش کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان سب نے خصوصی زونز کے ذریعے سونے و جواہرات کے تمام تیکنیکی مراحل کو ایک مقام پر یکجا کیا تا کہ ایک مربوط ویلیو چین کے ذریعے تیار کردہ پروڈکٹ حاصل ہو اور آسانی سے برآمد ہو سکے۔
بھارت کا گجرات میں آپریشنل اسپیشل اکنامک زون Sursez کے نام سے مشہور ہے اس کے علاوہ دو اور خصوصی جیم اور جیولری زون مالی کتچن جو گوتم برتھ نگر یوپی میں ہے یا جے پور میں جسے پنک سٹی بھی کہا جاتا ہے تھائی لینڈ کا مشہور جیموپولس (Gemo Polis) انڈسٹریل اسٹیٹ جو مرکزی ایئرپورٹ سے قریب واقع ہے جہاں جدید ترین جیم اور جیولری فیشن کی صنعت قائم ہے اور یہ سیاحی کا مرکز بھی ہے اسی وجہ سے سیاحوں کے لیے خصوصی ٹرین چلائی جاتی ہے تا کہ وہ سونے زیورات کے مرکز کو دیکھ سکیں، اسے کہتے ہیں ''آم کے آم اور گھٹلیوں کے دام'' دبئی، چین یا ترکی سب میں مگر خصوصی گولڈ زونز قائم ہیں اور عمدگی سے کام کر رہے ہیں، انڈیا میں جیم جیولری زونز کو 15 سال کی ٹیکس چھوٹ درآمدی ٹیکس سے استثنیٰ اور دیگر پرکشش مراعات اور بہترین انفرا اسٹرکچر فراہم کیا گیا ہے وہاں مرکزی حکومت کے علاوہ ریاستیں بھی مختلف مراعات دیتی ہیں خصوصاً کیش مراعات تاکہ کام جلد شروع ہو اور کوئی رکاوٹ نہ آئے۔
پاکستان میں بھی مختلف ادوار میں اس صنعت کی ترقی کے لیے کافی قدم اٹھائے جاتے رہے، برآمد کنندگان کو نمائشوں میں شرکت کے لیے کافی ترغیبات دی گئی، وزیراعظم کی یوتھ لون اسکیم میں نوجوانوں کے لیے گولڈ جیولری ریٹیلنگ کے لیے قرضے دیے گئے ہیں ہمیں اپنے بنیادی انفرااسٹرکچر کو بہت زیادہ ترقی دینی ہے مختلف سہولیات جیسے گولڈ ایکسچینج Assaying اور ہال مارکنگ، سرٹیفکیشن اور کاریگروں کی جدید آلات سے تربیت بہت اہم ہے، ہمیں سنجیدگی کے ساتھ اس صنعت کو اٹھانے کی ضرورت ہے تا کہ ہم اپنے قیمتی پتھروں کو کوڑیوں کے دام بکنے سے بچا سکیں۔
انٹرنیشنل ٹریڈ میپ کے مطابق سال 2013ء میں سونے و چاندی سے بنے زیورات، قیمتی و نیم قیمتی پتھروں کی بین الاقوامی تجارت کا حجم 613 ارب ڈالر رہا، یہ پروڈکٹ جو یونیورسل کسٹمر کوڈ کے چیپٹر نمبر 71 کے زمرے میں آتی ہے اس کے سر فہرست برآمدی ممالک میں برطانیہ، امریکا، چین، انڈیا، متحدہ عرب امارات، بیلجیم، سوئزرلینڈ اور اسرائیل رہے، پاکستان اس فہرست میں کافی نیچے نمبر 63 پر تقریباً437 ملین ڈالر کی برآمد کے ساتھ موجود ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے، گولڈ جیولری کی اہمیت اپنی جگہ پر مگر عالمی فیشن انڈسٹری میں قیمتی پتھروں کی بے انتہا طلب ہے جو حسن اور خوبصورتی جدت طرازی، تراش خراش، رنگوں کے انعکاس اور فنی مہارت کی بدولت انتہائی مہنگی قیمت کے حامل ہوتے ہیں۔
آپ نے اکثر خبریں پڑھی ہوں گی کہ بین الاقوامی نیلام میں فلاں پتھر سے سجی انگوٹھی لاکھوں ڈالر میں فروخت ہوئی، کوہ نور ہیرا کے نام سے بھی سب واقف ہیں، اگرچہ ایشیائی ممالک زیادہ تر 21 یا 22 قیراط گولڈ زیورات کو ترجیح دیتے ہیں مگر یورپین یا امریکی فیشن ٹرینڈز میں 18 یا 14 قیراط میں پتھر جڑے زیورات مقبول عام ہیں۔
پاکستان بھلے اس عالمی تجارت میں اپنا مقام نہ بنا سکا ہے مگر قدرت نے بے انتہا فیاضی سے ہمیں اس قیمتی معدنیات سے مالا مال کر رکھا ہے پاکستان میں پائے جانے والے قیمتی یا نیم قیمتی پتھروں میں یاقوت (Rubi) زمرد(Emerald) نیلم یا پکھراج (Sapphire) گلابی امپریل ٹوپاز(Imperial Tupaz) زرقون (zircon) بیروج (Aquamarine) عقیق (Agate) بلور (Quartz) ایپی ڈوٹ گارنیٹ، زبرجد (Peridot) کٹیلا (Amethyst) اوپل، تارمولین (Tourmaline) فیروزہ (Turquoise) وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے ذخائر کوہ ہندوکش، ہمالیہ، قراقرم کی رینجز میں بالخصوص اور کٹیلانگ کوہستان، شمالی علاقہ جات سوات، آزاد کشمیر اور بلوچستان کے علاقے میں کئی مقامات پر پائے جاتے ہیں، جدید کان کنی کے طریقہ کار پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے یہاں بلاسٹنگ کے ذریعے پتھر حاصل کیا جاتا ہے جس میں وہ اندر سے بھربھرا ہو جاتا ہے اور ضایع ہونے کا تناسب بہت زیادہ ہے مگر باوجود ان دشواریوں کے لاہور، کراچی اور پشاور میں چھوٹے کارخانوں کا جال بچھا ہوا ہے اس صنعت پر فیملی بزنس کا کافی غلبہ ہے ان قیمتی اور نایاب پتھروں کی بین الاقوامی مارکیٹ میں صحیح قیمت وصول کرنے کے لیے ہمیں ابھی بہت آگے جانا ہے۔
اب کچھ ذکر عالمی منڈیوں میں گولڈ کی خرید و فروخت کے رجحان کا ہو جائے، ورلڈ گولڈ کونسل کے مطابق سال 2014ء میں گولڈ کی طلب 3923.7 ٹن رہی، جب کہ گولڈ جیولی کی ڈیمانڈ 97 ارب ڈالر تھی، ایشیائی مارکیٹوں نے سال 2013ء میں سونے کی زبردست خریداری کی یہ مارکیٹیں اب مستحکم ہیں اور آیندہ سالوں میں جدت طرازی اور نت نئی پروڈکٹس آنے کے امکانات زیادہ ہیں اگرچہ امریکا، چین اور بھارت گولڈ کے بڑے مارکیٹ لیڈر ہیں مگر سونے کی انفرادی کھپت کے لحاظ سے سنگاپور، تائیوان اور ہانگ کانگ سر فہرست ہیں، عالمی گولڈ مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ پر نظر رکھنے والوں کے لیے شنگھائی گولڈ ایکسچینج کے انٹرنیشنل بورڈ کا آغاز ہونا، ہانگ کانگ کے نئے سودے اور تھائی لینڈ اسٹاک ایکسچینج میں فزیکل گولڈ ایکسچینج کا آغاز ہونا شامل ہے، یہ سب باتیں قارئین کے لیے بھی دلچسپی کا باعث ہوں گی کہ دنیا بھر میں سونے و جواہرات کی دنیا میں کیا کچھ ہلچل مچ رہی ہے۔
یہ امر قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گا کہ دنیا کی بڑے گولڈ کی منڈیوں میں وہاں کے مقامی خریدار کہا کرتے ہیں امریکا میں سب سے زیادہ شادی کی انگوٹھی یا بینڈ کے لیے خریداری کی جاتی ہے، چین میں نئے بچوں کی پیدائش یا نیو ایئر کے موقعے پر سونے کا تحفہ دیا جاتا ہے بھارت میں سب سے زیادہ سونا دیوالی کے لیے خریدا جاتا ہے پاکستان میں سب سے زیادہ شادی بیاہ کے لیے بڑی سرمایہ کاری ہے، ایک جائزہ ہم لیتے چلیں کہ آخر جو ممالک اربوں ڈالر کی گولڈ اور جیولری کی برآمدات کرتے ہیں وہ اس مقام تک کیسے پہنچے، اگر ہم چین، بھارت، متحدہ عرب امارات یا دیگر ممالک کی اس پروڈکٹ میں ترقی کا راستہ تلاش کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان سب نے خصوصی زونز کے ذریعے سونے و جواہرات کے تمام تیکنیکی مراحل کو ایک مقام پر یکجا کیا تا کہ ایک مربوط ویلیو چین کے ذریعے تیار کردہ پروڈکٹ حاصل ہو اور آسانی سے برآمد ہو سکے۔
بھارت کا گجرات میں آپریشنل اسپیشل اکنامک زون Sursez کے نام سے مشہور ہے اس کے علاوہ دو اور خصوصی جیم اور جیولری زون مالی کتچن جو گوتم برتھ نگر یوپی میں ہے یا جے پور میں جسے پنک سٹی بھی کہا جاتا ہے تھائی لینڈ کا مشہور جیموپولس (Gemo Polis) انڈسٹریل اسٹیٹ جو مرکزی ایئرپورٹ سے قریب واقع ہے جہاں جدید ترین جیم اور جیولری فیشن کی صنعت قائم ہے اور یہ سیاحی کا مرکز بھی ہے اسی وجہ سے سیاحوں کے لیے خصوصی ٹرین چلائی جاتی ہے تا کہ وہ سونے زیورات کے مرکز کو دیکھ سکیں، اسے کہتے ہیں ''آم کے آم اور گھٹلیوں کے دام'' دبئی، چین یا ترکی سب میں مگر خصوصی گولڈ زونز قائم ہیں اور عمدگی سے کام کر رہے ہیں، انڈیا میں جیم جیولری زونز کو 15 سال کی ٹیکس چھوٹ درآمدی ٹیکس سے استثنیٰ اور دیگر پرکشش مراعات اور بہترین انفرا اسٹرکچر فراہم کیا گیا ہے وہاں مرکزی حکومت کے علاوہ ریاستیں بھی مختلف مراعات دیتی ہیں خصوصاً کیش مراعات تاکہ کام جلد شروع ہو اور کوئی رکاوٹ نہ آئے۔
پاکستان میں بھی مختلف ادوار میں اس صنعت کی ترقی کے لیے کافی قدم اٹھائے جاتے رہے، برآمد کنندگان کو نمائشوں میں شرکت کے لیے کافی ترغیبات دی گئی، وزیراعظم کی یوتھ لون اسکیم میں نوجوانوں کے لیے گولڈ جیولری ریٹیلنگ کے لیے قرضے دیے گئے ہیں ہمیں اپنے بنیادی انفرااسٹرکچر کو بہت زیادہ ترقی دینی ہے مختلف سہولیات جیسے گولڈ ایکسچینج Assaying اور ہال مارکنگ، سرٹیفکیشن اور کاریگروں کی جدید آلات سے تربیت بہت اہم ہے، ہمیں سنجیدگی کے ساتھ اس صنعت کو اٹھانے کی ضرورت ہے تا کہ ہم اپنے قیمتی پتھروں کو کوڑیوں کے دام بکنے سے بچا سکیں۔